پروفیسر محسن عثمانی ندوی
ملک عبد العزیز سعودی عرب کے ایک دیندار حکمران تھے، شاہ فیصل اسی سعودی خاندان کے بیدار مغزاسلامی حمیت سے لبریز اور مسلمانوں کے خیرخواہ بادشاہ تھے،عالم عرب کی دینی تحریک اخوان المسلمون کے ہمدردتھے، اور انہوں نے مغربی طاقتوں کو تیل کی سپلائی بند کرنے کا تاریخی قدم اٹھایا تھا۔ اسی خاندان کا اب ایک ولی عہد اسلام کو رسوا کرنے والا اور مغربی طاقتوں اور امریکہ کے چشم وابرو کو دیکھ کر چلنے والا اور اخوان کو دہشت گرد قرار دینے والابد اطوار شہزادہ ہے جو حرمین شریفین کی سرزمین میں رسوا کن تبدیلیوں کا اور مغربی ثقافت کا اور فسق وفجور کاعلم بردار ہے۔ایک فارسی شاعر غنی‘‘ نے کہا تھا اس پیر کنعان کی بد قسمتی اور غم کا کیا حال بیان کیا جائے کہ جس کے صاحب زادے نے یوسفی کا نام روشن کرنے کے بجائے زلیخائے وقت کی دلی آرزو اور گناہ کی تمنا پوری کردی اور اس کے دام ہوس کا شکار ہوگیا اور خاندان کی عزت کو داغدار کردیا۔
غنی روز سیاہِ پیر کنعاں را تماشاکن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را
سعودی عرب میں اس وقت جو تبدیلیاں آرہی ہیں اس کا آغاز ۶۰ ۔۷۰سال پہلے شروع ہوگیا تھا، شروع میں زیادہ تر لوگوں کو اس کا احساس نہیں ہوسکا تھا۔۱۹۵۰ میں مولانا ابو الحسن علی ندوی نے مکہ مکرمہ سے اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر عبدالعلی صاحب کو خط لکھا تھااس میں اپنے شدید رنج وتاثر کا اظہار کیا تھا، اس میں یہ جملہ موجود ہے کہ’’عالم اسلام کا قبلہ بیشک مکہ مکرمہ ہے لیکن مکہ مکرمہ (سعودی عرب)کا قبلہ امریکہ بن گیا ہے۔‘‘ انہوں نے حقیقت حال کی ایسی سچی تصویراپنے موئے قلم سے کھینچی تھی جس سے بہتر تصویر ممکن نہیں تھی۔انہوں نے خط میں لکھا تھا کہ’’ خالص عربی لباس میں کتنے ہی دل ودماغ خالص مغربی بن چکے ہیں‘‘اب پچھلے چند برسوں سے یہ تبدیلیاں اور برائیاں انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ سعودی عرب میں داخل ہونے لگی ہیں اور ملک کی تہذیب ومعاشرت کوچشم زدن میں بدل دینے اور امریکی ثقافت کے ہم دوش بنادینے کی کوشش ہورہی ہے۔سینما ہال اور تھیٹر وبائے عام کی طرح پھیلتے جارہے ہیں۔ شاید وہ دن بھی آنے والے ہیں جب’’ بنے گا سارا جہاں میخانہ، ہر کوئی بادہ خوار ہوگا‘‘۔ سعودی عرب کے حکمران جنہیں اپنے ملک کو امریکہ اور مغرب کی عسکری طاقت اور صنعتی طاقت کا ہمسر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی اور اسلامی تہذیب وتمدن کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کرنی چاہیے تھی، جنہیں مسجد اقصی کا غم ایسا ہونا چاہیے تھا جیسا کسی ماں کا غم ہوتا ہے جس کا بچہ موت کی آغوش میں چلا جائے اور ان کے اندر ایسی حمیت ہونی چاہیے تھی کہ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کا وجود برداشت نہ کرسکے۔ لیکن یہ حکمراں قصدا اور عمدا تعیش اور تفریح کا ذوق عوام وخواص سب پر مسلط کر رہے ہیں۔ عریاں رقص اور بے حیائی کے مناظر کو فروغ دیا جارہا ہے۔ اب یہ حال ہوگیا ہے کہ دنیا کے ہر مسلمان کی زبان پر یہ مصرعہ ہے چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا ماندمسلمانی‘‘ سعودی عرب دینی و اخلاقی خود کشی کی طرف جارہا ہے۔ اخلاقی قدریں پامال اور بد اخلاقی کے پودے نہال ہیں، ہر مسلمان کو درد وغم ہے کہ سعودی حکمران اب مغربی تہذیب اور اباحیت اور اخلاقی پستی کے مخالف ہونے کے بجائے اس کے پرچم بردار بن چکے ہیں۔ اس مغرب زدگی کا جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے،بقول کلیم عاجز
جناب شیخ پر افسوس ہے، ہم نے تو سمجھا تھا
حرم کے رہنے والے ایسے نا محرم نہیں ہوں گے
موجودہ سعودی عرب کا موجودہ منظر نامہ اختصار کے ساتھ یہ ہے:
۱۔ سعودی عرب اپنا تشخص کھوتا جارہا ہے حرم اور مسجد نبوی کے کسٹوڈین اور خادم الحرمین ہونے کی وجہ سے اس کی جو مثالی شخصیت اور قائدانہ حیثیت تھی ختم ہوتی جارہی ہے۔ امر بالمعروف کے بجائے امر بالمنکرات پر زور صرف ہورہاہے۔ مغربی تمدن اور اقدار کو بے چوں چرا قبول کیا جارہا ہے بلکہ ان کو رواج دیا جارہا ہے۔بڑے شہر میں سینما ہال اور کاسینو کھولے جارہے ہیں۔ ساحل سمندر پر ایسی تفریح گاہیں بنائی جارہی ہیں جہاں برہنگی کی یورپی پستیوں کا مقابلہ کیا جا سکے گا۔ پردہ جو ایک اسلامی شعار تھا وہ عقل پر سعودی حکمرانوں کے پڑگیا ہے۔ پوری قوم نغمہ وساز اور عود وبخور میں غرق ہوگئی ہے ’’حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے‘‘۔
اب جزیرۃ العرب اسلام کی پناہ گاہ نہیں چراہ گاہ بن گیا ہے پتھر تو ہیرا بنتا ہے لیکن یہاں ہیرا پتھر بن رہا ہے۔اس جرم کے خلاف آواز بلند کرنا ضروری ہے۔ برائیوں کو اور گناہوں کو برداشت کرلینا بھی گناہ کرلینے کی طرح کا جرم ہے اور اس کی سزا بھی بہت سخت ہے،جو لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے اجتناب کرتے ہیں وہ عذاب الہی کے مستحق ہوجاتے ہیں۔
۲۔جن تنظیموں نے ملک کے اندر اور بیرون ملک نوجوانوں کی تربیت کے لئے عربی زبان میں بہترین اسلامی لٹریچر تیار کیا ان تنظیموں کو اور ان کتابوں کے مصنفین کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔ یوسف القرضاوی جیسی شخصیت جو عالم اسلام کے بڑے عالم دین ہیں اور جن کی خدمات کے اعتراف میں پہلے خودسعودی حکومت فیصل ایوارڈ دے چکی ہے وہ اب معتوب مغضوب ہیں اور ان کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے۔ الاخوان المسلمون کی اسلامی حکومت مصر میں محمد مرسی کی صدارت میں قائم ہوئی لیکن اس صالح حافظ قرآن اور متقی انسان کی حکومت اسے گوارا نہ ہوسکی۔ مصر کی اخوانی حکومت کا خاتمہ کرنے کے لیے سعودی عرب نے پانچ ہزار ملین ڈالرکی مدد دکی۔ مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں پورے طور پر ملوث سعودی حکمراں تھے تاکہ مصرپھر سے بدکاری کا اڈہ بن جائے اور وہاں شراب وکباب کی ساری سرمستیاں شروع ہوجائیں،سعودی عرب کی مالی سرپرستی میں ہزاروں اخوانیوں کو مسجد رابعہ میں اور مسجد الفتح میں اور رابعہ عدویہ کے میدان میں شہید کیا گیا۔اسلامی حکومت سعوی عرب کے لئے ایک ڈراونا خواب ہے خود سعودی عرب میں اسلامی حکومت نہیں ہے وہاں کا سیاسی نظام معاشی اور مالیاتی نظام سب غیر اسلامی ہے۔ اسلامی نظام عدل کا مطالبہ کرنے والے جیلوں میں بند ہیں۔
۳۔ سعودی عرب کے عالم وداعی شیخ محسن العواجی کو جیل میں بند کیا گیا۔شیخ محمد العریفی کو گرفتار کیا گیا،مشہور زمانہ کتاب ’’لا تحزن‘‘ کے مصنف شیخ عائض القرنی، شیخ سلمان العودہ، شیخ سفر الحوالی شیخ سعد الفقیہ اور شیخ محمد المسعری، شیخ صالح المنجد، شیخ طریفی اور لا تعداد علماء کو حق اور ضمیر کی آواز بلند کرنے پر پابندیوں اورگرفتاریوں کا سامنا ہے۔ انہوں نے بولناچاہا تو ان کی زبان بند کردی گئی اب ملت کے باضمیر علماء ہر حلقہ زنجیر میں اپنی زبان رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی آوازکا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے اور دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
۴۔ سعودی عرب کے جرائم کا ریکارڈ بہت طویل ہے۔ اس نے دنیائے اسلام کے تمام بد کردار حکرانوں کی سرپرستی کی۔ تیونس کے بد کردار حاکم زین الدین بن علی کوپناہ دی۔سعودی عرب نے حسنی مبارک کی حمایت میں بھی فتوے جاری کئے تھے لیکن یہ تیر نشانہ پر نہیں لگ سکا اور آخر کار مصر کے اسلام پسند عوام نے حسنی مبارک کا تختہ الٹ ڈیا۔
۵۔ حرمین شریفین خطرہ میں ہے۔ملک کے اندر اور باہر امریکی فوجیں موجود ہیں۔ امریکہ کے لئے سب سے بڑا لالچ سعودی عرب کا پٹرول ہے۔اس وقت آئینہ امروز کے ساتھ اندیشہ فردا رکھنے کی سخت ضرورت ہے۔اپنے ملک کو اس حالت میں رکھنا کہ کوئی غیر ملکی طاقت اس پر آسانی سے قبضہ کرلے جیسے کوئی گدھ گوشت کا ٹکڑا اچک لے جائے یہ جہالت بھی ہے اور نادانی بھی ہے۔ کیا ماضی میں ایسا نہیں ہوا تھاکہ فرانسیسی استعمار نے مصر ،الجزائر، مراکش اور شام پر قبضہ کیا تھا۔ کیا برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ نہیں کیا تھا اورتبھی وہاں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔ سعودی عرب نے تاریخ سے سبق کیوں نہیں سیکھا۔ حرمین شریفین کی حفاظت کا طریقہ یہ تھا کہ سعودی عرب کو امریکہ اور مغربی طاقتوں کے ہم پلہ طاقتور ملک بنایا جاتا۔اس کے لئے ضرورت تھی کہ ملک کو سائنسی اور صنعتی اعتبار سے ترقی دی جاتی، اسلحہ سازی کی جاتی، وہاں کار خانے قائم کئے جاتے۔صنعتی انقلاب کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک سرمایہ اور دوسرے علمی اور سائنسی قابلیت۔