ڈاکٹر عمر فاروق احرار
وطن عزیز میں سیاسی محاذآرائی عروج پر ہے ،مگر اسلام اورمسلمانوں کے خلاف سرگرمیوں کو بھی انتہاء تک پہنچا دیاگیاہے۔پہلے چناب نگر میں قومیائے گئے تعلیمی اداروں کی قادیانیوں کو واپسی کی اطلاعات گردش میں تھیں کہ اِسی دوران حکمرانوں نے قائداعظم یونیورسٹی کے نیشنل سنٹر فارفزکس کو ڈاکٹرعبدالسلام قادیانی سے منسوب کرکے جلتی پر آگ کاکام کیا۔ابھی یہ آگ بھی ٹھنڈی نہ ہوپائی تھی کہ دُوالمیال ضلع چکوال میں قادیانیوں نے حکومتی پالیسی سے حوصلہ پاکرمیلادالنبی کے جلوس پر فائرنگ کردی۔جس سے ایک مسلمان شہیداورمتعددزخمی ہوگئے۔بجائے اس کے کہ قادیانی دہشت گردوں کو گرفتارکرکے قانون کے کٹہرے میں لایاجاتا،اُلٹا مسلمانوں کی بلاجوازپکڑدھکڑ کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیاگیا۔تین ہزارمسلمانوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیاگیااوراب تک علاقہ میں خوف وہراس کی فضاقائم ہے۔ستاسی مسلمان گرفتارہیں۔اُن پر دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلایا جارہاہے۔جبکہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ختم نبوت کے اسیروں کو سخت سزاؤں اورشدیدنفسیاتی دباؤ کے ذریعے انہیں قادیانیوں کے ساتھ من مانی شرائط کے تحت صلح کرنے کا اصرارجاری ہے ۔تاکہ مسلمان مقبوضہ مسجدکے حق اورمسلمان مقتول کے کیس کی ایف آئی آرکے اندراج کے مطالبہ سے دستبردارہوجائیں۔دریں اثناء سانحۂ دُوالمیال کیس کی سماعت کرنے والے اُس جج کا بھی تبادلہ کردیاگیاہے۔ جس نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو بے بنیادقراردیا تھا۔اُس پر مستزادیہ کہ سینٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کی چیئرپرسن اور متحدہ کی سینیٹر نسرین جلیل کی طرف سے دُوالمیال (چکوال)کی مقبوضہ مسجد کی سیل کھول کر قادیانیوں کے حوالے کرنے کے مطالبہ نے دُکھے دل مسلمانوں کو مزیدرنج وغم میں مبتلاکردیا۔اس نازک صورتحال میں تمام دینی جماعتوں پر مشتمل تنظیم متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی نے مسلمانوں کے خلاف ان جانبدارانہ کارروائیوں کے خلاف بھرپورآوازبلندکی ۔
رابطہ کمیٹی کے انتہائی متحرک کنوینر اوراحراررہنماجناب عبداللطیف خالدچیمہ نے تمام دینی اورسیاسی رہنماؤں سے رابطے کیے اورپھر6جنوری کو ملک گیرپُرامن احتجاج کیاگیا۔16؍جنوری کو 10؍دینی جماعتوں کی جانب سے صدرپاکستان کے نام قادیانیت کی مسلسل سرپرستی کے خلاف ایک خط لکھاگیا۔جبکہ اٹھارہ جنوری کو مجلس تحفظ ختم نبوت کی میزبانی میں کُل جماعتی کانفرنس میں بھی حکومتی قادیانیت نوازی کی بھرپورمذمت کی گئی اوراپنے مطالبات کو بھرپوراندازمیں پیش کیاگیا۔
اسی دوران قانون توہین رسالت کے طے شدہ معاملہ کو پھر سے اٹھانے کے لیے، سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی نے متحدہ قومی موومنٹ کی سینیٹر نسرین جلیل کی زیر قیادت، تحفظ ناموس رسالت کے قانون میں ترمیم کی سفارشات کو ایک مرتبہ پھر کمیٹی کے ایجنڈے میں شامل کر لیاگیا۔اس معاملہ میں پیپلزپارٹی کے رہنماسینیٹرفرحت اللہ بابر کافی متحرک نظر آرہے ہیں۔اِن مخدوش حالات کے پیش نظر مجلس تحفظ ختم نبوت نے یکم فروری کو کُل جماعتی تحفظ ناموس رسالت کانفرنس کے انعقادکابروقت اعلان کردیا۔