مفتی اعظم حضرت مفتی رشید احمد رحمۃ اﷲ علیہ
میں کئی احادیث بیان کرتے ہیں، اس کی حقیقت تحریر فرمائیں، بیّنوا توجروا
الجواب بسوال: شیخ عبد العزیز بن باز کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں لکھا ہے کہ پندرہویں شعبان کی کوئی فضیلت کسی حدیث سے ثابت نہیں، اہلِ شام کی مخترعہ بدعت ہے، جب کہ یہاں کے علماء اس کے فضائل اسم ملھم الصّواب
میں نے ۱۳؍ محرم ۱۴۱۲ھ میں اس کا مفصل جواب بنام ’’عظمت شعبان‘‘ لکھا تھا جو میرے رسالہ ’’سات مسائل‘‘ میں شائع ہوا تو اس کے بعض مباحث پر بعض علماء نے اشکال ظاہر کیا، اس لیے اس پر نظر ثانی کی گئی جس کا حاصل یہ ہے:
(۱) اس رات کا نام ’’شبِ براء ت‘‘ کسی روایت سے ثابت نہیں۔
(۲) اس میں نزولِ قرآن اور تقدیر کے فیصلے ہونے کے خیالات نصِ قرآن کے خلاف ہیں، اس بارے میں کوئی روایت بھی ایسی قوی نہیں کہ اس کا قرآن سے تعارض رفع کرنے کے لیے مختلف بے بنیاد تاویلات بعیدہ تلاش کرنے پر محنت کی جائے۔ (تفسیر ابن کثیر، ص: ۱۳۷، ج: ۴)
(۳) اس میں اموات کو ایصالِ ثواب کی رسم بدعت ہے، بہشتی زیور اور اصلاح الرسوم میں اس کی سنیت تحریر ہے مگر حضرت حکیم الامۃ قدس سرہٗ نے امداد الفتاویٰ میں اس سے رجوع کا اعلان فرمایا ہے، حضرت حکیم الامت قدس سرہٗ کی تحریر آرہی ہے۔
(۴) قبرستان جا کر اموات کے لیے دعاءِ مغفرت میں اختلاف ہے جس کی تفصیل امداد الفتاویٰ میں ہے، شیوعِ بدعات و منکرات اور غلبۂ فساد کے اس دور میں بالاتفاق ممنوع ہے۔
طویل بحث کے بعد اکابر علماءِ دیوبند رحمہم اﷲ کے آخری فیصلہ کی تحریر آگے آ رہی ہے۔
(۵) اس دن کا روزہ کسی معتبر روایت سے ثابت نہیں، فقہ کی کسی کتاب میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں، اس لیے اس کو سنت یا مستحب سمجھنا جائز نہیں۔
(۶) اس رات کی فضیلت میں اختلاف ہے، ایک جماعت کسی بھی قسم کی فضیلت کی منکر ہے جس کی تفصیل کتب ذیل میں ہے:
۱۔ احکام القرآن لابن العربی، ص: ۱۶۷۸، ج: ۴۔ ۲۔الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، ص: ۱۲۷، ج: ۱۶
۳۔ لطائف المعارف لابن رجب، ص: ۱۲۴ ۴۔الحوادث والبدع للطرطوشی، ص: ۱۳۰
۵۔ تذکرۃ الموضوعات للبتنی، ص: ۵۴ ۔ ۶۔ ا قتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیہ، ص: ۳۰۲
ان کتب کی عبارات کا ترجمہ آگے آئے گا۔
جمہور انفراداً عبادت مطلقہ کی فضیلت کے قائل ہیں۔
اس پر پوری اُمّت کا اجماع ہے کہ اس رات میں کسی قسم کی عبادت کی تعیین، اس میں مختلف اقسام کی تقییدات و اجتماعات وغیرہ سب خرافات و بدعات ہیں، اس بارے میں جتنی بھی راویات ہیں سب موضوعہ ہیں۔
(۷) بحث رواۃ بعض علماء کی تحریرات سے اعتماداً نقل کی گئی تھی، ان علماء پر اعتماد کے علاوہ حوالہ جات کے مراجعہ سے تصدیق بھی کر لی، مزید تفتیش و تنقیح کی ضرورت نہ سمجھی، بعد میں معلوم ہوا کہ یہ بحث نامکمل ہے، اس پر اعتماد نہ کیا جائے، بعض دوسری کتابوں میں بعض رواۃ کی تعدیل بھی منقول ہے جس کے مقابلہ میں روایات جرح مجروح ہیں۔
مذکورہ بالا نمبروں کی بالترتیب تفصیل:
(۲) قال الحافظ ابن کثیر رحمہ اللّٰہ تعالیٰ:
ترجمہ: اور جس نے کہا کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے جیسا کہ عکرمہ سے روایت کی جاتی ہے ، اس نے یقینا بالکل بے محل بات کہی ہے، اس لیے کہ بلاشبہ نص قرآن ہے کہ یہ شب یقینا رمضان میں ہے اور وہ حدیث جس میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے مروی ہے:
’’ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک کے فیصلے ہوتے ہیں، حتیٰ کہ ایک شخص نکاح کرتا ہے اور اس کے ہاں بچہ بھی پیدا ہو جاتا ہے حالانکہ اس کا نام اموات میں لکھا ہوتا ہے۔‘‘