جہاں تک سرمایہ کا تعلق ہے تو پٹرول کے ملکوں کے پاس جو دولت اورثروت ہے اس سے بہت کم سرمایہ سے انگلینڈ میں صنعتی انقلاب آیاتھا اور جہاں تک تجربہ اور علمی قابلیت کی ضرورت ہے تو سعودی عرب اور خلیجی ملک پورے عالم اسلام سے جوہر قابل کو اکٹھا کرسکتے تھے۔کم نظری اور بے بصری ہے کہ یہ بالکل نہیں کیا گیا۔ اور پوری قوم کو صارفین، کنزیومرز کی قوم بنا کر رکھ دیا گیا۔ اقبال کا مصرع ان خلیجی ملکوں پر صادق آتا ہے: ’’جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو‘‘۔
وحی الٰہی کے حکم کی واضح طور پر خلاف ورزی کی گئی جس میں اسلحہ سازی کا حکم دیا گیا ہے اور معیار یہ بتایا گیا ہے کہ تمہارے دشمن اور خدا اور رسول کے دشمن تم سے خوف زدہ ہوجائیں۔اگر کہا جائے کہ سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں نے آخری درجہ کی نا اہلیت کا ثبوت دیاہے تو یہ بات ہرگز غلط نہیں ہوگی۔ساری دولت خرچ کرکے وہ اسلحے باہر سے منگائے جاتے ہیں جن کا استعمال بھی سعودی فوج نہیں جانتی۔ کیا اسی طرز حکمرانی سے اسرائیل کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور اسلام کی سربلندی کے کام کئے جاسکتے ہیں؟
۶۔ ملک میں سعودائزیشن کا عمل شروع ہوچکا ہے یعنی صرف سعودی شہریت رکھنے والوں کو ملازمت دینے کا حکم جاری ہوچکا ہے غیر سعودیوں کے لئے ملازمت کے دروازے بہت محدود کردئے گئے ہیں اور غیر سعودی خاندان کے ہر فرد پر بچے اور بوڑھے، مرد اور عورت سب کوتین سو ریال ماہانہ ٹیکس ادا کرنے کا فرمان جاری ہوگیا ہے۔ آئندہ اس میں سال بسال اضافہ ہوتا رہے گا۔ یعنی دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے مسلمان جو سرزمین حجاز کی محبت میں یہاں رہنا بسنا چاہتے تھے کجا یہ کہ ان کو یہاں رہنے کی سہولیات دی جاتیں ان کی زندگی کو مشکل تر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پہلے زمانہ میں اسلامی ملکوں میں غیر مسلموں سے جو جزیہ لیا جاتا تھا وہاس سے کہیں کم ہوا کرتا تھا۔ غیر ملکیوں پر اس نئے قسم کے جزیہ‘‘ کے قوانین کی وجہ سے سعودی عرب میں کام کرنے والے ہزاراں ہزارغیر سعودی محنت کش اپنے اپنے ملکوں کوافتاں وخیزاں و بادیدۂ گریاں واپس جار ہے ہیں۔ اس شاہی حکم نامہ کی وجہ سے دکانیں بند ہوری ہیں اور بازار بے رونق ہورہے ہیں کیونکہ ان دکانوں پر غیر سعودی ملازمین ہی بیٹھا کرتے تھے۔ ایک صاحب گھر سے دوائیں خریدنے کے لئے مارکٹ پہنچے تو دیکھا کہ بازارمیں میڈیسن کی دونوں دکانیں (صیدلیۃ) بند ہیں۔ انہوں نے ایک پاکستانی سے وجہ پوچھی تو اس نے شاعرانہ انداز میں جواب دیا کہ: وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔خود سعودی باشندوں کو اس غیر منصفانہ پالیسی کا نقصان یہ اٹھانا پڑا ہے کہ ان کی دکانیں بازار اور مال اور ہوٹل توبند ہوتے ہی جارہے ہیں، ان کے گھر بھی جو غیر سعودی باشندے کرایہ پر لیتے تھے ویران ہوگئے ہیں اور ہزاروں گھروں پر تالے لٹکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔سعودی عرب کے ایک شہر دمام کے ایک بہت بڑے اسکول میں ۶۳ ہزار غیر ملکی طلبہ پڑھتے تھے ان کی تعداد اب ۶۱ ہزار رہ گئی ہے یہی حال جدہ کے اسکولوں کابھی ہے۔ ایک ویرانی سی ویرانی ہے۔
