عطا محمد جنجوعہ
قرآنی احکامات واقعات حق وصداقت پر مبنی ہیں اور اسی طرح مذکورہ پیشین گوئیاں ہمیشہ صحیح ثابت ہوئیں۔
سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ۵۴ میں اﷲ تعالی فرماتے ہیں۔
اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے تو اﷲ تعالیٰ بہت جلد ایسی قوم کو لائے گا جو اﷲ کی محبوب ہوگی اور وہ بھی اﷲ سے محبت رکھتی ہوگی۔ وہ نرم دل ہوں گے مسلمانوں پر اور سخت و تیز ہوں گے کفار پر، اﷲ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ بھی نہ کریں گے۔ یہ ہے اﷲ تعالیٰ کا فضل جسے چاہے دے۔ اﷲ تعالیٰ بڑی وسعت والا اور زبردست علم والا ہے۔
اس آیت میں اﷲ تعالیٰ اس وقت کے مسلمانوں سے تہدیدکے طور پر فرماتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کا انحصار تم پر ہی نہیں۔ اگر تم میں سے کوئی مرتد ہوجائے گا تو اﷲ تعالیٰ ایسے لوگوں کو آگے لے آئے گا جن میں یہ اوصاف ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو بے شمار قبائل مرتد ہو گئے تھے ان کے مقابلہ میں اﷲ تعالیٰ کون سے لوگ لایا تھا اور اُن کا سردار کون تھا جس کے ہاتھ پر یہ وعدہ پورا ہوا؟ اور جو لوگ تاریخ اسلام سے تھوڑے بہت واقف ہیں وہ بے ساختہ کہہ دیں گے کہ ان مرتدوں کے مقابلہ میں صحابہ کرام، انصار ومہاجرین لوگ اُٹھے تھے جنھوں نے ان سب مرتد لوگوں کی سرکوبی کی تھی اور ان کے سردار اور خلیفہ سیدنا ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے۔ اب اس آیت سے جس طرح رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کی اس پیشین گوئی کے پورا ہونے کی تصدیق ہوئی ہے اسی طرح سیدنا ابوبکر کی خلافت بھی برحق ثابت ہوئی ہے۔
دین سے مرتد ہونے والے عرب بدو تھے جن کی کوئی دینی خدمت نہ تھی حافظ ابن حجر رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:
’’صحابہ کرامؓ (مہاجرین، انصار اور مولفۃ القلوب قریش مکہ) میں سے کوئی بھی مرتد نہیں ہوا البتہ اجڈ قسم کے بدؤوں کی ایک جماعت ضرور مرتد ہوئی جن کی دین میں کوئی نصرت نہیں تھی یہ بات مشہور صحابہ میں موجب قدح نہیں‘‘ (فتح الباری 385/11)
شبہ: مخالفین اہل سنت آیت مذکورہ سے متعلق متضاد نظریات کے حامل ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد ماسوائے حضرت ابوذر،مقداد، سلمان اور عمار کے باقی سب صحابہ کرام نے ابوبکرؓ کی بیت کرکے حق سے انحراف کیا۔
ازالہ: اُن کے دعویٰ کو مدنظر رکھ کر قابل غور پہلوہے کہ آیت قتال مرتدین کے تحت وہ کون سی قوم تھی جن کے ذریعے اﷲ تعالی نے ان مرتدوں کی سرکوبی کرکے وعدہ پورا کیا ؟اگر آپ کہیں کہ حضرت علی المرتضیٰ نے مصلحت کے تحت خاموشی اختیار کرلی تو (وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَایم) کے خلاف ہے چنانچہ قرآنی آیت کے منافی اُن کا دعویٰ دجل وفریب ہے۔
شبہہ: یہ آیت سیدنا علی المرتضیٰ کے حق میں ہے جنھوں نے اپنے دور خلافت میں مرتدوں سے جنگ کی ۔
ازالہ: سیدنا علی المرتضیٰؓ نے اپنے دور میں جن سے جنگ کی وہ مرتد نہ تھے خود سیدنا علی المرتضیٰ نے اُن کے ایماندار ہونے کا اعتراف کیا۔
