حافظ اُسامہ عزیر
برطانوی سامراج نے برصغیر پر قبضہ و تسلط قائم کرنے کے بعد،ہندوستان کے داخلی،مذہبی اور طبقاتی نظام کو پراگندہ کرنے کے لیے سیاسی داؤ پیچ کا آغاز کیا۔تا کہ مسلمانوں کو متضادالخیال بنا کر ان پر اپنا تسلط برقرار،اور مزاحمتی تصور وعمل کے خاتمہ پر مہر ثبت کر سکیں۔چنانچہ حربہئ ابلیسی کو سود مند بنانے کے لیے شیطانی ذہنیت کے حامل اور لبادہئ انسانی کے در پردہ ابلیس کی تلاش میں سرمایے کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔بالآخر آنجہانی مرزا غلام قادیانی کی شکل میں جسد بد کردار سامنے آیا۔جس نے الہامات،متضاد دعوؤں کا جال بنتے ہوئے، حصول ہدف ومقاصد کے لیے دعویٰ نبوت کیا۔ان دعوؤں کے پس پردہ امڈھتے الحادی سیلاب کو بھانپتے ہوئے برصغیر کے علماء نے مرزا غلام قادیانی کا علمی تعاقب و محاسبے کا سلسلہ شروع کیا،اور اپنی پوری قوت وہمت،عزم و جرأت سے اس فتنہئ خبیثہ سے قوم کو آگاہ کیا۔مگر یہ فتنہ علمی،مذہبی اور دینی ہرگز نہ تھا،بلکہ خالصتا سیاسی بنیادوں پر استوار تھا۔انگریز کے خود کاشتہ پودے کی جڑیں کاٹنے کے لیے انفرادی،قوت وہمت و عزم کافی نہ تھا۔بلکہ مسلمانوں کی دلی تمنا،اکابرین کی خواہش،اور زمینی حقائق اس امر کے متقاضی تھے کہ ایک ایسی جماعت کاوجود پذیر ہونا چاہیے،جو مسلمانوں کی آزادی کی علمبردار،سامراجی تسلط کے سامنے سیسہ پلائی دیوار، جاگیردانہ نظام جو فرعونیت کے راستے پر گامزن تھا ان سے خلاصی،اور فتنہئ قادیانیت کا عوامی سطح پر تعاقب و محاسبہ کی ذمہ دار ہو۔چنانچہ محسنِ احرار حضرت علامہ محمد انور شاہ کاشمیری ؒنے انجمن خدام الدین لاہور کے ایک عظیم الشان جلسہ میں سید الاحرار سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے ہاتھ پر پانچ سو ممتاز علماء کرام کی معیت میں بیعت کی اور سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو امیر شریعت کے لقب سے ملقب کیا،تاکہ فتنہئ قادیانیت کا تعاقب منظم جماعت کی شکل میں عوامی سطح پر کیا جائے۔ بنابریں اللہ رب العزت نے سیدالاحرار حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒکو عظیم ایثار پیشہ رفقاء کی ایک مضبوط کھیپ عطاء کی،جس میں رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ،،مفکر احرار چودھری افضل حقؒ،مولانا محمد داؤد غزنویؒ،قائد احرارمولانا مظہر علی اظہرؒ،مدبر احرار ماسٹر تاج الدین انصاریؒ،ضیغم احرار شیخ حسام الدینؒ و دیگر قد آور شخصیات شامل تھیں۔
برصغیر کی تاریخ نے”مجلس احرار اسلام“سے پہلے یا بعد میں ایسی جماعت نہیں دیکھی جس میں مختلف المسالک ومختلف الخیال و نظریات کا عجیب و غریب اجتماع ہو۔اوائل میں چند مخلصین و بے لوث،عزم و ہمت کے پیکر،جرأت و غیرت کے جسدوں نے عوامی سطح پر قادیانیت کو چاروں شانے چت کیا کہ فتنہ قادیانیت کی قلعی کھل گئی۔1916ء میں سب سے پہلے بندے ماترم ہال میں سید عطاء اللہ بخاری ؒنے مرزا بشیر الدین محمود کو لاجواب کر کے عوامی سطح پر قادیانیت کا مکروہ چہرہ عیاں کیا۔پھر اجتماعی تعاقب کے لئے29دسمبر1929ء میں برصغیر کی سرزمین پر مجلس احرار اسلام کا قیام مندرجہ ذیل مقاصد و اہداف کے ساتھ وجود پذیر ہوا۔(1) حکومت الٰہیہ کا قیام۔(2)برطانوی سامراج کے تسلط کا اختتام۔(3) عقیدہئ ختم نبوت کا تحفظ۔(4) جاگیر دارانہ نظام کا خاتمہ اور دولت کی مساویانہ تقسیم۔
