تحریک مقدس ختم نبوت مارچ 1953ءکے دس ہزار شہداءکی یاد میں مجلس احراراسلام پاکستان کے زیر اہتمام مرکزی دفتر نیومسلم ٹاﺅن لاہور میںجامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم مولانافضل الرحیم کی زیر صدارت منعقدہ سالانہ شہداءختم نبوت کانفرنس کے مقررین نے کہاہے کہ آئین ودستور کا حلف اٹھانے والے ممبران پارلیمنٹ اپنے حلف کی روشنی میں 1974ءکی قرارداداقلیت 1984ءکے امتناع قادیانیت ایکٹ کے موثرنفاذکےلئے اپناکرداراداکریں ورنہ اپنے حلف سے دستبردار ہوجائیں پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانازاہدالراشدی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ قیام پاکستان کے قیام سے اب تک پارلیمنٹ نے چار مرتبہ عقیدہ ختم نبوت اورتحفظ ناموس رسالت کے حوالے سے آئین کی منظوری دی اور توثیق کی اور پارلیمنٹ کا یہ متفقہ فیصلہ اب بھی موجودہے ،اس فیصلے کی پاسداری اوراس پرمکمل عمل درآمد کروانا ہرممبرپارلیمنٹ کی بنیادی ذمہ داری ہے جس کے لیے ممبران نے دستور کے تحفظ کے لیے حلف دیاہواہے انہوںنے کہاکہ عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ توہوچکاہے چارمرتبہ اس کا اعادہ بھی کیاجاچکاہے جبکہ اس پرعمل درآمد کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے مقتدر حلقوں کو متوجہ کروانے کیلئے دینی جماعتیں بھی اپناکرداراداکریں ،انہوں نے کہاکہ سول اورملٹری بیوروکریسی کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی نظریاتی شناخت کے حوالے سے اپناکرداراداکریں ۔انہوں نے کہاکہ چونکہ قادیانی آئین اوردستور سے انحراف کرکے دنیا بھر میں اس کے خلاف پروپیگنڈہ کررہے ہیں ا س لیے حکومت سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس دائر کرے کہ اس صورت حال میں کیاجائے انہوں نے جمہوریت کا رگ الاپنے والوں سے کہا کہ وہ ختم نبوت کے قوانین کے حوالے سے جمہوری طر ز عمل کو کیوں فراموش کردیتے ہیں۔مولانافضل الرحیم نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ فتنہ قادیانیت اس دور کا سب سے بڑ ااورخطرناک فتنہ ہے اورجوشخص بھی تحفظ ختم نبوت کے لیے کام کرے گا اور تحفظ ختم نبوت کے قوانین پر پہرہ دے گا اس کیلئے جنت واجب ہے انہوںنے کہاکہ تحفظ ختم نبوت کے لیے خلیفہ بلافصل سید نا ابوبکر صدیقؓ کے دور میں مسلیمہ کذاب کے قلع قمع کے لیے مہم جوئی ہوئی اوربارہ سو صحابہ کرام ؓ نے اپنے خون سے اس مقدس عقیدہ کا دفاع کیاانہوں نے کہا کہ امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ کی جماعت عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے گرانقدر خدمات سرانجام دے رہی ہے انہوں نے کہا کہ میں اس تجویز سے اتفاق کرتا ہوں کہ قادیانیوں کی خلاف قانون سرگرمیوں کے حوالے سے حکومت سپریم کورٹ سے رجوع کرے۔مجلس احراراسلام پاکستان کے نائب امیر سید محمد کفیل بخاری نے کہاکہ مرزاغلام قادیانی کے جھوٹے دعویٰ نبوت کا سب سے پہلامحاسبہ علماءلدھیانہ نے کیاجوفتویٰ کفر کی شکل میں سامنے آیا جبکہ اجتماعی طور پر مجلس احرار اسلام نے 1929ء میںفتنہ ارتداد مرزائیہ کے تعاقب کا مورچہ سنبھالا جو آج تک جاری ہے انہوں نے کہاکہ پانچ سوسے زائد علماءحق نے امیرشریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری کے ہاتھ بیعت کی اور تحریک ختم نبوت کی جدوجہد کا آغاز کیا۔