عبداللطیف خالد چیمہ
12-11 ربیع الاوّل 1438 ھ مطابق 12-11 دسمبر 2016 ء کو چناب نگر میں ہونے والی سالانہ احرار ختم نبوت کانفرنس اور مثالی دعوتی جلوس نے شرکاء اور کارکنوں کو نیا حوصلہ بخشا ہے،کانفرنس میں جو پیغام دیا گیاہے وہ یہ ہے کہ عقیدۂ ختم نبوت وحدتِ اُمت کی بنیادہے اور اِس کے تحفظ کی پُرامن جدوجہد ہرحال میں جاری رہے گی ۔نیز منکرین ختم نبوت اور خصوصاََ لاہوری وقادیانی مرزائیوں کے مذہبی تعاقب کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کے خلاف ان کی ریشہ دوانیوں اور سیاسی چالوں کو ہرحال میں بے نقاب کرتے رہیں گے ،29دسمبر 2016 ء جمعرات کو مراکز احرار میں یوم’’ تاسیسِ احرار ‘‘ بھی جوش وخروش سے منایا گیا اور اس عہد کی تجدید کی گئی کہ قیام حکومت الہٰیہ ،عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور امریکی وبیرونی مداخلت کے سدباب کے ساتھ ساتھ افلاطون اور ارسطو کے دئیے ہوئے نظام جمہوریت سمیت تمام نظامہائے کفر کی بیخ کنی کے لئے اپنا کردار ادا کرتے رہے گے ۔نیز مخلوق پر خالق کے نظام کے نفاذ کی مثبت جدوجہد کو آگے بڑھاتے رہیں گے ۔
چناب نگر میں 1972 ء میں قومیائے گئے تعلیمی ادارے قادیانیوں کو واپس کرنے کے مضمرات ،گزشتہ دسمبر 16 ء کے آخر میں قادیانیوں کو قادیان (انڈیا)جانے دینے کی اجازت کے سلسلہ میں کلیئرنس ،امریکی انتظامیہ کے عہدیداران خصوصاََ امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان مارک ٹونر کی جانب سے چناب نگر میں قادیانی جماعت کے ایک ذیلی ادارے ’’تحریک جدید‘‘کے دفتر پر سی ٹی ڈی کے چھاپے ،ممنوعہ لٹریچر کی برآمد گی و گرفتاریوں پر تنقید جو دراصل ہمارے اندرونی و مذہبی معاملات میں جارحانہ مداخلت کے مترادف ہے ۔
ہوم ڈیپارٹمنٹ گورنمنٹ آف پنجاب نے کچھ عرصہ پہلے ایک سرکاری لیٹر کے ذریعے ڈی سی او چنیوٹ کو یہ لکھ کر بھیجا تھا کہ ’’ماہنا مہ تحریک جدید پر قبل ازیں باقاعدہ پابندی عائد شدہ ہے لیکن اس کے باوجود یہ رسالے نہ صرف پبلش ہورہے ہیں بلکہ ان کی فروخت وتقسیم کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ان رسالہ جات میں قرآن وحدیث سے اقتباسات اور شعائر اسلام کا بے دریغ استعمال کیا گیا ہے جو آئین کی خلاف ورزی ہے ۔نیز ان میں توہین قرآن ،توہین رسالت ،توہین صحابہ واہل بیت پر مبنی تحریریں پائی جاتی ہیں جو عامۃ المسلمین کے لیے نہایت اشتعال انگیز ہیں ،اس لئے ان رسالہ جات کے ڈیکلر یشن منسوخ کرتے ہوئے طباعت ،سٹاک ،فروخت وتقسیم کا مکمل سدباب اور ان میں شامل افرا دکے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے ‘‘۔ہوم ڈیپارٹمنٹ کی اس تحریری ہدایات کے بعد کونسی چیز باقی رہ جاتی ہے جس پر قانون نافذ کرنے والے ادارے عمل پیرا نہ ہوں اور پھر بیرونی مداخلت کا پھاٹک کس نے کھولاہے کہ امریکہ ہمارے کسی علاقہ میں قانون کے نفاذ پر تنقید کرے .؟یہ دو سوالیہ نشان ہیں، جس کا جواب حکومت اور مقتدر اداروں کے ذمہ ہے ۔ جہاں تک بھٹو مرحوم کے دور میں قومیائے گئے چناب نگر(ربوہ)کے چھ تعلیمی اداروں کا مسئلہ ہے تو اس سلسلہ میں ہماری معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ عرصہ 42سال سے چناب نگر کے معروضی حالات میں یہ ادارے ایک خاص نہج پر پہنچ چکے ہیں ان تعلیمی اداروں کا اَسی فیصد سے زائد سٹاف،ملازمین اور خصوصاً طلباء وطالبات مسلمان ہیں،حکومت پنجاب کے اربوں روپے ان اداروں پر خرچ ہوچکے ہیں ،ان اداروں کی تعمیر وترقی میں حکومت کے ساتھ ساتھ علاقہ کے مسلمانوں کا اپنا ایک کردار ہے ،نواح اور دوردراز سے آکر مسلمان بچے بچیاں ان اداروں میں پڑھتے ہیں۔بعض اداروں مسلمانوں کی عبادت گاہیں ہیں ’’مساجد ‘‘تعمیر ہوچکیں ہیں اور وہاں نمازیں اور عبادت ادا کی جاتی ہے ۔ٹی آئی کالج اور ڈگری کالج کا پانچ سو چونتیس کنال رقبے سے آمدن سرکاری خزانہ میں جاتی ہے ،’’تعلیم الاسلام ‘‘ مسلمانوں کی درس گاہ کی نشان دہی کرتا ہے، اگر یہ ادارے واپس ہوتے ہیں ، تو ’’تعلیم الاسلام ‘‘کا نام قادیانی قانوناً استعمال کرنے کے مجاز نہیں ہیں ۔اندریں حالات اگر تعلیمی ادارے قادیانیوں کو دئیے جاتے ہیں ،تو یہ کفر وارتداد کے اڈے بن جائیں گے ،اور ایک نئی کشیدگی جنم لے گی ۔ان حالات میں ہماری حکومتِ پنجاب سے درخواست ہے کہ وہ ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ حالات کا بنظرِ غائر جائزہ لے ،وزیر اعلیٰ ہاؤس پنجاب میں براجمان قادیانیوں اور اندرونی وبیرونی دباؤ کو خاطر لائے بغیر چناب نگر کے تعلیمی ادارے ہرگز ہرگز ڈی نیشنلا ئزڈ نہ کئے جائیں۔ متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی پاکستان کے زیر اہتمام 19 نومبر 2016 ء کومرکزی دفتر احرار لاہور میں اس سلسلہ میں منعقد ہ ایک اجلاس میں انٹرنیشنل ختم موومنٹ کے رابطہ سیکرٹری جناب قاری محمد رفیق وجھوی کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی جو اس ساری صورت حال پر نظر رکھ کر قانونی وعدالتی کاروائی شروع کرچکی ہے ۔ملعونہ آسیہ مسیح کو بچانے اور عاشقانِ رسول اللہ ﷺ کو ستانے کا عمل انفرادی واجتماعی خیروبرکت کو ختم کردینے کا سفر ہے ،بڑے میاں بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ کے مصداق سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے فرزند ارجمند جناب شان تاثیر اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے توہین رسالت کو فروغ دینے کی بات کررہے ہیں ہم صرف اتنا عرض کرنا چاہیں گے کہ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
ہم یہاں بھی یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کو بچانے کی بجائے قانون کے شکنجے میں لائیں تاکہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی جرات نہ ہو،یاد رکھیے کہ قانون پر عمل داری نہیں ہوگی تو لاقانونیت جنم لیتی ہے ،اور یہی وہ عمل ہے جو معاشر ے میں انارکی کا سبب بنتا ہے ۔
تمام مسلمانوں سے درخواست ہے کہ وہ اس اہم ترین اور نازک مسئلہ پر اپنا کردار بھی ادا کرے اور ہماری لئے دعا فرمائیں کہ ہم اس مہم کو کامیابی سے ہمکنا ر کرسکیں،اللہ تعالیٰ آپ اور ہم سب کے حامی وناصر ہو ں،آمین ،یارب العالمین .!