پروفیسر خالد شبیر احمد
الزام ہو کے رہ گئی حرفِ وفا کی بات خواب و خیال ہوگئی لطف و عطا کی بات
محور بنی ہوئی ہے میرے ذوق و شوق کا ہاں رسم عاشقی میں تیرے نقش پا کی بات
ہوش و خرد سے رابطے سب میرے کٹ گئے جب سے پڑی ہے کان میں اس خوش نوا کی بات
صر صر سموم و حَبس کی باتیں ہیں چار سو اے کاش کوئی ہوتا، کہ کرتا صبا کی بات
بے مایہ دونوں ہوگئے بازارِ حرص میں قصہ میرے وقار کا تیری انا کی بات
ہاں تیری بزم ناز میں دو ہی تو ہیں حریف حسن طلب کا سلسلہ تیری حیا کی بات
کیوں ڈھونڈھتا ہے پھر کسی آتش نفس کو جی کرتا جو رزم گاہ میں لطفِ فنا کی بات
شکوہ ہے مجھ سے ایک ہی یاروں کو رات دن کرتا ہے دورِ زَر میں بھی خالدؔ خدا کی بات