عکرمہ نجمی؍ ترجمہ: صبیح ہمدانی
(قسط سوم)
ایک سوچی سمجھی تحریف کا ثبوت ہیضے کا قصہ
یہ ایسا مقام ہے کہ کوئی احمدی اس پر پیوند لگانے کی کوشش بھی نہیں کر سکتا، کیونکہ جعل سازی اتنی بڑی ہے کہ کسی تاویل و اصلاح کا امکان ہی باقی نہیں رہا۔ چونکہ یہاں کوئی جھوٹی گواہی یا ضمیر فروشی کام نہیں آ سکتی۔ چنانچہ قادیانیوں نے اس روایت کو ہی سرے سے حذف کر دیا ہے، جس میں میر ناصر کے مطابق خود مرزا قادیانی کے اپنے الفاظ تھے کہ: ’’مجھے ہیضہ ہو گیا ہے
ذیل میں پرانے ایڈیشن میں موجود عبارت کا ترجمہ دیا جا رہا ہے:
جب آپ (مرزا غلام قادیانی) اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ سفر پر جاتے تھے تو مجھے بھی ہمراہ رکھتے تھے۔ جب وہ لاہور کے سفر پر گئے تو میں ان کے ساتھ تھا، جب ان کا انتقال ہوا تو میں موجود تھا۔ وفات سے ایک روز پہلے جب آپ شام کی سیر کے لیے نکلے تو میں ان کے ساتھ تھا۔ تب میری کیفیت بہت خراب تھی، اور ان کی حالت دیکھ کر میری پریشانی طاقت سے باہر تھی، میرے غم کی شدت کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا……، جب رات کو ان کی طبیعت بگڑی…… تو مجھے جگایا گیا……، جب میں ان کے پاس پہنچا اور ان کو دیکھاتو انھوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا:
[میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے]
اس کے بعد میرے خیال میں انھوں نے کوئی اور واضح بات نہیں کی، یہاں تک کہ اگلے روز دس بجے کے بعد ان کا انتقال ہو گیا‘‘۔ (حیاتِ ناصر: ص:۱۴، طبع قدیم)
لیکن نئے ایڈیشن میں جماعت کے جعل سازوں نے بنیادی عبارت کو اس بھونڈے پن سے حذف کیا ہے کہ جملے کی ترتیب بگڑنے کی بھی کچھ پرواہ نہیں کی۔ اب عبارت اس طرح ہے:
’’جب رات کو ان کی طبیعت بگڑی …… میں اسی مکان میں سو رہا تھا، تو مجھے جگا یا گیا……، جب میں ان کے پاس پہنچا اور ان کی حالت دیکھی ، اور اگلے روز صبح دس بجے ان کا انتقال ہو گیا‘‘۔
یعنی درمیان سے اس عبارت کو بالکل حذف کر دیا گیا کہ:
’’تو انھوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا: [میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے]اس کے بعد میرے خیال میں انھوں نے کوئی اور واضح بات نہیں کی‘‘
اس پوری عبارت کو حذف کر کے جملے کو اس شکل میں ڈھالا گیا کہ: وہ (میر ناصر) مرزا قادیانی کے پاس حاضر ہوا پھر اگلے روز مرزا صاحب کا انتقال ہو گیا!!۔ جو شخص کسی دوسرے کی عبارت میں سے اپنی مرضی کی باتوں کو اس جرأت و جسارت سے حذف کر سکتا ہے اس پر بالکل بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
مرزا طاہر احمد کا مباہلہ اور جماعتِ احمدیہ کی تحریف
جنرل ضیاء الحق کے ساتھ مباہلے کے قصے میں پیش آنے والی جعل سازی کی ایک اور مثال بھی دیکھیے۔ جس سے جماعت احمدیہ کی تحریفانہ اور نوسر بازانہ صلاحیتوں کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ پروفیسر ہانی طاہر لکھتے ہیں:
’’جب قادیانیوں کا چوتھا خلیفہ (مرزا طاہر) پاکستان سے فرار ہو کر ’یاجوج ماجوج‘ کے پاس پناہ گزین ہوا ، اور اپنی اس سیاسی پناہ گیری کے جواز میں اس نے حکومت کی جانب سے گرفتاری کی کوششوں کی داستان گھڑی، تو اس کو ایک بڑی مشکل کا سامنا اس طرح کرنا پڑا کہ اس کے پیروکار گروہ میں آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں کہ مرزا صاحب اور ان کے بعد ان کے خلفاء جن جلالی شان کے وعدوں اور خدائی نشانات کے اظہار کی پیشینگوئیوں کو لے کر کھڑے ہوئے تھے ان میں سے کچھ بھی تو پورا نہیں ہوا، اسی طرح اس عالمی جنگ کا بھی دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آ رہا جو جماعت احمدیہ کی پریشانیوں کا خاتمہ کرے۔ اس پر مرزا طاہر نے مجبور ہو کر مباہلہ کے اعلانات کے ذریعے اپنے پیروکاروں کی توجہ بانٹنے کی کوشش کی۔
اس مباہلے میں مرزا طاہر نے قادیانیوں کے خلاف لگائے جانے والے بے ہودہ الزامات کا ذکر کیا، مثلاً ’’مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ احمدیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ مرزا قادیانی خدا کا باپ ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ، پھر اس کے بعد جون ۱۹۸۸ء میں یہ دعا کی:
’’اے رب ہم تیرے سامنے عاجزی و زاری کے ساتھ یہ دعا کرتے ہیں کہ تو ہم میں سے جھوٹے اور مفتری فریق پر ایک سال کے دوانیے میں اپنا قہر و غضب نازل فرما اور ان کے لیے ذلت و خواری و رسوائی لکھ دے……، اور ان کو درد ناک عذاب کے ساتھ پکڑ اور شدید سزاؤں کے ساتھ مٹا دے ……، اور ان پر ایک بعد دوسری مصیبت نازل کر، اور ان پر ایک کے بعد دوسری آفت مسلط فرما ……‘‘ (کتاب دعوتِ مباہلہ)
اس دعا کے مطابق وہ فریق جو اس قسم کے جھوٹ باندھتا ہو اس پر درج ذیل احوال آنا ضروری ہیں:
۱: ذلت و خواری و رسوائی
۲: درد ناک عذاب اور شدید سزاؤں کے ساتھ نام نشان کا مٹ جانا
۳: ان پر پے در پے مصیبتوں اور ایک کے بعد دوسری آفتوں کا نازل ہوتے رہنا۔
۴: اور یہ سب ایک سال کے وقفے کے اندر اندر یعنی جون ۱۹۸۹ء تک وقوع پذیر ہونا۔
پھر دو ماہ بعد مرزا طاہر نے اس دعا کو منسوخ کر دیا، اور ۱۲؍اگست ۱۹۸۸ء کے خطبے میں اپنی جماعت کو خطاب کرتے ہوئے کہا:
۱: میری لاعلمی اور خطا کی انتہا دیکھو……
۲: اﷲ سے یہ دعا کرو کہ وہ اس قوم پر رحم فرمائے تا کہ یہ ایمان لا سکیں، یہ دعا مت کرو کہ یا اﷲ ایسا ایسا معاملہ ظاہر فرما ، تا کہ یہ ایمان لے آئیں۔ (یعنی مرزا طاہر لوگوں کی بربادی کی دعا مانگنے کے عمل کے حق میں نہیں)
۳: پس وہ دعا جو میں نے آپ لوگوں سے پچھلی بار طلب اس کو منسوخ سمجھیں، کیونکہ اس کا کوئی مطلب نہیں ہے،
۴: واحد دعا جو ہم سب کو مانگنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اے اﷲ تو دلوں کا مالک ہے، تو قادر و قوی ہے، تو رحیم ہے، اے اﷲ تو ہمیں معجزے کے طور پر ان مخالفوں کے دلوں کو پلٹتا ہوا دکھا دے کہ یہ مومن بن جائیں، ہمیں ان کے عذاب پر خوشی نہ ہوگی، بلکہ ان کی ہدایت پر خوشی ہو گی۔ (۱۲؍ اگست ۱۹۸۸ء کا خطبہ)
