مولانامحمداحمدحافظ
مولاناپیرجی سیدعطاء المہیمن بخاری رحمۃ اﷲ علیہ
۲۳جمادی الثانیہ۱۴۴۲ھ/ ۶؍فروری ۲۰۲۱ء ہفتے کے روز پیرجی سیدعطاء المہیمن بخاری بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے ……اناﷲ واناالیہ راجعون !
سب نے جانا ہے ،اور چلے ہی جانا ہے ،کون یہاں سدا رہا ہے؟!……ایک روز ہم بھی چلے جائیں گے! ۔
آپ امیر شریعت حضرت مولاناسیدعطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کے آخری فرزند تھے ،وہ کیا شعر ہے
بجھی شمع، تنویر گم ہوگئی = بخاری کی تصویر گم ہوگئی
پیرجی کی وفات سے بخاری کی ساری تصویریں گم ہوگئی ہیں۔
الحمدﷲ راقم الحروف کا شاہ جی رحمۃ اﷲ علیہ کے چاروں فرزندان سے تعلق رہااور ان کی محبتیں،شفقتیں سمیٹنے کا خوب موقع ملا۔پیرجی سید عطاالمہیمن بخاری ؒ کافی عرصہ ہمارے شہر چیچاوطنی ضلع ساہیوال میں رہے ہیں۔مجھے یادنہیں کہ پیرجی ؒ کو سب سے پہلے کہاں دیکھا؟لیکن خود پیرجی ہمیں چھیڑنے کے لیے ایک قصہ سنایاکرتے تھے۔قصہ یہ تھا کہ مابدولت جب چھوٹے ہوا کرتے تھے یہی کوئی چار برس کی عمر ہوگی ، پیرجی اپنے احباب کے ہمراہ ہمارے گھر تشریف لائے ،سب ہی داڑھی رومال والے ، حضرات کے اکرام کے لیے کھانالگاتو دسترخوان کاسامان اندرون خانہ سے لانے لے جانے لگا۔ صورت حال یہ بنی کہ روٹی ختم ہونے پر اندر روٹی لینے گیا تو سالن ختم ، سالن ختم ہونے پر سالن لینے گیا تو ادھرروٹی ختم ۔ والدہ صاحبہ تپتے توے پر تازہ روٹیاں بناکر دے رہی تھیں۔ہمیں لگا کہ آج روٹیوں کی خیر نہیں ، ہم نے اسی آرجار کے دوران نہ جانے کس جھونک میں وہ ’’تاریخی جملہ ‘‘کہا جو آئندہ کے لیے ہمارے تعارف کا ذریعہ بن گیا،پیرجی کے بقول ہم نے کہا تھا:……’’اج ایناں مولویاں نیں ساڈیاں ساریاں روٹیاں کما(مکا/ختم) کردینڑیاں نیں‘‘۔(آج ان مولویوں نے ہماری روٹیاں ختم کردینی ہیں)۔پیرجی کئی مرتبہ ہمیں یہ جملہ سناکر چھیڑتے اور لطف لیتے۔
صاحبو! ……یہ قصہ تب کا ہے جب ہم چار برس کے تھے ،اور ۱۹۷۴ء کی تحریک تحفظ ختم نبوت عروج پر تھی۔ہر شہر میں قادیانیوں کے خلاف جلسے جلوس ہوتے تھے ،چیچاوطنی اور پورے ضلع ساہیوال میں پیرجی رحمہ اﷲ اس تحریک کو لیڈ کررہے تھے۔ان دنوں حضرت پیرجی ؒ ،جامع بلاک ؍۱۲ کے امام مولاناعبدالاحدؒ المعروف ’’ امام صاحب‘‘،پیرجی مولاناعبدالعلیم رائے پوری شہیدؒکے وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے تھے ،حکم تھا کہ جہاں ملیں گرفتار کرلیے جائیں۔تحریک کو رَواں رکھنے کے لیے گرفتاری سے بچنا ضروری تھا،یہ تینوں حضرات والدگرامی شیخ الحدیث مولانامحمدنذیر دامت برکاتہم کے گہرے دوست اور ان دنوں ہمارے گھر میں روپوش تھے۔
ہمارے والد صاحب جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں(۱۹۵۶ء تا۱۹۶۰ء،اندازاً) زیرتعلیم رہے ۔ تب پیرجیؒ بھی وہاں ابتدائی درجات میں زیرتعلیم تھے، اسی زمانے سے والد صاحب سے باہمی تعلق کا رشتہ چلاآرہاتھا۔جامعہ رشیدیہ کا یہ وہ دور تھاجب حضرت شیخ الہند مولانامحمودحسن دیوبندی رحمۃ اﷲ علیہ کے شاگردرشید اور آپ کی’’ تحریک ریشمی رومال‘‘ کے سرگرم رکن حضرت مولانامفتی فقیراﷲ رائے پوری رحمۃ اﷲ علیہ حیات تھے،آپ کے فرزند گرامی حضرت مولانامحمدعبداﷲ رائے پوری رحمۃ اﷲ علیہ استاذالحدیث تھے ،ان دونوں حضرات نے ۱۹۵۳ء کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھرپورحصہ لیا تھا۔حضرت مفتی فقیراﷲ رحمۃ اﷲ علیہ کے دوسرے فرزند مولاناحبیب اﷲ رشیدی ؒ کی وفات تک جامعہ رشیدیہ تمام دینی تحریکات کا مرکز رہاتھا ،اور اسے دیوبند ثانی کہاجاتا تھا۔
