جالندهر کے خیر المدارس میں جلسہ ہوا….
جلسے کے اختتام پر کهانا لگا….
دستر خوان پر امیر شریعت مولانا عطا اللہ شاه بخاری رحمہ اللہ بهی تهے….
انکی نظر ایک نوجوان عیسائی پر پڑی….
تو اسکو فرمایا….
” بهائی کهانا کها لو”
عیسائی نے جواب دیا….
“جی میں تو بهنگی ہوں”
شاه جی نے درد بهرے لہجے میں فرمایا….
” انسان تو ہو اور بهوک تو لگتی ہے ”
یہ کہہ کر اٹهے….
اسکے ہاتھ دهلا کر اپنے ساتھ بٹها لیا….
وہ بیچارہ تهر تهر کانپتا تها اور کہتا جاتا تها….
” جی میں تو بهنگی ہوں ”
شاہ صاحب نے خود لقمہ بنا کر اسکے منہ میں ڈالا….
اسکا حجاب اور خوف کچھ دور ہوا….
تو شاہ صاحب نے ایک آلو اس کے منہ میں ڈال دیا….
جب اس نے آدها آلو کاٹ لیا….
تو باقی آدها شاه صاحب نے خود کها لیا….
اسی طرح اس نے پانی پیا….
تو اسکا بچایا ہوا پانی بهی شاه صاحب نے پی لیا….
دن گذر گیا….
وہ عیسائی کهانا کها کر غائب ہو گیا….
اس پر رقت طاری تهی….
وہ خوب رویا….
اسکی کیفیت ہی بدل گئی….
عصر کے وقت….
وہ عیسائی اپنی بیوی اور بچے کو لے کر آیا اور کہا….
شاہ جی….!
جو محبت کی آگ لگائی ہے….
اب وہ بھی بجهائیں….
اللہ کے لیے ہمیں کلمه پڑها کر مسلمان کر لیں….
میاں بیوی دونوں مسلمان ہو گئے….
وه ادائے دلبری ہو یا نوائے عاشقانہ….!!!
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ….
(بخاری کی باتیں، ص 29.30 )