سید محمد کفیل بخاری
19 جنوری 2019ء کو ساہی وال میں ریاستی ادارے سی ٹی ڈی کے خونخوار اہلکار بھیڑیوں نے چار بے گناہ انسانوں کو دہشت گرد قرار دے کر انتہائی بے دردی اور سفاکی سے قتل کردیا۔ مقتولین میں محمد خلیل، اس کی بیوی نبیلہ، تیرہ سالہ معصوم بیٹی اریبہ اور دوست ڈرائیور ذیشان حیدر شامل ہیں۔ ریاستی قتل کی اس لرزہ خیز واردات میں تین معصوم بچے معجزانہ طور پر زندہ بچ گئے۔
مملکت خداداد پاکستان میں بے گناہوں کا ریاستی قتل عام پہلے پہلے بھی ہوتا رہا ہے لیکن ساہی وال کا واقعہ بدترین سانحہ ہے جس پر ہر غیرت مند اور حساس پاکستانی غم اور صدمے سے دوچار ہے۔ پولیس تشدد سے ہلاکتوں کے واقعات روز مرہ کا معمول ہیں لیکن سانحۂ ساہی وال نے سی ٹی ڈی کی کارکردگی کو بے نقاب کردیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ریاستِ مدینہ کا نعرہ لگانے والی حکومت کے وزراء کی زبانیں سانحہ کی مذمت کرنے کی بجائے واردات قتل کو جواز فراہم کرنے، اس ہولناک اور ظالمانہ واقعہ میں ملوث ذمہ داران کو بچانے کے لیے چلتی رہیں۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا کرم ہوا کہ اس لرزہ خیز واردات میں تین معصوم بچے زندہ رہ گئے اور ان کی گواہی نے سارے جھوٹ کا پول کھول دیا۔ موقع پر موجود عام شہریوں نے جو ویڈیوز بنائیں اُن کے وائرل ہونے سے سی ٹی ڈی افسران او رصوبائی وزراء رسوا ہوئے اور اُن کے یوٹرن طشت از بام ہوئے۔ سی ٹی ڈی کے ذمہ داران نے پہلے معمول کے مطابق ایک روایتی کہانی جاری کی کہ
یہ خطرناک دہشت گردوں کاگروہ تھا، ہمارے اہل کاروں نے روکا تو انہوں نے فائرنگ کردی پھر ان کے ساتھی آگئے اور وہ اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوگئے۔
پھر بیانات بدلتے چلے گئے، دوپہر کو اغواکار بتایا، جھوٹ پکڑا گیا تو شام کو دہشت گرد کہا، تین دہشت گرد فرار ہوگئے،وزیر قانون راجہ بشارت نے کہا کہ آپریشن سو فیصد درست تھا جبکہ خلیل او راس کی فیملی بے قصور تھی، گورنر پنجاب نے فرمایا کہ اس قسم کے واقعات دنیا میں ہوتے رہتے ہیں، شیخ رشید نے کہا کہ ساہی وال جیسے واقعات سے قوم کو مایوس نہیں ہونا چاہیے، وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ یہ سنگین دہشت گرد تھے، محمود الرشید نے کہا کہ ویڈیوز جعلی ہیں، اوپر سے لے کر نیچے تک سب وزرا الٹی سیدھی ہانکتے اول فول بولتے اور یوٹرن لیتے رہے۔
عوامی دباؤ پر تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بن گئی اور اس کی رپورٹ میں خلیل اور اس کا خاندان بے قصور قرار دیا گیا جبکہ ذیشان کے بارے میں تحقیقات کی جارہی ہیں۔ کمال یہ ہے کہ ذیشان کو قتل پہلے کیا اور اس کے دہشت گرد ہونے کی تحقیقات بعد میں کی جارہی ہیں۔ سی ٹی ڈی اہل کاروں نے یہ مضحکہ خیز مؤقف بھی اختیار کیا کہ ڈرائیور ذیشان گاڑی سے نکل کر ہم پر فائرنگ کرتا رہا۔ کمال کہانی ہے، جھوٹ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ عجیب منظر ہے کہ ڈرائیور ذیشان گاڑی سے اتر کر فائرنگ کرتا رہا، پھر واپس گاڑی میں بیٹھا، سیٹ بیلٹ باندھی، ایک ہاتھ سٹیرنگ پر رکھا اور سامنے سے آنے والی دس گولیاں کھا کر گہری نیند سوگیا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ مقتولین کے پاس کوئی اسلحہ تھا نہ انہوں نے کوئی مزاحمت کی۔ وہ منتیں کرتے رہے اور ظالم درندے سامنے سے گولیاں برساتے رہے۔ زخمیوں کو دوبارہ گولیاں مار کر ٹھنڈا کیا گیا۔ خلیل مرحوم کے بچوں نے بھی یہی بتایا۔ مرحوم ذیشان کا بھائی ڈولفن پولیس میں ملازم ہے۔ اس نے میڈیا کو بتایا کہ میں نے جب پولیس ملازمت کے لیے درخواست دی تو اپنے بھائی ذیشان کا شناختی کارڈ بھی ساتھ لف کیا تھا۔ مجھے پوری تصدیق اور تسلی کے بعد ملازمت دی گئی۔ انہیں اس وقت پتا نہ چلا کہ میں داعش کے ایک دہشت گرد کا بھائی ہوں، آج اچانک اسے دہشت گرد قرار دے دیا۔
جے آئی ٹی پہلے بھی بنتی آئی ہے اور اب بھی بنی۔ اس کی رپورٹ کو اپوزیشن نے مسترد کردیا ہے، یہ ادارے عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ اب ہائی کورٹ نے انکوائری کے لیے دو رکنی جوڈیشل بنچ بنا دیا ہے۔ اﷲ کرے مظلوموں کو انصاف ملے اور مجرم عبرتناک انجام کو پہنچیں۔ تا حال تو ان افسران کو بچانے کی کوششیں جاری ہیں یہ پہلے بھی معطل ہوتے آئے پھر بحال ہوگئے۔ پہلے وہ ڈیوٹی دے کر تنخواہ لیتے تھے اب گھر بیٹھ کر تنخواہ وصول کریں گے۔
وزیر اعظم عمران خا ن نے روایتی سخت الفاظ میں واقعہ کی مذمت کی اور صدمے سے نڈھال ہو کر قطر کے دورے پر تشریف لے گئے۔ واپس آکر سخت انکوائری کا حکم دیا اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا روایتی اعلان کیا۔ مقتولین کے خاندان کو انصاف ملنے کی ہمیں تو قطعاً امید نہیں۔ وزیر اعظم نے پنجاب پولیس کے نظام کو بہتر بنانے کی ہدایات بھی جاری کی ہیں لیکن انہی دنوں میں گجرات کا شہری ارشد اقبال پولیس حراست میں ہلاک ہوا، ملتان میں پندرہ دنوں میں دوافراد، عمران اور نعمت علی یکے بعد دیگرے پولیس تشدد سے ہلاک ہوئے۔ فوری طور پر ایس ایچ اوز کو معطل کردیا گیا۔ آئندہ چھے ماہ یا سال بعد وہ پھر بحال ہوجائیں گے، اس دوران کئی اور مظلوم وبے گناہی شہری پولیس کے ہاتھوں قتل ہو کر ابدی نیند سوچکے ہوں گے۔
خاص طور پر پنجاب میں تو یہی نظام رائج ہے جس کے ’’ایصال ثواب‘‘ کے اصل مستحق سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف ہیں۔ اُن کے دور حکومت میں جعلی پولیس مقابلوں کے ذریعے شہریوں کی ہلاکتوں کے نظام کو بہت تقویت دی گئی جس کا نتیجہ آج عوام بھگت رہے ہیں۔
دہشت گرد، ملک دشمن ہیں۔ انہیں ضرور سزا ملنی چاہیے اور ملک میں امن قائم ہونا چاہیے ہمیں اس سے سو فیصد اتفاق ہے۔ یہ عدالت کی ذمہ داری ہے پولیس کو ماورائے عدالت قتل اور سزا کا حق کس نے دیا؟ دہشت گرد ہیں کون؟ اس کا تعین اگر اس طرح ہوگا جیسے ساہی وال میں ہوا تو ملک میں امن نہیں ہوگا۔
حبیب جالب نے کہا تھا:
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو