تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

قافلۂ احرار اور تحفظ ختمِ نبوّت

سید محمد کفیل بخاری

۱۲؍ ربیع الاوّل کو مجلس احراراسلام کے زیراہتمام چناب نگر میں ۳۸؍ویں سالانہ ’’تحفظ ختم نبوت کانفرنس‘‘ منعقد ہو رہی ہے۔ جس میں معروف علماء ومشائخ، دانشور، صحافی، سکالرز، مختلف مکاتبِ فکر کے رہنماء اور عوام شریک ہورہے ہیں۔ ذیل کی تحریر میں احرار اور تحفظ ختم نبوت کی مناسبت سے ہی مجھے چند معروضات پیش کرنی ہیں۔
عقیدۂ ختم نبوت ‘اسلام کی روح، ایمان کی جان اور وحدتِ امت کی اساس ہے۔ امتِ مسلمہ کی بقاء واستحکام اسی عقیدہ میں مضمر ہے۔ یہودونصاریٰ نے تکمیل دین کے اعلان کے بعد پہلی ضرب عقیدۂ ختم نبوت پر لگائی تاکہ امتِ مسلمہ کی وحدت کو پارہ پارہ کیا جائے۔ نبی ختمی مرتبت ا کی حیاتِ طیبہ کے آخری دنوں میں فتنہ ارتداد نے سراٹھایا۔ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی وغیرہ نے نبوت کادعویٰ کیا۔ اسود عنسی کو نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیاتِ مبارکہ میں آپ کے حکم پر حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا اور مسیلمہ کذاب کو خلیفۂ بلافصل رسول، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں حضرت وحشی بن حرب اور سید نا معاویہ رضی اللہ عنہما نے قتل کیا۔ جہادِ یمامہ میں بارہ سو صحابہ شہید ہوئے مگر انہوں نے خاتم النبیین ا کے قولِ فیصل مَنِ ارْتَدّ فَاقْتُلُوہُ ’’جو مرتد ہوجائے‘ اسے قتل کردو‘‘ کو سچ کردکھایا۔
یوں تو چودہ صدیوں میں سوسے زائد ملعون اور جھوٹے افراد نے نبوت کے دعوے کیے اور اپنے اپنے عہد میں عبرتناک انجام سے دوچار ہوکر جہنم کاایندھن بنے مگر گزشتہ صدی کے آخرمیں ہندوستان کے نصرانی حکمران ‘انگریز نے امتِ مسلمہ میں انتشار وافتراق پیدا کرنے کے لیے ایک ملعون شخص مرزا قادیانی کو اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے منتخب کیا ۔یہ شخص (بقول خود)’’انگریز کاوفادار اور خود کاشتہ پودا ‘‘تھا اور اسی وفاداری کے تحت اس نے پہلے اپنے آپ کو مبلغ ومناظر اسلام کے طورپر متعارف کرایا اور پھر بتدریج مجدد، مہدی، مسیح موعود، ظلی و بروزی نبی اور آخر میں معاذ اللہ محمدواحمد ہونے کا دعویٰ کیا۔ سب سے پہلے علماء لدھیانہ اور بعد میں علماء دیوبند نے اس پر کفر کافتویٰ صادر کیا۔مسلمانوں میں اضطراب بڑھا اور محدث کبیر حضرت علامہ محمد انور شاہ کاشمیری قدس سرہ‘ نے فتنۂ قادیانیت کے عوامی محاسبہ کے لیے علماء حق کوتیار کیا۔مارچ ۱۹۳۰ء میں حضرت مولانا احمدعلی لاہوری نور اللہ مرقدہٗ کی انجمن خدام الدین لاہور کے سالانہ جلسہ میں حضر ت انور شاہ کاشمیریؒ نے پانچ سو علماء کی معیت میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کو ’’امیر شریعت ‘‘منتخب کیا اور اُن کے ہاتھ پرفتنہ قادیانیت کے محاسبہ وتعاقب کے لیے زندگی وقف کرنے کی بیعت کی۔ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ نے مجلس احراراسلام کے تحت ’’شعبۂ تبلیغ تحفظ ختم نبوت‘‘ قائم کرکے قافلۂ ختم نبوت تشکیل دیا ۔مرزا کی جنم بھومی قادیان میں مجلس احراراسلام کادفتر، مدرسہ ،مسجد اور لنگرخانہ قائم کیا۔قادیانیوں نے تشدد ،قتل ،خوف وہراس اورمسلمانوں کو زدوکوب کرنے کے تمام ہتھکنڈے آزمائے مگر منہ کی کھائی۔