1930ء میں مرزا بشیر الدین محمودنے کشمیر کو قادیانی اسٹیٹ بنانے کے لئے کشمیر کمیٹی کا ڈرامہ رچایا،اب مرزا صاحب کو ایسے فرد ِمقبول کی تلاش تھی جس کے ذریعے مسلمانوں کو ورگلایاجائے،چنانچہ حضرت علامہ اقبالؒکو دھوکہ دے کر کشمیر کمیٹی کا سیکرٹری بنایا اور خود کمیٹی کے صدارتے عہدے پر براجمان ہو گئے۔یہ مرزائیوں کی بڑی گہری اور گھناؤنی سازش تھی۔جس پر حضرت علامہ محمد انور شاہ کاشمیریؒ،سید عطاء اللہ شاہ بخاری،مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ،چودھری افضل حق ؒنے حضرت علامہ اقبالؒ سے مسلسل اور کئی طویل ملاقاتیں کی اور انہیں قادیانیوں کے خطرناک عزائم،اور برٹش امپریلزم کے گماشتہ ہونے کی خوفناک حقیقت سے آگاہ کیا۔جب علامہ اقبالؒ پرمرزائیوں کے خطرناک عزائم آشکارا ہوئے تو انہوں نے فوراکشمیر کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا،علامہ صاحبؒ کا استعفیٰ مرزائیت کے خرمن باطل پر بجلی بن کر گرا۔پھر علامہ اقبالؒ نے قادیانیت پر مقالاجات لکھے جس میں مرزائیوں کا سیاسی ڈھونگ عیاں کیا گیا۔ یہ شرف اللہ تعالیٰ نے مجلس احرار اسلام کے ہی نصیب میں لکھا تھا۔اسی طرح اس جماعت نے مندرجہ ذیل تحریکات برپا کی۔(1)1930ء تحریک کشمیر۔(2)1933ء تحریک کپور تھلا۔(3)1935ء تحریک مسجد شہید گنج لاہور۔(4)1936_37ء تحریک مدح صحابہ لکھنؤ۔(5)1938ء تحریک بہاولپور۔(6)1939ء تحریک مسجد منزل گاہ سکھر۔(7)1943ء تحریک قیام حکومت الٰہیہ اور ان تحریکات کے علاوہ مجلس احرار اسلام نے ہزار انسانی کمزوریوں اور مادی بے سروسامانی کے باوجود،اپنی استعداد و ہمت اور بساط و قوت سے سینکڑوں گناہ بڑھ چڑھ کر دفاعِ دینِ مقدس کا فریضہ اد اکیا۔
تحریک پاکستان کے سلسلہ میں مجلس احرار اسلام کا موقف اگر چہ مسلم لیگ کے خلاف تھا،لیکن مسلمانان برصغیر کے مفادات کے ہرگز مخالف نہ تھا۔کیونکہ مجلس احرار اسلام پاکستان کے ہرگز مخالف نہ تھی بلکہ پاکستان کی تقسیم کے مخالف تھی۔اس لیے کہ انگریز کے ٹوڈیوں اور مرزائیوں کی ملی بھگت سے سوچے سمجھے منصوبے اور ٹھوس حکمت عملی کے تحت تقسیم ہند کا وہ فارمولا پیش کیا گیاتھا جس سے قادیان کو بچانے اور ضلع گورداس پور کو ہندوستان میں ضم کرنے کا شیطانی حربہ استعمال کیا گیا تا کہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ بنانے کا منصوبہ کامیابی سے ہم کنار کیا جائے۔مگر افسوس کہ مسلمان جماعتوں کی خاموشی نیم رضا نے مرزائیوں کی اس گھناؤنی سیاسی چال کو کامیابی کے دہانے لا کھڑا کیا،چنانچہ اس سازش کے خلاف بھی مجلس احرارا اسلام سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئی جس نے پورے ہندوستان میں صدائے احتجاج بلند کی۔البتہ سازشوں کی کڑیاں آہنی زنجیروں کی شکل اختیار کرنے لگیں تھیں۔