اب ہوا یوں کہ اس خطبے کے پانچ دن بعد صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق ہوائی جہاز کے حادثے میں قتل کر دیے گئے۔اس میں ایک بات تو بالیقین یہ کہی جا سکتی ہے کہ ہوائی حادثے میں قتل ہونا نہ تو رسوائی ہے اور نہ ذلت و خواری، بالخصوص اس صورت میں جبکہ جنرل ضیاء الحق کو پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے جنازوں میں سے ایک جنازہ بھی نصیب ہوا۔ چنانچہ اصولاً تو اس موت کو مرزا طاہر کے مباہلے کا نتیجہ کہنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ایک ہوائی جہاز میں بم پھٹنا ہر گز ’پے در پے مصیبتوں‘ یا ’آفت کے بعد آفت ‘ کے مترادف نہیں ہے، بلکہ یہ تو ایک لمحے میں پیش آنے والی سریع الاثر موت ہے جس سے دو چار ہونے والوں کو شاید احساس بھی نہ ہوا ہوگا۔ مزید یہ کہ مرزا طاہر کا مباہلہ خاص طور پر علماء و مشائخ کو مخاطب کر کے کیا گیا تھا اس میں ضیاء وغیرہ کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ مگر اس سب کے با وجود قادیانیوں کا زعم ہے کہ مباہلے کا نتیجہ ان کے حق میں نکلا، اور ہوائی جہاز میں بم دھماکے کا واقعہ پیش آنا مباہلے کے حق ہونے کی روشن دلیل ہے۔
اب چونکہ اس دعوے کو تسلیم کرنے کی کوئی بنیاد نہیں تھی لہذا جماعتِ احمدیہ نے ایک بار پھر تحریف اور جعل سازی کی بیساکھیوں کے سہارے اس دعوے کو مستحکم کرنے کی ٹھانی۔پس اب ان کا کہنا ہے کہ ان کے خلیفۂ رابع نے ۱۲؍ اگست ۱۹۸۸ء کے خطبے میں اعلان کیا تھا کہ:
’’خدا تعالیٰ نے کل رات خواب میں مجھ پر کھول دیا ہے کہ کہ تقدیر کی چکی نے گھومنا شروع کر دیا ہے، اور بے شک خدا تعالیٰ اس طاغوت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور اس کو ہباء منثورا کی طرح اڑا دے گا، پس آپ یقین کر لیں کہ اس کی سزا نزدیک ہے، اور دنیا کی کوئی طاقت اس کو اس سزا سے کبھی نہیں بچا سکتی‘‘۔ (مجلہ ’’التقویٰ‘‘ اپریل ۲۰۰۹ء)
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس خطبے میں ان مذکورہ الفاظ کا ایک حرف بھی مرزا طاہر کی زبان سے نہیں نکلا۔ بلکہ اس کے برعکس بات کی گئی، جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ ۱۲؍ اگست والے خطبہ میں تو مرزا طاہر نے اپنی بد دعاؤں کو منسوخ کرنے اور علماء و مشائخ کی ہلاکت کی بد دعاء کو ان پر رحمتِ خداوندی کے نزول کی دعا کے ساتھ بدلنے کے احکام جاری کیے تھے۔ ہاں اس سے پچھلے خطبے میں (یعنی منسوخ خطبے میں) مرزا طاہر نے البتہ کہا تھا کہ :’’خدا کی چکی نے گھومنا شروع کر دیا ہے……‘‘ لیکن اس خطبے میں بھی ضیاء الحق یا کسی دوسرے کا کوئی ذکر نہیں، نہ تو کسی ہباء کا نہ کسی منثورا کا۔
اسی طرح ان کا زعم ہے کہ ان کے خلیفہ نے ۱۰؍جون کے خطبے میں کہا تھا: ’’یقین کرلیں کہ خدا سبحانہ و تعالیٰ ضیاء الحق کو ضرور پکڑے گا‘‘۔ (مجلہ ’’التقوی‘‘ اپریل ۲۰۰۹ء)
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مرزا طاہر نے اس کے تین ہفتے بعد اس کے بالکل برعکس بات کہی:
’’میں صدر ضیاء الحق کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس مباہلے کو قبول کرنے سے پہلے تھوڑا غور و فکر سے کام لے، اور میں اسے خدا کے ڈر کی نصیحت کرتا ہوں۔ میں ان کو یہ نصیحت اس لیے کر رہا ہوں کہ جب میں نے ۲۵؍ جون کو ان کی تقریر سنی تو مجھے لگا کہ انھیں خدا کے خوف کا احساس ہے اور ان پر تقویٰ کے آثار موجود ہیں‘‘۔(خطبہ مرزا طاہر: یکم جولائی ۱۹۸۸ء)