خزاں کے ہاتھوں گلوں پر نہ جانے کیا گذری
چمن سے آج صبا بے قرار گذری ہے
۷۔ سعودی عرب امریکہ اور مغربی ملکوں کے جال میں پوری طرح سے پھنس چکا ہے۔سعودی عرب پہلے ایک بہت خوش حال ملک تھا اب وہ احوال تبدیل ہو رہے ہیں۔سعودیہ پہلے انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) اور ورلڈ بنک کا مقروض نہیں تھا اب ان اداروں سے قرض لینے پر مجبور ہورہا ہے لیکن اس کے باوجود اربوں اور کھربوں ڈالر کے مالیاتی معاہدے وہ دلداری اور دل بدست آوری کے لئے امریکہ اور مغربی ملکوں سے کررہا ہے اور ایسے ہتھیار خرید رہاہے جن کا استعمال سعودی فوج کے بڑے سے بڑے جرنیل بھی نہیں جانتے ہیں نہ ان کو اس کی ٹریننگ ملی ہے۔ یہ سارے ہتھیار برائے زینت و آرائش اور برائے نمائش ہیں۔اس کے مقابلہ میں ترکی ہے جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینگ کو قرض دینے کی پوزیشن میں آگیا ہے اور جس نے اپنے ہاں تنخواہوں میں تین سوفی صد کا اضافہ کردیا ہے۔ سعودی عرب بجائے اس کے کہ ترکی سے سبق حاصل کرتا اور اس کو دوست بناتا اس نے بغض وحسد کی وجہ سے ترکی کو شیطان اور بدی کا محور قرار دے دیا۔
آخری بات:
اب آخر ی بات۔مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات۔آج کچھ دردمرے دل میں سوا ہوتا ہے۔ اگر ہم حرم کی سرزمین میں چراغ نہیں جلا سکتے تو اپنا دل تو جلا سکتے ہیں۔ غم اور غصہ کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کی عزت وناموس خطرہ میں ہے اور اس وقت سعودی عرب میں اسلام کی عزت داغ دار ہورہی ہے۔ سعودی عرب کی، اپنے مقدس مقامات کی وجہ سے، تمام مسلمانوں کے دلوں میں خاص منزلت ہے۔ جب سعودی عرب اپنا قبلہ امریکہ کو بنالے گا اور اس کا تابع فرمان ہوگا تو اس کی تکلیف ہر مسلمان اپنے دل میں محسوس کرے گا۔ اس کا خون کھولے گا۔، چنانچہآج دنیا کے تمام مسلمان سعودی عرب کے نئے حالات کی وجہ سے بے چین اور مضطرب ہیں۔یہ اضطراب خود سعودی عرب میں عوام اور خواص میں موجود ہے۔ خود سعودی شاہی خاندان غیر مطمئن ہے۔ علماء مجبور ہیں کہ’’ بات پر واں زبان کٹتی ہے‘‘ اور ’’چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے‘‘ وہاں کے علماء خوفِ تعزیر سے چپ رہتے ہیں خود سعودی عرب میں حمیت اور غیرت والوں نے زبان کھولنے کی کوشش کی تو ان کو خاموش کردیاگیا۔عالم اسلام کا کوئی ایک بھی سلیم الفطرت فرد ان دیارِ مقدسہ میں فوجی بغاوت اور خون ریزی نہیں چاہتا خاص طور پر جب اس بات کا بھی اطمینان نہیں کہ جو لوگ انقلاب بردوش بن کر آئیں گے وہ کتنے اسلام کے وفادار ہوں گے۔ لیکن اصلاح بہر حال ضروری ہے اور اس اصلاح کی ذمہ داری دنیا کے علماء کرام کے دوش ناتواں پر ہے۔ اب علماء بھی اگر خاموش ہوجائیں اورخوف سے یا ویزے کی لالچ میں لب سی لیں تو حق کی بات کون کہے گا؟۔اور’’ کلمۃ حق عندسلطان جائر‘‘کا فریضہ کون ادا کرے گا۔ایسا محسوس ہونے لگاہے کہ سعودی عرب اور علماء کے درمیان کوئی جنگ بندی معاہدہ یا کوئی خفیہ سمجھوتہ ہوگیا ہے۔ سعودی عرب میں کچھ بھی ہو علماء خاموش رہتے ہیں۔اس وقت ہر مفکر، ہر صاحب قلم و صاحب زبان اور ہر صاحب ایمان پر،اگر اس کا ضمیر زندہ ہے، اصلاح کا فریضہ عائد ہوتا ہے۔ یہ برائیاں کہیں بھی ہوں وہ برائیاں کہلائیں گی لیکن ان برائیوں کا جزیرۃ العرب میں پایا جانا ناقابل برداشت ہے۔
عالم اسلام کے ملکوں میں اردو عربی اور انگریزی میں اور دوسری زبانوں میں بیانات دینے اور سعودی عرب کی قیادت کو اصلاح کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ’’الدین النصیحۃ‘‘یعنی دین خیرخواہی کا نام ہے۔ تمام مسلمان علماء اور قائدین، سلفی اور حنفی، اہل حدیث اور اہل سنت والجماعت، دیوبندی اور بریلوی، سب بر سرعام اور برسرمنبر اس بات کااظہار کریں کہ سعودی عرب میں جوتبدیلیاں لائی جار ہی ہیں وہ ناقابل قبول ہیں۔اس بات کو وضاحت سے کہہ دینا چاہیے کہ حرمین شریفین کی سرزمین پر کسی کی اجارہ داری نہیں وہ کسی کی ذاتی ملکیت اور جائداد نہیں۔ قائدین اور علماء اپنے بیانات کی کاپی سعودی سفارت خانہ کو بھی بھیج دیں ۔ایک عالم دین نے کہا ’’ہم اگر تنقید کریں گے تو پھر ہمارے عمرہ کا کیا ہوگا اور ہمیں ویزا کیسے ملے گا‘‘ ایسے کج اندیش اور کج فکر عالم کو کیسے سمجھایا جائے کہ اگر حق گوئی کی یہ قیمت ادا کرنی پڑے کہ آدمی عمرہ سے محروم ہوجائے تو اس حالت میں عمرہ نہ کرنے کا ثواب عمرہ کرنے سے بڑھ جاتا ہے۔
زاد المعادمیں اورسیرت کی کتابوں میں ایک اہم واقعہ مذکور ہے کہ جب حضوصلی اﷲ علیہ وسلم عمرہ کے ارادہ سے حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو قریش غصہ میں بے قرار اور خفا تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کو قاصد بناکر قریش کے پاس بھیجا تاکہ وہ اطمینان دلادیں کہ ہم جنگ کے لئے نہیں آئے ہیں بلکہ عمرہ کے ارادہ سے آئے ہیں۔ حضرت عثمان گئے اور ابو سفیان اور قریش کے دوسرے سربرآوردہ حضرات سے گفتگوکی اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا۔اس موقع پر قریش کے سرداروں نے کہا کہ آپ اگر عمرہ اور طواف کرنا چاہیں تو آپ کو اجازت دی جا سکتی ہے۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے اس موقع اور اجازت سے بالکل فائدہ نہیں اٹھایا اور صاف کہہ دیا کہ جب تک حضور صلی اﷲ علیہ وسلم طواف اور عمرہ نہیں کریں گے ہم بھی نہیں کریں گے۔جب حضرت عثمان حدیبیہ واپس پہنچے تو بعض مسلمانوں نے کہا کہ تم تو بہت فائدہ میں رہے عمرہ اور طواف کرلیا اور اپنے دل کا ارمان نکال لیا۔