ڈاکٹرعمرفاروق احرار
مارچ کا مہینہ آتے ہی تحریک تحفظ ختم نبوت 1953ء کی رُوح فرسا، یادیں قلب و جگر کے زخم تازہ کر دیتی ہیں۔ اِسی تحریک کے دوران پاکستان کا پہلا مارشل لاء نافذ کر کے اُسے ختم رسالت کے پروانوں ہی کی مقدس جانوں پہ آزمایا گیا اور دس ہزاربےگناہ، معصوم و نہتے بچے، جوان اور بوڑھے شہری ناموسِ رسالت کے تحفظ کی پاداش میں خاک و خون میں تڑپا دیے گئے۔ کبھی کسی نے سوچا ہے کہ اُن پاکباز شہیدوں کا جرم کیا تھا! کیا وہ ریاست کے باغی تھے؟ کیا وہ سیاست و کرسی کے خواہش مند تھے؟ ہرگز، ہرگز نہیں، بلکہ وہ تو تحریکِ مقدس تحفظ ختم نبوت کے ایثار پیشہ کارکن تھے جو صرف اِن تین اصولی مطالبات کی منظوری کے لے چلائی گئی تھی:
1۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔
2۔ قادیانیوں کو کلیدی عہدوں سے فارغ کیا جائے۔
3۔قادیانی وزیرِ خارجہ سر ظفر اللہ خان کو برطرف کیا جائے۔
ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیجیے کہ اِن مطالبات میں نہ تو طلبِ اقتدار کی ہوس جھلکتی ہے اور نہ مال و زر کی خواہش موجودہے، بلکہ اگر کوئی تمنا یاآرزو ہے تو بس یہی ایک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبِ نبوت پر ڈاکہ زنی کرنے والے منکرینِ ختم نبوت کی دستوری حیثیت متعین کر کے اُن کی گستاخانہ قلم اور زبان کو لگام دی جائے۔ تاکہ پھر کوئی منصبِ رسالت کو نقب نہ لگا سکے۔ بس یہی اِن پاک نفسوں کی رُوح کی آواز تھی جو سیالکوٹ، وزیر آباد، ملتان، گوجرانوالہ اور لاہور سے کراچی تک ’’ختم نبوت زندہ باد‘‘ کے نعروں کی شکل میں گونج رہی تھی۔ شیدایانِ ختم نبوت کی اِس صدائے رُستا خیز کو دَبانے کے لیے وقت کے ظالم حکمرانوں نے فوج کے کندھے پر بندوق رکھی اور پھر گولیوں کی تڑتڑ سے لاہور کا مال روڈ اور مسجد وزیر خان کے قرب و جوار دِن رات گونجتے رہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ سیکرٹری دفاع سکندر مرزا نے یہ فرعونی آرڈر جاری کر رکھا تھا کہ: ’’مجھے یہ نہ بتایا جائے کہ کوئی ہنگامہ ختم کر دیا گیا ہے، بلکہ مجھے یہ بتایا جائے کہ وہاں کتنی لاشیں گرائی گئی ہیں؟‘‘
تحریک کا آغاز یکدم نہیں ہوا۔ پس منظر ملاحظہ کیجیے کہ جب پاکستان بن گیا تو مجلس احرار اسلام کے قائدین نے ملکی حالات کا بغور جائزہ لینے کے بعدجنوری 9 194ء میں سیاست سے دستبرداری کا اعلان کیا۔ اپنی جماعتی سرگرمیوں کو اِسلام کی تبلیغ، اصلاح معاشرہ اور تحفظ ختم نبوت کے اہداف تک محدود کر لیا اور سیاسی میدان کو مسلم لیگ کے لیے کھلا چھوڑ دیا تاکہ نوزائیدہ مملکت میں سیاسی بدامنی و محاذ آرائی کے بجائے امن و استحکام اور یکجہتی و اتحاد کی فضا پیدا ہو۔ اُس وقت کی سب سے بڑی حزب اختلاف مجلس احرار اسلام کے سیاسی محاذ کو چھوڑ دینے پر قادیانیوں کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود نے اِس موقع کو غنیمت جانا اور سیاسی میدان خالی دیکھتے ہوئے پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کا دیرینہ منصوبہ زیرِعمل لانے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کے وجود پر یہ پہلا وارتھا جو آستین میں چھپے ہوئے دشمنوں نے کیا۔
چونکہ مرزا بشیر الدین 1948ء میں بلوچستان کو قادیانی صوبہ بنانے کا اعلان کر چکا تھااور اُس کی قیادت میں قادیانی جماعت نے نہ صرف اندرون ملک اپنی سازشوں کے جال پھیلا رکھے تھے، بلکہ قادیانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کے حساس منصب کی بدولت بیرون ملک پاکستانی سفارت خانے جناب حمیدنظامی مرحوم کے بقول: ’’قادیانیوں کی تبلیغ کے مراکز بن چکے تھے۔‘‘ اِس لیے اب قادیانی پاکستان پر اَپنی حکومت کے خواب دیکھنے لگے تھے۔ ان نازک حالات میں مجلس احرار اسلام کے دُور اَندیش رہنماؤں نے تمام مکاتب فکرکو 3؍ جون1952ء کو کُل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے پلیٹ فارم پر متحد کیا اور باقاعدہ تحریک شروع کرنے سے پہلے اپنے مذکورہ بالا تین مطالبات مرتب کیے۔ جنہیں منوانے اور وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو قادیانوں کی تمام سازشوں سے ثبوت اور دلائل کے ساتھ آگاہ کرنے کے لیے اُن سے بارہا مذاکرات کیے، لیکن حکمران طاقت کے نشے اور قادیانیت نوازی کے جوش میں اِس قدر مدہوش تھے کہ انہوں نے مذاکرات کو مجلس عمل کی کمزوری سمجھا۔ مجلس عمل کا قیام عمل میں لانے کی وجہ یہ تھی کہ حالات کی سنگینی یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ حکمرانوں کی بے حسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قادیانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے مئی 1952ء کو کراچی میں قادیانیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اسلام کو ایک سُوکھے ہوئے درخت اور قادیانیت کو خدا کے لگائے ہوئے پودے سے تشبیہ دے کر برسرِ عام اسلام کی توہین کا ارتکاب کر ڈالا۔ ظفر اللہ خان کی اِس ناپاک جسارت نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور عوامی جذبات کا لاوا اُبلنے لگا، اور دوسری طرف مجلس عمل کے جائزترین مطالبات کوحکومتی ایوان کے مسند نشینوں نے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا۔
22؍ جنوری 1953ء کو مجلس عمل نے اِتمام حجت کے لیے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین سے کراچی میں پھر مذاکرات کیے۔ جس پر تہجدگزار خواجہ ناظم الدین نے جواب دیا کہ: ’’اگر میں آپ کے یہ مطالبات مان لوں تو امریکہ ہمیں ایک دانہ گندم بھی نہیں دے گا۔‘‘ اِس کورے جواب کے باوجود مجلس عمل نے اپنے تین نکاتی دینی مطالبات کی منظوری کے لیے حکومت کو مزید ایک ماہ کی مہلت دے دی۔ مجلس عمل کی حکومت کو دی گئی ایک ماہ کی مہلت تیزی سے ختم ہوتی جا رہی تھی، لیکن حکومت ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لیے کوئی بھی قدم اٹھانے پر آمادہ نظر نہیں آ رہی تھی۔ حضرت امیر شریعت مولانا سیّد عطا ء اللہ شاہ بخاری ؒ کی ہدایت پر مجلس عمل کے ایک وفد نے خواجہ ناظم الدین سے یہ معلوم کرنے کے لیے مزیدایک دفعہ پھر ملاقات کی کہ وہ مجلس عمل کے مطالبات کے متعلق کیا روّیہ اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ جس کے جواب میں وزیر اعظم نے حسب سابق واضح کیا کہ مجلس عمل کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جا سکتے۔ 22 فروری کو اَلٹی میٹم کی مدت ختم ہوگئی جس پر24 25 فروری1953ء کی درمیانی شب کو مجلس عمل کے زیر اِہتمام کراچی میں عظیم الشان تحفظ ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی، جس سے تمام مرکزی قائدین نے خطاب کیا۔ کانفرنس کی منظور کردہ متفقہ قرارداد کے مطابق پُرامن تحریک تحفظ ختمِ نبوت کا آغاز کرنے کا اعلان کر دیا گیا، مگر 26،27 فروری 1953ء کی درمیانی شب کو دفتر احرار کراچی پر چھاپہ مار کر مجلس عمل کے مرکزی رہنماؤں سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مولاناسیّد ابوالحسنات قادریؒ، صاحبزادہ سید فیض الحسنؒ، تاج الدین انصاریؒ اور مولانا حامد بدایونی مرحوم سمیت متعدد رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔
اگرچہ پنجاب میں بھی میاں ممتازدولتانہ کی وزارتِ اعلیٰ کی خصوصی ہدایت پر بڑی تعداد میں گرفتاریوں کا سلسلہ جاری تھا، لیکن جب کراچی میں مرکزی رہنماؤں کی گرفتاری کی خبر پنجاب میں پہنچی تو لوگوں کے جذبات مشتعل ہو گئے اور اِحتجاجی جلسوں، جلوسوں اور ہڑتالوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مجلس عمل لاہور نے یہ طے کیا تھا کہ روزانہ پچیس رضاکار گورنمنٹ ہاؤس کے سامنے جا کر رضاکارانہ گرفتاری دیں گے، لیکن جب ہزاروں افراد کے جلوس کے ساتھ یہ رضاکار گورنمنٹ ہاؤس کی جانب بڑھتے تو انہیں راستے ہی میں روک کر گرفتار کر لیا جاتا تھا، جس پر مجلس عمل کے رہنماؤں نے نئی حکمت عملی کے تحت تحریک کا ہیڈ کوارٹر اَحرار پارک (بیرون دہلی دروازہ،لاہور) سے مسجد وزیر خان منتقل کر لیا، مگر وہاں جانے والے رضا کاروں پر پولیس نے شدید لاٹھی چارج کیا جس سے عوام کی بڑی تعداد زخمی ہوئی اور لاتعدادگرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔
3؍مارچ 1953ء کوحکومتی ایماپر فوج آپہنچی اور لاہور شہر عملاً کرفیو کی زد میں آ گیا۔ کرفیو کے باوجود جلوس نکل رہے تھے اور ختم نبوت زندہ باد کہنے کے جرم میں فرزندانِ ختم نبوت پر ڈنڈے برستے رہے،گولیوں کی بوچھاڑ ہوتی رہی اور ساقیٔ کوثر صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانے سینوں پر گولیاں کھا کھا کرتحفظِ ناموسِ رسالت کے لیے جانیں وارتے رہے۔ 5؍ فروری 1953ء کو گوالمنڈی لاہور میں پولیس کے دو اَفسروں نے مسلسل فائرنگ کر کے بےحساب افراد شہید کر دیے، جس سے عوام کے جذبات مزید بھڑکے اور سول نافرمانی، بغاوت میں بدلتے ہوئے صاف دکھائی دینے لگی۔ لاہور شہر میں شہدائے ختم نبوت کے پاک جسموں کے ڈھیر لگ گئے تھے جنہیں ٹرکوں میں لاد کر، چھانگا مانگا کے جنگل میں اجتماعی قبر کھود کر ڈالا جاتا اور پھر تیل چھڑک کر آگ لگا دی جاتی تھی، تاکہ شہیدانِ عشقِ رسالت پناہ کا نام و نشاں مٹ جائے، لیکن اُن بد بختوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ جاں نثارانِ رسول تو مر کر بھی زندہ رہتے ہیں۔ اُن سنگ دل قاتلوں کو کیا خبر تھی کہ اِن بےگناہوں کا مقدس خون کتنی جلدی رنگ لائے گا اورستم گر ہی بالآخر ذلیل و رُسوا اور بےنام و نشاں ہو کرخاک میں مل جائیں گے۔
لاہور کی تاریخ کا یہ نازک ترین دور تھا جب پابندیاں، تعزیریں، ظلم و تشدد اور گولیاں بھی احرار رضا کاروں اور تحفظِ ختم نبوت کے مجاہدوں کے متلاطم جذبات کے آگے بند باندھنے میں مکمل طور پر ناکام ہو رہی تھیں۔ 6 ؍مارچ 1953ء کو لاہور میں مارشل لاء نافذ کر دیاگیا۔ حکمرانوں نے نہتے مسلمانوں پر ظلم و تشددکی تاریخ کا ایک اور تاریک باب رقم کیا۔ ریاستی اداروں کے ہاتھوں تحریک تحفظ ختم نبوت کے دوران دس ہزار سے زائد فرزندانِ اسلام، جناب ِنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس و منصب کی حفاظت کے مطالبہ کے جرم میں اپنے ہی خون میں نہلا دیے گئے اور ہزاروں بےگناہ مسلمانوں کو شاہی قلعہ اور جیلوں میں ٹھونس کر پولیس کے وحشی درندوں کے آگے ڈال دیا گیا۔
