جدید سیاسی تاریخ میں موجودہ رجیم واحد مثال ہے جو حکومت کی بجائے حکومت کی پیروڈی نظر آتی ہے۔کسی حکمران نے اپنا ٹھٹھا اڑانے کے لیے مخالفوں کو اتنا مواد نہیں دیا جتنا موجودہ حاکم فراہم کر رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کی قیادت کوجناب عمران خان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہیں تو اناوطاقت ور کرنے کے لیے وہ اُن سے زیادہ محنت کر رہے ہیں۔
وزیرا عظم عمران خان نے حسب معمول ایک بار پھر دُر فنطنیاں چھوڑی ہیں۔ انہوں نے 23دسمبر کو وزارتوں اور 24دسمبر کو پولیس لائنز اسلام آباد میں خطاب کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا قومی پریس کے مطابق اس کا خلاصہ یہ ہے:
’’بغیر تیاری کے حکومت نہیں لینی چاہیے۔ باہر سے جو دیکھ رہے تھے، اندر آکر مختلف نکلا۔ چیزیں سمجھنے میں ڈیڑھ سال لگا۔
پاکستان میں امریکی نظام لانے اور موجودہ نظام پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ نئی حکومت آئے تو امریکی طرز پر پریفنگ دی جائے۔
وزار کا ر کردگی دکھائیں۔ کسی وزیر کوکوئی لابی تنگ کرے تو مجھے بتائیے۔ سوا دو سال رہ گئے۔ یہ بہانہ نہیں چلے گا کہ نئے ہیں، تجربہ نہیں ہے۔ وزارتوں نے پَر فارم نہ کیا تو گورننس بہتر نہیں کرسکیں گے۔
پنشن بوجھ ہے، مہنگائی زیادہ اور تنخواہیں کم ہیں۔ آمدنی بڑھنے تک قوم صبر کرے۔ملک کو صرف اوورسیز پاکستانی ہی آٹھا سکتے ہیں، مگر انہیں اعتماد نہیں۔ رات کو نیند نہیں آتی‘‘
یہ انجام ہے اس تبدیلی اوروژن کا کہ خان صاحب ڈیڑھ دہائی سے جس کی پبلسٹی کرتے پھرتے تھے ۔جب موقع دیا گیا تو اڑھائی برس میں اس ساجھے کی ہنڈیا کو بیچ چورا ہے خود ہی چکنا چور کردیا۔ اسے نا اہلی کے اعتراف کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے؟ تیاری نہیں تھی تو حکومت کیوں لی؟ اپنے طویل دھرنے میں تو آپ کو سب کچھ صاف نظر آرہا تھا جسے درست کرنے کے لیے بلند بانگ دعوے کیے اور عوام کو نوے دن میں تبدیلی کے سہانے سپنے دکھائے لیکن اڑھائی سال میں ہر شعبہ برباد کرکے ملک کو تباہی کی بھینٹ چڑھادیا۔ یادش بخیر ایک محترم دوست کہا کرتے تھے کہ سیاسی لیڈر اقتدار سے پہلے سبز باغ دکھاتے ہیں اور اقتدار ملنے پر قوم کو کالا باغ میں چھوڑ کر فرار ہو جاتے ہیں۔
ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر امریکی نظام لانے کی باتیں اﷲ اوررسول صلی اﷲ علیہ وسلم اورعوام سے دھوکہ ، آئین سے روگردانی اور حلف شکنی کے مترادف ہے۔ ویسے تو امریکی صدارتی نظام ہو یا بر طانوی پارلیمانی دونوں انسانیت کا استحصال ہیں۔حقیقی فلاح سے خالی، مفاد پرستی، سرمایہ کی پرستش اور دنیا و آخرت کی بربادی کے حامل ہیں۔یہ بھی دلچسپ ہے کہ وزیر اعظم صاحب کو امریکی تبدیلی اقتدار کے طریقے کا علم اب ہوا ہے جب ان کے اپنے اقتدار کو اڑھائی برس گزرنے کے بعد امریکہ میں نئے انتخابات کے نتیجے میں تبدیلی اقتدار کے مراحل جاری ہیں، گویا یہ بات بھی ٹی وی سے ہی پتہ چلی ۔
خان صاحب نے جس ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا اور جس آئین کا حلف اٹھایا اس کی پاسداری کا تقاضا تھا کہ وہ آئین کی طلب کے مطابق ملک میں اﷲ تعالیٰ کی حاکمیت اور اسلامی نظام کے نفاذ کا اعلان کرتے، بلکہ خود آئین میں ہی جو غیر اسلامی شقیں گھسائی جا چکی ہیں ان سے نظمِ حکومت کو پاک کرتے، مگرافسوس ان کا اپنا کوئی ایجنڈہ ہے نہ سوچ۔ وہ اُنہی کے مطلب کی کہہ رہے ہیں جو اِنہیں اقتدار میں لائے۔ زبان اِن کی ہے، بات اُن کی۔ عوام کسی خوش فہمی میں نہ رہیں ’’مرگِ امید کے آثار نظر آتے ہیں۔‘‘ عالمی طاغوت کے غلاموں کی سلطنت میں کوئی بہتری آسکتی ہے نہ مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