اسی اثناء میں وفاقی وزراء وزیرخزانہ اسحٰق ڈاراوروزیرمذہبی امورچودھری محمدیوسف نے علیحدہ علیحدہ بیانات میں قانون توہین رسالت میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کرنے کاحکومتی مؤقف دہرایا۔جس کے ردعمل میں متحدہ ختم نبوت کمیٹی کے کنوینرعبداللطیف چیمہ نے کہاکہ آئینی اسلامی دفعات کے حوالے سے حکومتی وزراء کے بیانات خوش آئندتو ہیں ،لیکن پنجاب حکومت کی پالیسیاں مختلف نظر آ رہی ہیں جو وزرا ء کے بیانات سے مطابقت نہیں رکھتیں،کیونکہ پنجاب میں تحفظ ختم نبوت کی پرامن جد وجہد کرنے والوں کو مسلسل تنگ کیا جارہا ہے ۔
پروگرام کے مطابق یکم فروری کومجلس تحفظ ختم نبوت کے زیراہتمام آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت کانفرنس،ڈریم لینڈہوٹل اسلام آبادمیں منعقدہوئی۔جس میں تمام دینی جماعتوں کے سربراہان،نمائندوں اورسبھی مکاتیبِ فکر کے علماء ،مشائخ اورسیاسی رہنماؤں نے شرکت کی ۔قائدجمعیت مولانا فضل الرحمن نے کانفرنس کے آخر میں حسب ذیل اعلامیہ جاری کیاکہ’’حکومت295C کے خلاف سرگرمیوں کا نوٹس لیتے ہوئے قانون توہین رسالت میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کرنے،بلکہ اُس کے تحفظ کا دوٹوک اعلان کرے ۔چناب نگر میں قادیانیوں کی ریاست در ریاست اور متوازی عدالتی نظام کو ختم کیا جائے اورانہیںآئین پاکستان کا پابند کیا جائے۔قادیانیوں کے چینلز کی ارتدادی نشریات کا نوٹس لے کر ملک اورا سلام مخالف نشریات پابندی لگائی جائے ۔قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے نیشنل سنٹر فار فزکس کوڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر منسوب کرنے کا فیصلہ واپس لیا جائے ۔دُوالمیال( چکوال) میں قادیانیوں کی فائرنگ سے شہید ہونے والے مسلمان کے قتل کا مقدمہ درج کرکے قادیانی قاتلوں کو سزا دی جائے اوربے گناہ گرفتار مسلمانوں کو رہاکیا جائے ۔دُوالمیال کے مظلوم مسلمانوں کے خلاف جانبدارانہ رویہ رکھنے والے حکام کے خلاف کارروائی کی جائے ۔بھٹو مرحوم کے دور میں حکومتی تحویل میں لیے گئے تعلیمی اداروں کو حکومت قادیانیوں کوواپس دینے کا فیصلہ کرنے سے گریز کرے ۔‘‘
علاوہ ازیں تحفظ ناموس رسالت اے پی سی نے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں ایک کمیٹی کے قیام کا بھی اعلان کیا۔جس کے اراکین میں جناب سراج الحق ،راجہ ظفر الحق ،پروفیسر ساجد میر،اعجاز الحق،مولانا سمیع الحق،مولانا زاہد الراشدی،صاحبزادہ ابوالخیر زبیر،مولانا اللہ وسایا،علامہ ساجد نقوی ،مولاناحنیف جالندھری ، پیر اعجاز ھاشمی، مولانا سید محمدکفیل بخاری ،حافظ عاکف سعید اورپیر معین الدین گوریجہ شامل ہیں۔کانفرنس میں واضح کیاگیاہے کہ ہمارے’’ مطالبات محض رسمی اور وقتی نہیں ہیں، اگر ایک ماہ میں یہ مطالبات منظور نہ کیے گئے اوراِن معاملات میں حکومتی طرزعمل میں کوئی واضح تبدیلی نہ آئی تو ملک گیر تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔‘‘اب گیندحکومت کے کورٹ میں ہے۔دیکھنایہ ہے کہ وہ آل پارٹیزکانفرنس کے الٹی میٹم کو خاطر میں لاتے ہوئے اپنے فرائض سے کس حدتک عہدہ برآہوتی ہے؟بہرحال دینی جماعتوں کے تیور بتارہے ہیں کہ اگراِن متفقہ مطالبات پر کان نہ دھرے گئے توملکی منظرنامے پر تحریک نظام مصطفی(1977)کی طرزپر ایک نئی تحریک کے ابھرنے کے واضح امکانات موجودہیں۔