عبداللطیف خالد چیمہ
قادیانی گروہ نہ صرف پاکستان میں استعمار کے مہرے اور دینی مدارس کے دشمن کے طورپر کام کررہے ہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر اسلام و مسلم دشمن تحریکوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو’’قادیانی ارتداد‘‘نمایاں نظر آجاتا ہے برطانیہ میں پھیلے ہوئے دینی مدارس اور مساجد کے حوالے سے روزنامہ’’امت‘‘کراچی نے جناب سیف اللہ خالد کی ایک اہم رپورٹ شائع کی ہے اس کو پڑھیں اور پھر اندازہ کریں کہ اس حوالے سے ہوکیا رہا ہے؟اور لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن ا س سلسلہ میں کوئی ذمہ داری محسوس کررہے یا نہیں؟
برطانیہ میں مسلمانوں کے مدارس قادیانی جماعت کے کنٹرول میں دینے کی سازش شروع کردی گئی ہے قادیانی لارڈ احمد طارق نے نائب وزیر انسدادانتہاپسندی کا چارج سنبھالتے ہی مسلمانوں کے خلاف گھیرا تنگ کردیا ۔مسلمانوں کے سکولوں،مساجد،مدارس اور فلاحی تنظیموں کی کڑی نگرانی اور ان کے نصاب کو قادیانی جماعت کے تابع کرنے کی خاطر40صفحات پر مشتمل حکمت عملی تیار کرکے پارلیمنٹ میں پیش کردی گئی ہے ذرائع کے مطابق قادیانی وزیر کی جانب سے مسلم تنظیموں کوحکومتی مشاورتی نظام سے نکال کر اپنی حامی نظریاتی تنظیموں کو ان کی جگہ دینے کی سفارشات نے مسلمانوں میں اشتعال کی کیفیت پیدا کردی ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کیمرون کو بھی برطانوی مدارس کے خلاف اکسانے کاکام شروع کردیا گیا ہے لارڈ احمد طارق نہ صرف قادیانی جماعت کے اہم رکن ہیں بلکہ قادیانی ٹی وی چینل ایم ٹی وی پر باقاعدہ پروگرام بھی کرتے ہیں ۔
دستیاب اطلاعات کے مطابق برطانیہ کے علاقے ومبلڈن سے تعلق رکھنے والے قادیانی لارڈ احمد طارق کو کنزرویٹوپارٹی کی حکومت نے مئی 2015ء میں انتہاپسندی کے سدباب کا نائب وزیر بنایا ۔اس کے ساتھ ساتھ وہ وہاں کے فیتھ منسٹر بھی ہیں ۔مسلمانوں کے حوالے سے حکومت کو مشورے دینا اور رہنمائی فراہم کرنا ان کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے ۔ذرائع کے مطابق احمد طار ق نے عہدہ سنبھالتے ہی مسلمانوں کے خلاف اپنے بغض کا مظاہرہ شروع کردیا اور پہلے مرحلے میں برطانوی حکومت سے منظورشدہ وہ مسلم تنظیمیں جو ہمیشہ قوانین پر عملدرآمد کرتے ہوئے مسلمان کمیونٹی اور حکومت کے درمیان رابطے کا ذریعہ رہی ہیں ،انہیں سرکاری مشاورت سے الگ کردیا ،یہاں تک کہ مسلمانوں کی سب سے بڑی ’’مسلم کونسل آف بریٹن‘‘کو بھی مشاورتی امور سے الگ کردیا گیا اور الزام یہ عائد کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کی تمام تنظیمیں انتہاپسندی پھیلارہی ہیں ۔ذرائع کے مطابق قادیانی وزیر احمد طارق اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھا کر قادیانی جماعت کو مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم بناکر پیش کرنے کی کوشش میں ہیں ،دوسری جانب پاکستانی سفارت خانے میں بھی اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے پاکستانی مسلمانوں کے لئے مشکلات پیدا کی جارہی ہیں ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ قادیانی وزیر کے اقدمات کے خلاف مسلمانوں کی جانب سے مزاحمت کی جارہی ہے ۔ذرائع نے بتایا ہے کہ برطانوی حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی کے مسلمانوں میں روابط انتہائی محدود ہیں جس کے سبب وزیر موصوف اپنے مسلم مخالف اقدامات میں کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔
ذرائع کے مطابق نائب وزیر انسدادانتہا پسندی نے اکتوبر کے اوائل میں برطانوی پارلیمنٹ میں 40صفحات پر مشتمل ایک پالیسی پیش کی جس کو انہوں نے ’’کاؤنٹرٹیررازم اسٹریٹجی‘‘کا نام دیا ہے ،اس حوالے سے اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’اس پالیسی کامقصد مسلمانوں اور نازیوں سمیت تمام انتہاپسندوں کو ہینڈل کرنا ہے‘‘اس پالیسی میں انتہا پسندی اور دہش ت گردی کو مسلمانوں اور ان کی دینی تنظیمات سے جوڑتے ہوئے صفحہ 21میں کہا گیا ہے کہ ’’موجودہ انتہا پسندی اور فساد کی جڑ حسن البنا اورسید ابوالاعلی مودودی کا تصوردین ہے جسے سید قطب نے تکفیری رنگ دیا ۔اس کا سدباب کرنا ضروری ہے ‘‘۔