قادیانیوں نے کشمیر کو اپنی سازشوں کا مرکز بنایا تو مجلس احرار نے ۱۹۳۰ء کی تحریک کشمیر میں پچاس ہزار کارکنوں کی گرفتاری اورچنیوٹ کے الہٰی بخش شہید سمیت کئی کارکنوں کی شہادت پیش کرکے قادیانیوں کی سازش ناکام کی اور ڈوگرہ راج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکردیا۔
مجلس احراراسلام نے میاں قمر الدین رحمہ اللہ (لاہور)کو’’ختم نبوت وقف قادیان‘‘کاصدر اورمولانا عنایت اللہ چشتیؒ (ساکن چکڑالہ ضلع میانوالی) کوقادیان میں پہلا مبلغ مقرر کیا۔ پھر احرار رہنما، فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیاتؒ ، ماسٹر تاج الدین انصاریؒ ، مولانا لعل حسین اختر ؒ اور قاضی احسان احمد شجاع آبادی ؒ قادیان میں مرکز احرار اسلام میں بیٹھ کر قادیانیوں کو للکارتے اور مسلمانوں کے حوصلے بڑھاتے رہے۔
۲۱،۲۲،۲۳؍ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو مجلس احرار اسلام نے قادیان میں تین روزہ عظیم الشان ’’احرار تبلیغ کانفرنس‘‘ منعقد کی، جس میں تمام زعماء احراراور ہندوستان بھرکے علماء خصوصاً حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور حضرت مفتی کفایت اللہ، حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہم اللہ نے شرکت کی۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے حلقہ کے تمام علماء سمیت تائید وحمایت کرکے مجلس احراراسلام کے شعبۂ تبلیغ تحفظ ختم نبوت کے لیے اپنی طرف سے مالی تعاون فرمایا اور بیس سال کے لیے شعبۂ تبلیغ کی رکنیت فیس ادا کر کے اس کے مستقل رکن بھی بنے۔ اس مشن میں مجلس احراراسلام کوبرصغیر کے تمام علماء ومشائخ کی تائید وحمایت اوردعاوتعاون حاصل تھا۔الحمدللہ! قادیانیوں کی ہوا اکھڑ گئی اور احرار کے قافلۂ تحفظ ختم نبوت کوفتح حاصل ہوئی۔
قیامِ پاکستان کے بعد قادیانیوں نے پاکستان کی سلامتی کونقصان پہنچانے کی سازش کی اور انگریز کاحق نمک اداکرتے ہوئے ملک دشمن منصوبوں کی تکمیل کے لیے سرگرم ہوگئے ۔انگریزوں کے ایماء پر پاکستان کا پہلا وزیرخارجہ سرظفر اللہ خان قادیانی کو بنایا گیا۔جس نے تمام ریاستی وسائل کوقادیانی ارتداد کی تبلیغ اور اقتدار پر شب خون مارنے کی سازشوں کوپروان چڑھانے پر صرف کیا۔ملک پر عملاً قادیانیوں کی حکومت تھی ۔مرزا بشیرالدین ۱۹۵۲ء میں بلوچستان کو ’’احمدی سٹیٹ ‘‘ بنانے کی پیش گوئیاں کررہا تھا۔ان حالات میں مجلس احراراسلام نے حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی قیادت میں تمام مکاتبِ فکر کے جید علماء کومتحد کرکے ’’کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت‘‘ تشکیل دی۔
