ڈاکٹر عمر فاروق احرار
تحفظ ختم نبوت کی مقدس تحریکات پر ماضی سے آج تک مسلسل قلمی خدمات جاری ہیں۔ناموسِ رسالت کے تحفظ کو باعثِ نجات سمجھ کر ہر مسلمان لکھاری اپنا حصہ ضرور ڈالتاہے۔مجلس احراراسلام برصغیرکی وہ واحددینی وسیاسی جماعت ہے کہ جس نے تحفظ ختم نبوت کے لیے تنظیمی شکل میں اپنی عوامی جدوجہدشروع کی اوروہ اِس موضوع پر مسلسل مکالمہ ،مناظرہ، مباحثہ اورخطابت کے ساتھ ساتھ قلمی محاذ پر بھی گراں قدروَقیع علمی خدمات بھی انجام دیتی چلی آرہی ہے۔عہدحاضر میں بھی تحفظ ختم نبوت کے لیے اپنے قلم کو وقف کردینے والوں کی ایک روشن قطارنظر آتی ہے۔مختلف مکاتیب فکرکے محترم حضرات نے اپنے اپنے اندازمیں قادیانیت کے مختلف پہلوؤں پر اپنی کتابوں میں علمی جواہرریزے بکھیرے ۔اِن مصنفین اورمرتبین کی قائم کردہ راہ سے ہٹ کرردِ قادیانیت میں عام آدمی کے لیے دل چسپی کو اُجاگر کرنے کے لیے ممتازناول نگاراشتیاق احمد مرحوم،جناب محمدمتین خالد اورجناب عبدالرزاق طاہر نے کہانی اورداستان کے اندازمیں لکھنے کا طریقہ بھی اپنایا۔جسے بہت زیادہ عوامی پذیرائی ملی۔خصوصاً اشتیاق احمد مرحوم نے بچوں کو قادیانیت سے روشناس کرانے کے لیے نہ صرف اکثر ناولوں کے آخر میں تحفظ ختم نبوت کے لیے چندصفحات مختص کیے ،بلکہ انہوں نے اس موضوع پر کئی بہترین ناول بھی تحریرکیے جو آج بھی ذوق وشوق سے ہر عمرکے افرادمیں پڑھے جاتے ہیں۔اشتیاق احمد کو اُردواَدب میں تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے اُردوزُبان کا پہلا ناول نگارکہا جاسکتاہے۔اشتیاق احمد کی پیروی میں ممتازناول نگارعمیرہ احمد نے بھی’’پیرکامل‘‘کے عنوان سے ناول لکھا ،جو اَپنے مختلف کرداروں اورمکالموں کے ذریعے قادیانیت کے گوشوں کوعمدگی سے بے نقاب کرتاہے۔
تحریک مقدس تحفظ ختم نبوت1953اپنے ہی وطن میں، اپنوں ہی کے ہاتھوں، خاک وخون میں تڑپا دیے جانے والے دس ہزار شہیدانِ ختم نبوت کی خونچکاں داستان ہے۔جسے ’’عشق کے قیدی‘‘کے نام سے برادرِ عزیزظفرجی نے ناول کے اندازمیں ترتیب دیاہے۔ظفرجی نے1953 کی نسبت سے فیس بک پر 53؍اقساط لکھیں۔جسے قارئین نے بہت پذیرائی بخشی۔اقساط لکھتے ہوئے ایک مرحلہ ایسا بھی آیاکہ انہوں نے مزیدلکھنابندکردیا۔جس پر میں نے انہیں بارباردوبارہ اِس اہم سلسلے کو تکمیل تک پہنچانے کی گزارش کی ۔ الحمدللہ!کہ انہوں نے میرا مان رکھااوراُسے دن رات ایک کرکے انتہائی قلیل مدت میں پایۂ تکمیل تک پہنچاکر،اپناشمارجاں نثارانِ ختم نبوت کے ہراول قلمی دستے میں کرالیا۔میرے لیے انتہائی خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ اس ناول کی نوک پلک سنوارنے کا اعزازمجھے حاصل ہوا۔
’’عشق کے قیدیُ‘‘ تحریک مقدس پر لکھا جانے والا پہلااُردوناول ہے۔جسے تحریرکرنے کی سعادت برادرعزیزظفر جی کے حصے میں آئی ہے۔ظفرجی نے ناول میں زبان وبیان کا خاص خیال رکھاہے۔وہ لفظ کی قوت کا اِدراک رکھتے ہیں اوراُن کے برمحل استعمال کے ہنرسے آشناہیں۔اس لیے انہوں نے ثقیل اوربوجھل الفاظ وتراکیب سے ممکنہ حدتک اجتناب برتاہے اورعام فہم اندازمیں تحریک کے واقعات کو دِل چسپ پیرائے میں صفحۂ قرطاس پر منتقل کیاہے۔انہوں نے واقعات وحالات کے بیان میں داستان کا قرینہ ضروربرتاہے ،مگرتاریخ کو مجروح ہونے سے بچایاہے۔’’عشق کے قیدی‘‘میں قاری کی دل چسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے مکالمات سے کام لیاگیا ہے اورہنسی مزاح ،طنزوظرافت اوربذلہ سنجی سے تاریخ کی خشکی کوکم کرنے کا سامان بھی کیا گیاہے۔تحریک ختم نبوت چونکہ انتہائی نازک اورحسّاس معاملات سے متعلق ہے۔اس لیے ظفرجی نے جذبات واحساسات کا خاص خیال رکھاہے،مگر اِس درجہ احتیاط کے ساتھ کہ جذبات واِحساسات تاریخ پر غالب نہ آسکیں اورتحریک کے کردارمحض افسانوی رنگ اختیارنہ کرسکیں۔اس لیے ’’عشق کے قیدی‘‘ جذباتیت کے خول میں بندہونے اورافسانے کے فرضی دائروں میں قیدہونے کی بجائے زندہ و جاویدکرداروں کی صورت میں ڈھل کر سامنے آتاہے۔
