مولانا محمد یوسف شیخوپوری
گلشنِ اسلام کے بانی و باغبان نے جس سدا بہار پودے کو خالقِ کائنات سے خود مانگ کر لیا تھا، جس نے اس گلشن میں محیّرالعقول توسیع کر کے اس کو نمونہ بہشت بنایا، آمن و آشتی میں رشکِ جنت بنایا، اسلامی سلطنت کو قوت و اہتمام میں ایک ناقابلِ تسخیر قلعہ بنایا، دنیا کی بڑی بڑی سلطنتوں، ایران و روم کی مادی قوتوں اور یہودیت و نصرانیت، مجوسیت و سبائیت، بت پرستوں اور ستارہ پرستوں کی فکری و عملی طاقتوں پر ایسی کاری ضربیں لگائیں کہ وہ مدتوں سر نہ اٹھا سکیں۔ جو اسلام کی مکمل تاریخ بھی ہے اور تاریخ ساز بھی، چنانچہ اس ہستی کو خسر نبی اور دامادِ علیؒ کہتے ہیں، انھیں فاتح عرب و عجم سیدنا عمر بن خطاب فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں۔ آپ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مراد، معتمد و محبوب تھے، خاندان نبوت کے بھی معتمد و محبوب تھے، چند حقائق ملاحظہ کیجیے۔
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کا اعتماد:
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد جیسے خلیفۂ راشد و بلا فصل، سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی بیعت تعمیل برضاء و خوشی کی بالکل اسی طرح جب سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کا آخری وقت قریب آیا تو آپ نے اسلام اور مسلمانوں کی خیرخواہی کے جذبہ سے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے ہاتھوں مسلمانوں کے سامنے ایک تحریر پیش فرمائی اور گھر کے دریچہ سے لوگوں سے فرمایا کہ خلافت کے معاملے میں مَیں نے اس میں ایک عہد کیا ہے ’’کیا تم لوگ جس کا نام اس میں ہے اس پر راضی ہو‘‘؟ لوگوں نے جواباً عرض کیا، خلیفہ رسول ہمیں بخوشی منظور ہے، جب یہ تحریر حضرت علی المرتضیٰ کے سامنے آئی تو آپ نے فرمایا: ’’لا نَرْضٰی اِلَّا اَنْ یَّکُوْنَ عُمَر ابنُ الخَطَّابِ ‘‘ یعنی میں عمرؓ کے سوا کسی اور شخص پر راضی نہیں۔ (الصواعق المحرقہ، اسد الغابہ) پھر جب اپنا دورِ خلافت آیا تو حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں مسلمانوں نے ابوبکرؓ کی بیعت کی تو میں نے بھی کی، پھر ابوبکرؓ نے آخری وقت میں عمرؓ کی طرف اشارہ کیا تو میں نے بھی مسلمانوں کے ساتھ مل کر عمر بن خطاب سے بیعت کی اور ان کا شریک رہا، پھر انھوں نے آخری وقت چھے (۶) رکنی کمیٹی میں مجھے داخل کیا (کنز العمال۔ امالی) معلوم ہوا، جبر و ظلم، قہرو استبداد کی داستانیں خود ساختہ افسانے ہیں، حقیقت کچھ اور ہے۔
حضرت عمر خسر نبی اور دامادِ علی ہیں:
جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان عالی ہے کہ: ’’قیامت کے روز تمام رشتے، تعلقات ختم ہو جائیں گے، سوائے میرے خاندان کے ساتھ رشتہ اور انتساب کے کہ یہ کام آئے گا‘‘۔ اس سعادت کے حصول میں حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اپنی لختِ جگر سیدہ حفصہ رضی اﷲ عنہ کا نکاح حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے کیا، پھر اپنا نکاح رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے داماد جناب علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کی صاحبزادی سیدہ اُمّ کلثوم بنت علیؓ سے کیا۔ یوں آپ رضی اﷲ عنہ خسرِ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور دامادِ علی رضی اﷲ عنہ ٹھہرے، چنانچہ اس رشتہ کو اہلِ سنت و روافض دونوں نے تسلیم کیا ہے اور اپنی معتبر کتابوں میں تحریر کیا: ’’فقالَ عَلِیٌّ قَدْ اَنْکَحْتُکَہَا ای اُمّ کلثوم بنتِ عَلّیٍ واِبنتہ فاطمۃ ‘‘
(کتاب السنن، المستدرک، کنز العمال، الکافی، الاستیعاب)
فضائلِ عمر رضی اﷲ عنہ بزبان علی رضی اﷲ عنہ:
خلافتِ فاروقی میں ، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور اولادِ علی سے محبت و تعلق خاص رکھا، کہ عہدہ قضاء و افتاء کے چیف جسٹس حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ تھے۔ مسائل فقہیہ میں ان سے مشورہ کرتے، حضرت علی رضی اﷲ عنہ مشیرِ خاص ہوتے۔ انتظامی و ملکی تدابیر و معاملات میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ رفیقِ خاص ہوتے تھے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ انتظامی امور میں باہر جاتے، مدینہ میں اپنا قائم مقام حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو بنا کر جاتے، اسی طرح خود حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کو اپنے داماد سیدنا فاروق اعظم سے بے مثال محبت تھی۔ جب حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا ذکر کرتے تو فرماتے تھے: ’’وہ بابرکت آدمی تھے، اﷲ نے نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو چودہ نجباء (یعنی مخلص و اشرف لوگ) عطا کیے ہیں، ان میں ابوبکر و عمر(رضی اﷲ عنہما) ہیں، عالمِ ارواح میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اِن دونوں کو مانگا تھا مگر یہ حضور علیہ السلام کو عطا کیے گئے، یہ تو وہ ہیں جن کو اﷲ نے فاروق یعنی حق و باطل میں فرق کرنے والا بنایا ہے۔ میں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے خود سنا ہے، آپ نے فرمایا: ’’اے اﷲ عمر کے ذریعے اسلام کو عزت غلبہ عطاء فرما‘‘، عمر میرے مخلص و مہربان اور خاص دوست تھے، دین کی خیر خواہی کرنے والے تھے، جیسے حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہا تھا کہ وہ قوی اور امین ہیں، ایسے اس اُمت کے قوی اور امین عمر ہیں۔ اَ شَارَ عَلِیٌ بِیَدِہٖ اِلیٰ عُمَرَ فَقالَ ہٰذا الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ، ابوبکر و عمر (رضی اﷲ عنہما) رشد و ہدایت کے امام تھے اور اُمت کو کامیاب کرنے والے تھے‘‘۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ سیرت عمر رضی اﷲ عنہ پر:
حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے اپنے معاملات میں سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کا نقش قدم اپنایا تھا: ’’ کانَ عَلِیٌ یُشْبِہُ بِعُمَر فِی السِّیْرَۃِ ‘‘
جب حضرت علی رضی اﷲ عنہ کوفہ میں تشریف لائے تو محل میں رہنے سے انکار کر کے اس چھاؤنی میں پسند فرمایا جسے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے تعمیر کروایا تھا۔ جن کاموں کو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے جاری کیا تھا، فرمایا میں اس گرہ کو نہیں کھولوں گا جسے عمر نے باندھا ہے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے کام اور کارکردگی اِن حضرات کے ہاں صحیح اور قابلِ عمل و لائقِ تقلید تھی۔ یہ ان کی شانِ اخوت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حتیٰ کہ جب حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی شہادت کے بعد نماز جنازہ کا وقت آیا تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ صفوں سے آگے نکلے اور تمام مسلمانوں کے سامنے تین مرتبہ فرمایا: ’’اﷲ کی رحمت ہو عمر پر، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد مخلوق میں سے میرے نزدیک کوئی آدمی بھی اس کفن پہنے ہوئے آدمی سے زیادہ محبوب نہیں، میں اس بات کا خواہش مند ہوں کے اﷲ کے ہاں اس جیسا اعمال نامہ لے کر ملاقات کروں‘‘۔ پھر دفن میں شریک ہوئے، قبر میں خود اتارا، جو ان کی حقیقی محبتوں کا درخشندہ باب ہے۔
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا حسنین رضی اﷲ عنہما سے پیار:
سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کی اولاد میں بھی یہی رنگ نظر آتا ہے، جانبین سے قدر و منزلت کے شواہد ہیں۔ دونوں شہزادے سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے گھر میں اپنی ہمشیرہ کو ملنے آیا جایا کرتے تھے، لمبی لمبی ملاقات و گفتگو ہوتی تھی۔ ایک دفعہ حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہما ملے کے لیے آئے تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے لیے آئے، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کسی کام میں مصروف تھے تو واپس چلے گئے۔ علم ہو جانے پر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ فرمایااے حسین: ’’ اَنْتَ اَحَقٌ بِالاِذْنِ مِنْ عَبْدِ اللّٰہِ ابنِ عُمَرَ ‘‘ عمر کے اپنے بیٹے کے لیے تو دروازہ بند ہو سکتا ہے، علی کے بیٹے حسین کے لیے عمر کا دروازہ بند نہیں ہو سکتا، جب دل چاہے آ جایا کرو، ہمیں جو کچھ ملا ہے یہ سب تم لوگوں کی وجہ سے ہے۔
کبھی یمن سے شاہی پوشاکیں تیار کروا کر اِن دونوں شہزادوں کی پہنچاتے ہیں، بدری صحابہ کے برابر (حالانکہ حسنین کریمین رضی اﷲ عنہما بوقت بدرپیدا ہی نہ ہوئے تھے) حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسبت کی وجہ سے پانچ ہزار درہم وظیفہ مقرر فرمایا۔ اصول کافی کے مطابق عجمی بادشاہ شاہ یزجرد کی لڑکی شاہ جہاں جسے شہر بانو کہتے ہیں فاروقی خلافت میں ہونے والے جہاد کی مال غنیمت کے عطیہ میں سے سیدنا حسین رضی اﷲ کی عطا کی گئیں۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بیٹے محمد بن حنفیہ کا فرمان:
حضرت علی اﷲ علیہ کی اولاد میں محمد بن حنفیہ بڑے اہلِ علم اور اہل فضل و کمال ہیں، بقول صاحب عمدۃ الطالب حسنین کریمین کے بعد اولادِ علیؓ میں سب سے برتر مقام انہی کا ہے۔ اَسّی سے زائد سندوں سے ان کا فرمان منقول ہے: ’’ای النَّاسِ خَیْرٌ بَعْدَ النَّبِیِّ ﷺ ؟ قَالَ اَبوبکرٍ قال قلتُ ثُمَّ مَنْ ؟ قالَ عُمَرُ ……‘‘وہ اپنے والد حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے سوال کرتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل کون ہے؟ فرمایا: ابوبکرؓ ہیں، پھر کون؟ تو فرمایا عمرؓ ہیں۔
حضرت زین العابدین ؒکا فرمان:
حضرت زین العابدینؒ (علی ؓبن حسینؓ بن علیؓ) سے ایک سائل نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہما کے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ قربت و محبت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا جو نزدیکی اور قرب ان کی قبروں کو حاصل ہے، وہی قربت و نزدیکی انھیں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ حالتِ حیات میں تھی، قبروں میں کوئی قبر حضور علیہ السلام کے اتنی قریب نہیں جتنی انکی ہیں، اس طرح انسانوں میں کوئی اتنا قریب نہیں جتنے یہ ہیں۔
شیخین کے حق میں سوءِ ظن اور معترض انداز سے بولنے والے (عراقیوں) سے کہا:’’ میرے پاس سے اٹھ جاؤ، اﷲ تم میں نہ برکت دیں، نہ تمھارے گھر رحمت ہو، تم اہلِ اسلام میں سے نہیں ہو‘‘۔ (البدایہ۔ حلیۃ الاولیاء)
حضرت محمد باقر کا فرمان:
حضرت سیدنا محمد باقر فرماتے: ’’ جو شخص ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنہما کی عظمت و شان سے ناواقف ، وہ سنتِ نبوی ہی سے جاہل و ناواقف، میں اِن دونوں (ابوبکر و عمر) سے محبت رکھتا ہوں، ان کے حق میں استغفار کرتا ہوں، جو شخص اِن سے بیزاری کرتا ہے، میں اس سے بری ہوں، میرا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں‘‘۔ (طبقات۔ حلیۃ الاولیاء)
’’ اس ذات کی قسم جن نے تمام جہانوں کو ڈرانے والے اپنے بندے پر قرآن اتارا، ان دونوں (ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما) نے ہمارے (اہلِ بیت) کے حق میں ایک دانہ کے برابر بھی ظلم و زیادتی نہیں کی‘‘۔
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا گستاخ شفاعتِ نبوی سے محروم:
سیدنا جعفر صادق بن محمد باقر بن علی زین العابدین بن حسین بن علی رضی اﷲ عنہم فرماتے ہیں:’’ ابوبکر رضی اﷲ عنہ میرے جد اور نانا ہیں، بھلا کوئی شخص اپنے آباء و اجداد کو گالی دے سکتا ہے؟ مجھے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب نہ ہو اگر میں ابوبکر و عمر (رضی اﷲ عنہما) سے دوستی و محبت نہ رکھوں اور میں ان کے دشمن سے بیزاری اختیار نہ کروں‘‘۔
’’ لا نَالَتْنِیْ شَفَاعَۃُ مُحَمَّدٍ اِنْ لَّمْ اَکُنْ اَتَوَلَّاہُمَا ……الخ‘‘(کتاب السنۃ لامام احمد)
چنانچہ امام جعفر صادق جب روضہ اقدس کی حاضری کے لیے آتے تو ان (شیخین) کی قبروں پر بھی حاضری دے کر سلام و تسلیم پیش کرتے تھے۔
یہ مثالیں شواہد و حقائق بتلا رہے ہیں، اگر کوئی تعصب کی عینک اتار کر دیکھے تو دامادِ علی رضی اﷲ عنہ (سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ) اور خاندانِ علی رضی اﷲ عنہ کے درمیان محبت و مودت کے ایسے آب زم زم کے چشمے بہہ رہے ہیں، جن کے کناروں پر اعتماد، اعتبار، خلوص و محبت کے چمنستان آباد ہیں۔ مشہور مقولہ ہے کہ دوست کا دوست، دوست ہوتا ہے، اہلِ بیت سے محبت و دوستی کا تقاضہ ہے کہ ان کے حاملِ محبت و مودت حضرت عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ سے محبت و دوستی کی جائے۔
*قضّیہ ازواج حضرت عمرابن خطاب ۔*
بعض لوگوں کا گمان باطل ہے کہ عمر ابن خطاب کی شادی دختر امیرالمومنین مولا علیؑ ؑسے ہوئی تھی لیکن!!!