یہ حدیث مرسل ہے، اس قسم کی روایات سے نصوص قرآن کا تعارض نہیں کیا جا سکتا۔
(تفسیر ابن کثیر، ص: ۱۳۷، ج: ۴)
(۳، ۴)فیصلہ اکابر علماءِ دیوبند:
الفاظ حدیث اور تحقیق شراح سے اس قدر ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا اس رات میں بقیع میں تشریف لے جانا اور دعاء فرمانا بعض خصوصیات کی وجہ سے تھا، جن میں سے اموات مسلمین کو بھی عموم رحمت و دعاءِ مغفرت میں شامل فرمانا تھا، اور اگرچہ یہ خروج اور دعا عادت مستمرہ ہو تب بھی اس خاص رات کا خروج اور دعا دلیل استحباب دعا للاموات فی لیلۃ البراء ۃ ہے، کیونکہ جیسا اس شب میں نزول رحمت خصوصیت کے ساتھ ہے جیسا کہ وارد ہوا:
ینزل فیہا لغروب الشمس، الحدیث۔
اسی طرح آپ کا خروج بھی دیگر لیالی کے خروج سے ممتاز و خاص تھا، بہرحال اس قدر حدیث سے ضرور ثابت ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے بقیع میں تشریف لے جانے اور دعاء میں مشغول ہونے کی یہ وجہ فرمائی:
انّ اللّٰہ تعالیٰ ینزل لیلۃ النصف من شعبان، الحدیث۔
پس اس رات میں خروج الی المقبرۃ و دعاء للاموات بھی حدیث کا مدلول ہوا، لیکن یہ ضرور ہے کہ اس کا التزام اور اس پر اصرار ٹھیک نہیں، اور جو خرابیاں اس پر متفرع ہیں وہ ظاہر ہیں، پس ان عوارض کی وجہ سے منع کرنا ہی احوط ہے۔ اور صدقہ و خیرات کے لیے یہ رات چونکہ ایک وقت متبرک و مقبول ہے، اس لیے کچھ مضائقہ اس میں نہ تھا، مگر عوام کے زعم تعیین و تخصیص کی وجہ سے اس خصوصیت کو اٹھایا جاوے گا۔
حاصل یہ ہے کہ حکم صدقہ و خیرات کا مطلقاً ہے، جمیع اوقات اس کے محل ہیں خصوصاً اوقات و ازمنۂ متبرکۂ مقبولہ میں زیادہ تر اُمید قبولیت ہے، لیکن دوسرے وجوہ سے اس خصوصیت کو منع کیا جاوے گا، دعا اموات جو اس رات میں ثابت ہے اس پر قیاس کر کے خصوصیت صدقہ و خیرات ثابت کرنا ٹھیک نہیں معلوم ہوتا۔
ملا علی قاری رحمہ اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ اس حدیث کی شرح میں ارقام فرمایا ہے اس کا نقل کر دینا مناسب ہے:
(فقال ان اللّٰہ تعالیٰ ینزل) ای من الصفات الجلالیۃ الی النعوت الجمالیۃ زیادۃ ظہور فی ہذا التجلی ان قد ورد فی الحدیث سبقت رحمتی علی غضبی و فی روایۃ غلبت ( لیلۃ النصف من شعبان) و ہی لیلۃ البراء ۃ و لعل وجہ تخصیصہا لانہا لیلۃ مبارکۃ ففیہا یفرق کل امر حکیم و یدبر کل خطب عظیم لمّا یقع فی السنۃ کلہا من الاحیاء الاماتۃ و غیرہما حتی یکتب الحجاج و غیرہم (الی السماء الدنیا) ای قاصدا الی السماء القریبۃ من اہل الدنیا المتلوثین بالمعصیۃ المصاحبین الی انزال الرحمۃ علیہم و اذیال المغفرۃ و ظاہر الحدیث ان ہذا النزول المکنی بہ عن التجلی الاعظم و نزول الرحمۃ الکبری والمغفرۃ للعٰلمین لا سیما اہل البقیع یعم ہذہ اللیلۃ تفمتاز بذلک علی سائر اللیالی اذ النزول الوارد فیھا خاص بثلث اللیل ( فیغفر لاکثر من عدد شعر غنم کلب) ای قبیلۃ بنی کلب و خصہم لانہم اکثر غنما من سائر العرب، نقل الابھری عن الازہا ان المراد بغفران اکثر عدد الذنوب المغفرۃ لاعدد اصحابھا و وہٰکذا رواہ البیھقی ، اما الحدیث الاتی فیغفر لجمیع خلقہ فالمراد اصحابھا ، والحاصل ان ہذا الوقت زمان التجلیات الرحمانیۃ و التنزلات الصمدیۃ والتقربات السبحانیۃ الشاملۃ للعام والخاص و ان کام الخطا لاوفی لارباب الاختصاص فالمناسب الاستیقاظ من نوم الغفلۃ والتعرض لنفحات الرحمۃ و انا رئیس المستغفرین و انیس المسرحمین و شفیع الذنبین بل و رحمۃ للعٰلمین خصوصاً اموات المسلمین من الانصار والمہاجرین فلا یبق لی الا ان اکون متثلا بین یدی ربی ادعو بالمغفرۃ لامتی واطلب زیادۃ الرحمۃ لذاتی فانہ لیس لاحد ان یستغنی عن نعمتہ او یستنکف عن عبادتہ والتعرض لخزائن رحمتہ و قد اراد اﷲ لک الخیر بالقیام و ترک المنام و متابعۃ سید الانام و حصول المعفرۃ ببرکتہ علیہ الصلوٰۃ والسلام انتہی (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ) فقط۔
