چوتھی و آخری قسط
ڈاکٹرعمرفاروق احرار
قادیانیت کے اندھیرے سے نکل کر اسلام کے نورسے منورہونے والے ڈاکٹر طاہر احمدڈارکہتے ہیں کہ میری ابتدائی زندگی قادیانیت سے متعلق بے خبری اور سادگی میں گزری، مگر جب 2000 ء کے بعد شعور کا دور آیا تو حالات یکسر بدل چکے تھے ۔یہ سوشل میڈیا کا دور تھا اور بہت سارے نئے معاملات نئی شکل وصورت کے ساتھ سامنے آچکے تھے تو ایسے حالات کے دوران میرے جماعت احمدیہ کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے اور ہر چند ماہ کے بعد کو کوئی نہ کوئی ایسا معاملہ ہو جاتا تھا کہ میں ان لوگوں سے یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا تھاکہ جب آپ لوگوں کا یہ سلوگن ہے کہ‘‘ محبت سب سے، نفرت کسی کے لیے نہیں ’’ اورآپ کا کہناکہ احمدی جماعت، الٰہی جماعت ہے ۔ہم لوگ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ وہ جماعت ہیں ، جس نے جنت میں جانا ہے ،لیکن آپ کی حرکتیں وہ ہیں کہ جو جہنم کے سب سے نچلے درجہ ہاویہ میں گرانے والی ہیں تو بہت سارے اختلافی معاملات ہوئے ۔ مالی غبن ،منافقت، سیاست، جھوٹ، بظاہر زبان کے میٹھے، مگرعمل ایساکہ جیسے بھیڑیے نے بھیڑ کی کھال اوڑھی ہوئی ہو اور اندر بھیڑیا چھپا ہوا ہے۔ مفاد کی سیاست، عہدہ کی دوڑ ،یہ بھی وہ چیزیں ہیں جو قادیانیت سے نفرت کا باعث بنیں ۔ ہمارے بچپن ہی سے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی تھی کہ ہمارے سوا کوئی ہدایت یافتہ نہیں ہے ۔جبکہ قادیانی نظریاتی خودکش حملہ آور ہیں ، جنہوں نے لاکھوں انسانوں کے ایمان کو لوٹا ہے۔اسلام سے دشمنی کی خاطر قادیانی حلقوں میں علماکے ساتھ شدید نفرت پیدا کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مولوی کو ایسی نظر سے دیکھتے ہیں کہ جیسے وہ کائنات کا سب سے بڑا اٹھائی گیراور سب سے بڑا فراڈی ہے ۔جس بندے نے داڑھی رکھی ہوئی ہو، اس پر مولوی کا لیبل لگا کر اور اس کے ذاتی افعال کو اسلام کے ساتھ جوڑ کر اتنی نفرت پیدا کی جاتی ہے کہ عام قادیانی علماکے قریب آنے سے خوف زدہ ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ قادیانی لوگ معاشرے سے کٹ کے رہ گئے ہیں ۔ ماسوائے ایسے لوگوں کے کہ جن کا سوشل سیٹ اپ ہے یا وہ جوکسی اچھی جاب پر بیٹھے ہیں اوراُن کا سوشل سرکل ہوتا ہے۔ ایسی محدود اورمخصوص تعداد کے علاوہ جو عام قادیانی ہیں ، ان کی حیثیت جماعت میں ایک غلام کی سی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ بظاہر یہ بڑے میٹھے اندازسے پیش آتے ہیں ۔بظاہر ایسے ملتے ہیں کہ جیسے ان جیسا شریف النفس اور کوئی نہیں ہے ، مگرخیال رہے کہ یہ اس وقت تک ہی خوش اخلاق ہیں کہ جب تک مسلمان ان کے پھندے میں پھنس نہیں جاتے۔ ‘‘امت’’کے اس سوال پر کہ آپ موجودہ حالات میں قادیانیوں اورمسلمانوں کے لیے کیاحل تجویزکرتے ہیں کہ جودونوں طبقات کے لیے سودمندہو تو پروفیسر طاہراحمدڈارنے کہاکہ قادیانیت میں میں ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد اپنے تجربات کی روشنی میں قادیانیوں اور مسلمانوں سے سے چند گزارشات کروں گا ۔سب سے پہلے میں اپنے قادیانی دوستوں سے کہوں گا کہ آپ کسی عالم یا مولوی کی بات بے شک نہ مانیں ، لیکن خدارا!