شیخ سید شریف رضی مؤلف نہج البلاغہ (م۴۰۴ھ) نے سیدنا علی المرتضیٰ کا فرمان نقل کیا ہے:
(وَمِنْ کِتَابٍ لَہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ کَتَبَہٗ اِلٰی أَھْلِ الْاَمْصَارِ یقْتَصُّ فِیْہِ مَاجَرٰی بَیْنَہٗ وَبَیْنَ أَھْلِ صِفِّیْنِ) وَکَانَ بَدْءُ أَمْرِنَا انَّا اِلْتَقَیْنَا وَالْقَوْم مِنْ أَھْلِ الشَّامِ۔ وَالظَّاھِرُ أَنَّ رَبَّنَا وَاحِدٌ وَنَبِیَّنَا وَاحِدٌ، وَدَعْوَتنَا فِی الاِسْلَامِ وَاحِدَۃٌ۔ لَا نَسْتَزِیْدُھُمْ فِی الْاِیْمَانِ بِاللّٰہِ وَالتَّصْدِیْقِ بِرَسُوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَلاَیَسْتَزِیْدُوْنَنَا۔ اَلاَْمْرُ وَاحِدٌ اِلَّا مَااخْتَلَفْنَا فِیْہٖ مِنْ دَمِ عُثْمَانَ وَنَحْنُ مِنْہٗ بَرَاءٌ‘‘
(نہج البلاغہ عربی: الجزء الثالث ۳۲۵)
’’(حضرت علیؓ نے) جو مختلف علاقوں کے باشندوں کو صفین کی روئداد مطلع کرنے کے لیے فرمایا! ابتدائی صورت حال یہ تھی کہ ہم اور شام والے آمنے سامنے آئے۔ اس حالت میں کہ ہمارا اﷲ ایک، نبی ایک اور دعوت اسلام ایک تھی، نہ ہم ایمان باﷲ اور اس کے رسول کی تصدیق میں ان سے کچھ زیادتی چاہتے تھے اور نہ وہ ہم سے اضافہ کے طالب تھے بالکل اتحاد تھا سوا اس اختلاف کے جو ہم میں خون عثمان کے بارے میں ہوگیا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اس سے بالکل بری الذمہ تھے۔ (نہج البلاغہ مترجم اردو: ۷۷۶ج ۳مکتوب نمبر ۵۸ ازمفتی جعفر حسین، مطبوعہ لاہور)
اس وضاحت کے باوجود اُن کا اصرار یہ کہ سیدنا علی المرتضیٰ کی لڑائی مرتدوں سے ہوئی۔ چونکہ آیت تقاضا کرتی ہے کہ کلمہ گومرتد ہو جائیں تو اُن کے خلاف محبوب جماعت کا قتال ضرور ہوگا تاریخی حقیقت ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰ نے خلفاء ثلاثہ کے خلاف قتال نہیں کیا ثابت ہوا کہ وہ مومن تھے اور اُن کی خلافت جائز تھی ورنہ ان کے خلاف حضرت علیؓ ضرور قتال کرتے۔
آیت قتال مرتدین میں محبوب خدا جماعت کے اوصاف بیان ہوئے ہیں کہ وہ کافروں کے مقابلہ میں سخت اور مومنوں کے لیے نرم دل ہونگے۔
شیخ سید شریف رضی نے نام نہاد محبان کی جنگ سے روگردانی سے متعلق سیدنا علی کا فرمان نقل کیا ہے کہ :
مُنِیْتُ بِمَنْ لَا یُطِیْعُ اِذَا اَمَرْتُ وَلَا یُجِیْبُ اِذَا دَعَوْتُ۔لَا اَباً لَکُمْ مَا تَنْتَظِرُوْنَ بِنَصْرِکُمْ رَبِّکُمْ۔ اَمَا دِیْنٌ یَجْمَعُکُمْ وَلَا حَمِیَّۃَ تَحْمِشُکُمْ اَقُوْمُ فِیْکُمْ مُسْتَصْرِخاً وَاُنَا دِیْکُمْ متغوثاً فَلَا تَسْمَعُوْنَ لِیْ قَوْلاً وَلَا تُطِیْعُوْنَ لِیْ اَمْراً حَتیّٰ تَکْشِفَ الْاُمُوْرُ عَنْ عَوَاقِبِ الْمَسَائَۃِ فَمَا یُدْرَکُ بِکُمْ ثَارٌ وَلَا یُبْلَغُ بِکُمْ مَرَامٌ۔ دَعَوْتُکُمْ الِیٰ نَصْرِ اِخْوَانِکُمْ فَجَرْجَرْتُمْ جَرْجَرَۃَ الْجَمَلِ الْاَسْرِ وَ تَثَاقَلْتُمْ تَثَاقُلَ النَّضْوِ الْاَدْبَرِ ثُمَّ خَرَجَ اِلَیَّ مِنْکُمْ جُنَیْدٌ متَذَائِبٌ ضَعِیْفٌ کَأَ نَّمَا یُسَاقَوْنَ اِلَی ا لْمُوْتِ وَ ھُمْ یَنْظُرُوْنَ۔(نہج البلاغہ عربی: الجزء الاول ؍۵۷۔ خطبہ نمبر ۳۹)
امیر المؤمنین حضرت علی المرتضی رضی اﷲ عنہ نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا!
