پروفیسر خالد شبیر احمد
ان دنوں صورتِ حال یہ ہے کہ ملکی حالات پر لکھتے ہوئے دل بیٹھ بیٹھ جاتا ہے۔ کبھی تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم پاکستانیوں کا کوئی والی وارث نہیں ہے اور کبھی یہ احساس شدت اختیار کر جاتا ہے کہ غیروں نے ہماری حکومت پر قبضہ کر رکھا ہے اور مقصدیہ ہے کہ دکھی دلوں کو مزید دکھ پہنچایا جائے۔ شاید ان سیاست دانوں کو عوام کے دکھوں سے خوشی ہوتی ہے کہ یہ ایذا پسند ہو گئے ہیں، جو دوسروں کو دکھ دے کر لذت اور مسرت حاصل کرتے ہیں۔ ہر طرف جھوٹ کی حکمرانی ہے اور اس پہ امین و صادق کی تانیں بھی بڑی کثرت کے ساتھ الاپی جا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ہر پاکستانی یہ کہتا نظر آتا ہے
شہر ظلمت میں غم کے ماروں کی کیا کبھی بھی سحر نہیں ہوتی
نہ ملک کی انتظامیہ درست، نہ مقننہ فعال اور نہ ہی عدلیہ کا وہ معیار جو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضروری اور لازمی ہے۔ کوئی ایک غم، ایک دکھ اور ایک درد ہو تو اس کا اظہار کرنا آسان اور سہل ہوتا ہے۔ ملک میں تو رنج و الم کا طوفان ہے کہ تھمتا نظر نہیں آتا۔ ہمارے ان سیاست دانوں کو تو ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک کی سیاسی تاریخ تک کا علم نہیں ہے، نہ ہی ان سیاست دانوں کے آبا و اجداد نے ملک کی تحریکِ حریت میں کوئی حصہ لیا ہے پھر اس ملک کی قدر و قیمت کا احساس ان سے کیسے ممکن ہے۔ یہ ملک حریت پسندوں کی جنگ حریت کے نتیجے میں حاصل ہوا۔ انگریزوں نے کوئی ہمیں طشتری میں رکھ کر یہ ملک نہیں دے دیا تھا۔ بلکہ جنگ حریت لڑنے والوں نے انگریزوں کو یہاں سے بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔
پھر سانحہ یہ بھی ہے کہ پاکستان بن جانے کے بعد پوری تاریخ بھی جمہوریت اور آمریت کی آنکھ مچولی تک ہی محدود ہو کے رہ گئی۔ یہ جمہوریت اور آمریت کی آنکھ مچولی عوام کے لیے تو سوہانِ روح بنی ملک کو عظیم نقصان کا باعث بھی بنی۔ نظام تو بدلتا رہا، نظام چلانے والے نہ بدلے اور اس طرح مسائل بڑھتے ہی چلے گئے۔ مسائل بڑھنے کی ایک ہی وجہ ہے کہ سیاست دان نہ تو مخلص ہیں اور نہ ان کے دلوں میں عوام کے لیے کوئی نرم گوشہ ہے۔ اقتدار کی جنگ محض کر و فر اور نمود و نمائش کے لیے ہوتی ہے۔ اور پھر ایسے حالات میں ملک کا نظام عدل بھی غیر منصفانہ ہو تو پھر سونے پر سہاگے والی بات ہے۔ چرچل نے دوسری جنگ عظیم لڑتے ہوئے حکومت کے اعلیٰ افسران سے پوچھا تھا کہ کیا ہمارے ملک کی عدالتیں صحیح کام کر رہی ہیں۔ جواب ملا کہ بالکل درست کام ہو رہا ہے، تو پھر چرچل نے جواب میں کہا تھا کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہم جنگ نہیں ہاریں گے اور جیت ہی ہمارا مقدر ہو گی۔
ہمارے ہاں عدلیہ شروع سے ہی دباؤ میں کام کرنے کی عادی ہو چکی ہے۔ جسٹس منیر ہمارے پہلے چیف جسٹس تھے۔ گورنر جنرل ملک غلام محمد نے قومی اسمبلی توڑ دی۔ مشرقی پاکستان کے مولوی تمیز الدین نے اس حکم کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا۔ سندھ اسمبلی نے فیصلہ دیا کہ گورنر جنرل اسمبلی نہیں توڑ سکتا، گورنر جنرل نے سپریم کورٹ میں اپیل کی تو جناب جسٹس منیر نے گورنر جنرل کے حق میں دباؤ میں آ کر فیصلہ گورنر جنرل کے حق میں کر دیا۔ جسٹس اے۔ آر کارنیلس نے اختلافی نوٹ لکھا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اس ملک میں اُس وقت تک امن قائم نہیں ہو گا جب تک یہاں پر اسلامی نظام نافذ نہیں ہوتا۔ اس کے بعد ۱۹۵۳ء میں تحریک ختم نبوت کے حوالے سے منیر کمیشن کا فیصلہ کس حد تک انصاف پر مبنی تھا کہ یہ تحریک احرار، قادیانی تصادم تھا۔ اور اس میں شامل علماء معاذ اﷲ اس قدر جاہل ہیں کہ مسلمان کی تعریف نہیں کر سکے۔ پھر مشرف نے جب ملک پر قبضہ کیا تو اس کی حوصلہ افزائی میں سپریم کورٹ بھی آگے آگے تھی۔ اسے کلی اقتدار کا تحفہ سپریم کورٹ نے ہی تو دیا تھا۔ بھٹو کے کیس میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق کا فیصلہ کس حد تک انصاف پر مبنی تھا۔ اگر ہماری عدلیہ معیاری ہوتی تو اس کا اچھا اثر ہمارے سیاست دانوں پر بھی ہوتا۔