کتبہ عزیز الرحمن عفی عنہ
۱۴؍ رمضان المبارک، ۱۳۳۳ھ
احقر اشرف علی عرض رسا ہے کہ اس کے ساتھ ایک پرچہ بھی تھا اس میں لکھا تھا:
’’بندہ نے جو کچھ اس کے متعلق لکھا ہے بڑے مولانا (یعنی حضرت مولانا محمود حسن صاحب) کو سنا لیا ہے‘‘۔
اور خلاصہ اس فیصلہ میں دیوبند کا یہ ہے: ’’احقر کے دعوے کے دو جز تھے۔
ایک یہ کہ حدیث عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا دا ل ہے من وجہ تخصیص لیلۃ البراء ۃ بالدعاء للاموات پر۔
دوسرا یہ کہ اس دعا پر دوسرے طرق ایصال ثواب کو قیاس کیا جا سکتا ہے، اس فیصلہ میں جزو اوّل کو ثابت رکھا ہے مگر عوارض کے سبب خروج الی المقبرہ کے منع کو احوط کہا ہے۔
اور بعض علماء متأخرین کی تصریح بھی اس کی مؤید ہے، جیسا کہ دیوبند کے ایک کارڈ مرقومہ ۱۳؍ رمضان المبارک میں حضرت مجیب ممدوح نے یہ عبارت لکھی ہے:
’’یہ خیال رہا کہ فقہاء نے بھی لیلۃ البراء ۃ میں کہیں زیارتِ قبور کا استحباب لکھا ہے یا نہیں؟ تلاش کرنے کی فرصت نہ ہوئی اور جو کہیں دیکھا گیا تصریح نہ ملی، البتہ مولانا عبدالحلیم لکھنوی نے رسالہ نور الایمان میں ایک غیر معروف کتاب ’’غرائب‘‘ کے حوالہ سے اش میں استحباب زیارت قبور نقل فرمایا ہے، اور اسی حدیث سے استدلال کیا ہے‘‘۔
اور دوسرے جزو کی نفی کی ہے، پس میں اپنے دعوے کی جزو ثانی سے رجوع کرتا ہوں اور جزو اوّل کو ثبوت کے بعد بھی خروج الی المقبرہ کے منع کو احوط سمجھتا ہوں اور حضرات علماء کے لیے دعاکرتا ہوں جنھوں نے میری رہبری فرمائی۔
ناظرینِ ’’اصلاح الرسوم‘‘ بالخصوص اس پر مطلع ہو جاویں، اگر اگر ’’اصلاح الرسوم‘‘ کہیں طبع کی جاوے اس پر میرا یہ رجوع بطور حاشیہ کے لکھ دیا جائے، فقط (۱۳۳۳ھ۔ امداد الفتاویٰ، ص: ۲۶، ج: ۴)
(۶۔۱) قال الامام ابن العربی رحمہ اﷲ تعالیٰ:
ترجمہ: ’’جمہور علماء کا یہ فیصلہ ہے کہ یہ لیلۃ القدر ہے، اور بعض کا خیال ہے کہ نصف شعبان کی رات۔ یہ خیال بالکل باطل ہے، اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی سچی اور قطعی کتاب میں فرمایا ہے: ’’ شہر رمضان الذی اُنزل فیہ القرآن‘‘ سو اﷲ تعالیٰ نے تصریح فرما دی ہے کہ قرآن رمضان میں نازل ہوا ہے، پھر یہاں شب نزول قرآن کو ’’لیلۃ مبارکہ‘‘سے تعبیر فرمایا، س جس نے غیر رمضان میں نزول قرآن کا خیال ظاہر کیا اس نے اﷲ تعالیٰ پر بہت بڑا افترا کیا، شب نصف شعبان کے بارے میں کوئی قابلِ اعتماد حدیث نہیں، نہ اس کی فضیلت کے بارے میں اور نہ اس میں تقدیر کے فیصلوں کے بارے میں، اس لیے اس رات کی طرف کوئی التفات نہ کرو‘‘۔ (احکام القرآن، ص: ۱۶۷۸، ج: ۴)
(۲) قال الامام القرطبی رحمہ اللّٰہ تعالیٰ:
ترجمہ: ’’کتاب العروس کے مصنف نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے طویل حدیث نقل کی ہے اور کہا ہے کہ آیت کریمہ ’’فیہا یفرق کل امر حکیم ‘‘ سے شب نصف شعبان مراد ہے۔ اس میں تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں اور اس کا نام لیلۃ البراء ت ہے۔ ہم نے اس کے اس خیال پر دوسری جگہ رد کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ یہ لیلۃ القدر ہے۔ حماد بن سلمہ نے کہا کہ ہمیں ربیعہ بن کلثوم نے بتایا کہ ایک شخص نے میرے سامنے حضرت حسن بصری رحمہ اﷲ تعالیٰ سے دریافت کیا : ’’کیا لیلۃ القدر ہر رمضان میں ہوتی ہے‘‘۔ انھوں نے فرمایا: ’’ہاں! اس اﷲ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! بلاشبہ وہ ہر رمضان میں ہوتی ہے۔ یہی وہ رات ہے جس کے بارے میں قرآن کریم میں ’’فیہا یفرق کل امر حکیم ‘‘ وارد ہے، اسی میں تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں، اﷲ تعالیٰ اسی رات میں پیدائش، موت، رزق اور کام وغیرہ ہر چیز کا فیصلہ فرماتے ہیں‘‘۔