۱۹۵۳ء میں تحریک تحفظ ختم نبوت برپاہوئی ۔سفاک وظالم جنرل اعظم خان نے مارشل لاء لگادیا۔بدترین ریاستی تشدد کے ذریعے ہزاروں سرفروشانِ احراراور فدائیانِ ختم نبوت کو گولیوں کانشانہ بنا کر شہید کیاگیا،تمام رہنما قید کرلیے گئے، بظاہر تحریک کوتشدد کے ذریعے کچل دیا گیا ۔مجلس احراراسلام کوخلافِ قانون قراردے کر ملک بھر میں احرار کے تمام دفاتر سربمہر اور ریکارڈ قبضہ میں لے کر تلف کردیاگیا۔زعماءِ احرار چین سے بیٹھنے والے کہاں تھے ۔۱۹۵۴ء میں قید سے رہا ہوئے تو حضرت امیر شریعت سید عطا ء اللہ شاہ بخاریؒ ،شیخ حسام الدینؒ ،ماسٹر تاج الدین انصاریؒ ،حضرت مولانا محمدعلی جالندھریؒ ، قاضی احسان احمدشجا ع آبادی ؒ ،مولانا محمدحیاتؒ ،مولانا لال حسین اختر،ؒ مولانا عبدالرحمن میانوی ؒ اور دیگر احرار رہنما سرجوڑ کر بیٹھے ۔مجلس احراراسلام پر پابندی کے باوجود تحفظ ختم نبوت کے مشن کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ستمبر ۱۹۵۴ء میں احرار کی شیرازہ بندی کرکے اور شعبہ تبلیغ تحفظ ختم نبوت کوبحال کرکے ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘کے نام سے کام کاآغاز کیا گیا۔۱۹۵۴ء سے ۱۹۶۲ء تک مجلس احرارخلافِ قانون رہی ۔لہٰذا مجلس تحفظ ختم نبوت کے نامِ خوش نام سے احرار پھر سرگرمِ عمل ہو گئے۔ ۲۱؍اگست ۱۹۶۱ء کو حضرت امیرشریعت کاانتقال ہوگیا۔۱۹۶۲ء میں ایوب خان نے سیاسی جماعتو ں سے پابندیاں اٹھائیں تو جانشین امیرشریعت حضرت مولانا سید ابوذر بخاریؒ نے حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کے مشورے پر احرار کے احیاء کااعلان کیا اور ضیغمِ احرار شیخ حسام الدین ؒ کی قیادت میں احرار پھر جادہ پیما ہوئے۔ مجلس احرار اسلام سیاسی اور عوامی میدان میں قادیانیوں اور قادیانی نواز قوتوں کے خلاف سینہ سپر ہوئی تو مجلس تحفظ ختم نبوت تبلیغی محاذ پر قادیانیوں کامحاسبہ اور تعاقب کرنے لگی۔ مجلس احرار اسلام اور مجلس تحفظ ختم نبوت ایک ہی کام کے دو نام ہیں۔ ان میں گل وبلبل کارشتہ ہے۔ مجلس احرار اسلام گل ہے تو مجلس تحفظ ختم نبوت بلبل، اور یہ بلبل گلستانِ احرار کے ہر گل سے لطف اندوز ہوتی رہی ہے۔
شہداء ختم نبوت کا خونِ بے گناہی رنگ لایا تو ۱۹۷۴ء میں ایک بے مثال تحریک کے نتیجے میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ آئینی ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ ، قائدِ احرار حضرت مولانا سید ابوذر بخاریؒ ، مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا شاہ احمد نورانی، حافظ عبد القادر روپڑیؒ ، نواب زادہ نصر اللہ خانؒ ، پروفیسر عبد الغفور احمد اور دیگر رہنماؤں کی قیادت میں تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
جون ۱۹۷۵ء میں ابن امیرشریعت حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری ؒ قادیانیوں کے مرکز ربوہ میں فاتحانہ انداز کے ساتھ داخل ہوئے اور تبلیغی جلسوں کے ذریعے قادیانیوں کو اسلام کی دعوت دی۔ ۲۷؍ فروری ۱۹۷۶ء میں چناب نگر (سابق ربوہ) میں مجلس احرار اسلام نے مسلمانوں کی پہلی جامع مسجد ’’مسجد احرار‘‘ قائم کی۔ جس کا سنگِ بنیاد جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سید ابوذر بخاری رحمہ اللہ نے اپنے دستِ حق پرست سے رکھا۔ مجلس احرار اسلام پاکستان کے سابق صدر مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ نے بھی اس موقع پر خطاب فرمایا۔ حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمہ اللہ کی امامت میں نمازِ جمعہ ادا کی گئی۔ ابناء امیر شریعت اور دیگر کارکنانِ احرار کو گرفتار کرلیا گیا۔ حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمہ اللہ اور حضرت سید عطاء المہیمن بخاری مدظلہ نے یہاں مدرسہ ختم نبوت ومسجد قائم کر کے قادیانی ’’قصرِ خلافت‘‘ میں زلزلہ برپا کردیا۔
