مجاہد الحسینی
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں علم ودانش کی بہت سی شخصیات کی تخلیق کی ہے، اور ہر ذی علم وفضل شخصیت پر ضرور کسی نہ کسی طور سے دوسری شخصیت کو برتری اور فوقیت سے سرفراز کیا ہے۔ حضر ت موسیٰ اور خضر علیہما السلام کی تابندہ مثال اس کی صحیح آئینہ دار ہے۔ بعد ازاں صرف محسن انسانیت، خاتم الانبیاء والمرسلینﷺ کی ذات اقدس ایسی ہے کہ نہ تو شخصی اعتبار سے کسی بھی انسان کو آپ ﷺ پر فوقیت اور علوّ مرتبت حاصل ہے، نہ ہی آپ ﷺ کی ذات اقدس پر جو آسمانی کتاب قرآن کریم نازل ہوئی ہے، اس پر کسی کتاب کو فوقیت اور ندرت کا اعزاز حاصل ہے، اور نہ ہی امت مسلمہ کی موجودگی میں یا اس کے بعد کسی دوسری امت کو کسی بھی علمی اور نظریاتی طور پر استحکام اور کمال کی دسترس ہے، چنانچہ امت مسلمہ میں حسب فرمانِ الٰہی ’’وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ‘‘ ہر علم ودانش اور صاحب فہم وادراک کے اوپر کوئی علمی و ادبی وجاہت کی شخصیت ضرور موجود ہوتی ہے اور لوگ اس سے کلی یا جزوی طور سے استفادہ کرکے اپنے ظلمت کدۂ قلب ودماغ کو منوّر کرنے کی سعی وکوشش میں منہمک رہتے ہیں۔
چنانچہ برصغر پاک وہند میں جہاں بڑے بڑے بحر العلوم اور اربابِ شریعت وطریقت اسلاف گزرے ہیں، وہیں علم وادب اور شعر و شاعری کے اعلیٰ اوصاف کی بھی عظیم شخصیات اپنے فنی محاسن وکمالات کے فانوس روشن کرکے کاروانِ آخرت سے جاملی ہیں، انہی راہروانِ علم وادب کے ایک راہی فیض احمد فیض بھی تھے مجھے ان سے ملاقات اور ان کی مجلس نشینی کے کئی مواقع فراہم ہوئے ہیں۔ 1951ء میں جب تحریک ختم نبوت کے ترجمان روزنامہ آزاد اور روزنامہ نوائے پاکستان لاہورکی ادارت کے باعث لاہور میں مقیم تھا تو اس تحریک کی روز افزوں ہمہ گیری کی وجہ سے مختلف مکاتب فکر اور مسالک کے علمائے کرام و ادباء ، شعرا اور دانشوروں کی آمد ورفت رہتی اور ان سے تبادلۂ خیال کا موقع ملتا رہتا تھا۔
قیامِ پاکستان سے قبل روزنامہ آزاد کے چیف ایڈیٹر نوابزادہ نصر اللہ خاں اور آغا شورش کاشمیری مدیر معاون تھے۔ میری ان سے ملاقات ہوئی تھی، ان دونوں شخصیات کے علمی وادبی ذوق اور شعروشاعری میں ان کی ماہرانہ دسترس کے باعث ممتاز ادباء وشعراء رونق محفل ہوتے تھے، خاص طور پر امیرِ شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ جب لاہور میں تشریف فرما ہوتے تو اس دور کی عظیم علمی وادبی شخصیات شمع محفل کے گرد پروانوں کی مانند والہانہ انداز میں کشاں کشاں آتی تھیں، ان میں سے فیض احمد فیض، صوفی غلام مصطفی تبسم، جگر مراد آبادی، ایم ڈی تاثیر، احسان دانش، پطرس بخاری، احمد ندیم قاسمی، عبد الحمید عدم، علامہ لطیف انور، علامہ انور صابری، استاد دامن، حفیظ رضا پسروری اور دوسرے حضرات کے نام خصو صاًقابل ذکر ہیں امیرِ شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی وجد آفریں تلاوت قرآن کریم اور ساحرانہ خطابت کے تو سب معترف ہیں، لیکن ان کے اعلیٰ ادبی ذوق، ان کی شعر گوئی اور شعر فہمی کی بابت چند ارباب ذوق ہی آشنا ہیں۔ شاہ صاحب کی زندگی اور ذات گرامی میں بلا کی کشش تھی، آپ اپنی ذات میں ایک انجمن، ایک محفل اور ایک ادارہ تھے۔ بعض شخصیات خلوت پسند اور گوشہ نشین ہوتی ہیں، ان کے ہاں محفل اور مجلس آرائی کا تصور بھی گراں گزرتا ہے، ان کی زندگی مولانا ابوالکلام آزادؒ کی طرح ’’فراغتے وکتابے وگوشہ چمنے‘‘ کی آئینہ دار ہوتی ہے؛ لیکن امیرِ شریعتؒ کا معاملہ اس سے مختلف رہا ہے، آپ جب تک علمی وادبی محفل نہ سجا لیتے، اس وقت تک زندگی قبرستان کا ایک سناٹا محسوس ہوتی ۔
آپ کی مجلس آرائی میں شعر وسخن کامرحلہ آتا تو یوں محسوس ہوتا گویا چمنستان میں بہار آگئی ہے، پھر ہر طرف کلیاں چٹختیں، شگوفے کھلتے اور بھینی بھینی خوشبو سے محفل زعفران زار بن جاتی۔ شعروسخن کی اس محفل میں اگرچہ تمام ادباء وشعراء اپنے انداز میں منفرد خصوصیات کے حامل تھے؛ لیکن فیض احمد فیض ندرت کلام میں یکتا تھے، شاہ صاحب کی مجلس میں کلام سناتے وقت وہ فرمایا کرتے تھے کہ شعر کے حسن اور کلام کی ندرت کا اندازہ مجھے امیرِ شریعت کی ’’داد کے جملوں ‘‘ اور ان کے ’’ہونٹوں کی جنبش‘‘ سے ہوتا تھا۔ فیض احمدفیض امیرِ شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے تذکرے میں فرمایا کرتے تھے کہ مَیں انہیں پیر طریقت مانتا ہوں اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی ہے، فیض صاحب کے صوفیانہ رجحانات کے میرے علاوہ دیگر حضرات بھی شاہد ہیں کہ جن دنوں امیرِ شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے پیرومرشد حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ لاہور میں حاجی عبد المتین کی کوٹھی واقع متصل شملہ پہاڑی میں مقیم تھے تو فیض احمد فیض اپنی بیگم ایلس کے ساتھ مؤدبانہ حاضر ہوتے، بیگم فیض سفید دوپٹہ اوڑھے دو زانو ہوکر حضرت کے ایمان افروز ارشادات سے طمانیت قلب حاصل کرتی تھیں، پھر حضرت رائے پوریؒ کے بلند پایہ شاعر خدام میں سے مولانا عبد المنان دہلویؒ ، حافظ لدھیانوی اور مسعود علی آزاد سے ان کے کمرے میں علمی وادبی نشست کا خوب اہتمام ہوتا تھا۔
تصوف کی جانب فیض احمد فیض کے رجحانات میں ان کے والد ماجد سلطان محمد خاں چیف سکرٹری امیر عبد الرحمن خان والی ء افغانستان کی ابتدائی تعلیم وتربیت کا گہرا دخل تھا، چنانچہ انہوں نے اپنے ہمعصر مرزا ظفر الحسن کوجو انٹرویو دیا تھا، وہ ان کی کتاب’’ شام شہر یاران‘‘ میں ’’عہد طفولیت سے عنفوان شباب تک ‘‘کے زیرِ عنوان درج ہے، اس میں انہوں نے کہا ہے کہ :’’ہم صبح ابّا کے ساتھ فجر کی نماز پڑھنے مسجد جایا کرتے تھے، معمول یہ تھا آذان کے ساتھ ہم اٹھ بیٹھتے، ابّا کے ساتھ مسجد گئے ، نماز اداء کی، اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی سے، جو اپنے وقت کے بڑے فاضل تھے، درس قرآن سنا، ابّا کے ساتھ ڈیڑھ دو گھنٹے کی سیر کے لئے گئے، پھر اسکول ………..۔‘‘
