عبدالمنان معاویہ
یاد گار اسلاف ،محقق، عالم دین، مصنف کتب کثیرہ، قافلۂ امیرشریعت رحمتہ اﷲ علیہ کے فرد فرید ،شیخ القرآن مولانا غلام اﷲ خان ؒوحافظ الحدیث مولانا عبداﷲ درخواستیؒ اورمحقق اہلِ سنت مولانا سید احمد شاہ چوکیروی ؒ کے شاگردرشید ،اما م الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کے شیدائی ،جانشین امیر شریعت مولانا سید ابومعاویہ ابوذر بخاری ؒ کے فدائی،حضرت مولانا حافظ حکیم ارشاد احمد دیوبندی 6صفر المظفر 1438 ھ مطابق 7نومبر 2016 ء بروز سوموار کو جہان فانی سے دار باقی کی طرف کوچ کرگئے ،انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
حضرت مولانا ارشاد احمد دیوبندی ؒ19 رمضان المبارک1352ھ،جنوری 1934ء ،بروزجمعۃ المبارک بوقت صبح صادق بستی گوپانگ بلوچ، ظاہر پیر میں پیدا ہوئے۔ والد ماجد کا نام حاجی عبداﷲ ؒ گوپانگ تھا،حاجی عبداﷲ ؒ گوپانگ زاہد ومتقی انسان تھے اور بانی دین پور شریف،ولی کامل پیر طریقت حضرت خلیفہ غلام محمد رحمۃ اﷲ علیہ کے مرید صادق تھے، انہوں نے بچے کی پیدائش پر اپنے مرشد حضرت خلیفہ غلام محمد سے بچے کے لیے دعا بھی کروائی اور نام رکھنے کی فرمائش کی، انھوں نے بچے کا نام ’’ارشاد احمد ‘‘ تجویزفرمایا۔
مولانا حافظ ارشاد احمد دیوبندیؒ نے قرآن کریم دین پور شریف میں مشہور استاد میاں جی رحمہ اﷲ کے پاس حفظ کیا۔ آپ کا آخری سبق برکت کے لیے جانشین شیخ الہند ؒ،شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اﷲ نے پڑھایا۔ اسی دوران حضرت مدنی رحمتہ اﷲ علیہ نے آپ سے نام پوچھا، جب آپ نے نام ’’ارشاد احمد ‘‘بتایا تو حضرت مدنی رحمتہ اﷲ علیہ نے فرمایا: نہیں ارشاد احمد نہیں، تم ’’ارشاد احمد دیوبندی ‘‘ہو،جب سے اپنے وصیت نامہ کی تحریر تک آپ اپنا نام ’’حافظ ارشاد احمد دیوبندی ‘‘ہی لکھتے رہے ۔
حفظ قرآن کریم کے بعد آپ باقاعدہ مجلس احرار اسلام ہند کے رکن بن گئے، آپ نے خود تحریر فرمایا کہ :’’مجھے بچپن سے قائدین مجلس احرار اسلام کے ساتھ قلبی لگاؤ اور دلی اُنس تھا ،مجلس احرار اسلام میں شمولیت سے میرے اندر خود بخود ایک قدرتی انقلاب پید اہوا، میری زندگی کا اصل کارنامہ اسی زندگی میں پوشیدہ ہے۔ قائدین احرار کے ساتھ میرے حقیقی قلبی روابط قائم رہے ‘‘۔