چنانچہ 1947ء میں آنجہانی مرزا بشیر الدین محمود نے اکھنڈ ہندوستان کا انگریزی الہام شائع کیا،جو کہ پاکستان کے خلاف مرزائیوں کی دوسری بڑی سازش تھی،جس کو بھی بفضلہ تعالیٰ مجلس احرار اسلام نے ہی بری طرح موت کے گھاٹ اتارا۔مگر انگریزوں کے خود کاشتہ پودے اور ان کے تربیت یافتگان،سیاسی چالیں اور سازشیں کہاں تھمنے دیتے۔لہذا پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ آنجہانی سر ظفر اللہ خان قادیانی نے ملک پاکستان کے سفارت خانوں کے اہم عہدوں پر نہ صرف قادیانی براجمان کروائے بلکہ انہیں قادیانی تبلیغ کے اڈے بنا دیئے۔
یہودیانہ حربے یکے بعد دیگرے بروئے کار لائے جا رہے تھے،اسی بنا پر1950ء کے الیکشن میں مسلم لیگ نے آنجہانی سر ظفر اللہ خان قادیانی کے بھائی آنجہانی اسداللہ خان کو ٹکٹ دے کر اپنا امیدوار نامزد کیا،تو مجلس احرار اسلام مصلحت و خاموشی کی مسند پر کیونکر براجمان ہوتی،لہذا مرزائیوں کے سیاسی داؤ پیچ کو بھانپتے ہوئے حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ،شیخ حسام الدینؒ،ماسٹر تاج الدین انصاریؒ نے عملی میدان میں آکر بھرپور جدوجہد کی،جلسے جلوسوں کا انعقاد کیا،عوام کو اس سازش سے آگاہ و خبردار کیا،اور مرزائی و مسلم لیگ کے اتحاد کے خلاف بانگ صور پھونکا،جس کے نتیجے میں اسداللہ خان کو تیرہ ہزار ووٹوں کی بھاری اکثریت سے عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
پھر 1951ء میں مرزائیوں نے ابلیسی مکڑی کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان میں اندرونی و بیرونی سازشوں کا جال بنا۔مگر احراری رہنماؤں نے اپنی پوری طاقت اور نصرت خداوندی کے ساتھ ان کاتعاقب کیا،قبل ازیں کہ وہ اپنے وزیر خارجہ کی خدمات سے فائدہ اٹھاتے،احراری رہنماؤں نے تحریک ختم نبوت کی شمشیر کو نہ صرف بے نیام کیا بلکہ اس کی روشنی پورے پاکستان میں تبلیغی جلسوں کے ذریعے عوام تک پہنچائی،اور مرزائیوں کی ملک دشمن سرگرمیوں کو بھی طشت ازبام کیا۔
1952ء میں مرزائیوں کے نام نہاد خلیفہ،اور لبادہئ انسانی میں ملبوس یہودیانہ ذہنیت کے حامل مرزا بشیر الدین محمود نے بانگ بے ہنگام بلند کی کہ ”52ء“میرا سال ہے اور یہ الہام بد ہنگام شائع کیا کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کو مرزائی اسٹیٹ بنائیں گے۔لیکن(عربی مقولہ”لکل فرعون موسیٰ”کا مصداق بنتے ہوئے)حضرت امیر شریعت اور ان کی جماعت مجلس احرار اسلام نے مرزائیوں کی اس گہری سازش اور دسیسہ کاری کو عوامی سطح پر آشکار کیا،اور مرزائیوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی،ان کے منصوبہئ بلوچستان کو خائب و خاسر کیا۔اور پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور مسلمانوں کو اس لعنت سے بفضلہ تعالیٰ محفوظ رکھا اور بچا لیا۔