پروفیسر خالد شبیر احمد
عہدِ حاضر کے مستشرقین یہ خیال کرتے ہیں کہ اسلام قصۂ پارینہ ہے۔ اب دین کی جگہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے لے لی ہے اور یہی زمانے کی قیادت کا فرض ادا کرے گی۔ المیہ تو یہ ہے کہ خود مسلمانوں کے اندر بھی ایسے لوگ پیدا ہو چکے ہیں جو انھی خیالات کا پرچار دن رات کرتے رہتے ہیں۔ انھیں اس بات پر اصرار ہے کہ قرآن و سنت دورِ حاضر کے مسائل کا حل پیش نہیں کر سکتے۔ بھلا ’’سٹار وار‘‘ ’’سائبر وار‘‘ کے دور میں قرآن کیا رہنمائی پیش کر سکتا ہے۔ جبکہ سائنسی علوم، فنی مہارت اور جدید فلسفۂ حیات کے تحت بنی نوعِ انسان مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور دن بہ دن سائنسی علوم فنی مہارت، علم و فلسفہ اپنی افادیت کا رنگ بنی نوع انسان پر جماتا چلا جا رہا ہے۔
ہمیں اس بات سے انکار نہیں ہے کہ علوم و فنون میں مسلسل محنت کے نتیجے میں اہلِ مغرب نے آج انسانوں کی قیادت اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے تھام رکھی ہے۔ اس بات میں بھی شک کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے کہ اہلِ مغرب نے اپنے علم کے بل بُوتے پر سمندروں کی تہہ تک کو مسخر کر لیا ہے اور فضاؤں کی بلندیاں ان کی علمی کاوش کے آگے سجدہ ریز ہیں۔ یہ بات بھی ٹھیک اور درست ہے کہ مادی تہذیب و ترقی ان علوم و فنون نے انسانی زندگی کو آسان اور سہل بنا کے انسانوں کے لیے آسودگی اور راحت کے سامان مہیا کیے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ کیا یہ بات حقیقت کی صورت میں ہمارے سامنے نہیں ہے کہ اس آسودگی اور راحت کے باوجود آج کا انسان ذہنی اور فکری سطح پر مضطرب اور بے چین بھی ہے۔ جس تیزی کے ساتھ زمانہ مادی میدان میں ترقی کرتا چلا جا رہا ہے اُسی تیزی کے ساتھ انسان اخلاقی طور پر بے راہ رو بھی ہوتا جا رہاہے۔ نفسیاتی قلق اور زندگی کے ہر میدان میں فکری تضادات کے لحاظ سے ہم پچھلے لوگوں سے کہیں آگے بڑھ چکے ہیں۔ جس قدر ہماری گرفت تہذیب و تمدّن کے میدان میں مضبوط ہوتی چلی جا رہی ہے اسی قدر ہم اخلاقی اور روحانی میدان میں ہم پست ذہنیت کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ اس کے سوال اور کوئی نہیں کہ اہل مغرب نے انسانی مسائل کو صرف عقل و دانش کے ترازو میں تولا اور صرف مادی تہذیب و ترقی کو ہی اپنی منزل قرار دے کر اپنی علمی کاوشوں اور فنی صلاحیتوں کو محض مادی ترقی تک ہی محدود کیے رکھا۔ آخر ایسا کیوں ہوا، کیوں کیا گیا؟ اس لیے کہ انھوں نے دنیا سے دین کو خارج کر کے محض دنیاوی آسودگی پر اپنی نظریں جما دیں۔ سٹیٹ سے چرچ کو خارج کر دیا گیا اور اپنی سیاست کے منہ میں دین کی لگام ڈالنے سے فکری اور علمی طور پر انکار کر دیا کہ دین کا دنیا کے ساتھ کوئی سروکار نہیں ہے۔ دین قصۂ پارینہ ہے۔ نظریات کو حد سے زیادہ اہمیت دے کر اسے دین سمجھ لیا گیا اور دین کو اپنی علمی اور سیاسی زندگی سے نکال کر شتر بے مہار کی طرح اندھا دھند بڑھتے چلے گئے، آسودگی، راحت اور آسائش حاصل ہو گئی مگر اطمینانِ قلب سے محروم ہو گئے۔ اخلاقی اور روحانی اقدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کا انسان جس قدر اپنے علم و فضل اور فنی صلاحیتوں سے کام لے کر ہواؤں اور فضاؤں کو مسخر کر چکا ہے، اُسی قدر انسانی اوصاف سے بغاوت کر کے اپنے آپ کے لیے خود ہی بہت بڑا خطرہ بھی بن چکا ہے۔ دین سے دوری اور دنیاوی ترقی نے مل کر آج انسان کو ایک ایسے مقام پر بٹھا دیا ہے جہاں وہ خود اپنے آپ سے خوف زدہ ہے۔ مادی ترقی نے اس کے اندر اپنی خواہشات کی غلامی کا مرض اس شدت سے پیدا کر دیا ہے کہ آج کا انسان خود انسان کے لیے ایک خطرہ بن کے رہ گیا ہے۔ یہ صورت حال محض اور محض دین سے دوری دینی اقدار سے بغاوت اور دین کو سیاست سے خارج کر دینے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ آج کے انسان کو تہذیب و ترقی کے حوالے سے دیکھا جائے تو وہ ایک دیوہیکل مجسمے کی صورت میں نظر آتا ہے۔ لیکن اگر اخلاقی اقدار اور روحانی معیار کے حوالے سے اس پر نگاہ ڈالی جائے تو یہی انسان کوتاہ قامت اور بونا انسان بن چکا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک طرف انسان کی قوت ایجاد بڑھتی چلی گئی تو دوسری طرف وہ نفسیاتی بے قراری اور اضطراب میں مبتلا ہو کر عقائد سے بغاوت کے سبب اطمینانِ قلب سے محرومی اور اخلاقی اقدار کے فقدان سے بھی دوچار ہوتا چلا گیا۔
چنانچہ جدید دور کے اس انسان کی یہ دو رنگی ایک ایسے بحران کو جنم دے رہی ہے کہ جس پر اگر قابو نہ پایا گیا تو انسان اپنی اس بے دین بنیادوں پر استوار ہونے والی تہذیب و تمدن، علم و فضل اور سائنسی ترقی کے ہاتھوں خود ہی خود کشی پر مجبور ہو گا۔ مصور پاکستان علامہ اقبال رحمۃ اﷲ علیہ نے انھی خدشات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ پیش گوئی کر دی تھی:
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
_جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
L دینی اقدار کو پسِ پشت ڈال کر دنیاوی امور کی اصلاح سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی انسان نے خوفِ خدا سے بے نیاز ہو کر اپنی وجاہت اور چودھراہٹ کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہے انسانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ آج ہمارے ملک پاکستان میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اور اس کی بھی وہی وجہ ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے۔ دین کی حکمرانی کا وعدہ کر کے پاکستان بنا تو اس میں بھی وہی کچھ ہوا جس کا اوپر بیان ہو چکا ہے۔ ہم نے اپنی سیاست سے دین کو نکال کر جو کچھ حاصل کیا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ عدلیہ، پارلیمنٹ انتظامیہ اور ریاست کا چوتھا ستون میڈیا، ان میں کہاں ہے دین؟ کہاں ہیں دینی عقائد و اقدار کے تحفظ کے لیے کوشش، علامہ اقبال کو مصوّر پاکستان کہنے والے ہمارے سیاست دان، ہماری عدلیہ کے ارکان، ہمارے میڈیا کے پردھان، ہماری حکومت کے ارباب بست و کشا د یہ سب کون سا کام دین کے حوالے سے کر رہے ہیں۔ ہم نے بھی اہل مغرب کی طرح دین کو سیاست سے الگ کر کے وہی غلطی کی ہے جو اہل مغرب نے کی۔ حالانکہ علامہ اقبال نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ:
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
Eہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
: انھوں نے تو یہ بھی کہا تھا :
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو
Sجدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
7انھوں نے تو یہ بھی کہا تھا:
تونے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
Gچہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
| دین کی طرف لوٹ آنے میں ہماری ہر نوع کی ترقی کا راز مضمر ہے۔ دین کی طرف لوٹ آئیے، امیر شریعتؒ کا بھی یہی قول ہے کہ اس دھرتی پر اس وقت تک امن نہیں ہو گا جب تک دین کا قانون نافذہ نہیں ہوتا۔