سید محمد کفیل بخاری
موجودہ حکومت کو برسر اقتدار آئے ڈیڑھ سال ہونے کو ہے۔ عوام نے وزیر اعظم عمران خان کے دعووں اور وعدوں کی بنیاد پر جو امیدیں اُن سے اور اُن کی پارٹی تحریک انصاف سے وابستہ کی تھیں، عمرانی حکومت نے اُن سب پر بدستِ خود پانی پھیر دیا ہے۔ ملک کی کشتی سیاسی عدمِ استحکام، معاشی بحران، اقتصادی زبوں حالی اور ہوش ربا مہنگائی کے بھنور میں ہچکولے کھا رہی ہے۔ جبکہ حکومتی ٹیم اور اس کی کارکردگی میں حماقتوں کے نمونوں کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا، جس کا سارا وبال غریب عوام پر پڑ رہا ہے۔ عوام کو نوکریاں اور مکان تو کیا ملنے تھے، ٹماٹر تک نہیں مل رہے۔ بیرونی اور اندرونی قرضوں کی بھرمار اور اس کے نتیجے میں روز مرہ اشیائے ضرورت کے شدید مہنگا ہونے نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ خود وفاقی کابینہ کے ارکان تک ناقص کارکردگی اور ناکام پالیسیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے پائے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزرا نے کہا کہ:
’’وفاقی حکومت کی جانب سے عوام کو بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بوجھ سے بچانے کے لیے 216ارب روپے کی سبسڈی کے باوجود قیمتوں میں اضافے پر شدید تحفظات ہیں۔ وراثت میں ملنے والی تباہ حال معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے حکومت کو حاصل ہونے والی کامیابیاں سبوتاژ ہو رہی ہیں۔ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ فیول کی عالمی قیمتوں سے منسلک ہے، جس پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں۔ قیمتوں میں مسلسل اضافے سے لگتا ہے کہ سبسڈی کا فائدہ صارف کو نہیں مل رہا‘‘۔
بجلی کی تو صرف ایک مثال ہے، گیس سمیت روز مرہ گھریلو استعمال کی تقریبا تمام اشیاء کی قیمتوں میں اضافے اس پر مستزاد ہیں۔ عوام ہیں کہ بس حکومت کی ناقص پالیسوں کی چکی میں پسے جا رہے ہیں۔
گزشتہ مہینے اسلام آباد کی خصوصی عدالت کے جج جسٹس وقار سیٹھ نے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو ہائی ٹریژن کے مقدمے میں سزائے موت سنائی۔ انھیں یہ سزا آئین شکنی کے جرم میں سنائی گئی۔ حیرانی کی بات ہے کہ عمران خان اور ان کے ’آجو باجو‘ والے اقتدار میں آنے سے پہلے پرویز مشرف کو سزا دینے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ اقتدار میں آ کر کمزور اور طاقت ور کی تفریق ختم کر کے انصاف قائم کرنے کا دعویٰ کرتے رہے، لیکن آج طاقت ور کے خلاف فیصلہ کرنے والے جج کو پاگل اور ذہنی مریض قرار دیا جا رہا ہے۔
حکومت بودی دلیلوں کے سہارے پرویز مشرف کے دفاع میں کھڑی ہو کر خود اپنے دعووں کی نفی کر رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پرویز مشرف نے ملک کے لیے دو جنگیں لڑی ہیں، وہ غدار نہیں ہو سکتا۔ حالانکہ ابھی مہینہ پہلے بریگیڈئیر رضوان کو غدار قرار دے کر سزائے موت سنائی گئی، جبکہ وہ بھی گزشتہ 35سال سے فوج کے ساتھ محاذ پر رہا تھا۔ آئین شکنی کوئی بھی کرے بہرحال غداری ہے۔ پھر جسٹس وقار سے پہلے جنرل جمشید گلزار نے پرویز مشرف کو ’’غدارِ کارگل‘‘ کہا، جنرل حمید گل نے اس کو ’’بلڈی امریکی ایجنٹ‘‘ کہا، جنرل شاہد عزیز نے اسے ’’غدارِ ملت اور قاتل لال مسجد‘‘ کہا اور جنرل اسد درانی نے بھی اسے ’’غدارِ کارگل‘‘ کہا۔
سوال یہ ہے کہ کیا جنرل پرویز مشرف نے سول حکومت پر ٹیک اوور نہیں کیا تھا؟ کیا انھوں نے ماورائے آئین و قانون اقدامات کے لیے ایمر جنسی (بلکہ ایمر جنسی پلس) نہیں لگائی تھی؟ اور کیا آئین میں ان اقدامات کو آئین شکنی نہیں قرار دیا گیا؟ اور ان اقدامات کی سزا مجموعہ تعزیراتِ پاکستان میں آخر کیا مقرر کی گئی ہے؟ پرویز مشرف نے خود اپنی کتاب میں اعتراف کیا کہ اس نے امریکہ کو مطلوب افراد حوالے کر کے پیسے لیے۔ اس نے افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف، ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ایک چھے ماہ کے بچے سمیت نا معلوم تعداد میں پاکستانی شہریوں کو امریکہ کے حوالے کیا اور اس حوالے سے کسی قانونی و آئینی پابندی کی پرواہ نہ کی۔ آخر ان اقدامات کو حب الوطنی کے کس معیار پر دیکھا اور میزان میں تولا جائے؟ اس فیصلے کے حوالے سے کی جانے والی مخالفانہ سرگرمیاں اور اداروں کا تصادم انتہائی افسوس ناک ہے۔ کہا گیا کہ ٹرائل میں کیس کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ یہ بھی حکومت کا نہیں اعلیٰ عدلیہ کا کام ہے کہ وہ اس حوالے سے سے بھی جائزہ لے۔ ایک سوال عوام کا بھی ہے کہ سانحۂ ساہیوال کے مظلوم اور معصوم بچوں کو انصاف ملا؟ کیا اس کیس میں انصاف کے تقاضے پورے کیے گئے؟ یا کبھی کیے جائیں گے؟ اس سوال کا جواب عوام کس درگاہ سے حاصل کریں؟
حکمران پرویز مشرف کے خلاف عدالتی فیصلے کو اسی طرح قبول کریں جس طرح اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف فیصلوں پر جشن مناتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی حسبِ روایت یوٹرن لیا جا رہا ہے۔ نواز، زرداری اور ان کے ساتھی گرفتار ہوں تو جشن، ضمانت پر رہا ہوں تو وزیر مملکت شہریار آفریدی فرماتے ہیں کہ ’’یہ ضمانتوں کا موسم ہے‘‘۔
حال ہی میں کوالا لمپور میں اسلامی کانفرنس منعقد ہوئی۔ وزیر اعظم نے خود اس میں شرکت کا وعدہ کیا لیکن عین وقت پر انکار کر دیا۔جبکہ اس اسلامی کانفرنس نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا مؤقف دہرایا اور مظلوم کشمیریوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کی۔ شاید مہاتیر محمد اور طیب ایردوان، عمران خان کی جنرل اسمبلی میں تقریر سن کر خوش فہمی میں ہمارے وزیر اعظم صاحب کو سنجیدہ لے گئے تھے۔ خاں صاحب کے اس بین الاقوامی سطح کے یوٹرن نے اسلامی دنیا میں پاکستان کے بارے میں تاثربری طرح مسخ کیا۔ خدا را ملک کے حال پر رحم کریں، بے وقوفیوں کے اس سفر کو کہیں بریک لگائیں اور پاکستانی معاشرے کو تصادم سے بچائیں۔ ہمارا وطن مزید حماقتوں کا متحمل نہیں۔