پنشن بوجھ ہے تو غریب پنشنرز کو ’’کورونا‘‘ میں ڈال دیجئے۔ جنہوں نے تمام عمر ملک اور حکومت کی خدمت کی اور اپنی بہترین صلاحیتوں کو وطن عزیز کی ترقی واستحکام کے لیے وقف کیا، آخری عمر میں انہیں یہ صلہ ملا کہ تم ملک پر بوجھ ہو۔ دنیا میں احسان فرا موشی کی اس سے بدتر کوئی مثال نہیں۔
مہنگائی زیادہ اورتنخوا ہیں کم ہیں تو اس کے ذمہ دار آپ ہیں، عوام نہیں۔ آمدنی کب بڑھے گی اور قوم کب تک صبر کرے گی؟ آخر صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ عوام کے چولہے ٹھنڈے کرکے معاشی طورپر انہیں نچوڑ دیا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو آپ پرکیوں اعتماد نہیں؟ آپ کا یہ اعتراف خود آپ کی دیانت وکارکردگی پرسوالیہ نشان ہے۔ معیشت تباہ، کاروبار کا ستیاناس اور تعلیم کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ دوست ممالک ناراض ہیں، پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ سعودی عرب نے اپنا قرض فوری واپس طلب کر لیا جسے چین سے مانگ کر ادا کیا گیا۔ خارجہ، داخلہ اورخزانہ سمیت ہر اہم ادارے کی زمامِ کارعالمی استعمار کے پشتینی وفاداروں اور سکہ بند گماشتوں کے ہاتھوں میں تھما کر بربادی وتباہی اور خسارے کے سوا حاصل بھی کیا ہوسکتا تھا۔
نا اہل وزرا اورمشیروں کی فوج ظفر موج اکٹھی کرکے اُن سے بہتر کار کردگی کا مطالبہ بجائے خود نالائقی وجہالت ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ہیجڑ وں سے مردانگی کا مظاہرہ کرنے کا تقاضا کیا جائے۔ ایسے بے حس و حرکت اور نیم مردہ وزیروں کوکوئی لابی کیوں تنگ کرے؟ اور اگر کوئی کرے بھی تو وہ آپ کو کیوں بتلائے؟ کہ صورت ِحال تو یہ ہے کہ آپ خود ان سے پوچھ رہے ہیں، کچھ تو بتلاؤ میں کیا کروں؟ وزیرِ اعظم کے مذکورہ بالا عجیب و غریب بیان سے اگلے ہی روز اخبارات میں رپورٹ ہوا کہ خان صاحب نے متعدد وزارتوں سے رپورٹ لینے کے لیے ایک اجلاس شروع کیا مگر غالباً جلد بور ہو جانے کی وجہ سے تفصیلی بریفنگ لیے بغیر اجلاس برخاست کر دیا۔
بے خوابی کا شکوہ کر کے بھی آپ نے اپنے احساسِ جرم کا اعتراف کیا۔عوام کی نیندیں حرام کرکے آپ کو کیسے نیند آسکتی ہے اور عوام کا سکھ چھین کر آپ کیسے سکون پا سکتے ہیں؟یہ مکافات عمل ہے جسے ہر حال میں آپ کو بھگتنا ہے۔
جناب وزیر اعظم آپ کی ناکامی خود آپ پر عیاں ہو چکی ، آئندہ سوا دو برس میں بھی آپ کے ہاں بہتری کی کوئی امید نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ لانے والوں سے معذرت کرکے سجا میدان اور بھرا میلہ چھوڑ کر ’’بیک ٹوپویلین‘‘ کاکوئی باعزت راستہ تلاش کریں۔ زندگی کا آخری حصہ گھر میں آرام سے گزاریں۔ تحریک انصاف کوئی نظریاتی یا مستقل جماعت نہیں۔ اس کی حادثاتی تولید نظریۂ ضرورت کے تحت ہوئی اور ضرورت مندوں نے وقتی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کی پرداخت کی، اس کا کوئی مستقبل نہیں۔ ’’پولیٹیکل لاج‘‘ کے ’’سیلیکٹڈ پرندے‘‘ آئندہ انتخابات میں اڑکر کسی اور قصر کی منڈیر پر بیٹھ جائیں گے اور آپ بنی گالہ میں اپنے ’’ٹائیگرز‘‘ کے ساتھ وقت گزاریں گے، اپنی ناکام حسرتوں پر آنسو بہائیں گے۔ تب شاید آپ کو یہ راز معلوم ہوجائے کہ ’’نیند کیوں رات بھر نہیں آتی‘