ڈاکٹرعمرفاروق احرار
تعلیم قوموں کی تہذیب وتربیت کی اساس ہواکرتی ہے۔ماں کی گود کے بعددرس گاہیں قلم اورکتاب کے ذریعے تحصیلِ علم کا ذریعہ ہوتی ہیں۔درس گاہوں ہی میں ناپختہ ذہن ،پختگی کے مراحل سے گزرکرشعورودانش کی منزل تک پہنچتاہے۔ اوائل عمری میں جو نقوش طالب علم کے ذہن پرثبت ہوتے ہیں ۔اُن کے اثرات عملی زندگی میں بنیادی کرداراداکرتے ہیں۔قوموں کے مستقبل یعنی نسلِ نو کو بگاڑنے اورسنوارنے میں تعلیمی نصاب کا کرداربہت اہم ہوتاہے۔ بدقسمتی سے ہماراتعلیمی نصاب پاکستان کے قیام سے اب تک تجربات کی بھٹیوں ہی سے گزررہاہے۔ہرسال سرکاربیرونی امداددہندگان کی مشروط امدادکے نتیجے میں نصابِ تعلیم میں نت نئی تبدیلیاں کرتی ہے ۔ان تبدیلیوں کے پیچھے مخصوص لابیوں کا کیاکردارہوتاہے ؟ اس کا اندازہ حال ہی میں ایک امریکی ادارے’’کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی‘‘ (USCRIF) کی پاکستان سے متعلق رپورٹ پڑھنے کے بعدہوا۔ USCRIFمحکمہ داخلہ سے الگ اور جداگانہ حیثیت کا حامل ایک ادارہ ہے ۔یہ امریکی کانگرس کا تشکیل کردہ، خود مختار اوردو پارٹیوں پر مشتمل ایک حکومتی مشاورتی ادارہ ہے جو عالمی سطح پرمذہبی آزادی پر نظر رکھتا ہے اور صدر، وزیر داخلہ اور کانگریس کو حکمت عملی کے بارے میں سفارشات پیش کرتا ہے۔‘‘ جس کی پاکستان کے تعلیمی نصاب کے بارے میں تیار کردہ رپورٹ ادارے کی ویب سائٹW W W . U S C I R F . G O V پر اُردو اور انگریزی میں پڑھی جاسکتی ہے۔ جس کا عنوان ہے: ’’پاکستان میں عدم برداشت کی تدریس: سرکاری سکولوں کی نصابی کتب میں مذہبی تعصب۔‘‘ یہ رپورٹ مذکورہ ادارے (USCRIF) کے لیے ایک پاکستانی این جی او ’’پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن ،اسلام آباد‘‘ نے تیار کی ہے۔ جس کے مرتبین فاؤنڈیشن کے صدر اشفاق حسین اور اِسریٰ شفیق ہیں۔
رپورٹ کے مطابق:’’اس تحقیق کا مجموعی مقصد اس بات کا تعین کرنا ہے کہ پاکستان کی نصابی کتب میں کس حد تک منفی ،دقیانوسی تصورات اور مذہبی اقلیتوں(عیسائیوں، ہندوؤں، احمدیوں، سکھوں، اور یہودیوں)کے متعلق متعصبانہ عکاسی موجود ہے ۔یہ تحقیق سرکاری سکولوں کی نصابی کتب میں عدم برداشت اور تعصب کے موجود واقعات کا تجزیہ ہے۔ تاکہ نصاب میں مذہبی تعصب کو ختم کرنے میں پاکستان کی پیش رفت کا تعین بھی کیا جائے۔‘‘ کمیشن کے مطابق :’’اس مقصد کے لیے چاروں صوبوں سے کل 78 کتب کا مطالعہ کیا گیا۔ ان میں جماعت پنجم تادہم کی اردو، اسلامیات، مطالعہ پاکستان، معاشرتی علوم اور تاریخ کی کتابیں شامل تھیں۔78 کتب میں سے 24 کتب میں70 مذہبی عدم برداشت کے ثبوت پائے گئے ۔رپورٹ کے مطابق: سرکاری سکولوں کی نصابی کتابیں جو41 ملین سے زائد بچوں تک پہنچتی ہیں،وہ مذہبی اقلیتوں کے بارے میں منفی اور دقیانوسی انداز میں تصویر کشی کرتی ہیں۔