خطاب: شہید ِ ملّت نواب زادہ لیاقت علی خان مرحوم
مجلس احرارِ اسلام ہند کی برپا کردہ تاریخی ’’تحریکِ مدحِ صحابہ‘‘ ۱۹۳۶ء کی حمایت میں سابق وزیر اعظم پاکستان اور مسلم لیگ کے رہنما،شہیدِ ملّت، نواب زادہ لیاقت علی خان کی یوپی اسمبلی میں تقریر کی جو اخبار النجم، لکھنؤ، ۱۳؍ نومبر ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی۔ ادارہ ریکارڈ محفوظ کرنے کے لیے اس یادگار اور تاریخی تقریر کوجناب عرفان الحق ایڈووکیٹ کے شکریے کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہے۔
یکم جون ۱۹۳۶ء کو لکھنؤ کے شیعہ سٹی مجسٹریٹ ابو طالب نقوی نے حسبِ دفعہ ۱۴۴ ، ایک اعلان شائع کیا کہ ۳؍ جون کے جلوس محمدی میں مدحِ صحابہ نہ پڑھی جائے، اس سلسلہ میں ان کے الفاظ درج ذیل ہیں:
’’ہر گاہ ایک جلوس لکھنؤ میں تاریخ ۳؍ جون ۳۶ء بروز بارہ وفات حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے اعزاز میں نکالا جانے والا ہے۔ و ہرگاہ یہ جلوس چند سال ہوئے پہلے نکالا گیا تھا تو شیعہ اور سنی مسلمانان کا مشترکہ جلوس تھا اور اس وقت اب تک یہ مشترکہ جلوس رہا ہے۔ ہر گاہ امسال بھی جلوس کے سنی منتظموں نے شیعہ مسلمانوں کو جلوس میں شرکت کرنے کے لیے مدعو کیا ہے اور انھوں نے بھی اپنی شرکت کی منظوری دے دی ہے اور ہر گاہ کہ پولیس کی اطلاع و نیز دیگر ذرائع کی اطلاع پر یہ یقین کرنے کے لیے کافی وجوہ موجود ہیں کہ کچھ غیر ذمہ دار لوگ ایسی نظمیں جو مختلف فیہ ہیں، اس جلوس میں پڑھیں گے، جن کی معقول گنجائش نہیں ہے اور ہر گاہ ایسی نظموں کے پڑھنے سے اندیشہ نقضِ امن عام کا ہے۔ میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لکھنؤ…… حسب ذیل حکم زیر دفعہ ۱۴۴ ضابطۂ فوجداری نافذ کرتا ہوں کہ:
۱۔ کوئی شخص جلوس میں یا جلوس کے لوگوں کی سماعت کے اندر کسی شارع عام پر یا مجمع میں مدحِ صحابہ نہیں پڑھے گا
۲۔ کوئی شخص دشنام آمیز الفاظ یا کوئی اور الفاظ یا اشعار جن سے کسی دوسرے فرقہ کے پیروؤں کی ذلت یا ہتک ہوتی ہو، اس جلوس کے راستے میں یا جلوس کے لوگوں کی سماعت کے اندر یا کسی شارع عام پر یا کسی مجمع میں نہ پڑھے گا۔ وغیرہ وغیرہ
نواب زادہ لیاقت علی خاں کی تقریر:
لنچ کے بعد ٹھیک ڈھائی بجے نواب زادہ صاحب نے تحریک التواء پیش کی ۔ تحریکِ مدحِ صحابہ کے حوالے سے پیش آمدہ صورتِ حال کے حوالے سے اپنی تقریر میں آپ نے کہا:
’’میں متعصب نہیں ہوں اور جب کبھی دو فرقوں میں کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے تو میرے دل کو سب سے زیادہ دکھ ہوتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ حکومت کا موجودہ معاملہ میں کچھ ایسا رویہ رہا ہے کہ کوئی انصاف پسند شخص خاموش نہیں رہ سکتا۔ مدحِ صحابہ کے سلسلہ میں حکومت رعایا کے جائز حقوق میں مداخلت کر رہی ہے اور جس کام کا ہر شخص کو حق حاصل ہے، اسے کرنے سے روک رہی ہے۔ علی الاعلان مدحِ صحابہ پڑھنا، سنّیوں کا مذہبی اور شہری حق ہے۔ مدحِ صحابہ پڑھنے کی عام اجازت دینے پر اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ بعض لوگ خلفاءِ ثلاثہ کی عظمت کو نہیں مانتے، اس لیے حکومت کو حق ہے کہ وہ ان اصحاب کے معتقدین کو اپنے بزرگوں کی تعریف کرنے سے روک دے، جبکہ یہ دلیل سرا سر غیر منطقی اور عقلِ سلیم کے خلاف ہے، میں ایوان کو مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ یہ اصحاب جن کی تعریف کرنا جرم قرار دیا گیا ہے، اسلام کے زبردست محسنوں میں سے اور انھی کی ذات سے ساری دنیا میں اسلام کی روشنی پھیلی۔ یہ حضرات نہ صرف جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاص دوستوں اور جاں نثاروں میں تھے، بلکہ ان کے قریبی اعزاء میں سے بھی تھے۔
حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے خسر تھے اور حضرت عثمان و علی رضی اﷲ عنہما آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے داماد تھے۔ مسلمان ان تمام حضرات کی عزت کرتے ہیں، لہٰذا کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ ان اصحاب کے ماننے والوں کو ان کی تعریف سے روکے۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ سنّیوں کو اپنے بزرگوں اور اسلام کے محسنوں کی تعریف سے روکا جائے، وہ آخر کس وجہ سے ایسا کرنا چاہتے ہیں؟ سنّی کسی کو گالی نہیں دیتے تو پھر بگڑنے کی کیا وجہ ہے؟ اگر اس اصول پر دنیا کاربند ہونے لگے تو پھر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ عیسائی حضرات جناب عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا تصور کرتے ہیں، لیکن مسلمان ایسا نہیں مانتے اس لیے عیسائیوں کو اس کی اجازت نہیں ملنی چاہیے کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کی اپنے خیال کے مطابق تعریف کریں۔ حقیقت اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جب تک میں کسی دوسرے پر سبّ و شتم نہ کروں، مجھے اپنے بزرگوں کی تعریف کرنے کا حق حاصل ہے، جس پر کوئی روک ٹوک نہیں ہونی چاہیے اور یہی آج سنّیوں کا مطالبہ ہے۔ حکومت نے اپنے آرڈر مجریہ ۱۹۰۹ء میں صاف صاف یہ لکھ دیا ہے کہ ان اصحاب کی علی الاعلان تعریف کو پورے سال نہیں روکا جا سکتا۔
ایک اعلان کی یاد:
نواب زادہ صاحب نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے مزید کہا:
’’اس وقت کے ڈپٹی کمشنر مسٹر ریڈیچی نے بھی فساد ہونے کے بعد سنّیوں کو اطمینان دلانے کے لیے صاف صاف یہ اعلان کر دیا تھا کہ سنیوں کو پورے سال مدحِ صحابہ پڑھنے سے نہیں روکا جا سکتا، مگر مقامی حکام نے نہ صرف تین دنوں کے لیے مدحِ صحابہ بند کی بلکہ وہ اپنی حد سے گزر کر حکم پر حکم دیتے چلے جا رہے ہیں کہ اب مسلمان سال کے کسی دن میں بھی مدحِ صحابہ نہیں پڑھ سکتے۔
ہوم ممبر کے جوابات سے معلوم ہوتا ہے کہ لکھنؤ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی حقیقت اور اصلیت سے وہ لاعلم ہیں، جس پر مجھے افسوس ہے، بہرحال میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لکھنؤ کی طرف سے اس قسم کا کوئی تحریری حکم شائع نہیں ہوا ہے کہ لکھنؤ میں مدحِ صحابہ علی الاعلان پڑھنا ہمیشہ کے لیے ممنوع ہو گیا ہے۔ جو حکم ہر جمعہ کو دیا جاتا ہے وہ صرف یہ ہوتا ہے کہ ٹیلہ کی مسجد لکھنؤ کے گرد نصف میل کے اندر پانچ آدمیوں سے زیادہ لوگ جمع نہ ہوں۔ اب اس حکم کی خلاف ورزی کوئی نہیں کرتا، مگر جب ایک یا دو آدمی مسجد سے مدحِ صحابہ پڑھتے ہوئے نکلتے ہیں تو ان کو فوراً گرفتار کر لیا جاتا ہے، لہٰذا بتایا جائے کہ اب یہ گرفتاری کس جرم اور کس قانون کی رُو سے ہوتی ہے؟ کیا انصاف اسی کو کہتے ہیں‘‘۔
یوپی اسمبلی میں مدحِ صحابہؓ:
انھوں نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے مزید کہا:
’’میں ایوان کی آگاہی کے لیے وہ اشعار بھی پڑھ کر سنائے دیتا ہوں جن کو لوگ عام طور سے پڑھتے ہیں تو گرفتار کر لیے جاتے ہیں۔ ان اشعار میں ایک شعر یہ بھی خاص طور سے پڑھا جاتا ہے:
جن کا ڈنکا بج رہا ہے چار سو لیل و نہار
وہ ابوبکرؓ و عمرؓ ، عثمانؓ و حیدرؓ چار یار
میں پوچھتا ہوں کہ کیا ان اشعار میں کوئی اسی قابلِ اعتراض بات ہے ، جس کی کوئی شخص مخالفت کرے، یہ بات نہایت قابلِ افسوس ہے کہ حکومت تو یہ کہتی ہے کہ ہر فرقہ کو اپنے مذہبی پیشواؤں کی تعریف کا حق ہے اور مسلمان بھی اپنے بزرگوں کی علی الاعلان تعریف کر سکتے ہیں، مگر پھر بھی دفعہ ۱۴۴ کی آڑ میں مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ یہ بات بھی قابلِ افسوس اور قابلِ مذمت ہے کہ حکام دفعہ ۱۴۴ سے زیادہ کسی اور قانون کا غلط طریقہ سے استعمال نہیں کرتے۔ دفعہ ۱۴۴ کا منشا یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ لوگوں کو ان کے جائز حقوق کے استعمال سے روک دیا جائے، بلکہ اس قانون کے سہارے عوام کے جائز حقو ق کا نفاذ کرانا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس دفعہ کو غلط استعمال کیا جا رہا ہے اور لکھنؤ کے مسلمانوں کو ان کے جائز اور غیر دل آزار حقوق سے محروم کر کے ان کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے، حکومت کے لیے یہ افسر نوازی کی پالیسی نہایت نقصان دہ ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اور برا ہو گا، اگر حکومت نے اس طرح اپنے آدمیوں کی حمایت کی تو کیا یہ انصاف کہا جائے جائے گا۔ کیا یہ حکومت کا فرض نہیں کہ وہ اپنے افسروں کو اس چیز سے روکے کہ وہ دوسروں کے جائز حقوق کو غصب نہ کریں۔ مجھے امید ہے کہ تمام ممبر میری اس تحریک سے متفق ہوں گے‘‘۔
(النجم لکھنؤ، ۱۳؍ نومبر ۱۹۳۶ء)