ا روزانہ تھوڑا ساوقت نکال کر اپنے پیشوا مرزا غلام احمد قادیانی کی کتب کا خودمطالعہ کریں ۔ اگرچہ ساری کتابوں کا مطالعہ کرنا ممکن نہیں ہے، مگر‘‘ حقیقۃ الوحی’’ جسے مرزا غلام احمد نے اپنی کتب کا خلاصہ قرار دیا ہے ،اُس کا بغورمطالعہ کریں ۔نیز‘‘براہین احمدیہ ’’کی پہلی جلد کو پڑھیں اور اس کا تنقیدی مطالعہ کریں تو ان شاء اللہ بہت ساری حقیقتیں خودبخودکھل کر آپ کے سامنے آجائیں گی۔ اس کے ساتھ ہی آپ کو اپنے اللہ سے سے یہ دعابھی مانگنا ہوگی کہ اے اللہ مجھ پر حق کو واضح کر دے اور مجھے سیدھے راستے پر گامزن کر دے تو مجھے یقین ہے کہ ان شاء اللہ آپ کو حقیقت تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی،کیونکہ توفیق بھی طلب کے بغیرنہیں ملتی۔ اسلام غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اورذہن میں پیدا ہونے والے ہرسوال کا جواب فراہم کرتا ہے، لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ قادیانی گروہ میں سوال کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ ایسے سوالات کہ جو قادیانی مبلغین یا رہنماؤں کی کی طبع یا ان کے کے سسٹم کے خلاف نہ ہوں ،اُن کا گول مول جواب تو مل ہی جاتا ہے ،مگر جو سوال اُن کے سسٹم کو چیلنج کرتا ہے، وہ ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ مثلاً میں نے جب اپنے سوالات پر مشتمل خطوط ضلعی مربیوں سے لے کر قادیانی خلیفہ مرزا مسرور احمد تک کو لکھے تھے، ان کا مجھے کوئی جواب نہیں دیا گیا ۔مجھے اسلام میں آکر غوروفکر کی دولت ملی ہے۔ قادیانی مربیوں کے برعکس علماء کرام ہمارے سوالات کا مکمل جواب دیتے ہیں اور سوالات کرنے پر کوئی فتویٰ بھی نہیں لگتا۔ مجھے تو دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد وہ محبت ملی ہے کہ اب احساس ہوتا ہے کہ اے کاش! اس سے بہت پہلے میں اسلام قبول کر لیتا اور ایسی بے لوث محبتوں سے اپنا دامن بھر لیتا ۔علماء کرام قادیانی عقائد و نظریات کے متعلق قادیانی کتب سے جو حوالہ جات پیش کرتے ہیں ۔ قادیانی احباب اگر اصل قادیانی کتب سے ان حوالہ جات کوچیک کر لیں تواُن کے لیے اسلام قبول کرنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی ،کیونکہ قادیانی مبلغین مرزا غلام احمد قادیانی کی کتب میں موجود مرزا صاحب کے عقائد کو عام قادیانیوں سے چھپاتے ہیں ۔ اگر قادیانی دوست ہمت کریں اور براہ راست مرزا قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو ان پر پر قادیانیت کا کفر ہونا ظاہرہو جائے گا ۔اگر وہ براہ راست خود مطالعہ کرنے کے بجائے اپنے مبلغین سے سے سیدھا راستہ معلوم کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ ناممکن ہے کہ وہ انہیں سیدھے راستے کی نشاندہی کریں ۔ دوسری بات قادیانی احباب کے لیے یہ ہے کہ وہ یہ خوف اپنے دل سے نکال دیں کہ اگر آپ نے قادیانیت ترک کردی تو قادیانی آپ کو زندہ نہیں چھوڑیں گے اورآپ دنیامیں تنہاہوجائیں گے۔ایسی کو ئی بات نہیں ہوگی، کیونکہ زندگی اورموت اللہ کے ہاتھ میں ہے اوراُسی کے حکم سے نفع ونقصان پہنچتاہے۔کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔میں آپ کے سامنے زندہ حقیقت کے طورپر موجودہوں ۔الحمدللہ !کسی قادیانی کو ہمت نہیں ہے کہ وہ میرابال بھی بیکاکرسکے۔مزے کی بات یہ ہے کہ میں قادیانیت چھوڑنے کے بعدبھی قادیانیوں سے اپنے حقوق کی جنگ لڑتارہاہوں ۔میں وہ واحد آدمی ہوں ،جس نے قادیانیوں سے اپنا وصیت والا فنڈواپس لیاہے۔ورنہ وہ لوٹی ہوئی دولت کسی کو بھی واپس نہیں کرتے ۔انہیں یہ تو جرأت نہ ہوئی کہ وہ مجھے میری جماعت احمدیہ کو بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کے لیے دی جانے والی رقم واپس کرتے،البتہ ان پر اللہ نے میرارعب جما دیااورانہوں نے نہ صرف میرے ،بلکہ میری اہلیہ کے پیسے بھی میرے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرادیے۔ میں ان سب قادیانی احباب اور اور قادیانی رشتہ داروں کے لیے راہ ِحق پانے کی دعا کرتا ہوں کہ جن کے ساتھ میں نے زندگی کا ایک لمبا عرصہ گزارا ہے اوران کے ساتھ ساتھ دیگر تمام قادیانیوں کے لئے بھی دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی ان کی ہدایت کے لیے بھی خصوصی سامان پیدا کر دے ۔اللہ اُن کوبھی قادیانی جماعت کی اندرکی باتیں دیکھنے،پرکھنے اورجھوٹ اورسچ کو علیحدہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔میری اپنے مسلمان بھائیوں سے بھی گزارش ہے کہ عام قادیانیوں کوجو اندھی تقلید کا شکار ہیں اور کوہلو کے بیل کی طرح بے خبری میں گھوم رہے ہیں ۔ان کے ساتھ محبت کا برتاؤ کریں کریں ۔ انہیں قریب لائیں اور مجلس احرار اسلام پاکستان کے شعبہ تبلیغ‘‘ دعوت و ارشاد’’کے ناظم(سابق قادیانی) ڈاکٹر محمد آصف جیسے لوگوں سے ، (جن کے ہاتھ پر مجھے بھی قبول اسلام کی سعادت ملی،) ملوائیں جو انہیں قادیانیت کے حقیقی چہرہ سے واقف کرائیں گے اور انہیں حکمت و محبت کے ساتھ اسلام کی دعوت دے کر اسلام کے دامن رحمت سے وابستہ کردیں گے،کیونکہ اُن کا دعوتِ اسلام کا طریقہ فتویٰ بازی اورنفرت انگیزی نہیں ،بلکہ محبت کے فروغ پر مبنی ہے۔محبت کو عام کرنے کی ضرورت ہے ۔قادیانیوں کے عقائد سے بے شک نفرت کی جائے اور بے شک اُن کے عقائد نفرت ہی کے مستحق ہیں ، لیکن بحیثیت انسان انہیں قریب لانے کی ضرورت ہے کیونکہ نفرت کبھی محبت کو جنم نہیں دے سکتی۔ مناظروں کا دورگزرچکا۔قادیانیوں نے بھی اپنے کام کے اندازکارُخ بالکل ہی بدل دیاہے۔اگرقادیانیوں سے مکالمہ کو رواج دیاجائے اورقادیانیوں سے گفتگوکے روایتی اورپرانے اسلوب میں تبدیلی پیداکی جائے اورحالات کے تقاضوں کے مدنظراپنی محنت اوردعوت کے طریقہ کارمیں بہتری لائی جائے تو اُس کے نتائج یقینابہت نفع بخش نکلیں گے،لیکن یادرہے کہ قادیانیوں کو قریب لانے اوراُن سے دعوتی مکالمہ کا کام عام مسلمان کے بس کا نہیں ہے ،بلکہ یہ کام قادیانیت کے خلاف کام کرنے والوں اوراس موضوع کے سپیشلسٹ حضرات کا ہے اوروہ ہی اسے احسن اندازمیں انجام دے کر قادیانیوں کو واپس اسلام میں لانے میں اہم کرداراداکرسکتے ہیں ۔ اگرقرآنی حکم کے مطابق دعوتِ اسلام حکمت وموعظت کے ساتھ دی جائے گی تو اللہ تعالیٰ قادیانیوں کے دل پھیردے گا اورحق وسچ کی طلب رکھنے والوں کو اسلام کی دولت سے مالامال کردے گا۔ان شاء اللہ تعالیٰ۔(ختم شد)