حفظ قرآن کریم کے بعد آپ نے گلستاں اور بوستاں اپنے والد ماجد سے پڑھیں پھر مِسْن آباد مضافات ظاہر پیر میں مولانا غلام احمد صاحب گجراتی رحمہ اﷲ سے ابتدائی کتب صرف ونحوسے لے کر مشکوٰۃ شریف تک پڑھیں،جب آپ نے مشکوٰۃ شریف ختم کی تو اپنے والد ماجد کے ساتھ سعادت حج کی غرض سے سرزمین حجاز کی جانب آپ کا پہلا سفر ہوا،جب وہاں سے واپسی ہوئی تو تحریک ختم نبوت 1953ء چل رہی تھی گرفتاریوں کا سلسلہ زوروں پر تھا آپ نے عارف باﷲ حضرت مولانا عبد الہادی دین پوری رحمتہ اﷲ علیہ سے دعا کروائی اور کراچی کا ٹکٹ لیا لیکن خان پور ریلوے پولیس نے خان پور میں ہی گرفتار کرلیا اور پھر ’’خان پور ،رحیم یار خان ،سکھر ،بہاول پور اور کراچی کی جیلوں میں میں کم وبیش پانچ ماہ گزارے،آپ نے ایام ہائے قید وبند میں درس قرآن کریم کا سلسلہ بعد نماز فجر شروع کردیا ،سکھر جیل میں آپ کو امام الاولیا ء ،شیخ التفسیرحضرت مولانا احمد علی لاہوری علیہ الرحمہ اور امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری علیہ الرحمہ ودیگر کئی اکابر علماء کی صحبت نصیب ہوئی ۔
جیل سے رہائی کے بعد آپ ؒ نے مخزن العلوم خان پور میں حافظ الحدیث حضرت مولانا عبداﷲ درخواستی علیہ الرحمہ کے پاس دورہ حدیث شریف کے لیے داخلہ لیا دورہ حدیث حضرت درخواستی علیہ الرحمہ سے کیا ،دورہ تفسیر بھی آپ نے اسی سال حضرت درخواستی علیہ الرحمہ سے کیا ،دورہ حدیث شریف والے سال آپؒ نے ’’مرزائیت سے بچو‘‘نامی ایک اشتہار چھپوایا ،ایک روز بخاری شریف کا سبق ہورہا تھا کہ پولیس ہتھکڑی لیے آپہنچی ،تو حضرت درخواستی علیہ الرحمہ نے فہم وفراست سے پولیس کو واپس بھیج دیا اور حافظ ارشاد احمد دیوبندی ؒ سے کہا کہ فی الحال مدرسہ سے کسی اور جگہ چلے جاؤ ،تو حافظ صاحب نے یہ عرصہ ہالیجی شریف سندھ میں ولی کامل حضرت مولانا حماد اﷲ علیہ الرحمہ کے پاس بسر کیا ،حافظ صاحب خود رقم طراز ہیں کہ :’’جب اس واقعہ کی اطلاع سیدنا حضرت امیر شریعت نور اﷲ مرقدہ کو ہوئی تو انھوں نے ازراہ شفقت مجاہد ملت حضرت مولانا محمد علی جالندھری علیہ الرحمہ اور علامہ ارشد بہاولپوری مدیر روزنامہ کائنات بہاولپور کے ذریعے مقدمہ مکمل طور پر ختم کرادیا ‘‘۔
1956ء میں آپ نے حافظ الحدیث حضرت درخواستی رحمہ اﷲ کے پاس دورہ حدیث شریف کی تکمیل کی، 1985 ء میں آپ نے شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اﷲ خان رحمتہ اﷲ علیہ سے دورہ تفسیر پڑھا ،آپ کو تین اکابر علماء سے تفسیر قرآن کریم پڑھنے کی سعادت ملی ’’حافظ الحدیث حضرت مولانا عبداﷲ درخواستی رحمہ اﷲ،شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اﷲ خان رحمہ اﷲ اور شیخ التفسیر حضرت مولانا عبدالغنی جاجروی رحمہ اﷲ ،حضرت حافظ صاحب مرحوم مغفور نے شیخ القرآن مولانا غلام اﷲ خان رحمہ اﷲ کے ہاں دورۂ تفسیرضرور کیا لیکن اس اختلافی مسئلہ میں جو جمعیت اشاعۃ التوحید والسنہ اور علمائے دیوبند میں واقع ہے وہ علمائے دیوبند کے ساتھ تھے۔