پیرجی رحمہ اﷲ ۷۰ء کی دَہائی کے آخر میں مدینہ منورہ چلے گئے اور وہاں طویل قیام فرمایا۔ہمارے والد صاحب بھی ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۲ء (چاربرس )مدینہ یونیورسٹی میں زیرتعلیم رہے ۔وہاں بھی آپس میں ملاقاتیں رہتی تھیں ۔پیرجی ؒ کی سعودیہ سے ۹۰ء میں واپسی ہوئی ۔تو ہمارے کراچی آنے تک بارہا مرتبہ آپ کی زیارت وملاقات کا موقع ملا۔ہمیشہ بے تکلفی اور شگفتگی سے ملتے ۔کئی مرتبہ ہماری افتادطبع (اور مولاناسیدعطاء المومن شاہ صاحبؒ سے قربت) کو دیکھتے ہوئے ہمیں’’ امام انقلاب‘‘ کی پھبتی سے بھی نوازتے۔
آج سے بائیس برس قبل ہمارا تلاش روزگار کے سلسلے میں کراچی آناہوا تو ملاقاتوں میں طویل وقفے آنے لگے۔پیرجی ؒ کراچی تشریف لاتے یاہمارا ملتان جانا ہوتا تو زیارت وملاقات ہوجاتی اور آپ سے دعائیں مل جاتیں۔کبھی کبھی بھائی مولانا قاری سیدعطاء المنان بخاری مہربانی کرتے تو فون پر بھی بات کرادیتے تھے۔آپ سے حال احوال لے کر اور بات کرکے دل کو تسلی ہوجاتی۔
۶؍فروری ہفتے کے روز آپ کی وفات کی اطلاع ملی تو یوں لگا جیسے دل مٹھی میں بھنچ گیا ہو۔فوراً تیاری پکڑی اور بھائی عطاء الرحمٰن صاحب کے ہمراہ ہم لوگ صبح دس بجے عین ایسے وقت داربنی ہاشم پہنچ پائے جب ایمبولینس حضرت پیرجی کی میت کو لے کر جنازہ گاہ کے لیے نکل رہی تھی ۔ظاہر ہے اب زیارت ممکن نہیں تھی ۔جلدی سے جناب ڈاکٹر آصف صاحب کے تعاون سے سامان محفوظ جگہ رکھا اور وضو کرکے قلعہ کہنہ قاسم باغ کی جانب چل دیے۔قلعے کے وسیع وعریض میدان میں پہنچے تودیکھاکہ لوگ بڑی تعدادمیں نماز جنازہ میں شرکت کے لیے چلے آرہے ہیں۔ایساکیوں نہ ہوتا ،ختم نبوت کے ایک پہرے دار کاجنازہ تھا۔جنازوں میں شرکت ایک تو اس لیے کی جاتی ہے کہ میت کے لیے باجماعت مغفرت کی دعا کی جائے،اس لیے بھی کی جاتی ہے کہ اپنی مغفرت کی بھی امیدہوتی ہے ۔ نماز جنازہ کی نیت ہونے تک نہ صرف پورا گراؤنڈ بھرچکا تھا بلکہ باہر بھی لوگ موجود تھے۔یہیں ہمارے استاذ محترم شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدصدیق رحمۃ اﷲ علیہ کا جنازہ بھی ہوا تھا؛وہ بھی اسی شان کا تھا۔
حضرت مولاناپیرجی سیدعطاء المہیمن بخاری رحمۃ اﷲ علیہ مجلس احرار اسلام کے امیراور قادری سلسلے کے شیخ ومرشدتھے،قطب الارشاد حضرت مولاناشاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اﷲ علیہ کے فیض یافتہ ،حضرت رائے پوری ؒ کے جانشین حضرت مولاناعبدالعزیزگمتھلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے مجاز بیعت تھے۔آپ نے حفظ کی تکمیل جامعہ خیرالمدارس ملتان میں حضرت مولانا قاری رحیم بخش رحمۃ اﷲ علیہ سے کی ، آیۃ الخیرحضرت مولاناخیرمحمدجالندھری رحمۃ اﷲ علیہ کے بھی شاگرد تھے اور آپ نے حضرت رحمۃ اﷲ علیہ کے فرمان پر ’’ابواب الصرف‘‘ کے اسباق اس وقت پڑھے جب یہ کتاب ابھی چھپی نہ تھی اور مسودے کی شکل میں تھی ، پیرجیؒ تجویدوقرا ء ت میں امام القراء حضرت قاری عبدالوہاب مکی ؒ کے شاگرد بھی تھے۔ تلاوت قرآن مجید کاخاص ذوق تھا،پیرجی حجازی لہجے میں تلاوت کرتے تو سننے والے وجد میں آجاتے ۔تجوید پرکامل عبور اور طرزادا بے مثال تھی۔
