سید محمد کفیل بخاری
پی ٹی آئی کی حکومت غریب اور متوسط طبقے پر قہر بن کر نازل ہوئی ہے۔ قرضوں سے نجات، خوش حالی، انصاف کی فراہمی اور قیامِ امن کے دعووں کے ساتھ اقتدار میں لائے گئے حکمران اپنے دعوے پورے کر سکے نہ وعدے وفا کر سکے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ تو یہی ہے کہ یہاں الیکشن پر سلیکشن کو ہی ترجیح دی جاتی رہی ہے۔ ماضی میں تو سلیکٹڈ ٹیم بھی تحفۃً ساتھ دی جاتی تھی، لیکن اس مرتبہ حادثہ یہ ہوا کہ کپتان کو بغیر ٹیم کے اپنے جوہر دکھانے کے لیے میدان میں چھوڑ دیا گیا۔ اب کپتان کے پاس ہر قدم پر یوٹرن لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اور صورتِ حال کچھ ایسی ہے کہ
رستہ نظر آتا ہے تو منزل نہیں ملتی
منزل نظر آتی ہے تو رستہ نہیں ملتا
قرائن سے لگتا ہے کہ وہ وقت قریب ہے جب جاننے کے باوجود کپتان لوگوں سے پوچھے گا:
’’مجھے دھکا کس نے دیا تھا‘‘
گزشتہ ماہ حکومت نے قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پیش کیا، جس پر اپوزیشن کی طرف سے بحث جاری ہے۔ بجٹ کی منظوری حکومت کے لیے کڑا امتحان اور مشکل مرحلہ ہے۔ حقیقتاً ہے کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان پر مسلط کردہ ہے، جس میں عوام کو معاشی طور پر قتل کر کے جینے کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔
26؍ جون کو جمعیت علماءِ اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی صدارت میں کل جماعتی کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ جس میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے علاوہ دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے شرکت کی۔ اے پی سی کے مشترکہ اعلامیے میں بجا طور پر بجٹ کو عوام دشمن قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ جبکہ 25؍ جولائی 2019ء کو ملک بھر میں یومِ سیاہ منانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ یہ حکومت کے خلاف اپوزیشن کی رابطہ عوام مہم کا نقطۂ آغاز ہے۔ دیکھتے ہیں کہ آئندہ دنوں میں اپوزیشن کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
جن کو چور اورلٹیرے قرار دے کر اقتصادی و معاشی پالیسیاں بنائی گئی ہیں، وہ ایک روپیہ بھی دینے کو تیار نہیں۔ ملک ریاض تو 460ارب دے کر پاک صاف ہو گیا اور اس نے سیاست بھی نہیں کرنی۔ نواز اور زرداری نے تو سیاست کرنی ہے، وہ کیونکر تسلیم کریں گے کہ انھوں نے کرپشن کی ہے۔ لہٰذا سارا بوجھ غریب عوام کے کندھوں پر ڈال کر اُن کا جینا محال کر دیا گیا ہے۔
وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ سابق حکومت نے قرضے لیے، ہم اُن کا سود ادا کر رہے ہیں۔ حقائق یہ ہیں کہ نواز شریف حکومت نے دس ہزار ارب قرض لیا، جبکہ عمران خان ابتدائی0 30دنوں میں 5215ارب روپے قرض لے چکے ہیں اور مزید لے رہے ہیں۔ سود الگ ادا کر رہے ہیں اور کرتے رہیں۔
عمران خان گیارہ ماہ سے حکومت کر رہے ہیں، اب تو ’’کرپش فری، نیا پاکستان‘‘ ہے۔ ان کے بقول روزانہ پندرہ ارب روپے کرپش کی نذر ہو رہے تھے۔ اب تو وہ سرکاری خزانے میں محفوظ ہیں، جو گیارہ ماہ میں 5000ارب روپے بنتے ہیں۔ وہ کہاں ہیں؟
عوام کو نوکریاں ملیں نہ رہنے کو گھر، خوشحالی کی جگہ بدحالی نے لے لی ہے۔ انصاف کی جگہ ظلم کا راج ہے، عدالتی فیصلے متنازع بن گئے ہیں۔ نکاح مشکل اور زنا آسان بنایا جا رہا ہے۔ امن مفقود جبکہ دہشت گردی و بدامنی جاری ہے۔
حکمرانوں نے ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ عوام سے بے وفائی حکومت کو لے ڈوبے گی۔ ریاستِ مدینہ کے دعوے داروں نے ریاست کو آئی ایم ایف اور یہودیوں کا غلام بنا دیا ہے۔ قرضوں پر خود کشی کو ترجیح دینے والے وزیر اعظم نے ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھنسا دیا ہے۔ اب ’’نئے پاکستان‘‘ میں ہر بچہ پہلے سے زیادہ مقروض پیدا ہو رہا ہے۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ معاشی طور پر ملک کا بیڑہ غرق اور عوام کو بے حال کر دیا ہے۔ ڈالر 163، پاؤنڈ 203، یورو 184، گیس 200فیصد مہنگی، ڈیزل، پٹرول، بجلی سو فیصد مہنگے، سونا0 1200روپے فی تولہ مہنگا، 400ارب کے ترقیاتی منصوبے ختم، پشاور میٹرو تباہ و برباد، ترقیاتی بجٹ میں 125ارب کی کمی، بیرونی سرمایہ کاری میں 96فیصد کمی، ملک کے اندر سرمایہ کاری متاثر، سرمایہ کار فرار، چہیتے سرمایہ داروں کو 20ارب کی ٹیکس چھوٹ اور عوام پر 1200ارب روپے کا مزید بوجھ ڈالا جائے گا۔
اف خدایا! اتنے ٹیکس، اتنی مہنگائی، اتنے قرضے، ابھی خزانہ نہیں بھرا؟
عوام تو ہر چیز پر ٹیکس دے رہے ہیں اور سب سے زیادہ دے رہے ہیں، جوکسی ریکارڈ پر نہیں۔ پکڑنا تو اُن کو چاہیے جنھوں نے سرمائے کی گردش روک دی ہے، جو ٹیکس چور ہیں، جب وزیر اعظم، اُن کی بہن، اُن کے پارٹی رہنما اور اُن کے وزیر، مشیر بھی چور ہوں ، تو چوروں کو کون پکڑے گا؟ آخر غریب عوام کا ہی گلا گھونٹا جائے گا۔ لیکن کب تک…… حکمران عوام کے صبر کا مزید امتحان نہ لیں، یہ صبر انھیں لے ڈوبے گا۔ عوام کے مسائل حل کریں ورنہ خود حل ہو جائیں گے۔
لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں