ڈاکٹرعمرفاروق احرار
ہمارے سیاست دان بڑی معصومیت سے ارشادکیاکرتے ہیں کہ ہم تو سیاست ،خدمت سمجھ کرکرتے ہیں،لیکن اُن کی ’’سیاست‘‘ اور’’خدمت‘‘کسی دوسرے کے لیے نہیں ،بلکہ اپنی ذات اوراپنے ہی خاندان کے لیے ہواکرتی ہے۔وہ دورلَد گیا ،جب سیاست کو واقعی خدمت کا درجہ حاصل تھا ۔کیا سیاست دان اورکیارائے دہندگان! سبھی میدانِ سیاست میں اجلے اورپاک دامن ہواکرتے تھے۔1937ء میں امرتسرکے انتحابی معرکے میں مجلس احراراسلام کے رہنماشیخ حسام الدین اورمسلم لیگ کے امیدوارشیخ صادق حسین مدمقابل تھے۔انتخابات میں شیخ حسام الدین کامیاب قرارپائے تو شیخ صادق نے دوبارہ ووٹنگ کے لیے عذرداری دائرکی۔دوبارہ ووٹ ڈالے گئے تو دونوں امیدواروں کوکم نہ زیادہ،بلکہ پہلے جتنے ووٹ ہی ملے ۔یہ ووٹروں کی دیانت کانادر مظاہرہ تھا۔وہ لوگ مناقت سے کوسوں دُوراورہارس ٹریڈنگ کے مکروہ لفظ ہی سے ناآشنا تھے۔وہ جس کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ،کٹ جاتے ،مگر بے وفائی کا تصوربھی حاشیۂ خیال میں نہ لاتے تھے۔ وہ لوگ بھی آخر اِنسان تھے۔اُن کی بھی ضروریاتِ زندگی تھیں،بیوی بچے تھے ۔سیاست بھی کرتے ،آزادئ وطن کی خاطر جیلوں کو بھی آبادکرتے اور رُوکھی سوکھی کھا کرقوم کی خدمت کیا کرتے تھے۔سیاست دان اورعوام کرداراورگفتارمیں آئینہ تھے۔منافقت اوروعدہ خلافی سے وہ کوسوں دُورتھے۔جب تیس کی دہائی میں ایک کانگریسی رہنماڈاکٹر محمدعالم نے یکے بعددیگرے کئی جماعتیں بدلیں تووہ ہمیشہ کے لیے ’’عالم لوٹا‘‘قرارپائے۔ آج پارٹی بدلنا اورعہدسے پھر جانا ’’سیاسی حکمت عملی ‘‘ کہلاتاہے۔اُس عہدکے بیشتر رہنمااورکارکن ایک دوسرے کے ساتھ مخلص تھے،یہی وجہ تھی کہ کارکن اپنے قائدین پر جان دیتے تھے۔اگر آج سٹریٹ ورکر نظر نہیں آتاتو اُس کی وجہ یہی ہے کہ موجودہ سیاست ایک کاروباربن گئی ہے اورقائد سے کارکن تک ہرایک لُٹنے نہیں، لُوٹنے کی فکر میں ہے۔اب نظریات نہیں ،مفادات ہیں۔سیاست نہیں،منافقت ہے۔
اب سیاست برائے خدمت نہیں،سیاست برائے حکومت ہے۔خودسیاسی جماعتوں کے اندرجمہوریت نہیں،وراثتی آمریت ہے۔جمہوریت کے نام پر خاندانی شہنشاہیت مسلط ہے۔بے حسی اورغلامانہ سوچ کی انتہا دیکھئے کہ کارکن بھی ایسے ہیں کہ اس بدترین نسلی آمریت کا کلادہ بخوشی اپنی گردنوں میں ڈالے پھرتے ہیں۔گویا وہ کارکن نہیں،مزارعے ہیں۔شخصیت پرستی برصغیرکا عمومی مزاج رہاہے۔یہ وہ منفی رویّہ ہے جو اَپنے لیڈرکی ہربری بات کو بھی اچھاہی ثابت کرتاہے۔