سید محمد کفیل بخاری
ملکی حالات بڑی برق رفتاری کے ساتھ خرابی کی طرف جا رہے ہیں۔ دھرنوں اور احتجاجی ریلیوں نے کاروبارِ زندگی مفلوج کر دیا ہے۔ قتل، اغواء، آبرو ریزی کے وحشیانہ واقعات نے عوام کے ذہنوں پر خوف طاری کر دیا ہے۔ حکمرانوں اور سیاست دانوں کو تو صرف اپنے اقتدار کی فکر ہے۔ قوم کس کرب سے گزر رہی ہے انھیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ ڈی چوک دھرنے سے شروع ہونے والا خطرناک کھیل، فیض آباد اور داتا دربار سے ہوتا ہوا سیال شریف پہنچ کر اختتام پذیر ہو گیا۔ لیکن اس دوران واقعات و سانحات قابلِ افسوس بھی ہیں اور باعثِ عبرت بھی۔ اگرچہ ہم تحریک پاکستان، قیامِ پاکستان، دستورِ پاکستان اور اب پیغامِ پاکستان کے قومی بیانیے تک ستر سالہ سفر طے کر آئے ہیں لیکن ملک ابھی تک سیاسی اور معاشی بحرانوں کے بھنور میں ڈبکیاں لے رہا ہے۔ صرف سڑکیں اور پل بنانے سے تو ملک ترقی نہیں کرتے۔ جب تک تعلیمی، اخلاقی، معاشی اور سیاسی شعبوں میں اصلاح و ترقی نہیں ہوتی حالات جوں کے توں رہیں گے۔
ہر طرف حکمرانوں کی کرپشن اور لوٹ مار کی دُہائی ہے۔ آئین و دستور ہی کسی ریاست کی بنیاد و اساس ہوتا ہے۔ دستورِ پاکستان، دنیا کے تمام اسلامی ممالک کے دساتیر کے مقابلے میں بہترین دستور ہے، اگر حکمران اسی پر عمل پیرا ہوتے اور اپنے حلف کی پاسداری کرتے تو حالات مختلف ہوتے۔ لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ حلف اٹھانے والوں کی زبان اُن کے دل کی رفیق نہیں۔ قوم میں سیاسی شعور بیدار ہی نہیں ہونے دیا گیا، تھوڑا بہت جو موجود تھا اسے بھی ختم کر دیا گیا۔ قوم بار بار انھی لوگوں کو ہی منتخب کر کے ایوانِ اقتدار میں پہنچاتی ہے جس کے نتائج قوم اور حکمران دونوں بھگت رہے ہیں۔
قصور میں معصوم زینب اور مردان میں اسماء کا ظالمانہ قتل، کراچی میں نقیب اﷲ اور اس کے ساتھیوں کا جعلی پولیس مقابلے میں سفاکانہ قتل اور شبقدر میں حافظ قرآن کالج کے پرنسپل کا ایک طالب علم کے ہاتھوں قتل، یہ تو چند تازہ ترین سانحات ہیں جو ذرائع ابلاغ میں نمایاں ہو گئے، ورنہ ایسے درد ناک سانحات روز مرہ کا معمول ہیں اور ماضی میں ہونے والے واقعات لا تعداد ہیں۔ کتنے مجرموں کو سزا ہوئی؟ قانون موجود ہے لیکن سزا عنقا۔ اوّل تو قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے، اگر صحیح استعمال ہو تو نافذ کرنے والے ادارے ہی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ جعلی پولیس مقابلوں میں ہلاکتیں باقاعدہ کلچر بن گیا ہے۔ زینب کے والد کا چیف جسٹس اور آرمی چیف کو انصاف کے لیے پکارنا موجودہ نظام پر عدمِ اعتماد نہیں تو اور کیا ہے؟ پھر چیف جسٹس کی طرف سے قاتل عمران کی سیکورٹی کا ذمہ دار آئی جی کو قرار دینا بھی کسی حادثے کو روکنے کا غماز ہی تو ہے۔ آج زینب کے قاتل کو سرِ عام پھانسی دینے کا مطالبہ وہ لوگ بھی کر رہے ہیں جو ماضی میں شرعی سزاؤں کو ظالمانہ قرار دیتے رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر صحیح معنوں میں حدود اﷲ کا نفاذ کر دیا جائے تو مظلوموں کو انصاف ملے گا، امن قائم ہو گا اور حکمرانوں پر عوام کا اعتماد بھی بحال ہو گا۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی اُلٹ ہے، ڈارون کے نظریۂ ارتقا کی پیداوار دانش ور حکمرانوں نے جنسی تشدد کی روک تھام کا حل یہ نکالا کہ بچوں کو نصاب میں جنسی تعلیم دی جائے۔ جہاں نقیب اﷲ اور اسماء کے قاتل دندنا رہے ہوں، حکمران اور سیاست دان اُن کے پشت پناہ اور محافظ ہوں، وہاں کیا انصاف اور کیا امن؟ مقتدر اشرافیہ کو تو فی الحال مارچ میں سینٹ اور پھر عام انتخابات 2018ء کی فکر ہے۔ انصاف کا علم بردار ابھی تک ’’ایمپائر کی انگلی‘‘ کھڑے ہونے کا منتظر ہے۔ شیر پوچھتا پھرتا ہے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘؟ ’’بابا کامیڈین (کینیڈین)‘‘ تماشا دکھا کر فَفِرّو ہونے والا ہے اور وہ جو ’’سب پہ بھاری‘‘ ہے ان تینوں پر قہقہے لگا کر دانت دکھا رہا ہے۔
اﷲ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ ان حالات کے تناظر میں مجھے امام سید ابوذر بخاریؒ کے چند اشعار یاد آ گئے
تماشا ہے کہ سب دانا بنے ہیں احمق اور جَھلُّو
سمجھ انجام گلشن کا کہ ہے ہر شاخ پہ اُلُّو
عجب حالات ہیں اپنے، ہے کون انکو جو سلجھائے
وہی دانا ہے جو اپنا بچا لے دامن اور پلُّو
اِدھر بہروپیوں سے دین میں گڑبڑ گھٹالا ہے
سیاست ہے اُدھر چرّیٹ، دھوکا، گھپلا اور جھُرلو
مَصَافِ زندگی میں کوئی بھی حق کا نہیں ساتھی
مگر کہنے کو سب عاشق فَاِنْ جُزْءٌ وَلَو کُلُّو
فقط اغراض کی ہے جنگ اور گھمسان کا رن ہے
کہ لیڈر ڈوبنا چاہیں تو کافی ان کو ہے چُلُّو
اکھاڑہ بن گیا ہے تخریب و سازش کا یہ ملک آخر
خدا حافظ ہے ورنہ اس کو مشکل ہے نظر بٹو