اگرچہ تحریکِ مقدس تحریک تحفظ ختم نبوت ریاستی ظلم و جبر کے ہتھکنڈوں سے کچل دی گئی، لیکن آنے والے دور نے شہدائے ختم نبوت کی صداقت، بےغرضی، اخلاص اور جرأت ِبے پناہ کوسلام پیش کیا۔ اُن کا خونِ بےگناہی رنگ لایا اور جن تین بنیادی مطالبات کی منظوری کے لیے اُن پاک نفسوں نے اپنی ناتواں جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا، ایک ایک کر کے وہ تینوں مطالبات کافی حد تک پورے ہوتے گئے۔ اِسی تحریک کے نتیجے میں سر ظفر اللہ قادیانی رُسوا ہوا، اور عمر بھر وہ اقتدار کو ترستے، ایڑیاں رگڑتے ہوئے مرا۔ قادیانی غیر مسلم اقلیت قرار پائے۔ اگرچہ کلیدی عہدوں سے قادیانیوں کی مکمل برطرفی تاحال عمل میں نہیں آئی، لیکن عملاً اُن کی وہ پہلی حاکمانہ حیثیت باقی نہیں رہی ہے۔
اگر تحریک تحفظ ختم نبوت کے مطالبات مان لیے جاتے تو سر ظفر اللہ خان قادیانی کی جانبدارانہ خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان امریکہ کی غلامی میں نہ آتا اور سیٹو اور سینٹو جیسے رُسوائے زمانہ معاہدوں پر دستخط کر کے پاکستان کی خود مختاری کو داؤ پر نہ لگایا جاسکتا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں قادیانیوں کی فرقان بٹالین، پاکستانی فوج کو بےدست و پا نہ کرسکتی۔ قادیانی جرنیل جنرل اختر ملک پاک آرمی کی ہزیمت کاسبب نہ بنتا۔ پلاننگ کمیشن کے سابق ڈپٹی چیئر مین ایم ایم احمد قادیانی کی ملک دشمن سازشیں کامیاب نہ ہو سکتیں اور ملک کا مشرقی حصہ علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش نہ کہلاتا۔ قادیانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان کے ایٹمی راز اَمریکہ اور برطانیہ کے حضور پیش کرنے کی جرأت نہ کرسکتا۔ موجودہ حکمران غیروں کی خوشنودی کے لیے قائداعظم یونیورسٹی کے نیشنل سینٹر فار فزکس کو ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے منسوب نہ کر سکتے، قانونِ توہین رسالت میں تبدیلی کے عملی اقدامات نہ ہوتے۔ کوئی مقتدر قوت قادیانیوں کو چناب نگر کے تعلیمی ادارے واپس کرنے کی سازشیں گرم نہ کرسکتی اور نہ دُوالمیال ضلع چکوال میں مسلمانوں کا قتل اور انہیں گرفتار کر کے ظلم و تشدد کا نشانہ بنانے کا ارتکاب کیا جاسکتاتھا۔
افسوس، صدافسوس! کہ حاکمانِ وقت نے عارضی قوت و اِقتدارکے نشہ میں بدمست ہو کر پاکستان کے اِن جاں نثار و وفادار شہدائے ختم نبوت کی صدائے حق پر کان نہ دھرے، بلکہ اُن کو آہن و بارود سے بھسم کر ڈالا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وطن عزیز غیروں کی غلامی میں چلا گیا اور ریاست کے اقتدار پر وہ لوگ قابض ہوتے چلے گئے جن کا مذہب دولت و حکومت، جن کا مسلک بےحمیتی و بےوفائی اور جن کا آبائی پیشہ و شعار فرنگ پرستی اور ناموسِ رسالت کے دشمنوں کے ساتھ جنم جنم کی دوستی رہی ہے۔ یہ انجامِ بد ہے، شہیدانِ ختم رسالت پر ظلم و درندگی اور اُن کی صدا پر کان نہ دھرنے کا! کہ جس کا خمیازہ آج تک بحیثیت قوم ہم بھگت رہے ہیں۔ رہے وہ خلد آشیاں، ناموسِ رسالت پر قربان ہونے والے عظیم شہداء کہ ہمارے لیے اُن کا تذکرہ باعثِ اَجر و ثواب اور اُن کی راہوں کاچلن ہمارا نشانِ منزل ہے۔ اللہ کے حضور اُن مقدس نفوس کا مقام و مرتبہ ہمارے وہم و گمان سے بھی بلند و بالا ہے۔ بقول جانشین امیرشریعت ؒحضرت مولانا سید ابو ذر بخاریؒ:
شہیدِ عشقِ محمد ﷺ کا احترام کرو
کہ اُس سے حشروبرزخ میں احتساب نہیں