اور حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں:
’’لیلۃ القدر میں لوح محفوظ سے سال بھر میں جو کچھ ہونے والا ہے لکھا جاتا ہے، موت، حیات، رزق، بارش حتیٰ کہ یہ بھی کہ فلاں فلاں شخص حج کرے گا، تو کسی کو بازاروں میں چلتے پھرتے دیکھتا ہے حالانکہ اس کا نام اموات میں لکھا جا چکا ہے اور یہ سال بھر کے احکام کا اظہار ان ملائکہ کے لیے ہوتا ہے جن کے سپرد اسباب خلق ہیں‘‘۔
اور قاضی ابوبکر ابن العربی نے کہا ہے:
’’جمہور علماء کا یہ فیصلہ ہے کہ لیلۃ القدر ہے اور بعض کا خیال ہے کہ نصف شعبان کی رات۔ یہ خیال باطل ہے، اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی سچی اور قطعی کتاب میں فرمایا ہے: ’’ شہر رمضان الذی اُنزل فیہ القرآن‘‘ سو اﷲ تعالیٰ نے تصریح فرما دی ہے کہ قرآن رمضان میں نازل ہوا ہے، پھر یہاں شبِ نزول قرآن کو ’’لیلہ مبارکہ‘‘ سے تعبیر فرمایا، سو جس نے غیر رمضان میں نزول قرآن کا خیال ظاہر کیا اس نے اﷲ تعالیٰ پر بہت بڑا افتراء کیا، شبِ نصف شعبان کے بارے میں کوئی قابلِ اعتماد حدیث نہیں، نہ اس کی فضیلت کے بارے میں اور نہ میں تقدیر کے فیصلوں کے بارے میں، اس لیے اس رات کی طرف کوئی التفات نہ کرو‘‘۔ (الجامع لاحکام القرآن ، ص: ۱۲۷، ج: ۱۶)
۳۔ قال الحافظ ابن رجب رحمہ اللّٰہ تعالیٰ:
’’شام کے بعض تابعین جیسے خالد بن معدان، مکحول، لقمان بن عامر وغیرہم شب نصف شعبان کی تعظیم کرتے تھے اور اس میں زیادہ عبادت کرنے کی کوشش کرتے تھے، انھی سے لوگوں نے اس رات کی فضیلت اور عظمت کو لے لیا اور وثوق سے کہا گیا ہے کہ ان کو اس بارے میں اسرائیلی روایات پہنچی ہیں، جب ان کا یہ عمل مختلف شہروں میں مشہور ہو گیا تو علماء نے اس میں اختلاف کیا، بعض نے قبول کر لیا اور اس رات کی تعظیم میں ان سے موافقت کی، ان میں بصرہ کے عابدین و غیرہم کی ایک مختصر سی جماعت ہے اور اکثر علماءِ حجاز نے اس سے انکار کیا، ان میں عطاء اور ابن ابی ملیکہ رحمہما اﷲ تعالیٰ بھی ہیں، عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے فقہاءِ مدینہ رحمہم اﷲ تعالیٰ سے بھی اسی طرح نقل کیا ہے، امام مالک رحمہ اﷲ تعالیٰ کے اصحاب اور دوسرے فقہاء رحمہم اﷲ کا بھی یہی قول ہے، وہ فرماتے ہیں کہ یہ سب بدعت ہے۔
پھر اس شب میں عبادت کے بارے میں اہلِ شام کے دو قول ہیں:
ایک یہ کہ مساجد میں باجماعت نوافل پڑھے جائیں، خالد بن معدان اور لقمان ابن عامر وغیرہما اس رات میں عمدہ لباس پہنتے تھے، خوشبو لگاتے، سرمہ لگاتے اور مسجد میں باجماعت نوافل پڑھتے، اسحاق بن راہویہ نے بھی ان کی موافقت کی ہے، فرماتے ہیں کہ مسجد میں باجماعت پڑھنا بدعت نہیں۔
دوسرا قول یہ کہ مساجد میں نماز، وعظ اور دعا کے لیے اجتماع مکروہ ہے، انفراداً نماز پڑھنا مکروہ نہیں، یہ قول اہلِ شام کے امام، فقیہ، عالم، امام اوزاعی رحمہ اﷲ تعالیٰ کا ہے، اور یہی سنت سے قریب تر ہے۔ ان شاء اﷲ تعالیٰ۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اﷲ تعالیٰ سے روایت ہے کہ انھوں نے بصرہ میں اپنے عامل کی طرف لکھا:
’’چار راتوں میں عبادت سنت ہے، ان راتوں کا اہتمام کرو، ان میں اﷲ تعالیٰ خوب رحمت برساتے ہیں، رجب کی پہلی رات، شعبان کی پندرہویں، عید الفطر کی رات، عیدالاضحی کی رات‘‘۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اﷲ تعالیٰ سے اس روایت کی صحت مخدوش ہے۔