اسی طرح ایک بار فرمانے لگے کہ میں جب مولانا غلام اﷲ خان رحمہ اﷲ کے پاس دورۂ تفسیر پڑھنے کے لیے گیا تو حضرت امیر شریعت رحمہ اﷲ کاتعارفی خط میرے ہمراہ تھا۔ تو شیخ القرآن اس خط کی وجہ سے میرا کھانا اپنے گھرسے بھیجا کرتے تھے ،جب بھی ان سے نشست ہوتی تو بزگوں کے حالات وواقعات سننے کو ملتے ۔
حضرت امیر شریعت رحمہ اﷲ کی ایماء سے ہی آپ نے امام اہل سنت حضرت مولانا سید احمد شاہ چوکیروی علیہ الرحمہ سے دورہ ردرفض پڑھا ۔حضرت مولانا احمد شاہ چوکیرو ی رحمہ اﷲ سے پڑھنے کا واقعہ آپؒ نے راقم کوخود سنایا کہ :’’ ایک بار امیر شریعت رحمۃ اﷲ علیہ نے مجھے کہا کہ ’’حافظ ارشاد تمہیں صحابہ کرامؓ سے خصوصی لگاؤ ہے تم جاؤ احمد شاہ چوکیروی سے ردرفض پر پڑھ کر آؤ‘‘ اور شاہ جی ؒ نے امام اہلسنت سید احمد شاہ چوکیروی ؒ کے نام خط بھی لکھ دیا ،اور یوں مجھے ان کا ہاں داخلہ مل گیا ‘‘۔
حضرت مولانا ارشاد احمد دیوبندی رحمۃ اﷲ علیہ کاتعارف مجھے ماہنامہ خلافت راشدہ فیصل آباد میں شائع ہونے والے ان کے مضامین سے ہوا پھر پتہ چلا کہ وہ ظاہر پیر سے ہیں۔ ایک روز ان کی زیارت کے لیے حاضر ہوا وہ اس پیار ومحبت سے ملے کہ میں حیران رہ گیا کہ پہلی ملاقات میں یوں لگ رہا تھا جیسے برسوں کا تعلق ہو ۔میں ان کی خدمت میں ہرماہ ایک آدھ بار ضرور حاضر ہوتا اگر نہ جاتا تو ان کا مکتوب یا کال آجاتی کہ وہ بھی منتظر ہیں ۔اور یوں میں ان کی محبت میں اسیر ہوتا چلاگیا میں مضمون لکھتا تو ماہنامہ خلافت راشدہ میں بھیجنے سے قبل انھیں بھیج کر ان کی رائے طلب کرتا تاکہ اشاعت سے قبل اصلاح ہوجائے کبھی تو وہ کوئی جملہ حذف فرمادیتے اور کبھی میری حوصلہ افزائی کے لیے مضمون کو جوں کا توں رہنے دیتے اور بھر پور تعریف فرماتے ۔ایک مکتوب میں تحریر فرمایا کہ:’’آں عزیز کا مکتوب گرامی مع مضمون ’’امت مسلمہ میں انتشار پیدا کرنے والے گروہ کی نشاندہی‘‘ملا ہے ماشاء اﷲ آپ نے اسے کافی محنت بلکہ متعدد کتب کی اوراق گردانی سے اور محنت عظیم سے ترتیب دیا ہے اگرچہ تاریخی واقعات جو آپ نے ایک جگہ جمع کردئیے ہیں یہ مختلف تاریخی کتب میں بکھرے ہوئے اصحاب علم وادب کے مطالعہ میں ضرور آئے ہونگے مگر الحمد اﷲ جس عظیم الشان بہت بہتر اور سلیقہ سے آپ نے ان کو جمع کیا ہے یہ وقت کی ایک بہت اہم ضرورت تھی اﷲ تعالیٰ جس سے چاہتا ہے وہ اپنا کام لے لیتا ہے‘‘۔(16/5/2008 کو یہ خط حضرت ؒ نے لکھا)
