شاہ بلیغ الدین رحمتہ اﷲ علیہ
فرمایا کہ ُاحد کا پہاڑ سونے کا بن جائے اور کوئی یہ پورا سونے کا پہاڑ اﷲ کی راہ میں بانٹ دے اور میرا صحابی ایک مُد، سمجھو کہ ایک مٹھی اﷲ کی راہ میں دے تو جو ثواب میرے صحابی کو ہوگا اس کا آدھا ثواب بھی اسے نہ ملے گا جو سونے کا پہاڑ لُٹادے گا یہ روایت حضرت ابوسعید خُدری رضی اﷲ عنہ نے بیان کی ہے بخاری اور مسلم دونوں میں یہ موجود ہے۔
حضرت انس رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے صحابہ( رضی اﷲ عنہم) کی کیفیت اُمت میں یہ ہے کہ جیسے کھانے میں نمک اگر نمک نہیں تو کھانا بیکا رہے!
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی روایت امام نسائی کے پا س ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تعظیم کرو میرے صحابہ کی اس واسطے کہ وہ تم میں سب سے بہتر ہیں ان کے وہ بہتر ہیں جو ان کے نزدیک ہیں یعنی تابعین۔ صحابہ وہ جنھوں نے ایمان کی حالت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ کی باتیں سنیں۔ تابعین وہ مسلمان جنھوں نے صحابہ رضی اﷲ عنہم کو دیکھا اور ان کی باتیں سنیں ۔جیسے حسن بصری، امام ابوحنیفہ سیدنا جعفر الصادق! ارشاد نبوی ہوا کہ بعد ان کے وہ لوگ ہیں جو ان کے نزدیک رہے یعنی تبع تابعین! یہ یعنی تابعین کو دیکھنے والے مسلمان ہیں۔
سیدہ ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے ایمان لانے کے دن سے قیامت تک جتنے لوگ پیدا ہوں گے ان میں سب سے بہتر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم ہیں۔ حضرت ابوالطفیل عامر بن واثلہ جنھوں نے مکے میں وفات پائی ، استیعاب کی رو سے آخری صحابی تھے جو فوت ہوئے۔ ان کی وفات ۱۰۰ھ یا ۱۰۲ھ میں ہوئی۔ بصرہ میں حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ اب دیہات کے چند بدو ایسے باقی رہ گئے ہیں جنھوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت کی اب ایسا کوئی شخص باقی نہیں رہا جس نے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی ہو۔ یہ بات ۹۳ھ کی ہے یا اس سے ایک سال آگے پیچھے کی ہوگی جب حضرت انس رضی اﷲ عنہ نے انتقال کیا۔ مؤرخین اور محدثین کے عام رحجان کے مطابق شاہ اسماعیل شہید نے لکھا ہے کہ صحابہ رضی اﷲ عنہم کا زمانہ ۱۱۰ھ تک رہا۔ تابعین کا ۱۷۰ھ تک اور تبع تابعین کا زمانہ ۲۶۰ھ تک رہا۔یہی تین بہتر زمانے قرار دیے گئے ہیں۔
حضرت عبداﷲ بن مفضل رضی اﷲ عنہ کی روایت جامع ترمذی میں ہے کہ سرکارِ دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’ ڈرو اﷲ سے خبردار ہو جاؤ اور ڈرو اﷲ سے متنبہ ہو جاؤ اور ڈرو اﷲ سے میرے صحابہ کے بارے میں ہر گز ہر گز میرے بعدان کو تنقید کا نشانہ نہ بنانا۔ جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی، جس نے ان سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا، جس نے انھیں تکلیف دی اس نے مجھے ایذا پہنچائی، جس نے مجھے ایذا پہنچائی اس نے اﷲ تعالیٰ سے دشمنی کی۔ بہت جلد اﷲ تعالیٰ اسے جکڑلے گا‘‘۔
مشکوٰۃ میں جامع ترمذی کے حوالے سے ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا کہتے ہیں تو کہو کہ ان برا کہنے والوں پر اﷲ کی لعنت ہو!
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کا اختلاف امت کے حق میں رحمت تھا، بعد کے لوگوں کا آپس کا اختلاف گمراہی ہے۔ ارشادِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے مجھے بتایا کہ میرے صحابہ رضی اﷲ عنہم آسمان کے تاروں کی طرح روشن ہیں۔ ان میں سے جس کا ہاتھ تھام لیا جائے وہ صراطِ مستقیم کی طرف لے جائے گا کیونکہ تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم عادل تھے جس طرح سفینۂ نوح نجات کا موجب تھا اسی طرح صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم انسانیت کے نجات دہندہ اور رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اہل بیت ہیں یعنی آپ کے گھر والے آپ کے پکے اور سچے پیرو کار!
قرآن نے کہا صحابہ رضی اﷲ عنہم ایک دوسرے کے دوست اور آپس میں رفیق شفیق تھے، اﷲ ان سے راضی اور وہ اﷲ تعالیٰ سے راضی تھے، اسی لیے اصحابِ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو رضی اﷲ عنہم کہا جاتا ہے ، قرآن کے اس لقب سے بہتر ان کے لیے کوئی اور لقب نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنی خوشنودی کا اظہار فرما کر زمین میں ان کو خلافت عطا فرمائی۔ ان کے نام روشن کیے ، اسی لیے جب تک صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم مسلمانوں کے امیر رہے ان کے دور کو خلافتِ راشدہ کہا جاتا ہے۔ خلفائے راشدین چھے تھے۔سیدنا ابوبکر،سیدنا عمر،سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا حسن، سیدنا معاویہ، سیدنا رضوان اﷲ علیہم اجمعین۔ خلافتِ راشدہ میں اسلامی مملکت سو سِ اقصیٰ، پاکستان، سمر قنہ و بخارا تک پھیلی اور جہاں صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم کے قدم گئے سمندر پر زمین پر فتح وکامرانی نے ان کے قدم چومے، وہ علم و حکمت کے امین اور تہذیب و تمدن کے نقیب تھے۔ چشمِ فلک نے ان سے اچھے انسان کبھی نہیں دیکھے۔ اگر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نہ ہوتے تو نہ ہم قرآن و سنت سے واقف ہوتے نہ ہمیں وضو کرنا آتا نہ نماز پڑھنا۔ اس لیے ان کا احسان کبھی نہیں بھلایا جا سکتا۔ دین کو مٹانے کے لیے سبائی فتنہ گروں نے جب کوفہ ، بصرہ، مصر اور ایران میں اپنے چودہ خفیہ اڈے قائم کیے تو جھوٹ کی ان فیکٹریوں سے صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم کو بد نام کرنے کی مہم شروع ہوئی، ورنہ کبھی کسی مسلمان نے ان کی عظمت او رجلالت سے انکار نہیں کیا۔ کیونکہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی محبت تو ایمان کا جزو ہے۔
(مطبوعہ: طوبیٰ)