اب دیکھنا چاہیے کہ عالمِ واقعہ میں کیا پیش آیا۔ ہوا یہ کہ احمدی جماعت اس قدر رسوا ہوئی کہ جھوٹ بولنے میں مثال بن کر رہ گئی۔ اور ان کا خلیفہ اس واقعے کے بعد ۱۱؍ برس زندہ رہا یہاں تک کہ الیاس ستار نامی ایک عام مسلمان (اور مجاہدِ ختمِ نبوت) سے حقیقی مباہلہ شروع ہوا جس نے مرزائیوں کے خلیفۂ رابع کو اندر باہر سے پارہ پارہ کر دیا۔ اس مباہلے کے بعد مرزا طاہر جتنا عرصہ زندہ رہا غم و الم میں رہا اور اسی غم و الم میں ہی مر گیا۔ رسوائی کا ایک نمونہ یہ ہوا کہ مرزا طاہر جھوٹ میں غلو اور مبالغے کی حدیں پار کر گیا، حتی کہ اس نے ایک بار یہ دعوی کیا کہ ایک سال میں آٹھ کروڑ دس لاکھ لوگوں نے دیگر ادیان چھوڑ کر احمدیت قبول کی ہے۔ رسوائی کی یہ صورت روزانہ بنیادوں پر ہمارے سامنے ہے ۔ہم سب مرزا طاہر کے اس کذب و افتراء کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر سکتے ہیں، اور یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ پوری پوری جماعت احمدیہ اور اس کے سب ارکان مرزا طاہر کے اس صریح جھوٹ کو جھوٹ کہنے سے خاموش ہیں اور اس کی ذمہ داری بھی قبول کرنے سے قاصر ہیں۔
جب میں نے مرزا قادیانی کے باطل پر ہونے کی دسیوں دلیلیں جمع کر کے شائع کیں تو مجھ سے کئی احمدیوں نے رابطہ کیا، اور ایک ہی بات دہرائی کہ: تمھارے بیان کردہ دلائل واضح ہیں مگر ضیاء الحق والے مباہلے کا کیا جواب دو گے؟۔
عام احمدیوں کے نزدیک ضیاء الحق کا قتل ایک عظیم الشان معجزہ ہے جس کی مثال انھوں نے کبھی زندگی میں نہیں سنی۔ یہیں سے جماعت احمدیہ کی جعل سازی کے لیول کا اندازہ کیا سکتا ہے کہ وہ ایک صریح جھوٹ کو سب سے بڑے معجزے میں تبدیل کرنے کی نو سربازانہ مہارت رکھتی ہے۔
مولانا ثناء اﷲ امرتسری کا قضیہ اور جماعت احمدیہ کی تعریف:
(مولانا ثناء اﷲ امرتسری نے مرزا غلام قادیانی کے ساتھ مباہلہ کرتے ہوئے یہ بد دعا فرمائی تھی کہ اﷲ دونوں میں سے جھوٹے شخص کو سچے کی زندگی میں موت عطا کرے، اور سچا آدمی جھوٹے کے مرنے کے بعد بھی حق کی نشانی کے طور پر باقی رہے، مرزا قادیانی نے اس مباہلے کو قبول کر لیا اور پھر مولانا ثناء اﷲ کی زندگی میں ہیضے کی وبا میں مبتلا ہو کر آنجہانی ہو گیا، جب کہ مولانا ثناء اﷲ مرزا قادیانی کے مرنے کے بیسیوں برس بعد فوت ہوئے۔ مترجم)
جماعت احمدیہ کی مشہور تحریفانہ جعل سازیوں میں سے ایک وہ ہے جو انھوں نے مولانا ثناء اﷲ امرتسری کے قصے میں گھڑ رکھی ہے۔ اس طرح کہ جماعت احمدیہ نے اپنے بانیٔ سلسلہ کی طرف یہ منسوب کیا ہے کہ انھوں نے مولانا ثناء اﷲ امرتسری کے بارے میں کہا تھا کہ: ’’اس نے ایک بالکل مختلف معیار تجویز کیا ہے، (حالانکہ) جھوٹا سچے سے زیادہ عرصہ زندہ رہ سکتا ہے۔ جیسا کہ مسیلمہ کذاب اور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے معاملے میں ہوا‘‘۔ (اشتہار اکتوبر ۱۹۰۷ء، بحوالہ: شبہات و ردود)