میرا ایک مضمون’’دفاع صحابہ ؓ کیوں ضروری ہے ․․؟‘‘ جو کئی رسالوں میں 2008 ء میں شائع ہوا اس کی انہوں نے بہت تعریف کی اور کہا کہ یہ مضمون نقیب ختم نبوت کو بھی ارسال کردیں۔ میری غیر مطبوعہ کتاب جو ابھی تک مسودہ کی شکل میں ہے ’’عالم اسلام کی مظلوم شخصیت سیدنا امام معاویہ رضی اﷲ عنہ‘‘جب مکمل ہوئی تو میں مسودہ حافظ ارشاد احمد دیوبندی رحمہ اﷲ کے پاس لے کر حاضر ہوا ۔ مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’’مولانا کیا مجھے اس میں حک واضافہ کی اجازت ہے ․․؟‘‘میں نے عرض کی کہ حضرت صرف مقدمہ میں تعریف لکھوانا مقصود نہیں بلکہ اصلاح بھی فرمادیں اور لازمی امر ہے کہ اصلاح میں آپ کو حک واضافہ کا پورا پورا حق ہے اور میں بغیر کسی چوں چرا کیے اسے قبول کروں گا۔ تقریبا ً 15 روز کے بعد مجھے وہ مسودہ ایک بھرپور علمی و محققانہ مقدمہ کے ساتھ ملا۔ کتاب میں متعدد مقامات پر انہوں نے اصلاح بھی فرمائی۔ مقدمہ ایسا جان دار ہے کہ اگر کوئی شخص صرف مقدمہ پڑھ لے تو اس کے دل سے بغض معاویہ کے جراثیم مرجائیں۔مقدمہ ارسال فرمانے کے بعد ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں کہ :’’ عزیز محترم ! آپ کی کتاب پر مقدمہ حاضر خدمت ہے یہ قدرے طویل بھی ہے اور میرے گرم مزاج کے مطابق تھوڑا سا گرم بھی ہے چیچہ وطنی کے ایک عزیز نے مجھ سے احرار کی توصیف میں ایک نظم کہلوائی تھی جس کا آخری شعر کچھ یوں ہے
وہ لوگ بھی ہیں فرعون جن سے ہے تقابل ہم لوگ بھی احرار ہیں اب دیکھئے کیا ہو
¸ بہرحال آپ اسے ملاحظہ فرمائیں بلکہ ایک بار دیکھ کر پھر نظر ثانی فرمائیں اور اگر اس کے کسی حصے کی ترمیم واضافہ مناسب سمجھیں تو بندہ عفااﷲ عنہ کے نوٹس میں دے کر اس کا بھی آپ کو اختیار ہے۔ جب کہ میری پوری تاریخ گواہ ہے کہ آج تک میں اپنے کسی مضمون سے متعلق نہ ترمیم کی اجازت دیتا ہوں نہ ہی اضافہ کی ۔اسے آں محترم صرف اپنی خصوصیت سمجھیے ‘‘۔(2/2/2008 )
12/2/2008 کو ایک مکتوب تحریر فرمایا اس میں بسم اﷲ الرحمن الرحیم کے بعد یہ عبارت درج تھی’’حق معاویہ ؓ ،برحق معاویہ ؓ‘‘
ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ ’’ابتدائیہ میں جو کلمات میرے نام سے منسوب کئے گئے ہیں میں ان کا حامل نہیں ہوں ،من آنم کہ من دانم،بس وہی شیخ سعدی ؒ والی بات ہے کہ
بگفتا من گلے ناچیز بودم
/ولیکن مدتے با گل نشستم
5جمال ہم نشیں درمن اثر کرد
5وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
الحمدﷲ کہ یہ بندہ ناچیز ایک مدت اسلاف علمائے حق کے ساتھ ایک ادنیٰ خادم کے طور پررہا ہے اﷲ تعالیٰ قبول فرمائے۔آمین۔(26/6/2008 کو تحریر کردہ )
