مولانا زاہدالراشدی
۱۷؍جولائی ۲۰۱۶ء کو جمعیۃ علماء اسلام (س) پاکستان کے سکیرٹری جنرل مولانا عبدالرؤف فاروقی نے ’’متحدہ سنی محاذ پاکستان‘‘ کی رابطہ کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جس کا مقصد مشرق وسطیٰ کی صورت حال بالخصوص حرم نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم اور دیگر مقامات پر خونریز دھماکوں سے پیدا شدہ حالات اور حج بیت اﷲ کے موقع پر سعودی عرب اور ایران کے تنازعہ کے حوالہ سے سامنے آنے والے خدشات کا جائزہ لینا اور اس سلسلہ میں سنجیدہ دینی حلقوں کو فکر مندی دلانے کی کوشش کرنا تھا۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان، مجلس احرار اسلام کے سیکرٹری جنرل حاجی عبداللطیف خالد چیمہ اور راقم الحروف کے علاوہ پاکستان شریعت کونسل کے مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، مفتی محمدمغیرہ، حافظ محمد بلال فاروقی اور حافظ شفقت اﷲ بھی شریک ہوئے۔ کمیٹی نے تفصیلی غور و خوض کے بعد مختلف امور پر مندرجہ ذیل رائے کا اظہار کیا۔
٭ترک عوام نے جس جرات اور دلیری کے ساتھ ایک فوجی گروہ کی بغاوت کو ناکام بنایا ہے وہ لائق تحسین ہے اور اس پر ترکی کے صدر جناب طیب اردگان اور پوری ترکی قوم مبارکباد کی مستحق ہے۔ جناب طیب اردگان کی قیادت میں ترکی کی منتخب جمہوری حکومت ترک عوام کی خدمت ملک کی ترقی و استحکام اور ترک قوم کے امتیاز و تشخص کو اجاگر کرنے کے لیے جس تدبر اور حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے حالیہ ناکام فوجی بغاوت اس کے خلاف ایک عالمی سازش کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس کا مقصد اردگان حکومت کو ترک عوام کی بے لاگ نمائندگی او ر ترکی کو عالمی سیاست بالخصوص عالم اسلام کے مسائل میں جرات مندانہ کردار سے روکنا تھا۔ اور ترک عوام نے اسے ناکام بنا کر ایک آزاد اور زندہ دل قوم ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ ہم اس مرحلہ پر اپنے ترک بھائیوں کے ساتھ ہیں اور انھیں خراج تحسین و تبریک پیش کرتے ہوئے دعا گو ہیں کہ اﷲ رب العزت ترکی کو مزید استحکام و ترقی سے نوازیں اور ترک عوام اور ان کی قیادت کی حفاظت فرمائیں، آمین یارب العالمین۔
٭مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورت حال ہمارے نزدیک ایران کی اس مسلسل پالیسی کا نتیجہ ہے جو انقلاب ایران کے بعد اس انقلاب کے اثرات کو اردگرد کے ممالک میں پھیلانے اور خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے معاملات کو کنٹرول کرنے کے لیے اختیار کی گئی۔ اور اس پالیسی کے تحت بتدریج عراق، شام، یمن اور لبنان میں حالات کو خراب کر کے مداخلت کی راہ ہموار کی گئی اور ان ممالک میں فرقہ وارانہ خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرکے اب بحرین کو افراتفری کے اس ماحول میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ سعودی عرب کے گرد حصار مکمل کر کے حرمین شریفین کو گھیرے میں لینے کی اسکیم کو عملی جامہ پہنا یا جاسکے۔ ہمارے خیال میں نہ تو سعودی عرب نے اس صورتحال کا صحیح ادراک کرنے اور اس کے لیے اپنے مخصوص دائرے سے باہر نکل کر وسیع پیمانے پر مشاورت و تعاون کا ماحول پیدا کرنے کی طرف سنجیدہ توجہ دی ہے اور نہ ہی اسلامی سربراہ کانفرنس کی تنظیم او آئی سی، کوئی مؤثر کردار ادا کرنے میں پیش رفت کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ مسئلہ پورے عالم اسلام کا ہے کیونکہ اسے کنٹرول کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو پورا عالم اسلام اس سے متاثر ہوگا اور تیزی سے بڑھتی اور پھیلتی ہوئی اس فرقہ وارانہ کشیدگی اور باہمی تصادم کا فائدہ اسرائیل اور اس کے پشت پنا ہوں کے سوا کسی کو نہیں ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایران اور سعودی عرب دونوں سے اس مسئلہ پر بات کی جائے دونوں کی باہمی شکایات کا جائزہ لیا جائے اور اس تنازعہ کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے دونوں کو ایک میز پر لایا جائے۔ ظاہر بات ہے کہ عالمی قوتوں سے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی اس لیے کہ وہ خود اس آگ کو بھڑکانے میں خاص دلچسپی رکھتی ہیں اور اسی میں وہ اپنا مفاد سمجھتی ہیں۔ اس لیے عالم اسلام کو ہی اس سلسلہ میں کوئی کردار ادا کرنا ہوگا اور اس کے لیے سب سے اہم کردار اوآئی سی کا بنتا ہے کہ وہ خاموش تماشائی بنے رہنے کی بجائے اس معاملہ میں متحرک ہو۔ ہمارے خیال میں حج بیت اﷲ سے پہلے او آئی سی کا سربراہی اجلاس ضروری ہے جو حرمین شریفین کے تحفظ، مشرق وسطیٰ میں سنی شیعہ تصادم کو روکنے ، سعودی عرب اور ایران کی باہمی شکایات کو دور کرنے اور کسی بھی طرف سے ہونے والے تشدد کی روک تھام کے لیے ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرے۔ ہماری رائے میں پاکستان اور ترکی کی حکومتیں اس سلسلہ میں موثر کردار ادا کرسکتی ہیں جبکہ مسلم حکمرانوں کو اس طرف توجہ دلانے کے لیے سیاسی و دینی حلقوں اور علمی مراکز کا متحرک ہونا ضروری ہے ۔ اور عالم اسلام کی رائے عامہ کو بیدار و منظم کرنا وقت کا اہم تقاضہ ہے۔
متحدہ سنی محاذ پاکستان کی رابطہ کمیٹی نے اس حوالہ سے طے کیاہے کہ مختلف مکاتب فکر کے دینی راہ نماؤں سے مشاورت کر کے اس سلسلہ میں مثبت اور مؤثر جدوجہد کے مواقع تلاش کیے جائیں۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے ۷؍اگست اتوار کو صبح ۱۰بجے مسجد خضریٰ سمن آباد لاہور میں مختلف دینی جماعتوں کے راہ نماؤں کا ایک مشاورتی اجلاس طلب کیا جارہا ہے جس کے لیے مولانا عبدالرؤف فاروقی نے رابطوں کا آغاز کردیا ہے۔ احباب سے درخواست ہے کہ وہ اس سلسلہ میں خصوصی مشوروں ، توجہات اور دعاؤں کا اہتمام فرمائیں۔