پروفیسر خالد شبیراحمد
جیسے ہی درد آشنا میرا سخن ہوا
ہر گوشہ میرے فن کا مشک ختن ہوا
تیرے تصورات سے روشن جہانِ من
حرفِ غزل خیال سے تیرے کرن ہوا
پاؤں رہا رکاب میں نہ ہاتھ میں عنان
کن حادثوں کی نذر یہ میرا وطن ہوا
سر میں کسی کے شوق کا سودا نہیں رہا
خالی جنوں سے اس طرح اپنی چلن ہوا
پھولوں میں دلکشی نہ فضاؤں میں تازگی
بے رنگ یوں بہار میں اپنا چمن رہا
پہنا ہے ہر حسین نے شیشے کا پیرہن
بیشِ نگاہ جلوۂ سیمیں بدن ہوا
بیکار ہو کے رہ گئی رفعت خیال کی
کن بے دلوں میں یارائے شعر و سخن ہوا
عکس جمال اس کا میری روح تک گیا
سرمست جس کے عشق سے ہر موئے تن ہوا
کتنا بڑا ہے میری وفاؤں کا یہ صلہ
زخموں کی آب و تاب سے دل انجمن ہوا
میری زبان مل گئی میری وجود کو
اب دل کا ترجمان میرا تن بدن ہوا
خالد تجھے ضمیر کی ہے یوں ملی سزا
کوئی نہ ہمنوا تیرا نے ہم سخن ہوا