لاہور(پ ر)متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی پاکستان کی اپیل پر گزشتہ روز ملک بھر میں ”یوم امتناع قادیانیت ایکٹ“ بھر پور انداز میں منایا گیا مختلف تقریبات اور افطار پارٹیوں کے علاوہ اپنے اپنے بیانات میں مختلف مکاتب فکرکے دینی رہنماؤں اور زعما ء نے کہا ہے کہ 26/اپریل 1984ء کو صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے لاہوری و قادیانی مرزائیوں کو اسلامی شعائر اور مسلمانوں کی علامات استعمال کرنے سے روک دیا گیا تا کہ اسلام کے نام پر قادیانیوں کی دھوکہ دہی بند ہو۔ مرکزی دفتر احرار نیو مسلم ٹاؤن لاہور میں ایک اجتماع متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی کے کنوینر اور مجلس احرار اسلام پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل عبداللطیف خالد چیمہ کی صدارت میں ہوا جس میں میاں محمد اویس، قاری محمد یوسف احرار، مولانا عبدالنعیم نعمانی، علامہ ممتا ز احمد اعوان، چوہدری افتخار احمد پوسوال، قاری محمد قاسم بلوچ، ڈاکٹر ضیاء الحق قمر، مولانا محمد وقاص حیدر، قاری منیب قاسم، کرنل (ر) فاروق احمد خان، اور کئی دیگر شخصیات نے شرکت و خطاب کیا۔ عبداللطیف خالد چیمہ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ یہ درست ہے کہ سات ستمبر 1974ء کو قادیانیوں کو بھٹو مرحوم کے دور اقتدار میں غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود قادیانی پوری دنیا میں اپنے آپ کو مسلمان کہتے رہے۔ اور اسلامی شعائر کا مذاق اڑاتے ہیں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو اسلام کے نام پر دھوکہ دیتے رہے۔ جس بناء پر 1984ء میں پھر تحریک ختم نبوت چلی اور خانقاہ سراجیہ کے سجادہ نشین حضرت مولانا خواجہ خان محمد رحمہ اللہ علیہ کی قیادت میں ملک بھر میں احتجاج ہوا تو کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے مشترکہ پلیٹ فارم سے پیش کردہ مطالبات کو صدر محمد ضیاء الحق نے ایک آرڈیننس کے ذریعے تسلیم کیا اور اپنے دستخط کے ذریعے آرڈیننس جاری کیا۔ یہ آرڈیننس بعد میں تعزیرات پاکستان کا حصہ بھی بنا۔ اور قومی اسمبلی نے اس کی منظوری بھی دی اور تین دفعہ تائید بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ عالمی استعمار اب بھی قادیانیوں کو مسلمانوں کی صفوں میں شامل رکھنے پر مصر ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ موسیو ظفراللہ خان نے بیرون ممالک سفارت خانوں کو قادیانی تبلیغ کے اڈوں میں تبدیل کیا جس سے قادیانیوں کا ارتداد مسلمانوں میں پھیلنا شروع ہوا۔ انہوں نے کہا کہ نے امارت اسلامی افغانستان کی تازہ صورتحال کے حوالے سے مشہور زمانہ قادیانی احمد کریم کوچیف پرا سیکیوٹر لگایا۔ اورعمران حکومت نے آزر بائیجان کا سفیر قادیانی بلال کو مقرر کیااوراب آزربائیجان کا پاکستانی سفارتخانہ قادیانی ارتدادی سرگرمیوں کا اڈہ بنا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران حکومت کی طرح شہباز حکومت سے بھی ہم تحریک ختم نبوت کے مطالبات منوانے کے لیے جدوجہد کو جاری وساری رکھیں گے اور پوری قوت کے ساتھ احتجاج بھی کریں گے، ضرورت پڑنے پر مزاحمت بھی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی ریشہ دوانیوں میں قادیانی ایلیمنٹ کو خارج از امکان قرارنہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ شہباز حکومت امتناع قادیانیت ایکٹ پر موثر عملدرآمد کروائے اور چناب نگر کے پانچ سرکاری تعلیمی ادارے پرائیویٹ سیکٹر میں قادیانیوں کو نہ دئیے جائیں اور نہ ہی ان کی نیشنلائزیشن کی جائے۔ مولانا راؤعبدالنعیم نعمانی نے کہا کہ ایک تاریخی جدوجہد کے بعد 1974ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ جبکہ 26/اپریل 1984ء کو قادیانیوں کو امتناع قادیانیت ایکٹ کے ذریعے اسلام کے نام پر تبلیغی سرگرمیوں سے روک دیا گیا اور مرزا طاہر لندن فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ علامہ ممتاز اعوان نے کہا کہ 1974ء اور 1984ء کی آئینی کامیابیوں میں 1953ء کے شہداء کا خون پنہاں ہے۔انہوں نے کہا کہ تحریک ختم نبوت کو لے کر مجلس احرار اسلام جس طرح آگے بڑھ رہی ہے ہم اس پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اور انتہائی قدر کے نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکمران اور سیاست دان اپنی صفوں کی تطہیر کریں اور اپنی جماعتوں کو قادیانی عناصر سے پاک کریں۔ بعد ازاں ھیومن رائٹس فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل کرنل(ر) فاروق احمد خاں ایڈوویکٹ نے عبداللطیف خالد چیمہ اور دیگر رہنماؤں اور شرکاء کے اعزاز میں افطار ڈنردیا جس میں احرار راہنماؤں اور مختلف شخصیات نے اس امر سے مکمل اتفاق کیا کہ تحریک ختم نبوت کی تمام جماعتوں کی آئین اور قانون کی حدود میں ہونے والی جدوجہد کی حمایت کی جائے گی۔ اسلام اور ملک و ملت کے خلاف قادیانیوں کی سازشوں کا تدارک اور سدِ باب کیا جائے گا۔ اجتماع اور افطار ڈنر کے تمام شرکاء نے مطالبہ کیا کہ نئی حکومت آئین کی اسلامی دفعات کے تحفظ اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائے اور ربوہ میں ریاست در ریاست کا ماحول ختم کرائے نیز تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت کے قوانین پر مؤثر و مکمل عمل درآمد کروایا جائے۔