تاریخی اعتبار سے درسی کتب میں مذکورہ موادکا اہم محرک حب الوطنی اور قوم پرستی کا احساس پیداکرنا اور قیامِ پاکستان کے مقاصدمیں تقسیم سے قبل متحدہ ہندوستان میں ہندوؤں کی مسلمانوں سے مبینہ دشمنی، مسلمانوں اور انگریزوں کی عیسائی نوآبادیاتی طاقت کے درمیان کشیدگی کو اجاگر کرناہے۔رپورٹ میں واضح کیا گیاہے کہ تمام جماعتوں کی نصابی کتب میں بار بار اُبھرتا ہوا جنگی (جہادی)رجحان پایاجاتاہے اور جنگوں کے ہیرو ؤں کی ستائش پر بہت زور دیاگیاہے، خاص طور پرسلطان محمود غزنوی کے ہندوستان پر مشہور 17 حملوں اورمحمد بن قاسم کی سندھ کی فتح کو بہت فخر کے ساتھ ہر نصابی کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔بھارت کے ساتھ جنگوں پر زور اور امن اقدامات کی مثالوں کو بڑی حد تک نظر انداز کیا گیا ہے اورتنگ نظری اور قوم پرستانہ انداز نمایاں ہے۔رپورٹ میں کہا گیاہے کہ پاکستان کے تمام نصاب تعلیم میں اقلیتوں کے عقائد اورروایات کے بارے میں عدم برداشت کی مثالیں بکثرت موجود ہیں۔‘‘نصابی کتب میں موجوداِس مواد کوکمیشن ختم کرانا چاہتاہے۔تاکہ دوقومی نظریے کی بنیادوں ہی کو مسمارکیاجاسکے۔
امریکی کمیشن کی یہ رپورٹ درحقیقت ہمارے تمام نصاب تعلیم کو یکسربدل کر ایک ایسے نصابِ تعلیم کے رائج کرنے کی خواہش ہے کہ جس میں ہندوؤں ،عیسائیوں،قادیانیوں اوردیگرمذاہب ِ باطلہ کے بے بنیادعقائدکا تذکرہ نہ ہو۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ’’ عیسائی مشنریوں اور پادریوں کی اسلام اورمسلمانوں کے خلاف کارروائیوں ،ہندوؤں کے مسلمانوں پر مظالم، 1857ء کی جنگ میں ہندوستانی عوام پر انگریزوں کاجبروتشد،موجودہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالتِ زار،یہودیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کونصاب کا موضوع نہ بنایاجائے۔‘‘اس رپورٹ کے مرتبین جہاد کو فساداورعدم رواداری کا مترادف سمجھتے ہیں۔اس لیے جہاد کے متعلق موادکونصاب سے خارج کرنے کی تجویزدیتے ہیں۔پیس اینڈایجوکیشن فاؤنڈیشن کاوفد اپنی تجاویزپر عمل درآمدکے لیے اعلیٰ حکومتی عہدیداروں،محکمہ تعلیم کے افسران ،تحریک انصاف کے مشیراعلیٰ کے ساتھ مل چکاہے۔رپورٹ میں ایسے اعدادوشماربھی موجودہیں کہ حکومت کمیشن کی قبل ازیں پیش کردہ سفارشات پر نصاب میں اب تک بہت سی تبدیلیاں بھی کرچکی ہے۔یہ صورت حال ہمارے نظریاتی تشخص اورقومی شناخت کو منہدم کرنے کے اقدامات اورکوششوں کا عملی ثبوت ہے۔