’’میرا ایسے لوگوں سے سابقہ پڑا ہے جہیں حکم دیتا ہوں تو مانتے نہیں۔ بلا تا ہوں تو آواز پر لبیک نہیں کہتے۔ تمہارا برا ہو! اب اپنے اﷲ کی نصرت کرنے میں تمہیں کس چیز کا انتظار ہے۔ کیا دین تمہیں ایک جگہ اکٹھا نہیں کرتا؟ اور غیرت وحمیت تمہیں جوش میں نہیں لاتی؟ میں تم میں کھڑا ہوکر چلاتا ہوں اور مدد کے لیے پکار تا ہوں، لیکن تم نہ میری کوئی بات سنتے ہو، نہ میرا کوئی حکم مانتے ہو، یہاں تک کہ ان فرمانیوں کے برے نتائج کھل کر سامنے آجائیں۔ نہ تمہارے ذریعے خون کا بدلہ لیا جاسکتا ہے، نہ کسی مقصد تک پہنچا جاسکتا ہے میں نے تم کو تمہارے ہی بھائیوں کی مدد کے لیے پکارا تھا۔ مگر تم اس اونٹ کی طرح بلبلانے لگے جس کی ناف میں درد ہو رہا ہو، اور اس لاغروکمزور شتر کی طرح ڈھیلے پڑگئے جس کی پیٹھ زخمی ہو۔ پھر میرے پاس تم تو لوگوں کی ایک چھوٹی سی متزلزل وکمزور فوج آئی، اس عالم میں کہ گویا اسے اس کی نظروں کے سامنے موت کی طرف دھکیلا جارہا ہے‘‘
(نہج البلاغہ مترجم اردو: ۱۸۲ خطبہ ۳۹ ازمفتی جعفر حسین مطبوعہ لاہور)
آیت میں مرتدین سے قتال کرنے والی محبوب جماعت کا وصف بیان ہوا ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے سے روگردانی نہ کریں گے جبکہ نہج البلاغہ کے بقول سیدنا علی کے فرمان سے صاف ظاہر ہے کہ وہ میدان جنگ میں حیلے بہانے تراشتے رہے۔ چنانچہ مذکورہ حقائق کی روشنی میں آیت میں مذکورہ محبوب جماعت کے اوصاف سیدنا علی کی جماعت میں نہیں ہیں۔
شبہ: مرتدوں کے قتال کی پیشین گوئی امام مہدی علیہ السلام کے دور میں پوری ہوگی
ازالہ: اہل سنت کے نزدیک قیامت کے قریب سیدہ فاطمہ بنت رسول اﷲ زوجہ علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہم کی نسل سے محمد بن عبداﷲ پیدا ہوں گے جو امام مہدی علیہ السلام کے عقب سے معروف ہونگے وہ بلاشبہ کفار کے مقابلہ میں کامیاب وکامران ہونگے تا ہم آیت قتال مرتدین میں ’’مِنْکُمْ‘‘ سے صاف ظاہر ہے کہ یہ پیشین گوئی زمانہ نزول کے لوگوں کے لیے ہے یعنی اس دور کے لوگوں میں سے کوئی مرتد ہوجائے اُن کے لیے وعید ہے۔ اگر اس آیت کو عام کردیا جائے تو زمانہ مستقبل کے ساتھ ساتھ زمانہ نزول بھی ضرور مراد ہوگا۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دور نبوی کے آخری ایام میں اسلامی ریاست کے مختلف علاقوں میں نبوت کے چند دعویدار اُٹھ کھڑے ہوئے جنھوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کئی بدو قبائل کو مرتد کرکے اپنی صفوں میں شامل کرلیا۔ جبکہ بعض قبائل نے اعلان کیا کہ وہ اسلام پر تو قائم ہیں مگر زکوٰۃ نہیں دیں گے۔ یہ فتنے اس قسم کے خطرناک تھے کہ ذرا سی غفلت کرنے سے اسلامی نظام درہم برہم ہوسکتا تھا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق اور ساتھیوں نے اتفاق رائے سے عزم واستقامت کا پہاڑ بن کر مرتدین سے قتال کیا اور داخلی فتنوں کی بیخ کنی کرکے امن واماں بحال کیا اور روم، ایران کی سرحدوں پر حملہ کرکے فتوحات کے زریں دور کا آغاز کیا۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے مانعین زکوٰۃ سے قتال کا ارادہ فرمایا تو سیدنا عمر فاروقؓ سمیت اکثر صحابہ کرامؓ نے آپ کی رائے سے اختلاف کیا تو اس موقع پر ’’سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا! اﷲ کی قسم! میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرتا ہے کیونکہ زکوٰۃ دینا مال کا حق ہے۔ اﷲ کی قسم! اگر انہوں نے مجھ سے ایک رسی روک لی جو وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے تو میں ان سے اس انکار پر جنگ کروں گا۔ سیدنا عمرؓ نے کہا جب میں غور کیا تو مجھے یقین ہوگیا کہ واقعی اﷲ تعالیٰ نے جنگ کے لیے سیدنا ابوبکر کا سینہ کھول دیا ہے اور وہ جنگ کرنے کے سلسلہ میں حق پر ہیں‘‘