ایک بار انہوں نے اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ سے متعلق سوالات لکھ کر دارالعلوم دیوبند اور پاکستان کے چند بڑے دینی اداروں میں حصول فتویٰ کے لیے ارسا ل کیے دارالعلوم دیوبند اور پاکستان میں سے صرف مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہ کے طرف سے جواب موصول ہوا۔ وہ بڑے درد بھرے لہجہ میں اس المیہ کا ذکرکرتے تھے کہ دینی مدارس نے جواب دینا بھی گوارا نہ سمجھا ۔حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہ نے جو جواب دیا اس جواب سے وہ متفق نہیں تھے لیکن مفتی صاحب کی تعریف فرماتے تھے کہ انہوں نے ان کے مکتوب کو نظر انداز نہیں کیا۔
یہی سوالات انہوں نے مجھے لکھ کر ارسال کیے تو میں نے انہیں لکھا کہ حضرت یہ تو حضرات مفتیان دین وعلمائے دین کا منصب ہے میں تو ایک طالب علم ہوں ان کا جواب آیا کہ ہردرد مند مسلمان ان سوالات کو پڑھ کر اپنی رائے دے تو میں نے رائے کے ضمن میں چند صفحات لکھ کر ارسال کردئیے ان کا جوابی مکتوب ملا کہ ’’مولانا ! آپ کا جواب پڑھ کر دل کو خوشی ہوئی آپ نے دلائل وبراہین کے ساتھ ایسا مدلل جواب تحریر کردیا ہے کہ دل سے آپ کے لیے دعا گو ہوں ‘‘اس طرح کے کئی مکتوب میرے پاس ان کے محفوظ ہیں ۔
حضرت حافظ صاحب مرحوم ومغفور نے تقریباً تیس (۳۰) سے چھتیس (۳۶) کتب ورسائل تصنیف فرمائے، ان میں مشہور ’’حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ،کاروان اصحاب رسول اﷲ علیہم الرضوان ،کاروان اسلاف، خلافت سیدنا صدیق اکبرؓاورتحریک ختم نبوت ،المرأ ۃ المسلمۃ (مسلمان عورت)،تقلید کی حقیقت کیاہے․؟،طب جسمانی ،تحفۃ الموحدین ،مسلمانوں کا عروج وزوال تاریخ اسلام کی روشنی میں ،کاروانِ دین پور شریف ،دنیا کا آخری نجات دہندہ ‘‘ان کے علاوہ بے شمار کتب پر انہوں نے مقدمات وتقریظات تحریرکیں۔ دینی مجلات ورسائل میں ان کے مضامین اس پر مستزاد ہیں،ان کے مضامین ہفت روزہ چٹان لاہور،ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور،ہفت روزہ خدام الدین لاہور،ہفت روزہ لولاک فیصل آباد ،ماہنامہ الاحرار ملتان،ماہنامہ نقیب ختم نبوت ملتان، ماہنامہ مخزن العلوم خان پور،ماہنامہ تعلیم القرآن راولپنڈی ،ماہنامہ الخیر ملتان،ماہنامہ خلافت راشدہ فیصل آباد،ماہنامہ مناقب صحابہ ؓ فیصل آبادمیں شائع ہوتے رہے۔
ان کے اکثر وبیشتر مضامین میں اکابر علمائے دین،بالخصوص حضرات دین پور شریف اور رہنمایانِ احرار خصوصیت کے ساتھ امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری،مورخ اسلام سید الاحرار سید ابومعاویہ ابوذربخاری،محسن الاحرار سید عطا ء المحسن بخاری رحمہم اﷲ کا تذکرہ ضرور ملتا ہے۔ وہ ذہنی طور پر کٹر احراری اور تحریری طور پر اصحاب واہل بیت رسول ؓ کے مدح سرا تھے۔ ان کے مضامین میں ان کی بہت سی یاد داشتیں درج ہوتی تھیں اور اخفاء تاریخ کو وہ اپنے قلم کے ذریعے سے عیاں کردیتے تھے ۔