تحریر: حافظ حبیب اللہ چیمہ
آج یکم جون ہے اور آج کے دن یکم جون 2007 بروز جمعتہ المبارک کو میرے والد گرامی حضرت حافظ عبدالرشید رح (خلیفہ مجازحضرت خواجہ خان محمد رح) مدینہ منورہ میں ہمیں چھوڑ کر جنت البقیع منتقل ہوگئے ۔ جبکہ 16 دسمبر 2011 بروز جمعتہ المبارک کو میری والدہ محترمہ ہمیں چھوڑ گئیں ۔ دونوں کو جمعتہ المبارک نصیب ہوا۔
دوستو : آج 13 سال ہوچکے میرے اباجی کو اس دنیا سے رخصت ہوئے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ابھی کل کی بات ہے ۔ میرے اباجی کو 2003 میں فالج ہوا تو چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے اس کے باوجود اباجی نے اپنے تمام معمولات جاری رکھے۔ میرے اباجی کو پہلے سے ہی کچھ ایسے اشارے مل چکے تھے کہ شائد یہ سفر ان کی زندگی کا آخری سفر ہو اسی لیئے جانے سے پہلے اپنے شیخ مکرم حضرت خواجہ خان محمد رح سے اجازت مانگی کہ میں وہیں رہ جاوں یا واپس آوں گا تو حضرت رح نے مسکرا کر فرمایا حافظ جی آپ جائیں اللہ پاک خیر فرمائیں گے تو پاس ہی تشریف فرما میرے حضرت الشیخ خواجہ خلیل احمد مدظلہ نے فرمایا کہ حافظ جی اس سے خوش بختی اور کیا ہوگی کہ حرمین الشریفین میں موت آئے تو عرض کیا کہ میں تو ہر وقت حاضر ہوں صرف حضرت جی کی اجازت درکار تھی ۔ عمرہ پر روانگی سے چند دن پہلے مجھ سے باتیں کرتے ہوئے فرمایا کہ تم مجھے لے کے جا رہے ہو لیکن تمہیں وہاں پریشانی ہوگی ۔ 26 مئی کو ہم مکہ مکرمہ پہنچے ادائیگی عمرہ کے دو روز بعد ہم مفیمہ منورہ چلے گئے جہاں انتقال سے 2 دن پہلے مدینہ پاک میں میری والدہ محترمہ کو بھی یہ فرمایا کہ اگر مدینے میں مرنا چاہتی ہو تو دعا کرو کہ یہاں دعا بھت جلد قبول ہوتی ہے اور انتقال سے تقریبا 15 گھنٹے پہلے پھر والدہ صاحبہ سے یہ بھی فرمایا کہ اپنے والدین کو کوئی پیغام دینا ہو تو بتاو ۔ والدہ صاحبہ نے عرض کیا کہ کیا آپ جا رہے ہیں ؟ تو فرمایا کیا پتہ کب چلا جاوں ۔ اسی طرح آخری رات مجھے اپنے ساتھ لگائے رکھا اور ہم دونوں باپ بیٹا ایک بیڈ پر سوئے رہے ۔آخری رات تھوڑے تھوڑے وقفہ سے بھت زیادہ تلاوت فرماتے رہے اور نماز فجر کے بعد اچانک لیٹے لیٹے اللہ کے حضور پیش ہوگئے ۔ میرے اباجی رح فنا فی الیشخ تھے اور اس کا برملا اظہار یوں فرماتے کہ مجھ پر میرے مالک کا بھت ہی زیادہ کرم ہے اور یہ فیض صرف میرے شیخ مکرم کی دعاووں اور توجہات کا ثمر ہے۔
دوستو : میں اپنے اباجی کے انتقال کے بعد 10 مرتبہ حرمین الشریفین حاضر ہوا ہوں گزشتہ برس بھی اپنے بچوں سمیت حاضر ہوا ۔ آپکی قبر مبارک ابھی تک موجود ہے میں صبح و شام اپنے اباجی کوملنے جاتا اور ڈھیر ساری باتیں ان سے کرتا ہوں تب مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ مجھے میری باتوں کا جواب دے رہے ہیں۔ میرا بیٹا حافظ سعید احمد بھی ساتھ ہوتا اور میری اہلیہ اور بیٹی جنگلے سے باہر کھڑے ہوکر اباجی کی قبر کی زیارت کرتیں ۔ میرے اباجی میرے باپ ہی نہیں بلکہ میرے استاد، میرے دوست اور میرے شیخ کی غیرموجودگی میں حضرت الشیخ رح کا فیض بھی انہی کے توسط سے ملا۔ اباجی نے اپنی زندگی میں جو سب سے زیادہ سبق دیا وہ محبت شیخ ، قرب شیخ اور صحبت شیخ کا سبق تھا ۔ اباجی کی دعاووں کا ثمر کہ ہم سب بہن بھائی اور اہل خاندان اپنے شیخ مکرم جانشین خواجہ خواجگان رح حضرت خواجہ خلیل احمد دامت برکاتہم العالیہ سے منسلک ہیں اور حضرت الشیخ مدظلہ بھی ہم پر بے پناہ شفقت فرماتے ہیں ۔ میرے والد گرامی رح کی وفات کے بعد ان کے بھت سارے دوست احباب اور پیر بھائی زندہ تھے جن میں سے کئی ایک اللہ کو پیارے ہوگئے کچھ اب بھی زندہ حیات ہیں اللہ پاک ان کو صحت و سلامتی کے ساتھ لمبی زندگی عطاء فرمائیں ان کے تمام احباب نے مجھ سے باپ والی محبت کی اور ہمیشہ دست شفقت میرے سر پر رکھا ۔ میرے اباجی کی نشانی میرے سب سے چھوٹے چچا محمد حنیف چیمہ امریکہ میں ہیں اللہ پاک انکو صحت وسلامتی کے ساتھ لمبی زندگی عطاء فرمائیں کہ مجھے ان کو دیکھ کر ہی سکون مل جاتا ہے۔
دوستو! میری والدہ محترمہ نے ساری عمر حضرات اکابر خانقاہ سراجیہ مجددریہ، بزرگان دین، علماء کرام اور مدرسہ میں مہمانان رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیا ۔ میرے اباجی کی صحبت میں والدہ محترمہ بوقت تہجد اٹھ جاتیں ۔ جب میں درس پیرجی (مدرسہ تجویدالقرآن چیچہ وطنی) میں پڑھتا تھا تو نماز فجر سے پہلے مجھے ناشتہ بنا کر دیتیں کہ اس سے پہلے وہ اپنے معمولات سے فارغ ہوچکی ہوتیں تھیں۔
ایک اہم بات یہ کہ میرے ابا جی رح نے میری والدہ سے فرمایا کہ ایک خوشخبری دیتا ہوں لیکن وعدہ کرو مجھ سے اسکی وجہ نہیں پوچھو گی میری والدہ محترمہ نے وعدہ کیا تو اباجی نے فرمایا کہ مجھے اپنا تو علم نہیں لیکن تم سیدھی جنت میں جاو گی اور اگر یقین نہ ہو تو میں لکھ کر دینے کو تیار ہوں ۔ دعا ہے کہ اللہ پاک میرے اباجی انکے دوستوں اور تمام امت مسلمہ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائیں، آمین ثم آمین۔