بابو غلام محمد مظفر پوری
[یہ تحریر مجھے دادا جان کے کاغذات سے ملی ہے جو چھوٹے بھائی زاہد علی ظہیر نے تلاش کرکے میرے حوالے کیے تھے۔ تحریر پنسل سے لکھی ہوئی ہے۔ تیسرے صفحے پر کچھ سطریں جی کی نب سے لکھی ہوئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کی صاف کاپی کسی اخبار کو بھیجی گئی تھی کیونکہ اس مسودے میں ایک دو جملے نامکمل سے ہیں۔ سجاد علی]
مورخہ 6 جون 1956ء کو میں اپنے ذاتی کام کے سلسلے میں ملتان گیا تھا اور میرے دل میں جناب قبلہ شاہ صاحب سے ملنے کی بہت دیرینہ خواہش تھی اور خاص وجہ بھی تھی۔ کیونکہ قریباً عرصہ اٹھارہ برس کا ہو چکا تھا جب سے میری ملاقات آنحضرت سے ہوئی تھی۔ چونکہ میں 1938 میں افریقہ چلا گیا تھا اور 1945 میں جب واپس ہندوستان آیا تو مسلم لیگی خیالات لے کر آیا تھا اور بطور پروپیگنڈہ سیکریٹری علاقہ نکودر و پھلور (ضلع جالندھر) 1946 کے الیکشن میں اپنی طاقت و لیاقت سے کام کیا اور علاقہ مذکورہ میں چودھری ولی محمد گوہیر صاحب مسلم لیگ کے ایم ایل اے کامیاب ہوئے جو کہ پاکستان بننے کے بعد دولتانہ منسٹری کے ظلم و ستم کا شکار رہ کر راہی ملک عدم ہوئے۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون)
1930 سے 1938 تک شاہ صاحب کے ساتھ اکثر کرکے اکھٹے رہنے کا اتفاق رہتا تھا اور 1935 ء کے ڈسٹرکٹ بورڈ اور 1937 کے اسمبلی الیکشن میں شاہ صاحب و دیگر علمائے دین نے ہمارے علاقہ کی بہت مدد کی اور کرتے رہے جو کہ تا زندگی ناقابل فراموش ہے۔
مورخہ 6 جون بروز بدھ میں قریباً گیارہ بجے ملتان شہر پہنچ گیا تھا، کچھ دیر گوہیر برادرز کے مکان پر آرام کرنے کے بعد شام کو شاہ صاحب کی ملاقات کے لیے پیدل چلتا رہا کیونکہ مجھے شاہ صاحب کی جائے قیام و رہائش کا پورے طور پر پتہ نہیں تھا۔ لہٰذا (یہاں دو لفظ پڑھے نہیں جا رہے) ۔۔۔ بہت جستجو کے بعد بڑی مشکل سے مغرب کے وقت تک صرف تحفظِ ختمِ نبوت کے دفتر لوہاری گیٹ تک پہنچ کر مولوی محمد علی [یہاں مولوی صاحب کی نسبت ان کے گاوں کے حوالےسے لکھی ہے لیکن پوری سے پہلا پڑھا نہیں جا رہا] ۔۔۔ (جالندھری) سے مل سکا۔ مولوی موصوف میرے اپنے علاقہ و برادری کے آدمی ہیں جن سے بے تکلفی بھی ہے۔
بے وقت ہونے کی وجہ سے مولوی محمد علی کے مشورہ سے ملاقات اگلے روز پر رکھی گئی۔ دوسرے روز میں قاسم پور گلاس فیکٹری میں چلا گیا اور 12 بجے وہاں سے واپس آ کر دو بجے تک ختمِ نبوت کے دفتر میں آرام کیا۔ بعد ازاں مدرسہ قاسم العلوم میں گیا جو کہ کچہری روڈ پر ہے اور شاہ صاحب کے بڑے صاحبزادے وہاں پر درس دیتے ہیں۔ وہاں سے ایک طالب علم کو ساتھ لے کر شاہ صاحب کے مکان پر پہنچا۔ مکان ایک محلہ کی تنگ و تاریک گلی میں ہے اور بالکل بوسیدہ حالت میں ہے۔ دروازے پر دستک دینے پر شاہ صاحب نے خود دروازہ، جو کہ اندر سے بند تھا، کھولا اور اندر داخل ہونے پر عجیب نقشہ و سماں نظر آیا جو کہ قابل عبرت و نا قابل برداشت تھا۔ قبلہ شاہ صاحب ایک پرانی موٹے ریشہ کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے اور چٹائی پر ایک معمولی سی چادر جو کہ تمام چٹائی کو ڈھانپنے کے لیے بھی ناکافی تھی، بچھائی ہوئی تھی اور ایک گاوتکیہ تھا۔ شاہ صاحب بہت کمزور و معذور نظر آتے تھے۔ پاس بیٹھتے ہی پہلے میں نے اپنا تعارف کروایا اور زمانہ گزشتہ کی یاد دلائی اور بعد ازاں معافی کا طلب گار ہوا کیونکہ دوران پروپیگنڈہ 1946 کے الیکشن میں جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں میری کمزور زبان سے کوئی نازیبا لفظ شاہ صاحب کی شان مبارک میں بولا گیا تھا جو میرے ایک خاص دوست نے کچھ عرصہ پہلے طنزاً یاد دلایا تھا اور جب سے میرے دل و دماغ پر ایک بوجھ سا رہتا تھا کہ میں قبلہ شاہ صاحب سے معافی مانگ سکوں۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ میرے پروردگار نے دنیاوی زندگی و حین حیات میں موقع دے دیا جس کی میں خود تلافی کر سکا۔ اور جناب شاہ صاحب نے ازراہ کرم مجھے فراخ دلی اور فقیرانہ انداز میں معاف کر دیا۔ الحمد للہ
بعد ازاں جب میں نے اپنے دل و دماغ میں اپنی مہربان اسلامی حکومت کا سلوک جو کہ آج کل شاہ صاحب کے ساتھ رکھا جا رہا ہے اور شاہ صاحب کی حالت زار وکمزور و ناقدری کا مقابلہ کیا تو میرے آنسو نکل پڑے جو کہ بڑے ضبط و جبر سے قابو میں رکھ سکا اور اپنی گفتگو جاری رکھی۔
شاہ صاحب بوجہ فالج بہت کمزور ہو گئے ہیں اور ان کی یادداشت بھی بہت کمزور ہو گئی ہے اور میں اپنی عقل و فراست سے یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ جو بھی شاہ صاحب موصوف کو دکھ دے گا وہ دنیا و عافیت میں کبھی سکھ نہیں پائے گا۔ اور اگر کسی بااختیار انسان یا حاکم نے اس فانی دنیا میں چند روز اپنی فرعونی قلم و طاقت کے بل بوتے پر شاہ صاحب جیسی پاک و بے باک ہستی پر کچھ بندشیں اور قیود لگا دی یا لگا رکھی ہیں۔
میں نہایت ادب و انکسار سے جناب مسٹر محمد علی وزیر اعظم پاکستان و ڈاکٹر خان صاحب وزیر اعلیٰ مغربی پاکستان سے درخواست کرتا ہوں کہ جناب شاہ صاحب سید عطا اللہ شاہ بخاری پر سے سب پابندیاں جو کہ سراسر نا جائز و نا واجب ہیں، فوراً ہٹا دی جائیں تاکہ عام پبلک و خاص عقیدت مندوں کے دلوں کو تحسین و خوش نودی حاصل ہو سکے اور شاہ صاحب کو کوئی نہ کوئی مکان بھی الاٹ کیا جائے۔ نیز شاہ صاحب جس مکان میں سکونت پذیر ہیں وہ 40 روپے ماہوار کرایہ پر لے رکھا ہے۔ یعنی شاہ صاحب کو مکان بھی الاٹ نہیں کیا گیا۔ [یہاں پنسل سے لکھی ہوئی ایک آدھ سطر اتنی مدھم ہو چکی ہے کہ پڑھی نہیں جا رہی]۔
فقط والسلام
بابو غلام محمد مظفر پوری
سابقہ چیف سرویئر
کراکری مرچنٹ، صرافہ بازار
گوجرہ۔