حقیقت نگاری ’’عشق کے قیدی ‘‘ کی اہم خصوصیت ہے، تحریک کے حقیقی واقعات پر پردہ ڈالنے کا کام جسٹس منیر کی تحقیقاتی عدالت سے شروع ہوا۔واقعات کو مسخ کیاگیا۔دس ہزارشہداءِ ختم نبوت کے خون سے ہولی کھیلنے والے فرعون صفت کرداروں کوبے گناہ ثابت کیاگیا اورتحریک ختم نبوت کے رہنماؤں کے عدالتی کمیشن کے سامنے دیے گئے بیانات کو توڑمروڑ کر تحقیقاتی رپورٹ میں شائع کیاگیا۔ جس کی ایک واضح مثال امیرشریعت سیّدعطاء اللہ شاہ بخاریؒ کا وہ تاریخی بیان ہے جو اُنہوں نے جسٹس منیرکی جرح کے جواب میں دیاتھا۔حضرت امیرشریعت کے اس بیان کو تحقیقاتی رپورٹ میں شامل ہی نہیں کیاگیا،کیونکہ اس میں سربستہ رازوں سے پردہ سرکتاہے اورتحریک ختم نبوت کے غداروں کے مکروہ چہرے بے نقاب ہوتے ہیں۔اِسی طرح مجلس احراراسلام کے عدالتی کمیشن میں داخل کیے گئے جوابی بیان کورپورٹ میں شامل کرناتو درکنار،اِس کی اشاعت ہی پر پابندی عائدکردی گئی۔نتیجہ یہ ہواکہ آج تک دیسی لبرل طبقہ، تحقیقاتی عدالتی رپورٹ میں احرارکے مؤقف کے شامل نہ ہونے کی وجہ سے، اس رپورٹ ہی کے مسخ شدہ واقعات و بیانات کے سہارے اسلام،تحریک کے رہنماؤں اوردینی جماعتوں کے خلاف بے لگام تنقیدکرتاہے۔’’عشق کے قیدی ‘‘ میں ان دانستہ مخفی رکھی گئی حقیقتوں کی جانکاری بھی ملتی ہے۔
تحریک ختم نبوت عوام کے دلوں کی آوازتھی،عوام الناس نے اِس پُرامن تحریک کے ذریعے تحفظ ختم نبوت کا مطالبہ کیااوراِس جرمِ بے گناہی میں نہتے عوام کو اُن کے اپنے لہومیں نہلادیاگیا۔تحریک جوکہ عدم تشدد کے فلسفے پر چلائی گئی تھی۔وہ کیسے تشددکی راہ پر ڈالی گئی،’’عشق کے قیدی‘‘ میں قاری کوایسی تمام معلومات مل جاتی ہیں کہ حکومت اوراُس کے ادارے ،کیسے اپنے خفیہ کارندوں کی مددسے عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں اورپُرامن تحریکوں کے شرکاء کو تشدداورتخریب پر اُکساتے ہیں؟ ناول میں حکومتی جبروتشددسے کچلی جانے والی اس تحریک میں عوام کی تحریک سے ہمدردی اوردلی محبت کے ایمان افروزواقعات چھلک چھلک پڑتے ہیں اوراِن واقعات کے مطالعہ سے یہ احساس اُبھرتاہے کہ عوامی مطالبات کو ریاستی زورپر دبادینے والے بالآخرزوال کی اتھاہ گہرائیوں کے باسی بن کر،ہمیشہ کے لیے گمنامی کی موت مرجاتے ہیں اورتحفظ ناموسِ رسالت کے گم نام متوالے، ہمیشہ کے لیے کیسے تاریخ میں امرہوجاتے ہیں!
مختصریہ کہ مختلف واقعات، کر داروں ، مناظر، فطرت کے مظاہر اور زندگی کی اتھل پتھل کو ’’عشق کے قیدی‘‘میں متحرک فلم کی طرح دیکھا جاسکتاہے اوریہ دل چسپی ناول کے شروع سے اختتام تک برقراررہتی ہے۔ناول کے کرداروں کے قدم اپنی زمین سے جڑے ہیں ۔واقعات کی منظرکشی میں مخصوص کرداروں کی اصل زبان،ماحول ،معاشرت اوردینی جذبات کو بلاکم وکاست ناول میں پیش کیاگیاہے۔جن سے قاری کو مخصوص کرداروں کی حقیقی زندگی سے آگاہی ملتی ہے اوروہ بخوبی ماضی اورحال کے فرق کو سمجھ سکتاہے اوراپنے ایمان کو تازہ کرتاہے۔ہم ظفر جی کی اس تخلیق کابھرپور خیرمقدم کرتے ہیں اورقارئین سے اس عمدہ کتاب کو پھیلانے کی توقع رکھتے ہیں۔272صفحات پر مشتمل یہ کتاب صرف 400 روپے میں بخاریؒ اکیڈمی، داربنی ہاشم، مہربان کالونی ،ایم ڈی اے چوک، ملتان سے منگوائی جاسکتی ہے۔