اس سے آگے لکھا ہے کہ:’’ اپنے گھر سے ملحقہ کتابوں کی دکان سے برائے مطالعہ دو پیسے کرایہ پر لے کرپڑھی،ابّا نے ہمیں بلایا اور کہنے لگے کہ اگر ناول ہی پڑھنا ہے تو انگریزی ناول پڑھا کرو، اردو کے ناول اچھے نہیں ہوتے، شہر کے قلعے کی لائبریری سے ناول لاکر پڑھا کرو ؛ چنانچہ ہم نے انگریزی ناول پڑھنے شروع کئے، ڈکنس، ہارڈی اور نہ جانے کیا کیا پڑھ ڈالا، وہ بھی آدھا سمجھ میں آتا تھا اور پلے نہیں پڑتا تھا، اس مطالعہ کی وجہ سے ہماری انگریزی بہتر ہوگئی تھی، دسویں جماعت میں پہنچنے تک محسوس ہوا کہ بعض استاد پڑھانے میں کچھ غلطیاں کرجاتے ہیں، ہم ان کی انگریزی درست کرنے لگے، اس پر ہماری پٹائی تو نہ ہوئی، البتہ وہ استا د کبھی خفا ہوجاتے اور کہتے کہ اگر تمہیں ہم سے اچھی انگریزی آتی ہے تو پھر تم ہی پڑھایا کرو ہم سے کیوں پڑھتے ہو؟
اس زمانے میں کبھی کبھی مجھ پر ایک خاص قسم کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی، جیسے یکایک آسمان کا رنگ بدل گیا ہے، بعض چیزیں کہیں دور چلی گئی ہیں، دھوپ کا رنگ اچانک حنائی ہوگیا ہے ، پہلے جو دیکھنے میں آیا تھا، اس کی صورت بالکل مختلف ہوگئی ہے، دنیاایک طرح کی پردۂ تصویر قسم کی چیز محسوس ہونے لگتی تھی، اس کیفیت کا بعد مَیں کبھی کبھی احساس ہواہے، مگر اب نہیں ہوتا‘‘۔ (نسخۂ وفا صفحہ ۴۹۲) (شام شہر یاران)
تصوف میں ’’کیفیت ‘‘ کو زبردست اہمیت حاصل ہے، عموماً یہ صورت اس وقت نمودار ہوتی ہے جب کسی ’’متّقی اور صالح کی مجلس‘‘ میں لمحات گزرے ہوں اور اس کے ساتھ گہرا تعلق خاطر ہو۔ ظاہر ہے کہ فیض صاحب مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی کی صحبت اور ان کے درسِ قرآن کریم میں شرکت سے بچپن میں ہی ’’فیض یاب‘‘ تھے، اس کے اثرات کا ظہور ایک فطری امر ہے۔فیض احمد فیض کے صوفیانہ رجحانات کی بابت ان کے دور کی نامور علمی وادبی شخصیت اشفاق علی خان (سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور) نے ’’ملامتی صوفی‘‘ کے زیرِ عنوان لکھا ہے:’’میرا اور فیض صاحب کا نظریاتی اختلاف ہے، مَیں ایک شرعی آدمی ہوں اور فیض صاحب ’’ملامتی صوفی‘‘ ہیں۔ تاریخ میں ڈھونڈنے سے آپ کو کئی ایسی مثالیں مل جائیں گی، جہاں ایک شرعی اور صوفی کی دوستی ہوگئی اور دونوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر آخری منزلیں طے کیں؛ لیکن ایک شرعی آدمی کی کسی ’’ملامتی‘‘ سے دوستی نہیں ہوئی۔ فیض صاحب نے ’’صوفی ازم‘‘ کا اکتساب کسی سلسلے میں بیعت کرکے نہیں کیا، نہ ہی میرے اندازے اور تحقیق کے مطابق انہوں نے وِرد وظیفہ یا چلّہ کشی کی ہے، انہوں نے صوفیاء کا ایک تیسرا رستہ اختیار کیا ہے جو مجاہدے پر محیط ہے، اس کو بزرگانِ دین ادب اور تواضع کا نام دیتے ہیں ‘‘۔
حضرت حاجی صاحب مہاجر مکی ؒ فرماتے ہیں کہ ایک دم میں ولایت حاصل کرنے کے لئے ادب اور خدمت کو اختیار کرنا چاہئے۔ بزرگانِ دین اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ طریقِ تصوف کے طالب کو چاہئے۔ کہ ’’ادب ظاہری وباطنی‘‘ کو نگاہ میں رکھے۔ ادب ظاہری یہ ہے کہ مخلوق خدا کے ساتھ بحسن ادب، کمال تواضع اور اخلاق کے ساتھ پیش آئے ، اور ادب باطنی یہ ہے کہ تمام اوقات، احوال ومقامات میں ’’باحق‘‘ رہے۔ حسن ادب ظاہر ’’سرنامہ ادب باطن‘‘ کا ہے اور حسن ادب ترجمانِ عقل ہے اور عقل چراغِ راہ کی صداقت کے تیل سے منوّر ہے۔یہ ادب، یہ صبر ایسا دھیما پن، اس قدر درگزر کرنے والا، کم سُخنی اور احتجاج سے گریز یہ صوفیاء کے کام ہیں، ان سب کو فیض صاحب نے سمیٹ رکھا ہے، اوپر سے’’ملامتی رنگ‘‘یہ اختیار کیا ہے کہ ’’اشتراکیت‘‘ کا گھنٹہ بجاتے پھرتے ہیں کہ کوئی قریب نہ آئے اور محبوب کا راز نہ کھل جائے۔
میرا تعلق چونکہ اونچے خانوادے سے ہے اور مَیں مسلمان بادشاہوں کا پرستار ہوں اور ملوکیت کو ہی اسلام سمجھتا ہوں، اس لئے میری اور’’ با باٹل‘‘ کی نہیں بن سکتی؛ لیکن کبھی اکیلے بیٹھے، خاموش اور چپ چاپ مَیں سوچا کرتا ہوں کہ اگر فیض صاحب حضور سرورِ کائناتﷺ کے زمانے میں ہوتے تو ان کے چہیتے غلاموں میں سے ہوتے، جب کسی بد زبان، تند خُو، بداندیش یہودی دوکاندار کی درازدَستی کی خبر پہنچتی تو حضور اکرمﷺ ضرور فرماتے آج فیض کو بھیجو، یہ بھی دھیما ہے، صابر ہے، بردبار ہے، احتجاج نہیں کرتا، پتھر بھی کھا لیتا ہے ، ہمارے مسلک پر عمل کرتا ہے۔۔۔ اشفاق علی خان(شام شہر یاران صفحہ 26)
بہرنوع، اشفاق علی خان کا اقتباس محل نظر ہے، اس پر ضرور لکھا جائے گا (ان شاء اللہ) اشفاق علی خان نے صوفیاء کے جس ’’طبقۂ ملامتیہ‘‘ کے ساتھ فیض صاحب کا رشتہ منسلک کیا، علامہ اقبال بھی اسی قبیلے سے تعلق خاطر رکھتے تھے، اس گروہ کے ظاہر وباطن میں نمایاں فرق نظر آتا تھا، اگر خوفِ طوالت دامن گیر نہ ہوتا تو صوفیاء کے ’’طبقہ ملامتیہ‘‘ کے ساتھ دیگر طبقات کا بھی تذکرہ کیا جاتا۔’’طبقۂ ملامتیہ‘‘ کے افراد ظاہری شکل وصورت کے اعتبار سے ایسا طرزِ عمل اختیا ر کرتے ہیں جو ریا کارانہ تقدّس کے سراسر منافی اور نفرت وملامت کا آئینہ دار ہوتا ہے، ان کی تمام تر توجہات کا مرکز ومحور ذاتِ الٰہی اور اسی کی خوشنودی کا حصول ہوتا ہے، انہیں اس بات کی قطعاً پروا نہیں ہوتی کہ لوگ ہمارا ظاہری حال احوال دیکھ کر کیا کہیں گے؟ اور کیا نظریہ قائم کریں گے؟
فیض احمد فیض عقیدۂ توحید ورسالت پر گہرا یقین وایمان رکھتے تھے، جس طرح انہوں نے اپنے بچپن کے احوال میں اپنے ابّا کے ساتھ نمازِفجر ادا کرنے مسجد میں جانے کا ذکر کیا ، اسی طرح زندگی کے آخری ایام میں اپنے گاؤں کی اپنی تعمیر کردہ مسجد میں نماز ادا کرنے گئے تو وہاں بھی انہوں نے امیرِ شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ سے عقیدت وبیعت کا ذکر کیا تھا، ان کے نعتیہ کلام میں سے ایک شعر ہے:
اے کہ تو ہست ہر دل محزوں سرائے تو
آوردہ ام سرائے دگر ازر برائے تو
اے اللہ کے رسولﷺ آپ کی ذات تو ہر پریشان حال کے دل میں مقام رکھتی ہے، مَیں بھی آپؐ کے لئے ایسا ہی دل لایا ہوں.
فیض صاحب کے ادبی مقام اور ان کے کلام کی تاثیر اور بلند مقام کے معترف آغا شورش کاشمیری بھی تھے، وہ فرماتے ہیں:
فیض کے خامۂ گلرنگ کی گلریزی سے
مَیں تو کیا میرے رفیقوں کو بھی انکار نہیں
اس نے جو کچھ بھی لکھا خوب لکھا خوب لکھا
یہ روایت ہے کہ اس سا کوئی فن کار نہیں