مدثر حسین احمد
میں کچھ دیر بیٹھا سوچتا رھا کہ اس کے سوال کا جواب کیسے لکھوں ؟؟ دل نے مداخلت کی ، کہنے لگا عشق جب سچا ہے تو جواب بھی سچ دو ۔ دوسری طرف دماغ تھا جو کہ بڑی دیر سے کچھ سمجھانے کی کوشش میں بولنا چاہ رھا تھا ۔ دل بار بار ایک ہی بات دہرا رھا تھا ۔ دماغ سے برداشت نا ھوا تو بول ہی پڑا “نادان کیا کرنے جا رھا ہے ؟کیونکر تو سچ بولے گا ۔ تیرا نقصان ہے اس میں ۔عشق ابھی نابالغ ہے تیرا سچ اسکا گماں سچ کرے گا پھر تو ہجر کے حوالے کردیا جائے گا میری مان اسکو سچ نا لکھ ، یہ افسانوں میں ہی ہوتا ہے کہ آپ سچ بول کے نقصان نہیں اٹھاتے ”
دل نے گرجدار آواز میں کہا تو عشق کرتا ہے نا ؟؟
جواب ‘ہاں ‘ میں تھا میرا ۔
تیرا عشق سچا ہے کیا ؟؟
جذبات نے جواب دیا ‘بالکل ‘۔
تو پھر کیوں ڈرتا ہے سچ بولنے سے ؟؟؟ بول دے سچ ‘ دل نے حکم لگایا ۔
دماغ مسلسل میری حالت پے غور کر رھا تھا ، دردبھری آواز میں بولا ” کیوں ہجر کی ندی میں ڈوبنے جا رھا ہے ؟؟ وہ نہیں مانے گا ۔ تیرا سچ تیرے لئے وبال جان بن جائے گا ۔ تجھے تیرے عشق کا ہی واسطہ ٹال مٹول کر لے”
پھر۔۔۔۔پھر وقت کی قلّت نے دستک دی۔ ارے کیوں اتنی دیر لگا رھا ہے میں (وقت ) گزر گیا تو پھر ہاتھ ملتے رہنا ۔
اسی کشمکش میں دل کی صدا کو لال سیاہی سے قلمبند کردیا ۔ بنا انجام کے سوچے میں سچ لکھ بیٹھا ۔
اس نے پڑھتے ہی جوابا حکم لکھ بھیجا “میرا وہم درست تھا ۔ تم مجھ سے عشق کا جھوٹا واویلا کرتے رہے ۔ میرا دل ٹوٹ گیا ۔ وہ تو بھلا ہو اسکا جس نے مجھے سب بتایا ۔ تم کہتے تھے نا کچھ بھی کر سکتے ہو میرے لئے تو جاؤ شہر کے اس پار جو ندی ہے ہجر کی ندی اس میں ایک بار غوطہ لگا کے آو پھر اس کے بعد معافی ہوگی ”
عشق جو سچا تھا ۔ تیراکی جانے بنا ندی کی جانب چل دیا ۔ غوطہ لگانے سے پہلے دماغ نے اظہار افسوس کیا ۔ ابّ بھی دل کہہ رھا تھا لگاؤ چھلانگ ۔ پھر کیا ؟؟ پھر میں نے غوطہ لگایا ۔ گہرائی کا اندازہ نا تھا ۔ ندی اتنی گہری تھی کے پچھلے چھ سال سے مسلسل گہرائی میں جا رھا ہوں ۔ نا دم نکل رھا ہے نا ہی کنارہ مل رھا ہے ۔ ملتی ہے تو ہجر کی گہرائی بس ۔