سید محمد کفیل بخاری
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ:
’’ہمارے لیے دو مہینے مشکل ہیں، دس سال لوٹ مار ہوئی، سابق حکمرانوں کی کرپشن نے معیشت تباہ کی، چوروں کو نہیں چھوڑوں گا، یہ ملک کھڑا ہو گا، دنیا ہماری مثال دے گی، لوگ نوکریاں ڈھونڈنے پاکستان آئیں گے، غربت کا خاتمہ میرا مشن ہے، تاجر ساتھ دیں، ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھائیں، اگلے سال تک گردشی قرضوں میں اضافہ ختم ہو جائے گا‘‘۔(۲۴؍ مئی کو کراچی میں تقریب سے خطاب)
وزیر اعظم کی تقریر کے یہ جملے پڑ ھ کر قوم کو یقین ہو گیا کہ موصوف ابھی تک خوابوں کی دنیا (Dream Land)میں ہی براجمان ہیں۔ اے کاش! وہ زمینی حقائق پر بات کرتے، اُن میں غور و فکر کرتے اور ایک نظر اپنے اُن دعووں اور وعدوں پر بھی ڈال لیتے جو اقتدار تک پہنچنے کے لیے عوام کو سناتے رہے۔ اگر اُنھیں یاد ہو تو وہ اپنی تقاریر میں فرمایا کرتے:
’’عوام ہماری ترجیح ہو گی، مہنگائی کم کریں گے، گیس، بجلی، پٹرول اور ادویات سستی کریں گے، ڈالر کی قیمت میں اضافے سے غریب پریشان ہوتا ہے، ہم اس کی قیمت کم کریں گے۔ بھیک نہیں مانگیں گے، آئی ایم ایف سے قرضے نہیں لیں گے، بھیک مانگنے کی بجائے خود کشی کر لوں گا، ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر‘‘……
اور نہ جانے کیا کیا۔ نتیجہ قوم کے سامنے ہے۔ وزیر اعظم نے سچ ہی فرمایا تھا کہ عوام ہماری ترجیح ہو گی۔ نو ماہ میں انھوں نے ترجیحی بنیادوں پر ہی عوام کا گلا گھونٹا، چولہے ٹھنڈے کیے، غربت نہیں بلکہ غریب کے خاتمے کی زبردست کوششیں کیں جو تا حال جاری ہیں۔ غریب اور سفید پوش طبقے کا جینا محال اور زندگی اجیرن کر دی ہے۔ مہنگائی میں سو فیصد اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں روز مرہ استعمال کی اشیاء بھی عوام کی قوت خرید سے باہر ہو گئی ہیں۔ عمران خان نے اپنے بجلی کے بل جلسۂ عام میں خود جلائے تھے۔ اب بجلی و گیس اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ عوام بل ادا کرنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے اور جلا بھی نہیں سکتے۔ ڈالر آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ کروڑوں نوکریاں اور گھر خواب پریشان ہو گئے۔ ملکی معیشت کی تباہی کا سارا ملبہ سابق حکمرانوں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو گئے۔
اسد عمر کو فارغ کر کے جس معاشی چیتے عبدالحفیظ شیخ کو مشیر خزانہ بنایا گیا ہے، اس نے تمام عمر عالمی بینک کی نوکری اور خدمت کی ہے۔ اس سے قبل پاکستان کی دو حکومتوں میں اس عہدے پر آئی ایم ایف کی ڈیوٹی سرانجام دے کر پاکستانی معیشت تباہ کر چکے ہیں اور شاید اب ’’ہیٹرک‘‘ مکمل کرنے کے لیے پھر ہم پر مسلط کر دیے گئے ہیں۔ ملک کو مزید قرضوں کی دلدل میں پھنسا کر آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پھر کہا جا رہا ہے، وہ وقت دور نہیں جب معیشت مستحکم ہو گی، قوم خوشحال ہو گی اور ملک میں امن ہو گا۔
حکومت کی حالت یہ ہے کہ منتخب وزراء کی چھٹی کرا کر نامزد اور مسلط کردہ مشیروں سے کارِ حکومت چلانے کی سعیٔ لاحاصل کی جا رہی ہے۔ سانحۂ ساہیوال کے مظلوم مقتولوں کا خون چھپا دیا گیا، سی ٹی ڈی کے قانونی دہشت گردوں کی بچا لیا گیا اور تحقیقاتی فائلیں تقریباً داخل دفتر کر دی گئیں۔ دس سالہ معصوم بچی ’’فرشتہ‘‘ بہیمانہ طریقے سے قتل کر دی گئی۔ وزیر اعظم اور دیگر مقتدر شخصیتوں نے روایتی مذمت کی، قاتلوں کی گرفتاری اور سزا کا اعلان کیا۔ لیکن ہو گا وہی جو ستر سال سے وطنِ عزیز میں ہوتا آیا ہے اور ہو رہا ہے، یعنی…… انصاف کا قتل!
کوئٹہ مسلسل دھماکوں سے گونج رہا ہے۔ اب ایران، امریکہ کشیدگی خطے کے لیے ایک نیا امتحان ہے۔ افغانستان کا امتحان بھگت چکے اور بھگت رہے ہیں۔
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
جس طرح ۱۹۷۷ء میں قومی اتحاد کی تحریک کو نظامِ مصطفی کا نام دے کر قوم کا اعتماد مجروح کیا گیا، اُسی طرح ریاستِ مدینہ کا نام لے کر قوم کو مایوس کیا جا رہا ہے۔ اقتدار کی راہداریوں میں میوزیکل چیئر کا یہ کھیل گزشتہ ۷۰ برس سے باقاعدگی کے ساتھ جاری ہے۔ پوری قوم ضغطے میں ہے کہ کب تک اس کے ساتھ یہ دھوکا ہوتا رہے گا۔ حکمران آئین پر عمل کرنے کے لیے تیار ہی نہیں، اگر آئین پر صحیح معنوں میں عمل ہو اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر قانون سازی ہو تو پاکستان حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بن جائے گا۔ لیکن عالمی استعمار اور اس کے دیسی گماشتوں کو یہ بات ہر گز قبول نہیں۔
ادھر جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے واضح اعلان کر دیا ہے کہ عیدالفطر کے بعد وہ کسی بھی وقت اپنے احتجاجی ملین مارچ کا رخ اسلام آباد کی طرف کر سکتے ہیں اور یہ بھی کہا کہ جب ہم اسلام آباد میں داخل ہوئے تو مکمل لاک ڈاؤن کر دیں گے، سب کچھ جام کر دیں گے۔ اپوزیشن کی دو بڑی پارٹیاں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بھی اب مولانا کے احتجاج میں شامل ہونے کے لیے سنجیدگی سے غور کر رہی ہیں، بلاول بھٹو کی دعوتِ افطار میں اپوزیشن کا اکٹھ اور مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں عید کے بعد اے پی سی کے انعقاد کا اعلان بظاہر تو خوش آئند ہے۔ وہ اپوزیشن جس نے صدارتی انتخاب میں مولانا سے دھوکہ کیا، اب مولانا سے عہدِ وفا باندھنے کو تیار ہے۔ خدشہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن احتجاجی تحریک چلانے میں کامیاب ہو بھی گئے تو بالآخر ڈیل تو پرانے شکاریوں سے ہی ہو گی۔اپوزیشن کے محاذ پر مولانا فضل الرحمن کا کردار قابلِ رشک ہے۔ لیکن نتائج بہر حال حکومت ساز قوتوں اور اداروں کے قبضے میں ہیں۔
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک