مولانا محمد زاہد اقبال
فقیہ العصر، استاذ العلماء، پیر طریقت، ولی کامل، شیخ الحدیث والتفسیر حضرت اقدس مولانا مفتی حمید اﷲ جان رحمہ اﷲ 30؍ اکتوبر بروز اتوار اپنے آبائی علاقے لکی مروت میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ’’اِنا لِلّٰہِ واِنا اِلیہِ راجِعون‘‘۔ آپ کا جنازہ 31؍ اکتوبر، بروز سوموار صبح پونے گیارہ بجے کبیر سٹیڈیم لکی مروت شہر میں ادا کیا گیا، جس میں تقریبا ایک لاکھ افرادنے شرکت کی۔ جنازہ پڑھانے کی سعادت عالم اسلام کی معروف شخصیت، استاذ العلماء، شیخ الحدیث، حضرت مولانا سمیع الحق صاحب (امیر جمعیت علماء اسلام ’’س‘‘) نے حاصل کی۔ حضرت اقدس مولانا مفتی حمید اﷲ جان رحمہ اﷲ 6؍ شوال 1359ھ میں ضلع لکی مروت صوبہ خیبر پختونخوا میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی حضرت مولانا نیاز محمد صاحب رحمہ اﷲ اپنے وقت کے جید عالم دین اور مدرسہ امینیہ دہلی کے فاضل اور مفتی اعظم ہند مولانا مفتی کفایت اﷲ صاحب دہلوی رحمہ اﷲ کے شاگرد رشید تھے اور دار العلوم الاسلامیہ لکی مروت کے بانی تھے۔ حضرت مولانا مفتی حمید اﷲ جان رحمہ اﷲ نے جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاون کراچی سے شعبان 1380ھ مطابق 1960ء میں درسِ نظامی سے فراغت حاصل کی۔ صحیح البخاری اور جامع الترمذی فخر المحدثین حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اﷲ سے اور حدیث کی دیگر کتب مولانا لطف اﷲ صاحب (جہانگیرہ والے) مولانا فضل محمد سواتی، حضرت مولانا ادریس میرٹھی اور حضرت مولانا عبد الرشید نعمانی رحمہم اﷲ سے پڑھیں۔
آپ نے شوال 1380ھ سے والد گرامی کے قائم کردہ مدرسہ دار العلوم الاسلامیہ لکی مروت سے تدریس کا آغاز کیا اور دار العلوم سرحد پشاور، دار العلوم ٹل ضلع ہنگو میں درس وتدریس کی سعادت حاصل کی، جبکہ دار العلوم حنفیہ چکوال، جامعہ مخزن العلوم کراچی اور جامعہ اشرفیہ لاہور میں شیخ الحدیث اور صدر مفتی کے فرائض انجام دیتے رہے۔ جامعہ اشرفیہ لاہور میں 13 سال تک علوم فقہ وحدیث کے تشنگان کو سیراب کرتے رہے۔ شوال 1432ھ سے اپنے قائم کردہ مدرسہ جامعۃ الحمید عظیم آباد رائیونڈ روڈ لاہور کے اہتمام کے ساتھ ساتھ شیخ الحدیث والتفسیر کے منصب کو رونق بخشی۔ آپ کو تمام اسلامی علوم میں دسترس حاصل تھی جبکہ حدیث اورفقہ میں اﷲ تعالی نے آپ کو خصوصی فہم اور مہارت عطا فرمائی تھی، آپ کو درس وتدریس اور افہام وتفہیم کاخاص ملکہ حاصل تھا۔ آپ انتہائی شفیق استاد تھے۔
آپ علم وعمل، اخلاص اور ﷲیت کے پیکر تھے۔ آپ حضرت اقدس مولانا عبد العزیز رائے پوری رحمہ اﷲ (خَلیفۂ مجاز، حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری رحمہ اﷲ )سے بیعت ہوئے، آپ کے استاذ حضرت مولانا مفتی حبیب اﷲ رحمہ اﷲ (سابق صدر مدرس دار العلوم الاسلامیہ لکی مروت اور خلیفہ مجاز حضرت اقدس مولانا پیر غلام حبیب نقشبندی رحمہ اﷲ) نے آپ کو نقشبندی سلسلہ میں بیعت وارشاد کی اجازت عطا فرمائی۔ اسی طرح حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری رحمہ اﷲ کے بھانجے اور خلیفہ حضرت مولانا حافظ عبد الوحید رائے پوری رحمہ اﷲ نے چاروں سلسلوں میں آپ کوبیعت وارشاد کی اجازت عطا فرمائی۔ جس کے بعد آپ نے سلوک وارشاد کا سلسلہ شروع کر دیا۔ آپ کے مریدین کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ کراچی،پشاور، راولپنڈی، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، اکوڑہ خٹک، کوئٹہ، پشین کے علاوہ پنجاب کے تقریباً ہر ضلع میں آپ کے مریدین موجود ہیں بالخصوص لاہور، قصور، شیخوپورہ، گوجرنوالہ میں مریدین کا کافی حلقہ ہے۔ تقریبا تیس حضرات کو آپ نے اجازت و خلافت عطا کی ہے۔