اب ذرا سیاست دانوں پر بھی توجہ فرمائیں۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۸ء تک ہمارے ملک کے اندر سات وزیر اعظم تبدیل ہوئے۔ جس ملک کے اندر اتنی کثرت کے ساتھ وزیر اعظم تبدیل ہوں گے وہاں کون سی ترقی ہو گی اور نظام کیسے مستحکم ہو گا۔ پنڈت نہرو نے جو اس پر پھبتی کسی وہ بھی سب کو معلوم ہے۔ ایک وزیر ملک فیروز خان نون نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ کشمیر کی بات کرنی ہے تو کسی اور کو وزیر اعظم بنا لو۔ پنڈت نہرو تو میرا بڑا بھائی ہے۔ چند سطور اس لیے لکھ دی ہیں کہ معاملہ ابتدا میں ہی خراب ہو گیا تھا۔ انتظامیہ ہو کہ مقننہ یا پھر عدلیہ، مقننہ کی سن لیں پہلے تو ۱۹۵۳ء میں آئین بنا مگر اسمبلی میں ہی نہ لایا جا سکا پھر ۱۹۵۶ء میں دوسرا دستور بنا جو ایوب صاحب نے ختم کیا اور ایک آرڈیننس کے ذریعے ۱۹۶۲ء میں صدارتی نوعیت کا آئین نافذ کر دیا جس کو بعد میں ختم کر کے ۱۹۷۳ء میں آخری آئین آیا۔ جس کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ سب کو علم ہے کہ کس حد تک اس پر عمل کیا گیا ہے۔
ہمارا ملک بھی عجیب ملک ہے کہ یہاں پر قومی انتخابات سے پہلے بھی بحران ہوتا ہے اور انتخابات کے بعد بھی بحران ہی رہتا ہے جیسا کہ اس وقت بھی شدید بحران میں ہے۔ ۲۰۱۳ء میں انتخابات ہوئے تو ۲۰۱۴ء میں دھرنے شروع ہو گئے۔ دھرنے دینے والے انصاف کے علمبردار رہنما نے دھرنوں کا ایسا آغاز کیا کہ اب تک یہ دھرنے ختم ہی نہیں ہو رہے۔ آج بھی لاہور کے اندر دھرنا ہے اور نہ جانے کب ختم ہو گا۔ دھرنے پچھلے چار سال میں مسلسل جاری رہے ہیں۔ ان دھرنوں سے ہمارے کون سے مسائل حل ہوئے ہیں؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے اور کون سے نئے مسائل پیدا ہوئے۔ اس پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔ موجود صورت حال تو اتنی بات کی جنگ ہے۔ یہاں پر یہ سوال بھی ہے کہ کیا یہ اتنی بات ہمارے مسائل کا حل ہو سکتے ہیں۔ انتخابات ہمارے مسائل کا حل ہر گز نہیں ہیں بلکہ ہمارے مسائل میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم انتخابات کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔سب جیتنا چاہتے ہیں ہارنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ یہ بھی ایک انوکھی صورت حال ہے۔ اس پر کیا لکھا جائے کہ یہ تو ایک لطیفہ ہے۔ اگر ہم چاہیں تو کچھ ایسی تبدیلیاں کر کے اتنی بات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ مگر ہم ایسا چاہتے ہی نہیں ہیں۔ ہم تو ان کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا کر انتخابات کے تمام فوائد سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اگر انتخابات کے دوران صرف اتنا ہی کر دیا جائے کہ امیدواران اپنی انتخابی مہم نہیں چلا سکتے، نہ جلوس نہ جلسہ، نہ بینرز نہ کوئی اور ہلا گلا۔ ووٹر کو پتا ہونا چاہیے کہ ہمارے حلقے سے کس اسمبلی کے لیے کس جماعت کے کون کون لوگ امیدوار ہیں۔ امیدواروں پر اس بات کی بھی پابندی لگا دی جائے کہ وہ ووٹر کو گھروں سے پولنگ سٹیشن نہیں لے جا سکتے۔ ووٹر حود جائے اور آرام سے اپنے پولنگ سٹیشن پر ووٹ کاسٹ کر دے۔ مگر ’’ایں خیال است و محال است و جنوں‘‘ صورت حال جو اس وقت ہے اس پر تو یہی کہا جا سکتا ہے
دیں لاکھ تسلی مجھے احباب مگر حالات باندازِ دگر دیکھ رہا ہوں