۱۹۸۴ء میں کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے امیر حضرت مولانا خواجہ خان محمددامت برکاتہم اور دیگر تمام دینی وسیاسی رہنماؤں کی قیادت میں تحریک تحفظ ختم نبوت برپا ہوئی تو قانونِ امتناع قادیانیت کے اجراء کی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی ۔
مجلس احراراسلام کا قافلۂ تحفظ ختم نبوت پوری آب وتاب کے ساتھ رواں دواں ہے۔ مجلس کے زیر انتظام ملک بھر میں اس وقت تیس مراکز ختم نبوت ،محاسبۂ قادیانیت اور دعوت اسلام کی جہدِ مبین میں مصروف ہیں۔برطانیہ میں جناب شیخ عبدالواحد اور جرمنی میں جناب سید منیر احمد بخاری ’’احرار ختم نبوت مشن‘‘ کی نگرانی کر رہے ہیں۔ چناب نگر (ربوہ) میں قائدِ احرار ابن امیر شریعت حضرت پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم ہمہ وقت مدرسہ ختم نبوت، مسجد احرار میں موجود ہیں۔ نیز مولانا محمد مغیرہ قادیانیوں سے گفتگو، مناظرہ اور دعوت اسلام کے ساتھ ساتھ مبلغین ختم نبوت بھی تیار کر رہے ہیں۔ مسجد احرارچناب نگر میں سالانہ ’’تحفظ ختم نبوت کانفرنس’’ ۱۲؍ ربیع الاوّل کو منعقد ہوتی ہے۔ اسی طرح چنیوٹ، لاہور، چیچہ وطنی، ملتان، تلہ گنگ، گجرات اور دیگر شہروں میں بھی تحفظ ختم نبوت کے سالانہ اجتماعات ہوتے ہیں۔مرکز احرار لاہور اور مدرسہ معمورہ ملتان میں تحفظ ختم نبوت کورسز منعقد ہوتے ہیں۔ ردّ قادیانیت پر ہزاروں کی تعداد میں لٹریچر شائع کرکے مفت تقسیم کیا جاتا ہے۔ مرکز احرار چناب نگر میں مسلمانوں کے لیے فری میڈیکل ڈسپنسری کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے اور عنقریب مریضوں کا باقاعدہ علاج شروع ہوجائے گا۔ مجلس احرار اسلام کی موجودہ قیادت امیر مرکزیہ ابن امیر شریعت حضرت پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری، ناظم اعلیٰ جناب عبد اللطیف خالد چیمہ، پروفیسر خالد شبیر احمد، میاں محمد اویس اور ڈاکٹر محمد عمر فاروق اپنے رفقاء کی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ قادیانیت کے محاسبہ وتعاقب میں فعال وسرگرم ہیں۔
عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ ‘مجلس احرار اسلام کی پہچان، شناخت، تعارف اور نصب العین ہے۔ مسلمانوں کے ایمانوں کا تحفظ، فتنۂ قادیانیت کا استیصال اور تردید، قادیانیوں کو اسلام کی دعوت وتبلیغ، تمام دینی قوتوں کی حمایت ونصرت ہماری جدوجہد کے اہداف ہیں۔
اسلام کی سربلندی، عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور وطن عزیز پاکستان سے محبت کرنے والی تمام جماعتیں، ادارے، علماء اور کارکن ہمارے فطری حلیف ہیں ، حریف نہیں۔
ہم سب کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر، قدم سے قدم اور شانے سے شانہ ملا کر رضاء الٰہی اور شفاعت حضرت خاتم النبیین محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حصول کے لیے جدوجہد کرنی ہے۔