1953ء میں مرزائیوں نے پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف بھارت سے ساز باز کر کے اکھنڈ بھارت کے عقیدے کو عملی جامہ پہنانے کی مذموم کوشش کی،جس پر مجلس احرار اسلام کے اکابرین کی نگاہِ دوربین نے مرزائیوں کے خطرناک ارادوں کو بھانپ کر تحریک ختم نبوت کو ایک اہم موڑ دیا،کہ مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم پر پاکستان کی 9جماعتوں کو دعوت دی اور سب جماعتوں کو عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ایک پلیٹ فارم پر متحد کر دیا۔جن میں مجلس احرار اسلام،جمعیت علماء اسلام،جمعیت علماء پاکستان،جمعیت اہل حدیث،ادارہ تحفظ حقوق شیعہ،تنظیم اہل سنت،حزب الاحناف،جماعت اسلامی،انجمن سجادہ نشینان پنجاب اور نامزد ارکان شامل تھیں۔ ادھر مرزائیوں نے کلیدی آسامیوں پر فائز و قابض اپنے افسران کے ذریعے زبردست دباؤ ڈالنا شروع کیا،اورمسلم لیگ حکومت کے وزیر اعظم ناظم الدین نے دولتانہ کے اکسانے پر تحریک کو کچلنے کا فیصلہ کیا جس میں جنرل اعظم خان نے ہلاکوخان و چنگیز خان کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً لاہور کے مال روڈ پر عاشقانہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بے دردی سے گولیوں کی بوچھاڑ کر کے جلیانوالہ باغ کا منظر دہرادیا،لاہور کی شاہراہوں پر موت رقصِ بسمل کر رہی تھی، اور مال روڈ کو خون بے گناہی سے لالہ زار کر دیا۔جس پر شورش کاشمیری نے کہا
بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں
خونِ احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں
اس کے بعد حکومت وقت نے مجلس احرار اسلام پر پابندی عائد کردی۔بظاہر تحریک تشدد کی نذر ہوگئی۔لیکن1954ء میں حضرت امیر شریعت نے فرمایا”جس طرح فتح مکہ اور جزیرۃ العرب پر نبی ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت الٰہیہ اور خلافت ربانیہ کا قیام صلح حدیبیہ کے شاندار اور تابناک نتائج تھے بلا شبہ ماضی میں احراری جدوجہد،جانکاہ محنت وقربانی اور ہماری حالیہ تحریک تحفظ ختم نبوت میں ہزاروں گل گوں قبا،سرخپوشانِ راہ بقا اور سرمستان عہد وفا کی قربانی و شہادت صلح حدیبیہ کی مثل ہے،میں تو زندہ نہیں رہوں گا،مگر تم دیکھو گے کہ شہیدوں کا خونِ بے گناہی رنگ لاکر رہے گا،میں نے اس تحریک میں مسلمانوں کے دلوں میں ایک ایٹم بم رکھ دیا ہے جو وقت پر ضرور پھٹے گا اور اس کی تباہی سے مرزائیت کو کوئی نہیں بچا سکے گا“۔بالآخر ۷ستمبر ۴۷۹۱ء کو وہ ایٹم بم پھٹا اور قادیانیت تباہ کر گیا۔
علاوہ ازیں مجلس احرار اسلام نے حالات کے بڑے نشیب وفراز کو دیکھتے ہوئے،تلخ تجربات،غیروں کی سازشیں،اپنوں کی بے اعتنائیاں،طعنوں کی بوچھاڑ کے باوجود اکابرین احرار کے دیئے گئے اہداف ومقاصد،متعینہ رستہ و منزل پر اپنی بساط و قوت،استعداد و ہمت،نصرت خداوندی کے ساتھ گامزن ہیں۔فطرت احرار کو غلام نبی جانباز ؒ نے نظمی انداز میں کیا خوب پرویا ہے
جنون شوق میں قلب و نظر سے گزرے ہیں
ہم اپنی راہ میں شمس و قمر سے گزرے ہیں
بلند عزم،ادارے میں بانکپن لے کر
تیرے جہان کے شام و سحر سے گزرے ہیں