صحیح البخاری کتاب الا عتصام ، حدیث نمبر: ۲۲۸۴،۲۲۸۵
دوسری روایت میں ہے سیدنا عمرؓ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا: اے خلیفہ رسول! لوگوں کے ساتھ تالیف قلب اور نرمی کا برتاؤ کیجئے۔ فرمایا: عمر! جاہلیت میں بڑے بہادر اور اسلام میں اتنے بزدل؟ وحی کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے اور دین پورا ہوگیا ہے میرے جیتے جی اس میں کمی نہیں ہوسکتی۔ (مشکوٰہ المصابیح المناقب ۲۰۳۴)
سیدنا ابوبکرؓ صدیق نے عقائد اسلام میں نظریہ ضرورت کے تحت لچک دار رویہ کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا۔ قربان جائیں زبان نبوت سے صدیق کا اعزاز حاصل کرنے والے کی استقامت پر جب سب نے اختلاف کیا تو انھوں نے ’’کیادین میں کمی ہوجائے اور میں جیتا رہوں؟‘‘ کہہ کر خلیفۃ الرسول کا صحیح معنوں میں وارث ہونے کا حق ادا کیا۔
تاریخ شاہد ہے کہ آیت قتال مرتدین کی پیشین گوئی سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ ہی کے حق میں سچ ثابت ہوئی کہ اﷲ ایسی قوم کو لائے گا جو مسلمانوں کے ساتھ نرمی اور کفار کے ساتھ جہاد کرے گی اور وہ اس معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ کرے گی۔ تاریخی حقائق کی روشنی میں فتنہ ارتداد دور نبوی کے آخری ایام اور خلافت صدیقی کے ابتدائی دور میں ظہور پذیر ہوا۔ سیدنا ابوبکرؓ نے مدعیان نبوت اور منکرین زکوٰۃ کے خلاف قتال کیا مطلع اسلام پر گردو غبار کو صاف کیا اس دوران کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہ کی۔
پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے:
’’حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ اور ان کے جانباز مجاہدوں کو قرآن کریم کِن الفاظ سے خراجِ تحسین پیش کر رہا ہے جن کے سپاہیوں کی یہ شان ہو جن کے لشکری ان اوصاف حمیدہ سے متصف ہوں، جنہیں زبان قدرت ان پاکیزہ جملوں سے سرفراز فرما رہی ہو اُس خلیفہ برحق کی شان کتنی رفیع اور اُس کا مقام کتنا بلند ہوگا ایسے خلیفہ کی خلافت کی حقانیت کے بارے میں کسی ایسے شخص کو تو کوئی شبہ نہیں ہوسکتا جو قرآن کو خدا کا کلام اور اپنے خدا کو علیم بذات الصدور یقین کرتا ہو‘‘
(ضیا القرآن جلد 1ص 483تا 484)
اﷲ تعالیٰ نے آیت قتال مرتدین میں سیدنا ابوبکرؓ کا نام لے کر خلیفہ بنانے کا حکم نہیں دیا۔ البتہ عالم غیب سے ’’فسوف یاتی اللّٰہ‘‘ میں جس پیشنگوئی کے ظہور پذیر ہونے کا وعدہ فرمایا، اگرچہ ابوبکرؓ کا تقرو اہل حل وعقد کے فیصلہ سے ہوا، تاہم پیشین گوئی کے ضمن میں جورب کی رضا تھی ارکان شوریٰ کے فیصلہ سے وہی ظہور پذیر ہوا۔ خلیفہ الرسول ابوبکرؓ صدیق اور اُن کے ساتھیوں نے مرتدین کے مقابلہ میں بے جگری سے جہاد کیا اور گلشن اسلام کو جان فشانی سے سیراب کیا جس کے پھولوں کی مہک سے عرب وعجم معطر ہوا۔
مآخذو مراجع:
تیسیر ا لقرآن
حافظ عبدالرحمن کیلانیؒ
احسن البیان
-حافظ سراج الدین یوسفؒ
ضیاء القرآن
5پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ
خلفاء راشدین
مرتبہ پروفیسر علامہ خالد محمودؒ
‘سیدنا ابوبکر صدیقؓ
ڈاکٹر علی محمد الصلابی