مجلس احراراسلام نے ۲۹؍ دسمبر۱۹۲۹ء کو امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ ،رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ ، مفکرِ احرار چودھری افضل حق ؒ اور دیگر اکابر رحمہم اللہ کی قیادت میں ایک فکری وتحریکی سفر کا آغاز کیا تھا۔ اکابرِ احرار نے مسلمانوں کے دینی عقائد واعمال کے تحفظ کے ساتھ ساتھ قومی وسیاسی تحریکوں اور سماجی خدمت کے میدان میں بھر پور کردار ادا کیا۔ اس سفر میں قید وبند کی تمام صعوبتیں برداشت کیں۔ حتیٰ کہ احرار کارکنوں اور رہنماؤں نے اپنی جانیں بھی اللہ کے راستے میں قربان کیں۔
محدث العصر علامہ محمدانورشاہ کشمیری رحمہ اللہ نے سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو ’’امیر شریعت‘‘ منتخب کر کے مجلس احرار اسلام کو تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر سرگرم کیا تھا۔ الحمد للہ احرار آج بھی محاذِ ختم نبوت پر دادِ شجاعت دے رہے ہیں۔ اکتوبر ۱۹۳۴ء کی ’’احرار تبلیغ کانفرنس‘‘ قادیان سے لے کر ۱۲؍ربیع الاوّل ۱۴۳۷ھ (۲۴؍دسمبر ۲۰۱۵ء) کو چناب نگر میں منعقد ہونے والی تحفظ ختم نبوت کانفرنس وجلوس دعوتِ اسلام تک ۸۶ سالہ تحریکی سفر میں احرار کارکنوں اور قائدین نے جس استقامت اور جرأت وایثار کا مظاہرہ کیا‘ وہ اُن کے لیے توشۂ آخرت ہے۔ خصوصاً تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر ۱۹۳۴ء (قادیان) ۱۹۵۳ء، ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء (پاکستان) میں برپا ہونے والی تحاریک مقدس تحفظ ختم نبوت، احرار کی جدوجہد کا حاصل ہیں۔ اس وقت پاکستان میں دینی کام کے حوالے سے جو صورتحال ہے ‘وہ نہایت اہم ہے۔ دینی حلقوں کو اس کامکمل ادراک کرتے ہوئے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ پُر امن آئینی راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ پورا مغرب عالمی طاغوت کی قیادت میں اسلام اور امت مسلمہ کے خلاف متحد ہے۔ ہمیں اس خوف ناک امتحان وآزمائش میں سرخرو ہونا ہے۔ دعوت وتبلیغ کے کام کو مزید بہتر اور منظم کرنا ہے جو نقصان ہوچکا اُسے یاد رکھنا اور جو بچ گیا اسے باقی رکھنے کی تدبیر وحکمت اختیار کرنا سب سے اہم کام ہے۔ اگر ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو یہ بات سمجھانے میں کامیاب ہوگئے تو ان شاء اللہ مستقبل میں اپنے اہداف ضرور حاصل کرلیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی ورسول محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو ایمان والوں کے لیے تاقیامت بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے جگانا اور غیر مسلموں خصوصاً قادیانیوں کو حکمت وموعظت حسنہ کے ساتھ اسلام کی دعوت دینا اور انہیں جنت کے راستے پر گامزن کرنا ہرمسلمان کی ذمہ داری ہے۔ مجلس احرار اسلام ۱۲؍ ربیع الاول کو چناب نگر میں یہی فریضہ ادا کرنے کی ایک ادنیٰ سے کوشش اور محنت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیاوی خواہشات سے پاک ہوکر صرف اپنی رضا اور آخرت میں حصولِ فلاح کے لیے جدوجہد کی توفیق عطاء فرمائے، ہمیں اس راستے میں قبول فرمائے اور پیارے وطن پاکستان کو اسلام کا قلعہ اور امن وسلامتی کا گہوارہ بنائے۔ آمین یارب العٰلمین
*۔۔۔*۔۔۔*

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.