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات سرے سے جھوٹ اور غلط بیانی کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ مرزا قادیانی نے ایسی کوئی بات کبھی نہیں کہی، اس نے اس تاریخ میں کوئی اشتہار تک شائع نہیں کیا۔ حال یہ ہے کہ جماعت احمدیہ نے مجبور ہو کر بعد میں اس بات کا اعتراف بھی کر لیا، مگر پھر انھوں نے ایک نیا جھوٹ گھڑا کہ پہلا جھوٹ بھول چوک اور سہوِ کتابت کی وجہ سے ہوا تھا۔ پھر انھوں نے اخبار ’’الحکم‘‘ سے ایک نئی عبارت برآمد کر کے اپنے جھوٹ کو ثابت کرنا چاہا، جبکہ اس عبارت کا اس سارے قضیے سے کوئی واسطہ ہی نہیں تھا۔
مرزا قادیانی کی کتابوں کے عربی ترجمے میں کی جانے والی جعل سازیاں
جن مقامات پر مرزا قادیانی جہاد کی مخالفت کرتا ہے، وہاں پر جماعت احمدیہ کے سرکاری مترجمین اپنی طرف سے بطور تحریف ’’اقدامی‘‘ یا ’’سر کشی والا‘‘ کے الفاظ خو بخود بڑھا دیتے ہیں۔ اسی طرح وہ مقامات جہاں پر مرزا قادیانی نے اپنے آپ سے نبوت کی نفی کی ہے اور کہا کہ میں حقیقی معنوں میں نبی نہیں ہوں، وہاں پر مترجمین یہ جعل سازی کرتے ہیں کہ نبوت یا نبی کے لفظ کے بعد اپنی طرف سے ’’مستقل‘‘ کے لفظ کا اضافہ کر دیتے ہیں۔ (یعنی اگر مرزا نے کہا کہ میں نبی نہیں ہوں، تو مترجمین خود ہی لکھ دیتے ہیں : میں ’مستقل‘ نبی نہیں ہوں ، مترجم) یہ ایک دوسری نوعیت کی تحریف اور جعل سازی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ساری صورتحال میں دیانت داری اور اخلاقی جرأت کہاں ہے؟
جعل سازی کی جو مثالیں اوپر مذکور ہوئیں وہ زیادہ تر پروفیسر ہانی طاہر کے پچھے مقالات سے ماخوذ ہیں۔ ان مثالوں سے جو صورتِ حال ہمارے سامنے یقینی طور پر متشکل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جماعتِ احمدیہ پیشہ ورانہ طور پر جھوٹ، جعل سازی، نو سر بازی اور تحریف جیسے کاموں کی عادی ہے۔ اور وہ ابھی تک ایک عام سادہ احمدی سے ان حقائق کو چھپانے کی نا روا کوششوں میں مصروف ہے۔ کہ اگر وہ اس درجے کی تحریفات کو اس قدر زیادہ تعداد میں کرتے رہنے کے عادی ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ان کا طریقہ یہی ہے۔ اور یہ بھی کہ ہو سکتا ہے کہ وہ پہلے بھی اسی طرح کی کئی عبارات میں بہت سی تحریفات کر چکے ہوں۔
اے اہلِ حق میں آپ کو اﷲ کا واسطہ دے کہ کہتا ہوں کہ ایسی کسی جماعت اور گروہ پر کس طرح اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ کجا یہ کہ ان کو امت کی سب جماعتوں میں فرقہ ناجیہ اور ایسی جماعت قرار دیا جا سکے جس کے وجود پر اس زمانے میں امت مسلمہ کی بقا کا مدار ہے؟ اس درجے کی شدید جعل سازیوں کے بعد ایسی کوئی بات سوچنے کا بھی امکان کیسے باقی رہ سکتا ہے؟
اﷲم ارنا الحق حقًّا وارزقنا اتِّباعہ وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ۔ آمین۔ (اے اﷲ! ہمیں توفیق دے کہ ہم سچائی کو سچ ہی سمجھیں اور اس کی پیروی کریں، اور توفیق دے کہ ہم باطل اور جھوٹ کو باطل ہی سمجھیں اور اس سے پرہیز کرتے رہیں آمین)۔ اور اﷲ ہی ہمارے ارادوں اور عزائم میں اصل مقصود ہے۔