خرم شہزاد گوجرانوالہ
فرزندِ امیر شریعت, حضرت مولانا سید عطاءالمہیمن شاہ بخاریؒ بھی راہی خلدیں بریں ہوگئے۔ حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کے فرزندانِ گرامی بھی کمال خوبیوں اور جامع اور اوصاف کے لحاظ سے ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ بڑے صاحبزادے حضرت مولانا سید ابوزر عطاءالمنعم شاہ بخاریؒ, حضرت مولانا سید عطاءالمحسن شاہ بخاریؒ, خطیبِ بےمثال حضرت مولانا سید عطاءالمؤمن شاہ بخاریؒ کے بعد چوتھے اور آخری فرزند حضرت پیر جی سید عطاءالمہیمن شاہ بخاریؒ بھی گذشتہ روز انتقال فرما گئے تھے, انا للہ وانا الیہ راجعون
راقم کو اُن کی نہ صرف زیارت بلکہ چند ملاقاتوں کی بھی سعادت حاصل رہی ہے۔ ایک مرتبہ حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب مدظلہ اور جناب شبیر احمد خان میواتی کے ہمراہ مجلسِ احرارِ اسلام کے زیرِ اہتمام چناب نگر میں منعقدہ سالانہ دو روزہ تحفظ ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کی سعادت ہوئی۔ اس کانفرنس میں نواسۂ امیر شریعت مولانا سید محمد کفیل شاہ بخاری مدظلہ نے بندہ کو خصوصی دعوت دے رکھی تھی۔ چناب نگر جونہی کانفرنس کے پنڈال میں پہنچے تو سید کفیل شاہ جی پہلے ہمیں حضرت پیر جیؒ کے پاس لے گئے چنانچہ حضرت پیر جی سید عطاءالمہیمن شاہ بخاریؒ سے ملاقات اور ان کے ہاں چائے پینے کی سعادت حاصل ہوگئی۔
میں چھپ چھپا کر حضرت پیرجیؒ اور مولانا زاہدالراشدی کی کیمرے سے تصویر بنانے کی کوشش کر رہا تھا کہ حضرت پیر جیؒ کی مجھ پر نظر پڑ گئی اور جلال و جمال کی کیفیت میں فرمانے لگے:
”گھبرا کیوں رہے ہو ! یہ لو میں اپنی احراری کلہاڑی مولوی صاحب کو پکڑاتا ہوں, اب تسلی سے تصویر بنا لو۔“
اس پر مجلس کشت زعفران بن گئی اور حضرت پیر جی سید عطاءالمہیمن شاہ بخاریؒ, مولانا زاہدالراشدی اور مجلس میں موجود سب حضرات کافی دیر تک اس جملے سے محظوظ ہوتے رہے اور کِھل کِھلاتے رہے۔
(نیچے وہی تصویر نظر آرہی ہے۔)
یوں تو حضرت پیر جیؒ جلالی طبیعت کے مالک تھے مگر اُن کے اس جلال سے بہت ساروں کی اصلاح اور تربیت ہو جایا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ میرا ملتان جانا ہوا تو خانوادۂ امیر شریعت کی زیارت و ملاقات کے لیے محلہ ”دارِ بنی ہاشم“ کا رُخ کیا۔۔۔ صحن میں موجود مونجھ کی چار چائی پر حضرت پیر جیؒ تشریف فرما تھے, آگے بڑھ کر مصافحہ کیا اور اُن کے آس پاس موجود دیگر احباب سے بھی فرداً فرداً مصافحہ کرنے لگا تو انہوں نے منع کرتے ہوئے فرمایا:
”ضروری نہیں آپ سب سے فرداً فرداً مصافحہ کریں, سب کو زبان سے سلام کہہ دیں آپ کا فرض ادا ہو جائے گا۔“
میں وہیں رُک گیا اور یہی عمل کیا۔ بعد میں حال احوال اور تعارف کے بعد اپنے خادم کو جیب سے ایک ہزار روپے کا نوٹ نکال کر فرمایا:
”مہمان کے لیے چائے پانی کا انتظام کرو۔“
ہمارے اکابر کا اندازِ تربیت, شفقت اور تربیت کیسا حکمیانہ ہے کہ جلالی اور جمالی مزاج کے ساتھ ساتھ اپنی شفقت و محبت سے نوازتے ہوئے کس طرح تربیت فرما دیا کرتے تھے۔۔۔۔ رحمہ اللہ تعالیٰ
اللہ تعالیٰ حضرت پیر جیؒ کے درجات بلند فرمائیں اور انہیں برزخی زندگی میں راحتیں ہی راحتیں نصیب فرمائیں. آمین یارب العالمین