محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان
پچھلے دنوں ہمارے مخلص دوست اور ہمدرد ملک ترکی میں چند خود غرض، دشمنوں کے اشاروں پر چلنے والے فوجیوں نے صدر رجب طیب اردوان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کی۔ صدر کی آواز پر لبیک کہہ کر عوام اور پولیس نے اس کو ناکام بنا دیا اور تمام ملک دشمن عناصر کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔ ترکی اور پاکستان دو اہم مسلمان ممالک ہیں، ان کی آزادانہ پالیسی مغربی ممالک کو پسند نہیں ہے اور وہ کسی نہ کسی طریقے اور بہانے سے ہمیں غیر مستحکم کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ ترکی میں سازش کے دوران جب شہر کے مناظر دکھائے گئے تو میرے اور میرے سینئر رفقائے کار کے دل میں خوشگوار یادیں تازہ ہو گئیں۔ ہم لاتعداد مرتبہ استنبول گئے ہیں، ہمارے وہاں چند مخلص صنعتکاروں سے تجارتی تعلقات تھے۔ استنبول بہت ہی خوبصورت شہر ہے۔ شہر میں باسفورس ہونے کی وجہ سے جہازوں اور کشتیوں کی آمد و رفت بہت ہی دلکش مناظر پیش کرتی ہے۔ کھانے نہایت ہی لذیذ ہوتے ہیں۔ ہماری طرح گوشت زیادہ شوق سے کھاتے ہیں۔ پورے شہر میں بڑے بڑے سائن بورڈ لگے ہیں جن پر ’’سلطان ایوب رضی اﷲ عنہ‘‘ لکھا ہے۔ ہمارا اصول تھا کہ ہم ہمیشہ ان کے مزار پر جاتے تھے، فاتحہ پڑھتے تھے اور اگر نماز کا وقت ہو تو نماز ورنہ دو نفل ادا کرتے تھے۔ اس مزار پر آپ جائیں تو نہ نظر آنے شان و شوکت و رعب سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ ترک عوام حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ کی بے حد عزت کرتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں۔
ترکی میں پرانی عمارتیں بہت اعلیٰ اور خوبصورت ہیں۔ ترکی نے چونکہ مشرقی یورپ پر طویل عرصے تک حکمرانی کی تھی اس لیے وہاں کی اعلیٰ طرز تعمیر اپنا لی تھی۔ باسفورس کے کنارے واقع لاتعداد محلات نہایت ہی خوبصورت اور قابلِ دید ہیں۔ مصطفی کمال پاشا المعروف اتا ترک کی رہائش گاہ دولما باشے (استنبول) قابلِ دید ہے۔ یہی اعلیٰ معیار ترکوں نے صدیوں پہلے خانہ کعبہ کی تعمیر میں بہت اچھی طرح (محرابیں بنا کر) کی تھی اورحمص (شام) میں حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ کا مزار قابلِ دید ہے اور اعلیٰ تعمیر کا نمونہ ہے۔ ہم (میں اور رفقائے کار) سرکاری دورے پر شام گئے تھے۔ ہم نے حمص میں ایک اچھی یونیورسٹی دیکھی تھی اور حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ کا مزار بھی دیکھا تھا۔
دیکھئے بات کہاں سے کہا جا پہنچی۔ بات حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ سے نکلی ہے۔ میرے نہایت قابل و عزیز دوست پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی نے پچھلے دنوں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ سے متعلق ایک ای میل بھیجی تھی وہ اتنی دلچسپ اور اہم ہے کہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
’’حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے ایک ہزار سال پیشتر یمن کا بادشاہ تُبَّع حمیری تھا، ایک مرتبہ اپنی سلطنت کے دورے کو نکلا، بارہ ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار، ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لیے اس شان سے نکلا کہ جہاں جہاں بھی پہنچتا اس کی شان و شوکت دیکھ کر مخلوقِ خدا چاروں طرف نظارے جو جمع ہو جاتی تھی۔ یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا۔ بادشاہ بہت حیران ہوا اور اپنے وزیر اعظم سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے بیت اﷲ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کرکے چلے جاتے ہیں، پھر آپ کا لشکر ان کے خیال میں کیوں آئے۔ یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوا دوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کرا دوں گا۔ یہ کہنا تھا کہ بادشاہ کے ناک منہ اور آنکھوں سے خون بہنا شروع ہو گیا اور ایسا بدبودار مادہ بہنے لگا کہ اس کے پاس بیٹھنے کی بھی طاقت نہ رہی، اس مرض کا علاج کیا گیا مگر افاقہ نہ ہوا۔ شام کے وقت بادشاہی علماء میں سے ایک عالم ربانی تشریف لائے اور نبض دیکھ کر فرمایا، مرض آسمانی ہے اور علاج زمین کا ہو رہا ہے، اے بادشاہ! آپ نے اگر بری نیت کی ہے تو فوراً اس سے توبہ کریں، بادشاہ نے دل ہی دل میں بیت اﷲ شریف اور خدام کعبہ سے متعلق اپنے ارادے سے توبہ کی، توبہ کرتے ہی اس کا خون اور مادہ بہنا بند ہو گیا اور پھر صحت کی خوشی میں اس نے بیت اﷲ شریف کو ریشمی غلاف چڑھایا اور شہر کے ہر باشندے کو سات سات اشرفی اور سات سات ریشمی جوڑے نذر کیے۔ پھر یہاں سے چل کر مدینہ منورہ پہنچا تو ہمراہ علماء نے جو کتب سماویہ کے عالم تھے وہاں کی مٹی کو سونگھا اور کنکریوں کو دیکھا اور نبی آخر الزماں صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجرت گاہ کی جو علامتیں انھوں نے پڑھی تھیں، ان کے مطابق اس سرزمین کو پایا تو باہم عہد کر لیا کہ ہم یہاں ہی مر جائیں گے مگر اس سرزمین کو نہ چھوڑیں گے، اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو کبھی نہ کبھی جب نبی آخر الزماں صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائیں گے ہمیں بھی زیارت کا شرف حاصل ہو جائے گا ورنہ ہماری قبروں پر تو ضرور کبھی نہ کبھی ان کی جوتیوں کی مقدس خاک اڑ کر پڑ جائے گی جو ہماری نجات کے لیے کافی ہے۔
یہ سن کر بادشاہ نے ان عالموں کے واسطے چار سو مکان بنوائے اور اس بڑے عالم ربانی کے مکان کے پاس حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خاطر ایک دو منزلہ عمدہ مکان تعمیر کروایا اور وصیت کر دی کہ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائیں تو یہ مکان آپ کی آرام گاہ ہو اور ان چار سو علماء کی کافی مالی امداد بھی کی اور کہا کہ تم ہمیشہ یہیں رہو اور پھر اس بڑے عالم ربانی کو ایک خط لکھ دیا اور کہا کہ میرا یہ خط اس نبی آخر الزماں صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دینا اور اگر زندگی بھر تمھیں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کر دینا کہ نسلاً بعد نسلاً میرا یہ خط محفوظ رکھیں حتیٰ کہ سرکار ابد قرار صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ یہ کہہ کر بادشاہ وہاں سے چل دیا۔ وہ خط نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں ایک ہزار سال بعد پیش ہوا، کیسے ہوا اور خط میں کیا لکھا تھا؟ سنئے اور عظمتِ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان دیکھئے:
’’کمترین مخلوق تبع اوّل حمیری کی طرف سے شفیع المذنبین، سید المرسلین محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اما بعد: اے اﷲ کے حبیب(صلی اﷲ علیہ وسلم)! میں آپ (صلی اﷲ علیہ وسلم)پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب آپ (صلی اﷲ علیہ وسلم)پر نازل ہو گی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ (صلی اﷲ علیہ وسلم)کے دین پر ہوں، پس اگر مجھے آپ (صلی اﷲ علیہ وسلم)کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا و غنیمت اور اگر میں آپ (صلی اﷲ علیہ وسلم)کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمانا اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کرنا، میں آپ (صلی اﷲ علیہ وسلم)کی پہلی اُمت میں سے ہوں اور آپ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے ساتھ آپ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ ایک ہے اور آپ (صلی اﷲ علیہ وسلم)اس کے سچے رسول ہیں۔‘‘
شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسلاًان چار سو علماء کے اندر حرزِ جان کی حیثیت سے محفوظ چلا آیا یہاں تک کہ ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا، ان علماء کی اولادیں اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلیٰ کی تحویل میں رکھا اور جب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی اور مدینہ کی الوداعی گھاٹی مثنیات کی گھاٹیوں سے آپ کی اونٹنی نمودار ہوئی اور مدینہ کے خوش نصیب لوگ محبوبِ خدا کا استقبال کرے کو جوق در جوق آ رہے تھے اور کوئی اپنے مکانوں کو سجا رہا تھا تو کوئی گلیوں اور سڑکوں کو صاف کر رہا تھااور کوئی دعوت کا انتظام کر رہا تھا اور سب یہی اصرار کر رہے تھے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائیں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھر میں یہ ٹھہرے گی اور بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہو گی، چنانچہ جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبع حمیری نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خاطر بنوایا تھا وہ اس وقت حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ کی تحویل میں تھا، اسی میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی اونٹنی جا کر ٹھہر گئی۔ لوگوں نے ابو لیلیٰ کو بھیجا کہ جاؤ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو شاہ یمن تبع حمیری کا خط دے آؤ۔ جب ابو لیلیٰ حاضر ہوا تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے دیکھتے ہی فرمایا تو ابو لیلیٰ ہے؟ یہ سن کر ابو لیلیٰ حیران ہو گیا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میں محمد رسول اﷲ ہوں، شاہ یمن کا جو خط تمھارے پاس ہے لاؤ وہ مجھے دو، چنانچہ ابو لیلیٰ نے وہ خط دیا، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے دیکھ کر فرمایا: صالح بھائی تبع کو آفرین و شاباش ہے۔‘‘ (سبحان اﷲ)
میں صدقے یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم(بحوالہ کتب: میزان الادیان، کتاب المستطرف، حجۃ اﷲ علی العالمین، تاریخ ابن عساکر)
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ کا اصل نام خالد بن زید بن کلیب تھا، آپ مدینہ میں پیدا ہوئے تھے اور بنی نجّار قبیلے سے تعلق تھا اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریبی صحابی تھے۔ آپ انصار تھے اور 622سن عیسوی میں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے میزبان تھے۔ مصر کی فتح کے بعد آپ رضی اﷲ عنہ نے مصر میں رہائش اختیار کر لی، مسجد عمرو بن العاص کے پاس ایک گھر میں رہنے لگے اور آپ رضی اﷲ عنہ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ نے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے وقت سے لے کر حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے دور تک مسلسل جنگوں میں حصہ لیا۔
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے دور میں جب یزید بن معاویہ رضی اﷲ عنہ کی سربراہی میں مسلمان فوج نے، جس میں نہایت بہادر تجربہ کار، جید صحابہ بھی تھے، استنبول کا محاصرہ کیا تو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ ضعیف العمری کے باوجود اس میں شامل تھے۔ صحیح مسلم میں حدیث مبارک ہے کہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جو فوج استنبول فتح کرے گی وہ تمام کی تمام جنت میں داخل ہو گی۔ جنگ کے دوران آپ کی طبیعت بہت خراب ہو گئی اور یزید کے پوچھنے پر کہ آپ کی کوئی خواہش ہے ، آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ مجھے دشمن کی زمین میں جہاں تک ہو سکے اندر جا کر دفنا دینا۔ مسلمانوں نے تابڑ توڑ حملے کیے اور رومیوں کو دھکیل کر شہر کی فصیل تک لے گئے اور آپ رضی اﷲ عنہ کو وہاں پر دفن کیا۔
روایت ہے کہ رومیوں نے فصیل پر سے کہا کہ تم جب واپس چلے جاؤ گے تو ہم اس لاش کو نکال کر باہر پھینک دیں گے جہاں جانور اور پرندے اس کو کھا جائیں گے۔ یزید نے سن کر کہا کہ قسم ہے اﷲ رب العزت کی! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم نے اس لاش کی بے حرمتی کی تو میں اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا، پورے شہر کو آگ لگا دوں اور کسی بھی شہری کو زندہ نہ چھوڑوں گا۔ رومی ڈر گئے اور انھوں نے قبر کی بے حرمتی نہیں کی۔
1459 میں سلطان محمد فاتح نے سنگ مر مر کی خوبصورت قبر اور مقبرہ تعمیر کروایا اور اس وقت سے آج تک یہ مقبرہ (مزار) نہ صرف ترک باشندوں کے لیے بلکہ دنیائے اسلام کے مسلمانوں کے لیے ایک نہایت متبرک جگہ بن گئی ہے اور جو مسلمان استنبول جاتا ہے وہ ضرور اس مقبرے کی زیارت کرتا ہے اور فاتحہ پڑھتا ہے۔ ترکی میں ہی قونیہ میں مولانا جلال الدین رومی کا مزار ہے جہاں ہزاروں مسلمان جا کر فاتحہ پڑھتے ہیں۔ اﷲ پاک ان دونوں بزرگوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام پر فائز رکھے۔ آمین۔
(مطبوعہ: روزنامہ جنگ ملتان ۸؍اگست ۲۰۱۶ء)
(بہ شکریہ: ہفت روزہ ختم نبوت، کراچی، ۲۳ تا ۳۱؍اگست ۲۰۱۶ء، شمارہ:۳۲)