ہم یہ کبھی نہیں سوچتے کہ ہمارامخالف بھی سچا ہوسکتاہے،یاہمارے مخالف کا مؤقف ،ہمارے رہنما کی نسبت حقیقت کے قریب ترین ہوسکتاہے!براہو،ہماری شخصیت پرستی کا ! کہ اس نے ہماری سوچ وفکر کو مفلوج کرکے رکھ دیاہے۔ سچ کہا ہے کسی نے کہ :’’اندھی تقلید اور شخصیت پرستی ہمیشہ ایک بانجھ سوسائٹی پیدا کرتی ہے، جس میں آنکھیں تو سب کے پاس ہوتی ہیں لیکن بینائی کسی کے پاس نہیں ہوتی۔‘‘ایک بانجھ معاشرہ خاندانی غلام تو پیداکرسکتاہے کہ جس کے پاس دل ودماغ تو ہوتاہے ،مگر اُس کا رِیموٹ کنٹرول کسی اورکے پاس ہوتاہے۔بانجھ معاشرہ منجمدفکراورمفلوج سوچ پیداکرتاہے اورفکری انجماد اخلاقی بدعنوانیوں کا نقطۂ آغازہے۔قومیں معاشی بدحالی سے نہیں ،اخلاقی ابتریوں سے تباہ ہواکرتی ہیں۔
جاگیرداری نظام میں جاگیردارانہ وراثت ہی منتقل نہیں ہوتی،بلکہ جاگیردارانہ سوچ اوررویّے بھی خون اورجینز کے ذریعے منتقل ہوتے ہیں۔قائداعظم ؒ کے عہدحکومت(1948) میں قائم کی گئی مسلم لیگ کی زرعی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ: ’’ بڑے بڑے زمینداروں کی زمینوں کے حقوق ملکیت کا جائزہ لیا جائے تو شاید کوئی بھی اپنا وجود 1857ء کی جنگ آزادی سے پہلے کی تاریخ کا ثابت نہ کر سکے۔ ‘‘ یعنی ہمارے جاگیرداروں کوتمام تر اَراضیاں قوم سے غداریوں کے صلے میں ملی تھیں۔پاکستان بنا تو یہی وڈیرے ہمارے حاکم بن بیٹھے۔اس وقت کی ایک رپورٹ کے مطابق 22مقتدرخاندان تھے تو جو پاکستان کے ہرمحکمے پر قابض تھے ،مگر آج جاگیردار صنعت کاروں میں بدل گئے ہیں اوراُن کے ساتھ تیسراطبقہ کالے دھن والے نودولتیوں کا ہے ۔اب عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ، کون سا شعبۂ زندگی ہے کہ جس پر اِس مثلث کا تسلط نہیں ہے۔ صوبائی و قومی اسمبلیوں اور سینیٹ کے ایوانوں میں بھی انہی کا قبضہ ہے۔دھاندلی، دھونس، ہارس ٹریڈنگ اورتباہ کن کرپشن کے ریکارڈ اِنہی خاندانوں کے شہزادوں ہی نے توڑے ہیں۔اب ملک میں دوبڑی پارٹیاں ہیں۔ مسلم لیگ اورپیپلزپارٹی ۔انہوں نے ایکا کررکھاہے کہ باری باری حکومت کریں گے۔انہوں نے پارٹیوں پر خاندانی وراثت کا نظام بھی متعارف کرایاہے۔اب اگر نوازشریف وزیراعظم ہیں تو مستقبل کی وزیراعظم کے لیے وہ اپنی بیٹی مریم نواز کوسیاسی میدان میں اتارچکے ہیں۔اِسی طرح اگر بلاول بھٹوکہتے ہیں کہ میں ہی 2018 میں وزیراعظم بنوں گا تو وہ سچ ہی کہتے ہیں۔پشتینی غلام ،بلاول کے نعرے ’’اگلی باری،پھر زرداری ‘‘کو عملی شکل دینے کے لیے سرگرم عمل ہوگئے ہیں۔