انہوں نے کہاکہصرف قادیانی گروہ ایسا ہے جس نے انڈین جارحیت کی مذمت نہیںکی کیونکہ قادیانی اکھنڈبھارت کا مذہبی عقیدہ رکھتے ہیں انہوںنے مطالبہ کیاکہ انجمن احمدیہ ربوہ پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور ان کے بینک اکاﺅنٹس کو منجمندکیاجائے ،مجلس احراراسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل عبداللطیف خالد چیمہ نے کہاکہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا لیکن قیام پاکستان کے فوری بعد قادیانیوںنے پاکستان کے اقتدار پر شب خون مارنے کی باتیں کیں ، پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ موسیو ظفراللہ خان نے بیرون ممالک پاکستانی سفارت خانوں کو قادیانی ارتدادی تبلیغ کے اڈوں میں تبدیل کیاقادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین نے 1952ءکو احمدیت کا سال قرار دیا تب سید عطاءاللہ شاہ بخاری نے 1953ءکو ختم نبوت کا سال قراردیااورقادیانیوں کو اقلیت قراردینے ،ظفراللہ خان کو وزارت خارجہ سے ہٹانے ،کلیدی عہدوںسے قادیانیوں کو الگ کرنے اور ربوہ کی بقیہ زمین پر مہاجرین کو آباد کرنے جیسے مطالبات حاجی نمازی حکمرانوں کے سامنے رکھے لیکن انہوںنے کہاکہ ایساکرنے سے امریکہ ہماری گندم بند کردے گا انہوںنے کہاکہ مال روڈ سمیت ملک کے مختلف حصوں کو شہداءختم نبوت کے خون سے ترکردیاگیا اوردس ہزار نہتے مسلمانوں کو اس لیے چھلنی کردیاگیا کہ وہ منصب رسالت کے تحفظ کا قانونی حق مانگتے تھے تب سید عطاءاللہ شاہ بخاری نے فرمایاکہ دس ہزار شہداءختم نبوت کے خون کے نیچے میں ایک اٹائم بم چھپاکر جارہاہوں اگر میں زندہ رہاتوخود دیکھ لوںگا ورنہ میری قبر پرآکر بتادینا کہ قادیانی غیر مسلم اقلیت قرار دے دیئے گئے ہیں ،شہداءختم نبوت کا خون رنگ لایا اور7ستمبر 1974ءکو لاہوری وقادیانی مرزائیوں کو ایک طویل بحث کے بعد پارلیمنٹ کے فلور پر بھٹومرحوم کے دوراقتدار میں غیر مسلم اقلیت قراردے دیاگیا 1984ءمیں امتناع قادیانی ایکٹ آیا جس کی منظوری 1985ءکی قومی اسمبلی نے دی جبکہ ان قوانین پر عمل درآمد نہیں ہورہااورقادیانیت کو پوری طرح پر موٹ کیاجارہاہے ۔عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنما قاری علیم الدین شاکر نے کہاکہ 295-Cکے حوالے سے کسی قسم کا ردوبدل اسلامیان پاکستان کو قبول نہیںتمام مسلمان عقیدہ ختم نبوت کے چوکیدار ہیں ۔مجلس احرار اسلام پاکستان کے رہنما سید عطاءاللہ شاہ بخار ی ثالث نے کہاکہ دین اسلام کے عقائد میں سب سے اہم عقیدہ رسالت ہے عقیدہ رسالت کی حفاظت ہی دراصل تمام عقائد کا تحفظ اورایمانیات کا ماخذ ہے انہوںنے کہاکہ لادینیت کو پھیلانے کے لیے بے حیائی کو فروغ دیاجارہاہے انہوںنے کہاکہ موجودہ دور میں تمام اسلامی ممالک کا آپس میں تعلق محض سفارتی نہیں بلکہ اسلام اور ایمانیات کے حوالے سے ہونا چاہئے ۔مولاناعبدالشکورحقانی نے کہاکہ 1974ءمیں تحریک ختم نبوت کو جو کامیابی حاصل ہوئی اس کو تسلسل کے ساتھ آگے بڑھانے کی فوری ضرورت ہے کانفرنس کی قراردادوں میں مطالبہ کیاگیاکہ منکرین ختم نبوت اورمنکرین جہاد قادیانی جماعت پرمکمل پابندی عائد کی جائے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں مرتد کی شرعی سزا نافذکی جائے ،ہرسطح پر تعلیمی نصاب میں عقیدہ ختم نبوت کو شامل کیاجائے ، اسلامیات پڑھانے کے لیے غیر مسلموں کا 5فیصد کوٹہ ختم کیاجائے ، ربوہ کے اندر ریاست در ریاست کا ماحول ختم کیاجا ئے ، ربوہ میں انجمن احمدیہ کا تسلط ختم کرکے مکینوں کو مالکانہ حقوق دیئے جائیں اور ربوہ میں جہاں جہاں ناجائز تجاوزات ہیں ان کو ختم کیاجائے ، سول اور فوج کے اہم عہدوں سے قادیانیوں کو بلاتاخیر ہٹایاجائے ،1974ءکی قرارداداقلیت اور 1984ءکے امتناع قادیانیت ایکٹ پر مو¿ثر عمل درآمد کرایاجائے قادیانیوں کی طرف سے دستور پر عمل درآمد نہ کرنے کے خلاف حکومت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرے ،سودی معیشت کا خاتمہ کیاجائے ،قرارداد مقاصد اورآئین کی روشنی میں اس ملک میں اسلامی نظام نافذ کیاجائے۔