حضرت امام شافعی رحمہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہمیں خبر پہنچی ہے کہ پانچ راتوں میں دعا قبول ہوتی ہے۔ جمعہ، عیدین، رجب کی پہلی اور نصف شعبان کی راتیں، ان راتوں کے بارے میں جو باتیں بھی نقل کی گئی ہیں میں ان کو مستحب سمجھتا ہوں‘‘۔
امام احمد رحمہ اﷲ تعالیٰ سے نصف شعبان کی رات کے بارے میں کوئی تصریح معروف نہیں، آپ سے عیدین کی راتوں کے بارے میں دو روایتیں ہیں:
ایک روات میں باجمات قیام کو پسند نہیں فرمایا، اس لیے کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے منقول نہیں۔
دوسری روایت میں اس کو پسند فرمایا ہے، اس لیے کہ عبدالرحمن بن یزید بن الاسود رحمہ اﷲ تعالیٰ نے ایسا ہی کیا ہے اور آپ تابعی ہیں، اور اکابر فقہاءِ اہلِ شام میں سے تابعین رحمہم اﷲ تعالیٰ کی ایک جماعت سے بھی ثابت ہے‘‘۔
(لطائف المعارف،ص: ۱۴۴)
۴۔ و قال الام ابوبکر الطرطوشی رحمہ اللّٰہ تعالیٰ عنہ:
زید بن اسلم رحمہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہم نے اپنے مشائخ و فقہاء رحمہم اﷲ تعالیٰ میں سے کسی کو بھی ایسا نہیں پایا جو نصف شعبان یا حدیث مکحول کی طرف کوئی التفات کرتا ہو، یہ حضرات اس رات کی دوسری عام راتوں پر کوئی فضیلت نہیں سمجھتے تھے‘‘۔
ابن ابی ملیکہ رحمہ اﷲ تعالیٰ سے کسی نے کہا کہ زیاد نمیری کہتا ہے:
’’شب نصف شعبان کا اجر لیلۃ القدر کے برابر ہے‘‘۔
یہ سن کر ابن ابی ملیکہ رحمہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اگر میں اس کو یہ کہتے سنوں اور میرے ہاتھ میں لاٹھی ہو تو اس کو لاٹھی سے ماروں‘‘۔
یہ زیاد قصہ خوان تھا۔ (الحوادث والبدع، ص: ۱۳۰)
۵۔و قال العلامۃ محمد طاہر البتنی رحمہ اللّٰہ تعالیٰ:
زید بن اسلم رحمہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:
’’ہم نے اپنے مشائخ و فقہاء رحمہم اﷲ تعالیٰ میں سے کسی کو بھی شبِ براء ت کی فضیلت کی طرف التفات کرتے نہیں پایا‘‘۔
ابن وجیہ فرماتے ہیں:
’’صلوٰۃ براء ت کے بارے میں جتنی بھی روایات ہیں سب موضوعہ ہیں اور ان میں سے ایک مقطوع ہے، جو شخص ایسی روایت پر عمل کرتا ہے جس کا جھوٹ ہونا ثابت ہو جائے وہ شیطان کے خادموں سے ہے‘‘۔
(تذکرۃ الموضوعات، ص: ۴۵)
۶۔ آخر میں ’’الحاق‘‘ کے تحت ہے:
ائمہ اربعہ رحمہم اﷲ تعالیٰ:
اوپر نمبر ۶ کے تحت نمبر ۳ میں حافظ ابن رجب رحمہ اﷲ تعالیٰ کی تحقیق کے مطابق شبِ نصف شعبان سے متعلق ائمہ اربعہ رحمہم اﷲ تعالیٰ کے اقوال کی تفصیل یہ ہے:
حضرت امام اعظم اور آپ کے اصحاب رحمہم اﷲ تعالیٰ:
ائمہ احناف رحمہم اﷲ تعالیٰ میں سے کسی بھی نصف شعبان کے بارے میں کوئی قول منقول نہیں۔
حضرت امام مالک رحمہ اﷲ تعالیٰ:
آپ سے بھی کوئی قول منقول نہیں۔
اصحاب مالک رحمہم اﷲ تعالیٰ:
امام مالک رحمہ اﷲ تعالیٰ کے اصحاب رحمہم اﷲ تعالیٰ اس شب کی فضیلت کا انکار کرتے ہیں۔
حضرت امام شافعی رحمہ اﷲ تعالیٰ:
’’ہمیں خبر پہنچی ہے…… میں ان کو مستحب سمجھتا ہوں‘‘۔
امام شافعی رحمہ اﷲ تعالیٰ کے پورے کلام پر غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کا یہ خیال بعض تابعین رحمہم اﷲ تعالیٰ سے پہنچنے والی روایات پر مبنی ہے، آپ کے علم میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی کوئی حدیث یا کسی صحابی رضی اﷲ عنہ سے کوئی روایت نہ تھی۔ اس پر شواہد یہ ہیں:
۱۔ بلغنا ’’ ہمیں خبر پہنچی ہے‘‘۔
آپ کے علم میں کوئی حدیث ہوتی یا کسی صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا کوئی قول ہوتا تو بیان فرماتے۔
۲۔ واستحب کل ما حکیت فی ہذہ اللیالی۔
’’ان راتوں کے بارے میں جو باتیں بھی نقل کی گئی ہیں ، میں اُن کو مستحب سمجھتا ہوں‘‘۔