آپ درس وتدریس اور تزکیہ وارشاد کے ساتھ ساتھ غلبۂ دین اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے بھی متحرک رہے۔ حافظ الحدیث حضرت مولانا عبد اﷲ درخواستی رحمہ اﷲ (سابق مرکزی امیر جمعیت علما اسلام) کی قیادت اور حضرت مولانا سمیع الحق صاحب امیر جمعیت علماء اسلام (س) کی رفاقت میں سرگرم عمل رہے اور صوبائی جنرل سیکرٹری سے لے کر مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کے عہدوں پر رہ کر شاندار خدمات انجام دیں۔ پاکستان میں شریعت بل کی تحریک میں بھر پور کردار ادا کیا۔ 1974ء کی تحریک ختم نبوت میں بنوں اور لکی مروت میں زبردست جد وجہد کی۔ بالآخر جمہوری سیاست سے مایوس ہو کر جمہوری سیاست کو بالکل چھوڑ دیا۔ پھر جمہوری طریقے سے ہٹ کر غلبۂ دین اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے 2007ء میں تحریک نفاذ اسلام کی بنیاد رکھی۔ جس کے پہلے مرکزی امیر شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ رحمہ اﷲ تھے جبکہ آپ کو مرکزی نائب امیر مقرر کیا گیا۔ اکتوبر 2015ء میں حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی رحمہ اﷲ کی وفات کے بعد آپ کو مرکزی امیر مقرر کیا گیا۔ چنانچہ آپ کی قیادت میں ملک بھر بالخصوص پنجاب میں تحریک نفاذ اسلام کی جد وجہد کو آگے بڑھایا گیا ہے اور اب بھی جاری ہے جو آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔آپ نے درس وتدریس، افتاء، اور تزکیہ وارشاد کے ساتھ تصنیف وتالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا، چناچہ اصول فقہ، فضائل علم، حدیث، ذکر اور دیگر موضوعات پر کتب تصانیف کیں۔ آپ کا درس ترمذی ’’زبدۃ المعارف‘‘ اور مجموعہ فتاوی ’’ارشاد المفتین‘‘ شائع ہوچکا ہے۔ آپ نے لاہور میں رائیونڈ روڈ پر دینی ادارہ جامعۃ الحمید قائم کیا، اسی طرح کراچی اور میاں چنوں میں بھی دینی ادارے ہیں۔ اس کے علاوہ الحمید ٹرسٹ بھی قائم ہے۔
آپ کے پسماندگان میں بیوہ، چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ چاروں فرزندان عالم ہیں اور دینی خدمات میں مصروف عمل ہیں۔ بڑے صاحبزادے مولانا مفتی حبیب اﷲ حقانی کو آپ کا جانشین اور دار العلوم الاسلامیہ لکی مروت کا مہتمم مقرر کیا گیا ہے۔ دوسرے صاحبزادے مولانا کفایت اﷲ دار العلوم الاسلامیہ لکی مروت میں استاذ الحدیث ہیں۔ تیسرے صاحبزادے مولانا خلیل اﷲ جامعۃ الحمید لاہور میں خدمت انجام دیتے ہیں، چوتھے صاحبزادے مولانا مفتی عارف اﷲ کو جامعۃ الحمید لاہور کا مہتمم و شیخ الحدیث اور الحمید ٹرسٹ کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔ اﷲ تعالی حضرت والا کے درجات بلند فرمائے اور آپ کے جاری کیے ہوئے دینی شعبوں کو جاری وساری فرما کر آپ کے لیے ذخیرۂ آخرت بنائے۔