حضرت عثمان نے جواب دیا تم لوگون نے بدگمانی سے کام لیا ہے۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر مجھے ایک سال بھی وہاں ٹھہرناپڑتا اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف فرما ہوتے تب بھی میں اس وقت تک طواف نہ کرتا جب تک حضور طواف نہ فرما لیتے‘‘۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حرمین شریفین کی بے حرمتی اس طرح ہورہی ہوکہ وہاں حاکم وقت کی ایما پر فسق وفجور کو فروغ دیا جارہا ہو تو محض عمرہ کی خواہش پوری کرنے کے لئے حق گوئی سے اعراض کرنا درست نہیں اور وہ اصحاب قلم اور وہ تمام سالک وصوفی اور تمام شیوخ وائمہ مجرم ہیں جو امید کرم پر ایسے حاکموں کے لئے شعری اور نثری قصیدے لکھتے ہیں اور ان کے سفارت خانوں میں اپنا دست طلب دراز کرتے ہیں۔وہ عمرہ بہت مہنگا بھی ہے اور بے ثواب بھی ہے جو ضمیر کو موت کی نیند سلاکر کرکے کیا جائے۔ کیا بر صغیر کے علماء واقعی بے ضمیر ہوچکے ہیں کہ صرف حج وعمرہ کے عوض حق گوئی سے گریزکریں گے۔
ہندوستان میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے عالی قدر صدر حضرت مولانا محمد رابع حسنی ہیں جو رابطہ عالم اسلامی کے ممبر ہیں۔ مولانا بہت لائق احترام ہیں لیکن ان کا ایک خاص مزاج ہے کہ وہ کسی مسئلہ پرکبھی کوئی بیان نہیں دیتے ہیں ان کی ناراضی کے اظہار کے لئے بس یہ کافی ہے کہ انہوں برسوں سے رابطہ ادب اسلامی کے جلسوں میں شرکت بند کرد ی ہے۔ رابطہ عالم اسلامی کے ممبر مولنا ارشد مدنی بھی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے اپنی ناراضی کے اظہار کا کیاطریقہ اختیار کیا ہے۔ وہ تو ہر روزکوئی نہ کوئی بیان کسی نہ کسی مسئلہ پر دیتے رہتے ہیں۔اس اہم ترین مسئلہ پر وہ کوئی بیان تو دیں۔ کوئی تو حرف ترے کنج لب سے ہو آغاز‘‘ کیا ان کے نزدیک سرزمین حجاز کو امریکہ کے نقش قدم پر ڈالنے کی پالیسی لائق اعتناء نہیں؟ کیا ان کے فہم رسا میں کوئی ایسا نکتہ ہے جس کی بنا پر وہ اس اہم ترین مسئلہ پر حق گوئی کو مناسب نہیں گردانتے؟ وہ تو شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی قدس اﷲ سرہ کے صاحب زادہ ہیں جن کی شخصیت کا اصل جوہر ہی دینی غیرت اور حمیت ہے۔
ہم یہاں حضرت مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی کی ایک تحریر کا اقتباس نقل کرتے ہیں:
’’آج ملت کی قد آور شخصیتیں، مذہبی تنظیمیں، اور نمائندہ ادارے مصلحت کی دبیز چادر میں اپنا منہ چھپائے ہوئے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمیں اﷲ کے دربار میں اس طرح حاضر ہونا پڑے کہ ہماری پیشانی پر رحمت خداوندی کی امید کا نور نہ ہو، بلکہ اپنی بے ضمیری کی وجہ سے اﷲ کی رحمت سے ناامیدی کا داغ ہو‘‘۔
(مطبوعہ: ہفت روزہ ’’العدل‘‘ گوجرانوالہ، جلد نمبر 7شمارہ 3، 19جنوری 1932ء )