ان کے تجزیے وتبصرے بڑے جاندار ہوتے تھے راقم کی کتاب ’’اجمالی نظر‘‘پر انہوں نے جو تبصرہ کیا وہ ’’مجلہ نظام خلافت راشدہ ،خیرپور میرس‘‘میں شائع ہوا جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ پاکستان کے ایک بڑے عالم دین ان سے ان کی کتاب کا مسودہ چھاپنے کے لیے لے کر گئے لیکن کچھ عرصہ بعد اپنے نام سے کتاب چھاپ دی۔ وہ یہ بتا کر مسکراتے تھے اور فرماتے کہ اگروہ صاحب مجھ سے اجازت لے لیتے تو میں بخوشی اجازت دے دیتا لیکن انہوں نے بغیر اجازت چھاپ دی کوئی بات نہیں۔ اسی طرح ان کے پاس ایک قدیم بڑی لائبریری تھی جس کانام انہوں نے مفکر احرار چوھدری افضل حق ؒ کے نام پر رکھا ہوا تھا جیسے آخرعمر میں ’’صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین لائبریری ‘‘رکھ دیا تھا۔ اس میں سے بھی بہت سے لوگ کئی کئی جلدوں کی کتابیں پڑھنے کے لیے لے کر جاتے اور واپس نہ کرتے تھے اس طرح کئی نایاب کتب لوگ اٹھا کرلے گئے ۔
2009 ء میں راقم السطور تلاش معاش کے لیے سعودی عرب چلا گیا۔ وہاں سے بذریعہ موبائل ان سے رابطہ رہا اور خط کتابت بھی ہوتی رہی وہ بھی مجھے سعودی عرب خط لکھتے رہے۔ 2010 ء میں میں نے انہیں لکھا کہ اس سال حج کا ارادہ ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ حج کی شرائط میں تو نہیں لیکن مدینہ منورہ ضرور بالضرور حاضری دینا اور روضہ ٔ رسول ﷺپر اور حضرات شخین ؓ کے مواجہات کے سامنے میری طرف سے بھی ہدیۂ صلوٰۃ وسلام پیش کردینا ۔
نومبر2014 ء میں میری سعودیہ عرب سے مستقل واپسی ہوئی تو میں کراچی سے بذریعہ بس صادق آبادآگیا۔ وہاں والد صاحب کار لائے ہوئے تھے ہم براستہ ظاہر پیر گھر آرہے تھے تو میں نے کار ڈرائیور سے کہا ظاہر پیر شہر جانا ہے۔ ہم جب حضرت دیوبندی کے گھر پہنچے تو وہ مل کر بڑے خوش ہوئے۔ ان کے چھوٹے فرزند بھائی غلام اﷲ خان کچھ فروٹ لے آئے جس سے انہوں نے ہماری ضیافت کی ،کچھ دیر بیٹھ کر میں نے اجازت چاہی۔ حضرت نے دوبارہ آنے کو کہا۔ دو تین بار دوبارہ بھی چکر لگا۔ کچھ عرصہ سے وہ کافی علیل تھے اور ظاہر پیر شہر سے اپنے گاؤں میں منتقل ہوگئے تھے دو بار وہاں بھی ان کی زیارت کے لیے جانا ہوا۔ حضرت مرحوم کے بڑے فرزند بھائی عبداﷲ حجازی سے موبائل پر کافی دیر بات ہوئی انہوں نے بتایا کہ ’’حضرت بڑی خوشی سے اس بات کا تذکرہ کرتے تھے کہ دیکھو عبدالمنان سعودی عرب سے واپسی پر پہلے مجھے ملنے آیا ہے گھر بعد میں گیا ‘‘۔
لیکن خانہ خراب ہو فکر معاش کا ،کہ میں لاہور میں تھا اور حضرت مولانا حافظ ارشاد احمد دیوبندی ’’مدظلہ‘‘ سے ’’ رحمۃ اﷲ علیہ‘‘ کے حق دار ہوگئے انہوں نے تقریباً82 سال عمر پائی گویا ایک صدی
