سید محمد کفیل بخاری
انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے سربراہ شیخ الحدیث، فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی رحمتہ اﷲ علیہ ۱۷؍ ربیع الثانی ۱۴۳۸ھ /۱۶؍جنوری ۲۰۱۷ء بروز پیر ساؤتھ افریقہ کے شہر پیٹر میرٹس برگ میں تبلیغی سفر کے دوران ۷۰؍برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ آپ۱۹۴۶ء میں امرتسر (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد ماجد ملک عبدالحق رحمتہ اﷲ علیہ قیام پاکستان کے بعد فیصل آباد آگئے اور کچھ عرصے بعد حجاز مقدس ہجرت کرگئے۔ اس زمانے میں والیٔ حرمین باب ملک کے باہر لوگوں کے مسائل سنتے اور درخواستیں وصول کرتے۔ ملک عبدالحق رحمتہ اﷲ علیہ نے سعودی شہریت کے حصول لیے درخواست دی تو منظور ہوگئی۔ سعودی شہریت ملنے کے بعد پورا خاندان مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر ہوگیا۔ حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی رحمہ اﷲ نے ابتدائی تعلیم مکہ مکرمہ میں ہی حاصل کی۔ مظاہرالعلوم سہارن پور (یوپی انڈیا) سے ۱۳۸۸ھ /۱۹۶۸ء میں دورۂ حدیث کی سند حاصل کی۔ مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ میں تدریس کا آغاز کیا اور پھر حدیث شریف کے اسباق بھی پڑھائے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمتہ اﷲ علیہ سے روحانی تعلق قائم کیا جو فنافی الشیخ کے مقام تک پہنچا۔ ۱۹۶۴ء سے ۱۹۸۲ء تک شیخ کی بے مثال رفاقت حاصل رہی۔آپ شیخ الحدیث کے لاڈلے اورچہیتے خلیفہ مجاز تھے۔آپ کی زندگی میں تبلیغی و اصلاحی رنگ حضرت شیخ کی صحبت کا فیض تھا۔ حضرت شیخ الحدیث کے بعد آپ ہی ان کے حلقے کا مرجع تھے۔ آپ نے مدینہ منورہ میں مطابع الرشید کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا۔ حضرت شیخ الحدیث کی عربی کتابوں کو بڑے اہتمام سے شائع کیا اور دیگر دعوتی و تبلیغی کتب بھی شائع کیں۔ شیخ مکی انتہائی خوش اخلاق، وجیہہ و خوش شکل، جید عالم دین اور روحانی بزرگ تھے۔ خشک صوفی نہ تھے بلکہ بذلہ سنج، حاضر جواب اور فصیح البیان خطیب بھی تھے۔ بزرگوں کی فرماں برداری واکرام اور چھوٹوں پر شفقت ان کا طرۂ امتیاز تھا۔ ابن امیر شریعت قائد احرار حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم ۱۹۷۵ء میں مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور شیخ مکی نے انھیں مطابع الرشید میں خدمت کے لیے مامور کر دیا ساتھ یہ احسان بھی کیا کہ ان کے کفیل بن گئے۔ حضرت پیر جی سید عطا ء المہیمن بخاری مدظلہٗ تقریباً ۱۴؍سال مدینہ منورہ میں رہے۔ اس عرصے میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمتہ اﷲ علیہ کی خانقاہ میں مستقل حاضری اور شیخ عبدالحفیظ مکی کی رفاقت، محبت اور خلوص سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
حضرت مکی جب بھی پاکستان تشریف لاتے تو مجلس احرار اسلام کے اجتماعات میں اہتمام سے شریک ہوتے۔ خصوصاً مسجد احرار چناب نگر کی ختم نبوت کانفرنس میں متعدد مرتبہ شریک ہوئے۔ دارِ بنی ہاشم ملتان اور دفتر احرار لاہور میں بھی تشریف لائے۔ پشاور اور لاہور میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کی کانفرنسوں میں بڑے اصرار کے ساتھ مجھے شرکت اور خطاب کی دعوت دیتے ۔حضرت امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ، آپ کے خاندان اور آپ کی جماعت مجلس احرار اسلام سے بہت محبت فرماتے۔ دسمبر ۲۰۱۳ء میں مجھ عاجز کو ساؤتھ افریقہ کے دورے پر ساتھ لے گئے حضرت مولانا زاہد الراشدی مدظلہٗ، ڈاکٹر عمر فاروق احرار اور پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے کئی علماء بھی مدعو تھے۔ وہاں کیپ ٹاؤن، جوہانس برگ، ڈربن، لنیشیا اور لینزیا میں منعقدہ ختم نبوت کانفرنسوں میں میرا خطاب بھی کرایا، بے انتہاء شفقت اور سرپرستی فرمائی، کبھی نماز فجر کے بعد ’’صلاۃ ٹی‘‘ اور عشاء کے بعد مجلس احباب میں قہوہ اور ڈرائی فروٹ سے میزبانی فرماتے۔ ان مجالس میں علمی و تحقیقی مباحث، تفسیری و حدیثی نکات، سیرت طیبہ او رصحابہ رضی اﷲ عنہم کے ایمان افروز واقعات، شعروغزل، لطائف و ظرائف، سیاست، علماء و مشائخ کی نصائح، غرض سب کچھ ہوتا۔ یہ عجیب سب رنگ مجلس ہوتی۔ شیخ مکی اس میں بھر پور حصہ لیتے لیکن مجال ہے کہیں ابتذال کا کوئی پہلو آئے۔ شیخ مکی ہمیں ’’مرج البحرین‘‘ بھی لے گئے جہاں زمین ختم ہو کر سمندر شروع ہوجاتا ہے وہاں بھی لے گئے، اسی مقام پر ایک خوبصورت مسجد میں نماز مغرب ادا کی،شیخ نے وعظ بھی ارشاد فرمایا۔ واپسی پر عمرہ بھی کرایا اور دعاؤں سے رخصت کیا۔ انھیں تحفظ ختم نبوت کے مشن سے عشق تھا۔ یورپ اور دیگر ممالک میں تحفظِ ختم نبوت کا کام بڑے جذبے سے کیا۔ انٹرنیشنل ختم نبوت کے قیام میں ان کا ذوق اور عشق رسول صلی اﷲ علیہ وسلم شامل تھا۔ وہ اﷲ کے صالح بندے تھے۔ مسافرت کی موت اور وہ بھی اﷲ کے راستے میں ان کے اعمال حسنہ کی قبولیت ہے۔ اورسب سے بڑا اعزاز جنت البقیع میں نبی خاتم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہمسائیگی ہے۔ ۲۰؍ ربیع الثانی ۱۴۳۸ھ /۱۹؍ جنوری ۲۰۱۷ء کو نماز فجر کے بعد مسجد نبوی میں نماز جنازہ ہوئی اور پھر صبح قیامت تک کے لیے بقیع شریف میں آسودہ خاک ہوگئے۔جب روز قیامت حضور صلی اﷲ علیہ وسلم جنت البقیع پہنچیں گے تو سب بقیع والوں کے ساتھ شیخ عبدالحفیظ بھی اٹھیں گے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی معیت و رفاقت میں جنت الفردوس میں داخل ہوں گے۔ ان شاء اﷲ ، اﷲ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کے فرزندان مولانا عبدالرؤف، مولانا عمر، مولانا معاذ اور آپ کے برادران کو صبرِ جمیل عطاء فرمائے اور شیخ کے نقشِ قدم پرچلائے۔ (آمین)