اسی طرح انتہا پسندوں کی شناخت کے طور پر اپنی فطرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قادیانی وزیرنے اس دستاویز میں اسلامی اصطلاحات کو انتہاپسندی سے منسلک کرنے کی کوشش کی ہے اور کہا گیا ہے کہ لفظ ’’جہاد‘‘کفر’’اور کافر‘‘کا استعمال کرنے والے انتہا پسند اور بعد میں دہشت گردہوسکتے ہیں لہذا ایسے لوگوں کی نگرانی کی جائے ۔شق نمبر54میں کہا گیا ہے کہ کافر کی اصطلاح استعمال کرنے والوں پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔جبکہ یہودیوں پر سازش کا الزام لگانے اور شریعت یا شرعی قوانین کی بات کرنے والوں کو بھی انتہا پسند قراردیا گیا ہے۔
’’امت‘‘کی اطلاعات کے مطابق برطانیہ میں مقیم مختلف ممالک کے مسلمانوں نے شریعت کونسل اور اس طرح کے کئی ادارے باقاعدہ حکومتی اجازت سے بنارکھے ہیں ،جو مسلمانوں کے باہمی امور میں ان کی معاونت کرتے ہیں ان کی حیثیت مشاروتی کونسل کی ہے ،اسی طرح مسلمانوں نے دیگر کمیونٹیز کی طرح اپنے سکول اور مدارس بنا رکھے ہیں جن کے نصاب کی اجازت باقاعدہ برطانوی وزارت تعلیم سے لی جاتی ہے اور گاہے بگاہے اس کی انسپکشن کا بھی بندوبست ہے ۔لیکن قادیانی نائب وزیر نے اپنے مسودہ قانون میں ان تمام مسلم اسکولز کو بھی مشکوک قراردے دیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ان کے نہ صرف نصاب کو چیک کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ان کے اسٹاف کے رویے پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے ۔انہوں نے 7سکولوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان سکولوں میں اسلام کو واحد سچا مذہب بتایا جاتا ہے اور یہ انتہا پسندی ہے ،یہی الزام مدارس پر بھی لگا گیا ہے حالانکہ ان کا نصاب خود حکومت کا تیارکردہ ہے ۔اس کے حل کے طور پر قادیانیوزیر نے اپنی ذات اور قادیانی اداروں کا پیش کیا ہے کہ حکومت ان کے ساتھ اشتراک عمل کرتے ہوئے ان مدارس اور سکولوں کو ان کے اختیارمیں لے آئے۔اس مسودہ قانون میں کہا گیا ہے کہ تمام شریعت کونسلز اور مسلم تنظیمیں انتہاپسندی کو سپورٹ کرتی ہیں ،ان کو مذاکرات اور بات چیت میں شامل نہ کیا جائے۔
برطانوی مسلمانوں کے ایک ذمہ دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘کو بتایا ہے کہ قادیانی لارڈ احمد طارق نے مسلم کمیونٹی کیلئے مسائل پیدا کرنا شروع کردیئے ہیں اور وہ برطانوی مسلمانوں کے معاملے میں حکومت کو گمراہ کررہے ہیں جس کے نتائج معاشرے میں بدامنی کی صورت میں پیدا ہوسکتے ہیں ۔ذرائع کا دعویٰ ہے کہ برطانوی حکومت اور اس کے ادارے مسلمانوں کے حوالے سے کوئی امتیازی قوانین نہیں رکھتے ،بلکہ ہمیشہ معاملات کو افہام وتفہیم سے چلایا گیا ہے ۔لیکن قادیانی نائب وزیر مسلم دشمنی میں برطانوی حکومت کو گمراہ کررہے ہیں اور انہی کی ایماء پر وزیراعظم کیمرون نے مدارس کے حوالے سے وہی بیان جاری کیاہے جو وزیر احمد طارق نے اپنے اس مسودہ قانون میں لکھاہے کہ ’’مدارس میں طلبہ کو کھلے ذہن اور آزادی سے پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘ذرائع کے مطابق جمعیت علماء برطانیہ کے مرکزی رہنما قاری عبدالرشید نے دعوت دی ہے کہ وزیر اعظم جب چاہیں مدار س کا دورہ کرسکتے ہیں ،وہ نہ صرف نصاب ،بلکہ ماحول کا بھی جائزہ لے سکتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ برطانوی مدارس برطانوی قانون کی پابندی کرتے ہوئے مذہبی تعلیمات دے رہے ہیں اور ان کابھی برطانوی حکومت کا منظور کردہ ہے۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وزیر موصوف کے آنے سے قبل مسجد کمیٹیاں اور مسلم تنظیمیں انتہا پسندی کے حوالے سے حکومت کے رابطے میں تھیں اور معاملات کو افہام تفہیم سے چلایا جارہا تھا ،مگر احمد طارق نے تمام مسجاد کمیٹیوں اور تنظیمات کو انتہاپسند قراردے کر انہیں مشاورت سے الگ کردیا ہے۔ذرائع کے بقول ان کے مسودہ قانون سے یہ معلوم ہورہا ہے کہ وہ مسجد مدارس کو اپنی’’پسند‘‘کی کمیٹیوں کے ماتحت کرنا چاہتے ہیں اور حکومت سے معاملات میں مسلمانوں کے بجائے قادیانیوں کو نمائندگی دلوارہے ہیں ،جس سے مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہورہی ہے۔
(روزنامہ امت کراچی یکم نومبر2015ء)