مستقبل کے نامزدحکمرانوں مریم نوازاوربلاول بھٹکے ہوتے ہوئے ،کسی بھی لیگی یاکسی جیالے کی جرأت ہی نہیں ہے کہ وہ وزارتِ عظمیٰ کی تمناہی کرسکے! مسلم لیگ اورپیپلزپارٹی جو کبھی نظریاتی جماعت کہلاتی تھیں۔ایک عرصہ سے خاندانی وراثت کا شکارہوکرمفاداتی گروہ کا رُوپ اختیارکرچکی ہیں۔یہ دونوں پارٹیاں وڈیروں،جاگیرداروں اورصنعت کاروں کی پارٹیاں ہیں۔اب سرمایہ داری نظام اورجاگیرداری نظام مل کر حکومت بناتے ہیں۔سیاست پر اِن کا ہولڈ ہے اوراِن کاایجنڈا غربت یاغریبی ختم کرنا نہیں ،بلکہ غریبوں سے ووٹ لینااورغریبوں کا خون نچوڑناہے۔سیاست عام آدمی کے بس کا کام نہیں رہا،بلکہ یہ دولت مندوں کاایسانفع بخش کاروباربن چکا ہے کہ جس کا عوام اورعوامی مسائل سے کوئی تعلق اورسروکارنہیں ہے۔
سیاست اورکرپشن لازم وملزوم ہوچکے ہیں۔حالت یہ ہے کہ نیب میں سابق وزیراعظم آصف زرداری کے خلاف غیرقانونی طورپر کمائے جانے والے ڈیڑھ کھرب روپے کی تحقیقا ت جاری ہیں اورایس جی ایس کوٹیکنا،سرے محل،عوامی ٹریکٹرسکیم اورفرانسیسی کمپنی سے معاہدے میں کمیشن کھانے کے الزامات کے مقدمات اس کے علاوہ ہیں۔میاں نوازشریف نے گڈگورنس کی نویدسنائی تھی ،لیکن حالات یہ ہیں کہ پانامہ لیکس کے معاملات تو ایک طرف رہے،برطانوی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق پنجاب اورسندھ کو70کروڑپاؤنڈکی ملنے والی امدادعوام تک پہنچنے سے پہلے ہی کرپشن کا شکارہوچکی ۔ملک میں روزگارملنے کی بجائے پندرہ لاکھ نئے بیروزگاروں کا اضافہ ہوگیاہے اورروزگارکی تلاش میں گزشتہ سال دس لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ چکے ہیں۔
سیاست دانوں کی بے لگامی نے ملک کو داؤپر لگادیاہے۔مروجہ سیاست میں کسی اصول کی پاس داری کی جاتی ہے اورنہ کسی ضابطے کی پیروی،بلکہ دھڑلّے سے کہاجاتاہے کہ :’’جناب! سیاست میں سب جائزہے۔سیاست میں کوئی بات حرفِ آخرنہیں ہے۔‘‘آخر کیوں ؟سب جائزکیوں ہے اورکوئی بات حتمی کیوں نہیں!اصول اوردیانت بھی کسی چیزکا نام ہے! مولانا عبیداللہ سندھی کے نزدیک ’’سیاست تدبیرواِنتظام کا نام ہے۔‘‘ریاست کا تدبیر واِنتظام ان مفاداتی سیاست دانوں کے سپرد کرنا،قومی دیوالیہ پن ہے۔جب تک یہ کرپٹ، ظالمانہ نظامِ سیاست تبدیل نہ ہوگا۔انتخابات ہوں،یاآمریت آئے ،اقتدارپر یہی بدعنوان عناصرچہرہ بدل کر،نسل درنسل براجمان ہوتے رہیں گے۔بے رحمانہ احتساب اورنظام کی تبدیلی کے بغیرملکی سیاست میں انقلاب، دیوانے کا خواب ہے۔