اس سے بھی ثابت ہوا کہ آپ کا قول استحباب صرف بعض تابعین رحمہم اﷲ تعالیٰ سے پہنچنے والی روایات پر مبنی ہے، پھر وہ روایات بھی کسی پختہ سند سے آپ تک نہیں پہنچیں، ’’رویت‘‘ صیغہ تضعیف ہے، یہاں وہ بھی نہیں اس کی بجائے ’’حکیت‘‘ ہے جو اس سے بھی زیادہ ضعیف ہے۔
اور رجب کی پہلی اور عیدین کی راتوں میں عبادت کی فضیلت کے بارے میں کوئی روایت بھی قابلِ قبول نہیں۔
قال الحافظ ابن القیم رحمہ اللّٰہ تعالیٰ:
’’ہر وہ حدیث جس میں رجب کے روزے اور اس کی کسی رات میں نماز کا ذکر ہے وہ جھوٹ اور افتراء ہے‘‘۔
(المنار المنیف، ص: ۹۶)
علامہ شوکانی اور دوسرے ناقدین حدیث کا بھی یہی فیصلہ ہے۔
قال العلامۃ الالبانی:
’’جس نے عیدین کی راتوں میں عبادت کی اس کا دل نہیں مرے گا جس دن دل مریں گے۔ یہ حدیث موضوع ہے‘‘۔ (سلسلۃ الضعیفہ والموضوعہ، ص: ۱۱، ج: ۲)
و قال ایضًا:
’’جس نے اﷲ تعالیٰ سے اجر کی نیت سے عیدین کی راتوں میں نماز پڑھی اس کا دل نہیں مرے گا جس دن دل مریں گے۔ یہ حدیث بہت زیادہ ضعیف ہے‘‘۔ (حوالہ بالا)
حضرت امام احمد رحمہ اﷲ تعالیٰ:
آپ سے کوئی روایت منقول نہیں۔
یہ امام ابن رجب رحمہ اﷲ تعالیٰ (متوفی ۷۹۵ھ) کی تحقیق ہے مگر محمد بن مفلح رحمہ اﷲ تعالیٰ (متوفی ۷۶۳ھ) فرماتے ہیں کہ امام احمد رحمہ اﷲ تعالیٰ سے فضیلت کی روایت منقول ہے:
ولیلۃ النصف لہا فضیلۃ فی المنقول عند احمد رحمہ اللّٰہ تعالیٰ ، وقد روی احمد و جماعۃ من اصحابنا و غیرہم فی فضلہا اشیاء مشہورۃ فی کتب الحدیث۔
(کتاب الفروع، کتاب الصیام:۳، ص: ۱۱۸)
یہ دونوں حضرات حنبلی ہیں اور دونوں ایک ہی زمانہ میں گزرے ہیں اور دونوں ایک ہی شہر ’’دمشق‘‘ کے رہنے والے ہیں، ابن مفلح مقدسی ثم دمشقی ہیں اور ابن رجب بغدادی ثم دمشقی۔ اس کے باوجود اپنے امام سے روایت کے بارے میں اختلاف ہے، رفع تعارض کی یہ صورتیں ہو سکتی ہیں:
۱۔ فی المنقول عن احمد سے روایت مذہب مراد نہیں، روایت حدیث مراد ہے، کما ہو ظاہر من قولہ ’’کتب الحدیث‘‘۔ روایت حدیث روایت مذہب کو مستلزم نہیں۔
۲۔ قیام نصف شعبان کی کوئی مستقل روایت نہیں بلکہ اس کی تخریج قیام لیلتی العیدین سے کی گئی ہے، کما قال ابن رجب رحمہ اللّٰہ تعالیٰ۔
ابن رجب رحمہ اﷲ کی وفات ابن مفلح رحمہ اﷲ تعالیٰ کی وفات سے بتیس سال بعد ہوئی ہے، اس کے باوجود وہ روایت احمد رحمہ اﷲ تعالیٰ کے منکر ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ قول ابن مفلح کے محمل سے بخوبی واقف ہوں گے، خواہ وہ ان دو محامل میں سے کوئی ہو جو میں نے لکھے ہیں یا کوئی اور۔
اگر امام احمد رحمہ اﷲ تعالیٰ سے کوئی روایت ہو بھی تو وہ اتنی غیر معروف ہے کہ تیسری صدی کے وسط سے آٹھویں صدی کے آخر تک ساڑھے پانچ سو سال کے طویل عرصہ میں بھی مذہب حنبلی کے جلیل القدر امام ابن رجب رحمہ اﷲ تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکی۔
دوسرا اختلاف:
ابن رجب رحمہ اﷲ تعالیٰ متوفی ۷۹۵ھ کی تحقیق مذکور سے ثابت ہوتا ہے کہ فقہاءِ اہلِ مدینہ، اصحاب مالک اور اکثر علماءِ حجاز نفس فضیلت ہی کے منکر ہیں اور نجم غیطی فرماتے ہیں کہ یہ حضرات نفس فضیلت کے منکر نہیں صرف اجتماع و احتفال کو بدعت قرار دیتے ہیں، انفراداً استحباب کے قائل ہیں۔
(کذا نقل عنہ الزبیدی رحمہ اﷲ تعالیٰ المتوفی ۱۲۰۵ھ فی الاتحاف( ۳: ۴۲۷)
و کذا قال الشرنبلالی رحمہ اللّٰہ تعالیٰ المتوفی ۱۰۹۹ھ (مراقی الفلاح، ص: ۲۱۹)
تطبیق کی کوئی صورت نظر نہیں آتی لہٰذا صورت ترجیح ہی متعین ہے، ابن رجب رحمہ اﷲ تعالیٰ مذہب کے مشہور امام ہونے کے علاوہ بلحاظ زمان و درجہ بھی بہت متقدم ہیں، نجم غیطی رحمہ اﷲ تعالیٰ (متوفی ۹۸۴ھ) دو سو سال بعد گزرے ہیں، پھر آپ سے ناقل ’’زبیدی‘‘ تک تین سو سال کا فصل ہے، اگر غیطی کی کسی کتاب میں ہے تو وہ ابن رجب کی کتاب جیسی معروف نہیں۔
