لاہور(پ ر) 26اکتوبر 1984کو ساہیوال میں قادیانیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے امیر احرار ساہیوال قاری بشیر احمد حبیب اور اظہر رفیق کی یاد میں مجلس احرار اسلام ساہیوال اور جمعیت علماء اسلام ساہیوال کے زیر اہتمام گزشتہ روز نکالی جانے والی ”ختم نبوت ریلی“ کے قائدین، مقررین اور شرکاء نے مطالبہ کیا ہے کہ حسینہ آباد اور ساہیوال کے دیگر مقامات پر قادیانیوں کی طرف سے جاری قانون کی خلاف ورزیوں کو فی الفور روکا جائے ورنہ ہولناک کشیدگی جنم لے گی اور اس کی ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں اور قادیانیوں پر عائد ہو گی۔ ختم نبوت ریلی بعد نماز عصر مسجد نور ہائی سٹریٹ ساہیوال سے شروع ہوئی۔ شرکاء نے مجلس احرار اسلام پاکستان اور جمعیت علماء اسلام پاکستان کے پرچم اور تحریک ختم نبوت کے بینرز اٹھا رکھے تھے اور ختم نبوت زندہ آباد اور مرزائیت مردہ آباد کے فلک شگاف نعروں سے فضاء معطر تھی۔ جلوس کی قیادت عبداللطیف خالد چیمہ، چودھری افضل حق، قاری سعید ابن شہید، قاری عبدالجبار، حکیم حافظ محمد قاسم،حافظ اسامہ عزیر،مرزا ابرار، مولانا محمد عابد، مفتی کفایت اللہ، شبان ختم نبوت کے نائب صدر محمد طارق ایڈووکیٹ، مولانا مجیب الرحمن اور دیگر رہنماء کر رہے تھے۔ جلوس کے شرکاء شہدائے ختم نبوت چوک پہنچے تو جلوس جلسہ عام کی شکل اختیار کر گیا جہاں عبداللطیف خالد چیمہ، چودھری ضیاء الحق، پیر جی عزیز الرحمن، محمد قاسم چیمہ، مولانا اسماعیل قطری اور دیگر نے خطاب کیا۔ مقررین نے انتباہ کیا کہ ضلع ساہیوال کی سرکاری انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے فرائض منصبی میں قادیانیوں کے دباؤ میں آکرغفلت کر رہے ہیں۔ عبداللطیف خالد چیمہ نے واہ شگاف الفاظ میں کہا کہ ولڈ اسٹیبلشمنٹ کا ایک قادیانی کارندہ لارڈ طارق احمد جو برطانیہ کا وزیر مملکت بھی ہے نے گزشتہ دنوں سے پاکستان آکر شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری اوراہم شخصیات سے پر اسرار ملاقاتیں کی ہیں جن کو حکومت چھپا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1953ء کے تیرہ ہزار شہدائے ختم نبوت کا خون مسلم لیگ کے سر پر ہے اور وہ پھر سے قادیانیت نوازی کو دہرانا چاہ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مشہور زمانہ قادیانی ڈاکٹر عبدالسلام کو ہیرو قرار دے رہے ہیں حالانکہ ڈاکٹر عبدالسلام نے 1984ء میں ہمارے ایٹمی راز امریکہ کو فروخت کیے تھے اور پاکستان کو ایک لعنتی ملک قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سامراج قادیانیوں کی پشت پر ہے اوران کو پوری طرح سپورٹ کررہا ہے، دینی جماعتوں کو اس کا ادراک کرنا چاہیے اور اس کی آگاہی مہم میں جد جہد کر کے رائے عامہ کو آگے پڑھانا چاہیے۔