خدارحمت کنند ایں عاشقانِ پاک طینت را
حضرت مولانا ارشاد احمد دیوبندی رحمۃ اﷲ علیہ نے وصیت فرمائی کہ :’’ میرا مسلک اہل سنت والجماعت علمائے دیوبندکے مسلک حق کی تقلید ہے۔ اسلاف علمائے دیوبند اسلام کے حقیقی ترجمان اور وارث ہیں۔ لہٰذا میرے ورثا حضرات کا فرض منصبی ہے کہ وہ اسلاف علماء دیوبند کے مسلک کے مطابق اپنی مستعار زندگی کے شب وروز گزاریں اور حق کی جماعت کے ساتھ منسلک رہیں۔ اس کے علاوہ دیگر گروہ افراط وتفریط کا شکار ہیں۔ قرآن وحدیث کی سچی پیروی ہمارا عین ایمان ہے۔ ورنہ انسانی دل ودماغ پر شیطان ڈیرا ڈال دیتا ہے۔ گانے بجانے سے اجتناب او رٹی وی جو ٹی بی ہے سے بچنا بلکہ بھاگنا اپنا جزو ایمان بنائیے۔ بلکہ ان سے قلبی نفرت کا اظہار برملا کرنا چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ سے ہر وقت حفاظت ایمان کی مخلصانہ دعا کا ورد رکھنا چاہیے۔ میری وفات کے بعد جتنا جلد ممکن ہو سکے میری تدفین بڑی عجلت سے کرنی چاہیے۔ میر اجنازہ کوئی موحد مسلمان جو شرک وبدعت کا عملی طور پر باغی ہو وہ امامت کرائے۔ مقتدیوں میں طلبائے کرام کی جماعت کو شرکت کی دعوت ضرور دینی چاہیے۔ نیز میرے عزیز وغیرہ رونے اور بین کرنے سے ہر حال میں اجتناب کریں اور جتنا ہوسکے صبر جمیل کا مظاہرہ کریں اور میرے لیے مغفرت کی خوب مخلصانہ عاجزانہ دعا ؤں کا دائماً اہتمام رکھیں۔ کفن نہایت کم قیمت اور بہت ہی سادہ ہونا چاہیے۔ اگر ممکن ہو مسلمانوں کے اجتماعی قبرستان میں دفن کیا جائے۔ ورنہ جہاں جگہ ملے وہیں سہی۔ قبر سنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان مبارک کے تحت نہایت ہی سادہ بنائی جائے۔ جس میں پکی اینٹ بالکل استعمال نہ کی جائے ۔والی اللّٰہ ترجع الامور
عزیز و سادہ ہی رہنے دو لوح تربت کو ہمیں مٹے تو یہ نقش ونگار کیا ہوگا
فقط :افقر الی اللّٰہ الصمد: فقیر ارشاد احمد دیوبندی عفاء اﷲ عنہ مدیر صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین لائبریری ،ظاہر پیر، ضلع رحیم یار خان
شورش کاشمیری رحمہ اﷲ نے شاید حافظ ارشاد احمد دیوبندی رحمہ اﷲ جیسے بزرگوں کے بارے میں کہا تھا کہ
اس چمن کو پھونک ڈالیں یہ جہاں برہم کریں تا بکے اپنے بزرگوں کا یہاں ماتم کریں
آئے دن رخت سفر باندھے ہوئے جاتے ہیں لوگ اب کہاں تک امتحان دیدہ پرنم کریں
روشنی بجھتی چلی جاتی ہے مہر وماہ کی مرنے والوں سے کہو شوق سفر مدھم کریں
کیسی کیسی صورتیں داغ جدائی دے گئیں اب کہاں سے ڈھونڈلائیں انہیں کیا ہم کریں
شوق آوارہ ، وفا رسوا ، قضا خنجر بکف اب کسے رہبر کریں اور کسے ہمدم کریں
ء ء ء