شرنبلالی رحمہ اﷲ تعالیٰ ابن رجب رحمہ اﷲ تعالیٰ سے تین سو سال بعد گزرے ہیں، آپ نے کوئی حوالہ بھی تحریر نہیں فرمایا، ممکن ہے کہ نجم غیطی ہی سے نقل کیا ہو، جس کا حال اوپر لکھا جا چکا ہے، اس لیے یہ قول امام ابن رجب رحمہ اﷲ تعالیٰ کی تحقیق کے مقابلہ کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
اس اختلاف کا اس حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ امام مالک رحمہ اﷲ تعالیٰ سے نصف شعبان کی فضیلت کے بارے میں کسی قسم کی کوئی روایت نہیں۔
یہ تحقیق ائمہ اربعہ رحمہم اﷲ تعالیٰ سے متعلق تھی، اس میں شبہ نہیں کہ چاروں ائمہ کے جمہور مقلدین نفسِ فضیلت کے قائل ہیں۔
روایاتِ حدیث:
قال الامام ابن رجب رحمہ اللّٰہ تعالیٰ:
’’شب نصف شعبان کی فضیلت میں اور متعدد احادیث ہیں جن میں اختلاف ہے، اکثر محدثین نے ان کو ضعیف قرار دیا ہے، ابن حبان نے ان میں سے بعض کو صحیح کہا ہے اور اپنی کتاب ’’صحیح ابن حبان‘‘ میں ذکر کیا ہے، ان میں سب سے بہتر حدیث عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ہے۔ اس حدیث کی تخریج امام احمد، ترمذی اور ابن ماجہ رحمہم اﷲ تعالیٰ نے کی ہے۔ امام بخاری رحمہ اﷲ تعالیٰ نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے‘‘۔
اس سے ثابت ہوا کہ جس حدیث کو ابن حبان رحمہ اﷲ تعالیٰ نے صحیح سمجھ کر اپنی کتاب میں درج فرمایا ہے وہ اس حدیث سے بھی زیادہ ضعیف ہے جس کو امام بخاری رحمہ اﷲ تعالیٰ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ ضعیف حدیث کے حکم کی تفصیل رسالہ ’’حدیثِ ضعیف پر عمل کرنے میں مفاسد‘‘ میں ہے۔
الحاق:
بوقت تحریر منکرین فضیلت کی تفصیل سے متعلق پانچ کتابیں سامنے تھیں جن کی عبارات(ترجمہ) لکھی جا چکی ہیں، تکمیل تحریر کے بعد چھٹی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیہ میں بھی منکرین تفضیل کا بیان مل گیا جو درج ذیل ہے:
۶۔ قال الامام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ تعالیٰ:
’’اہل مدینہ سے علماء سلف اور غیر اہل مدینہ سے بھی بعض علماء خلف نے اس رات کی فضیلت کا انکار کیا اور اس بارے میں احادیث واردہ کو ناقابلِ اعتبار قرار دیا ہے۔
لیکن بہت سے یا اکثر اہل علم اس کی فضیلت کے قائل ہیں، امام احمد رحمہ اﷲ تعالیٰ کی تصریح سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے، اس بارے میں متعدد احادیث اور آثار سلف کی وجہ سے، اس رات کے بعض فضائل مسانید و سنن میں مروی ہیں، اگرچہ اس میں یقینا کئی خود ساختہ اور من گھڑت چیزیں بھی داخل کر دی گئی ہیں۔ اس دن کے روزہ کا کوئی ثبوت نہیں، بلکہ تنہا اس دن کا روزہ رکھنا مکروہ ہے‘‘۔ (اقتضاء الصراط المستقیم، ص: ۳۰۳)
اس سے امور ذیل ثابت ہوئے:
۱۔ امام احمد رحمہ اﷲ تعالیٰ سے روایت تفضیل کا ثبوت:
تاہم یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ تعالیٰ کی وفات ۷۲۸ھ میں ہوئی ہے اور امام ابن رجب رحمہ اﷲ تعالیٰ کی ۷۹۵ھ میں۔ سڑسٹھ سال کی طویل مدت میں ہوئی ہے اور امام ابن رجب رحمہ اﷲ تعالیٰ تک نہیں پہنچ پائی جب کہ آپ مذہب حنبلی کے مشہور امام ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت بہت ہی غیر معروفہ ہے اسی لیے امام ابن رجب رحمہ اﷲ تعالیٰ نے ’’و لا یعرف للامام احمد رحمہ اللّٰہ تعالیٰ کلام‘‘ فرمایا ہے۔
۲۔ اس سے امام ابن رجب رحمہ اﷲ تعالیٰ کی تحقیق کی مزید تائید ہو گئی اور یہ حقیقت مزید واضح ہو گئی کہ علماءِ مدینہ و اصحاب مالک رحمہم اﷲ نفس فضیلت کے منکر ہیں، نجم غیطی رحمہ اﷲ تعالیٰ کا یہ خیال صحیح نہیں کہ یہ حضرات صرف اجتماع و احتفال کے منکر ہیں، نفس فضیلت کے قائل ہیں۔
