سید عطا اللہ شاہ بخاری کا آبائی تعلق گجرات سے تھا لیکن ان کی زندگی کا زیادہ تر وقت امرتسر اور ملتان میں گزرا تھا برصغیر کی جدوجہدِ آزادیِ ہند کے ایک ایسے رہنما تھے جن کی خصوصیت بیک وقت ہندو مسلم رواداری، اسلام ، پنجابیت اور وطنی قوم پرستی (متحدہ ہندوستان اور پاکستان) میں عدل رکھنا تھا۔
شاہ صاحب نے ہندوستان کی آزادی کے لیے “احرار” (Freedom-Fighters) نامی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی تھی جو اگرچہ اپنے پھیلاؤ میں متحدہ پنجاب اور دہلی تک محدود تھی لیکن اپنے منشور اور وابستگیوں میں یہ ایک وطنی قوم پرست جماعت تھی۔
شاہ صاحب نے قیامِ پاکستان سے قبل، تاج برطانیہ کے خلاف اور ہندوستان کی آزادی کے حق میں سڈیشن (بغاوت انگیز تقریر) کے مقدموں میں برطانوی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں کاٹی تھیں۔
سید عطا اللہ شاہ بخاری کی جماعت شہری پنجاب کے مڈل کلاس طبقے میں مقبول تھی اور اس جماعت کا مسلمانوں میں سے ٹاکرا جاگیردار اور سجادہ نشین دیہی اشرافیہ سے ہوا کرتا تھا۔ اسی وجہ سے شاہ صاحب آل انڈیا مسلم لیگ کی بجائے انڈین نیشنل کانگریس کے اتحادی بنے تھے۔ شاہ صاحب کی جماعت اس اتفاقِ رائے پر کانگریس کی اتحادی بن گئی تھی کہ آزادی کے بعد ہندوستان سے جاگیرداری کا خاتمہ کیا جائے گا، ریاست سیکولر ہوگی، اور اردو اور ہندی کی بجائے مشترکہ وطنی قومی زبان “ہندوستانی” دو رسم الخط کے ساتھ لاگو کی جائے گی۔
جب 3 جون 1947ء کو ہندوستان کی تقسیم، بنگال کی تقسیم اور پنجاب کی تقسیم کا اعلان کرکے دو ریاستیں پاکستان اور بھارت بنانے کا فیصلہ منظور کیا گیا تھا تو شاہ صاحب نے کانگریس کے ساتھ کے بغیر ہی تن تنہا ذاتی اور جماعتی حیثیت میں 14 اگست 1947ء کے دن تک اِس فیصلے کی مخالفت کی تھی اور پنجاب اور بنگال کے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ یہ فیصلے کو ماننے سے انکار کردیں لیکن تب پنجابی اور بنگالی ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے پھر رہے تھے اس وجہ سے شاہ صاحب کی اپیل ناکام رہی تھی۔
پاکستان بن جانے کے بعد مغربی پنجاب، مشرقی پنجاب، مغربی بنگال اور مشرقی بنگال سے مسلمانوں اور غیرمسلموں کی جبری بےدخلیوں سے قدرتی ڈیموگرافی بدل جانے کے بعد نئی سرحد وجود میں آگئی تھی تو شاہ صاحب نے مشرقی پنجاب (جہاں مسلمانان تبادلہِ آبادی کی وجہ سے 40فیصد سے 5فیصد سے بھی کم ہوکر رہ گئے تھے) سے نقل مکانی کرکے مغربی پنجاب کے شہر ملتان کی طرف ہجرت کرلی تھی۔ شاہ صاحب نے پاکستان بن جانے کے بعد قیامِ پاکستان کا فیصلہ قبول کیا تھا اور خود کو پاکستان کا مرتے دم تک وفادار ثابت کیا تھا۔
آج مطالعہِ پاکستان میں عطا اللہ شاہ بخاری اور عنایت اللہ المشرقی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ بلا شک و شبہ شاہ صاحب اور المشرقی کا پاکستان بنانے میں براہِ راست کوئی کردار نہیں تھا، لیکن اِن دونوں شخصیات کا کردار پاکستان کے قیام کا موجب بننے والی برصغیر کی آزادی میں براہِ راست نوعیت کا تھا اور پنجاب میں سب سے بڑھ کر حریت پسندانہ کردار انہی دونوں شخصیات کا تھا۔
اور مطالعہ پاکستان کے متوازی اُس کے متبادل میں چلنے والی غیر رسمی اور “دانشوارانہ” تاریخ میں بھی شاہ صاحب کی قربانیوں اور جدوجہد کا کوئی ذکر نہیں ہے، کیونکہ شاہ صاحب نے قیامِ پاکستان کے بعد قادیانی لابی کے خلاف جدوجہد کی تھی اور دوسری وجہ یہ کہ شاہ صاحب “شاہ” ہوکر شیعہ نہیں تھے۔ اور تیسری وجہ اُن کی داڑھی بھی ہوسکتی ہے۔
مجھے عطا اللہ شاہ بخاری کا پتا چلا تو بھارتی مسلمانوں کی بدولت پتا چلا تھا۔ ورنہ مجھ جیسے یہ سمجھتے تھے کہ عطا اللہ شاہ بخاری یا تو ویسٹ سرکلر روڈ گجرات کی ولایت شاہ مسجد والے مولویوں کے جد ہوں گے یا پھر کارلی دروازہ کی عنایت شاہ مسجد والے مولویوں کے کوئی جد ہوں گے۔
بہرحال، آج سکھ اکثریتی بھارتی پنجاب میں احرار تنظیم کی بدولت تقسیم کے بعد سے غیرآباد مساجد کو واپس مسلمانوں کے حوالے کیئے جارہا ہے۔ اس کے پیچھے شاہ صاحب کی وہ باتیں جو وہ پاکستان بننے سے قبل کہا کرتے تھے کہ “ہندو مسلمان بھائی بھائی کی طرح رہیں”۔