مکالمہ،برداشت اوررواداری سے مسلمانوں نے کبھی انکارنہیں کیا ،لیکن اس رپورٹ سے معلوم ہوتاہے کہ معاملہ کچھ اورہے۔کمیشن کے کارپردازمسلمانوں سے اُن کے تشخص،شناخت اورپہچان کو چھین لینے کے درپے ہیں۔وہ مسلمانوں کواُن کے اِیمان اورعقائدہی سے محروم کردیناچاہتے ہیں۔اسی لیے رپورٹ میں دیگر مذاہب پر اسلام کی افضلیت کو ٰنصاب میں شامل کرنا،ناپسندکیاگیاہے۔حالانکہ ہمارااِیمان ہے کہ جس دین کو اﷲ نے اپنا پسندیدہ دین قراردیاہے ۔وہ اسلام ہے۔اب ہم اس عقیدہ سے کیسے دستبردارہوسکتے ہیں؟نصاب میں اسلام کو دِینِ فطرت لکھنے پر بھی اعتراض کیاگیاہے۔اِن حضرات کو غازی علم الدین شہید،ؒ کا تذکرہ اورراجپال کاواقعۂ قتل بھی گوارا نہیں ہے ۔طاغوت من پسندنظام کے ذریعے ایک ایسی آزادخیال اورجدت پسند(پروگریسو)نسل تیارکرنا چاہتاہے جو ظاہری طورپرمسلمان ہو،مگر اپنے ماضی سے لاتعلق،اسلامی تہذیب وروایات سے ناآشنااورغیرتِ دینی سے عاری ہو،جو جہادکے نام سے خوف کھائے،امت مسلمہ کے تصورکو رُجعت پسندی اورمکہ ومدینہ کی بجائے واشنگٹن اورلندن کو اپنا رُوحانی مرکزسمجھے۔مشرک ثقافتوں اورعذاب یافتہ کھنڈروں کو اپنا ورثہ وسرمایہ سمجھے۔جنابِ والا!ہم اوّل وآخر مسلمان ہیں۔ہماری شناخت اورپہچان اسلام ہے۔دنیاچاہے کچھ کہے ،ہم اﷲ و رسول کے احکام کے پابندہیں۔ہمارانصاب ہماری اسلامی عقائدواقدارکا آئینہ دارہونا چاہیے۔بیرونی قوتوں کی نامعقول تجاویز اوربے بنیادرپورٹوں کو مسترد کرنے میں ہی ہماری آزادی وخودمختاری مضمرہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ تعلیم کی مثلث استاد،طالب علم اورنصاب کو دینی تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے۔جیک اینڈ جِل اورہمپٹی ڈمپٹی کی نظموں کی بجائے قرونِ اولیٰ کے خلدمکان صحابہ کرامؓ کے ایمان افروزواقعات ہمارے نصاب کا لازمی جزوہوں۔صرف روزگارکے لیے لارڈمیکالے کی نسل کی بجائے حیاتِ دائمی کی کامیابی کے لیے باعمل مسلمان تیارہوسکیں۔رپورٹ کے مطالعہ سے یہ انتہائی تشویشناک امربھی سامنے آیاہے کہ اس رپورٹ کو تیارکرنے والی این جی او پیس اینڈایجوکیشن فاؤنڈیشن ہمارے اکثربڑے دینی مدارس میں بلاروک وٹوک ورکشاپیں منعقدکررہی ہے اوررکمیشن کی رپورٹ کے مطابق یہ این جی او اَب تک دینی مدارس کے گیارہ ہزار اَساتذہ،ائمۂ مساجد اورعلماء کی تربیت یعنی انہیں ’’رواداری اوربرداشت‘‘کا دَرس دے چکی ہے اوریہ سلسلہ تاحال مسلسل جاری ہے۔گویا نہ صرف سرکاری تعلیمی اداروں،بلکہ دینی مدارس کے نصاب میں بھی من پسند تبدیلی کے لیے برین واشنگ کی جارہی ہے۔مذکورہ این جی او کے تحت دینی مدارس کے نصاب کے بارے میں بھی ایک رپورٹ مرتب ہوچکی ہے۔وفاق المدارس کے اربابِ اختیارکو اِس معاملے میں فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔تاکہ بروقت کارروائی کرکے اپنے دینی عقائداوراسلامی اقدارکو اَیسی بے بنیاد اورنامعقول رپورٹوں سے گزندپہنچنے سے بچایاجاسکے۔
ء ء ء