علامہ طرطوشی اور علامہ پٹنی رحمہما اﷲ تعالیٰ کی تحریرات میں بھی نفس فضیلت کے انکار کی تصریح گزر چکی ہے اور زید بن اسلم رحمہ اﷲ کا یہ ارشاد بھی:
’’ہم نے اپنے مشائخ اور فقہاء میں سے کسی ایک کو بھی ایسا نہیں پایا جو شبِ براء ت کی طرف کوئی التفات کرتا ہو اور اس کو دوسری راتوں پر فضیلت دیتا ہو‘‘۔
زید بن اسلم رحمہ اﷲ تعالیٰ بہت جلیل القدر تابعی اور بہت بڑے محدث و فقیہ ہیں، آپ کے مشائخ و فقہاء حضرات صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم اور کبار تابعین رحمہم اﷲ تعالیٰ ہیں اور اسلاف فقہاءِ مدینہ یہی حضرات ہیں، اس لیے کہ آپ مدنی ہیں۔ واﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ اعلم۔ (۱۳؍ ربیع الاوّل، ۱۴۱۳ھ )
نصف شعبان میں ایصالِ ثواب:
سوال: شعبان کی پندرہویں رات کو قبرستان میں جانے اور اموات کو ایصالِ ثواب کرنے کا عام دستور ہے، اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب باسم ملہم الصواب
امداد الفتاویٰ میں اس طویل بحث ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے:
’’مولانا محمد صدیق صاحب کاندھلوی رحمہ اﷲ تعالیٰ کی تحقیق کے مطابق اس رات میں ایصال ثواب ثابت نہیں، حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا بقیع تشریف لے جانا اور دعا ثابت ہے مگر یہ اس رات کی خصوصیت نہ تھی بلکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا روزانہ کا معمول اور عادت مستمرہ تھی۔
حدیث عائشہ رضی اﷲ عنہا کے آخر میں نصف شعبان کے ذکر سے اس رات کی تخصیص معلوم ہوتی ہے مگر بقول ترمذی رحمہ اﷲ تعالیٰ امام بخاری رحمہ اﷲ تعالیٰ نے اس روایت کی تضعیف فرمائی ہے، اس روایت میں نصف شعبانی کی زیادتی میں حجاج متفرد ہے جو سیٔ الحفظ اور مجروح ہے، علاوہ ازیں اس میں دو جگہ انقطاع ہے، حجاج کو یحیٰ سے اور یحیٰ کو عروہ سے سماع حاصل نہیں۔
اس زیادتی کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو بھی اس سے استدلال صحیح نہیں، اس لیے کہ اس میں خروج الی البقیع کی وجہ بتانا مقصود نہیں بلکہ وقت معہودسے قبل خرج کی وجہ بتائی گئی ہے، عادتِ مستمرہ آخر لیل میں خروج کی تھی مگر اس شب اوّل لیل میں خروج ہوا، اس لیے کہ دوسری راتوں میں سماء دنیا کی طرف نزول آخر لیل میں ہوتا ہے اور اس شب ابتداءِ لیل سے ہی ہو جاتا ہے، اس لیے قبرستان میں جا کر دعا کرنے کو اس رات کے احکام و فضائل میں شمار کرنا صحیح نہیں۔
دوسرے علماء قبرستان جا کر اموات کے لیے دعا کرنے کو حدیث مذکور کا مدلول قرار دے کر استحباب کے قائل ہیں، مگر فساد اعتقاد و قبائح عملیہ کے پیشِ نظر قبرستان جانے سے منع فرماتے ہیں۔
شبِ براء ت اور مسلمان:
اس زمانہ کے مسلمانوں کا ذوق
٭ ترک منکرات و معاصی ظاہر و باطنہ کی بجائے صرف فضائل کی طرف توجہ اور دنیا و آخرت کی فلاح و بہبود کے لیے اسی کو کافی سمجھنا، بلکہ اسی سے ولایت کے تمام درجات حاصل کر لینا۔
٭ فضائل مأثورہ کو چھوڑ کر خود ساختہ فضائل اور روایات موضوعہ کا اتباع۔
صراطِ مستقیم:
اﷲ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے واضح ارشادات کے مطابق دنیا و آخرت دنوں میں کامیابی و کامرانی کا واحد راستہ یہ ہے کہ اﷲ و رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی نافرمانی سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کی کوشش کی جائے۔ ذکر اﷲ بکثرت جاری رکھنے کا اہتمام کیا جائے اور عبادتِ نافلہ زیادہ سے زیادہ کی جائیں مگر طریقِ مسنون کے مطابق
بزہد و ورع کوش و صدق و صفا
1و لیکن میفزائے بر مصطفی!