قرآن حکیم ۔لعنت اللہ علی الکاذبین (جھوٹوں پر اللہ کی لعنت)۔سورۃ آل عمران۔آیت۔61
علم الریاضیات اس بات کی نفی کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ بات جھوٹ اورافتراء کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
غور سے پڑھیں۔۔۔
تو تاریخ کہتی ہے کہ جب عمر ابن خطاب اسلام لائے تو ان کی عمر چالیس(40)برس تھی.
اور تریسٹھ(63) برس کی عمر میں عمر ابن خطاب وفات پا گئے
امیر المومنین علی ؑ دعوت ذوالعشیرہ میں نو(9) برس کے تھے۔
امیر المومنین علی ؑ نے جب سیدۃالنساء العالمین ؑ سے شادی کی تو آپ ؑ پچیس(25) برس کے تھے۔
یعنی دعوت ذوالعشیرہ کے سولہ(16)برس بعدامیر المومنین علی ؑ کی شادی ہوئی۔
اور عمر بن خطاب دعوت ذولعشیرہ کے سات(7)برس بعد اسلام لاِئے
یعنی جب عمر ابن خطاب نے کلمہ پڑھا تو امیرالمومنین علی ؑسولہ(16)برس کے تھے۔
عمر ابن خطاب کے اسلام لانے کے نو(9) برس بعدامیر المومنین علیؑ کی شادی ہوئی،تب امیر المومنین علی علیہ السلام پچیس (25) برس کے تھے۔ (9+16) 25 = برس
جب امیر المومنین علیؑ کی شادی ہوئی تب عمر ابن خطاب (49) برس کے تھے(49=40+9برس)۔
کیا ایسا نہیں ہے؟
اللہ تعالیٰ نے امیر المومنین علیؑ کو شادی کے ایک برس بعد امام حسنؑ عطا فرمائے۔
دو(2) برس بعد امام حسینؑ عطا فرمائے
چار(4)برس بعدسیدۃ زینبؑ کی ولادت ہوئی۔
امیر المومنین علیؑ کی شادی کے چھ(6) برس بعد سیدۃ اُم کلثوم ؑ اس دنیا میں تشریف لائیں،
پس سیدۃ اُم کلثومؑ کی دنیا میں آمدکے وقت عمر ابن خطاب پچپن(55) برس کے تھے۔
(55=49+6 برس)
عمر ابن خطاب تریسٹھ(63) برس کی میں وفات پا گئے۔
سیدۃ ام کلثومؑ بنت امیرالمومنین علیؑ کی دنیا میں آمد کے بعد عمرابن خطاب آٹھ(8)برس زندہ رہے۔
(8=63-55برس)۔
اہلسنت علماء کے بقول عمر ابن خطاب کی وفات سے تین(3)برس پہلے شادی ہوئی اور ایک بیٹا پیداہوا جس کا نام زید ابن عمر تھا یوں شادی کے وقت سیدۃ ام کلثومؑ کی عمر پانچ(5)برس بنتی ہے۔
(5=8-3برس)۔
کیاعقل و منطق اس بات کو قبول کرتی ہے کہ پانچ (5) برس کی عمر میں کسی عورت کی شادی ہو جائے؟؟؟
اوراس سے ایک بچہ بھی پیدا ہو جائے جس بچے کا نام زید ابن عمر رکھا گیاتھا؟؟؟