حضورختمی رسالت کے عاشق صادق تھے ،تقریباً ۱۴؍برس مدینہ منورہ میں قیام رہا،اتنی محنت مزدوری کرتے جس سے جسم وجاں کا رشتہ برقرار رہے ،باقی وقت مسجدنبوی علیٰ صاحبھاالصلٰوۃ والسلام میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قدمین شریفین کی جانب عبادت وریاضت اور صلوٰ ۃ وسلام میں گزرتا۔آپ نے اپنی بلند نسبت کے باوجود مدینہ منورہ میں شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریا رحمۃ اﷲ علیہ(المتوفٰی:مئی ۱۹۸۲ء) کی خدمت میں خود کووقف کردیاتھا۔حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اﷲ علیہ بھی آپ کومحبوب رکھتے ۔اس بے پناہ تعلق کااندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ دسترخوان پر موجودنہیں تھے ،آپ کا پتا کرایاگیا،نہ ملے ،بعد میں جب حضرت صوفی اقبال صاحب ؒ پیرجی سے ملے تو شکایت کی کہ آج حضرت شیخ نے آپ کی عدم موجودگی کی وجہ سے کھاناتناول نہیں فرمایا۔یہی تعلق تھا کہ آپ حضرت شیخ الحدیث ؒ کی وفات کے بعد آ پ کے غسل کفن اور دفن میں شریک رہے۔
حضرت پیرجی ؒاپنے والدگرامی ؒ کی جملہ صفات ……خطابت ، حسن قراء ت،حق گوئی وبیباکی، فقر و غیرت، تعلق مع اﷲ اورتقویٰ وتدین میں الولدسرلابیہ کے مصداق تھے ۔زاہدعن الدنیا اورعابدِ شب زندہ دار تھے۔ہم لوگ آپ کی موٹی موٹی پنڈلیاں دیکھ کر حیران ہوتے کہ ایسا کیوں ہے ،لیکن جب حدیث پاک میں حضور تاجدارختم نبوت صلی اﷲ علیہ وسلم کی عبادت کی کیفیت پڑھی جس میں آتا ہے کہ آپ بارگاہ الہٰی میں اتنی طویل قیام فرماتے کہ تورمت قدماہ آپ کے قدمین شریفین پر ورم آجاتا……تو جانا کہ پیرجی کو صرف معناً نہیں صورتاً بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع نصیب ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ پیرجی نے ا خفائے حال کاحد درجے اہتمام کیا،زیادہ وقت خلوت میں گزرتا۔اپنے متعلق کسی بھی طرح کے فضل وکمال کے اظہار کو پسند نہ کرتے۔ صاحب کرامت بزرگ تھے ، لیکن کرامات کو ہمیشہ چھپایا ، داربنی ہاشم والوں کا مزاج بھی جداہے،یاتو شاید وہابی ہیں کہ کرامات پریقین نہیں رکھتے یاپھر وہ چھپاتے بہت ہیں اور کانوں کان کسی کو خبر نہیں ہونے دیتے ……واﷲ اعلم۔
اﷲ پاک بعض افراد کو اپنے دین کی تبلیغ واشاعت اور تحفظ کے لیے چن لیتے ہیں ،یہاں تو پورابخاری خاندان اس عظیم مقصد کے لیے وقف ہے۔حضرت امیرشریعت سیدعطاء اﷲ شاہ بخاری نوراﷲ مرقدہ اور ان کی اولاد نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے جوپہرہ دیا وہ ہماری تاریخ کاسنہراباب ہے۔ عقیدہ ختم نبوت کاتحفظ ، قادیانیت کاتعاقب ، دفاع صحابہ واہل بیت ،تجدید اسماء الصحابہ کی تحریک ،غیرشرعی رسوم ورواج کی بیخ کنی، جدیدیت اور باطل نظریات کی تردید اس خاندان کا طرہ امتیاز ہے۔
چناب نگر میں پیرجی رحمہ اﷲ کے ہاتھوں خیرکا بہت بڑا کام ہوا کہ وہاں۲۷؍فروری ۱۹۷۶ء میں مسلمانوں کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔اب اسی مسجد سے ہرسال بارہ ربیع الاول کے موقع پرقادیانیوں کو’’ دعوت اسلام‘‘ کاشاندار جلوس نکلتا ہے،اس جلوس میں ہزارہا لوگ شرکت کرتے ہیں ،اس سال پیرجی رحمۃ اﷲ علیہ باوجود پیرانہ سالی ،ضعف ونقاہت اور شدید علالت کے ایمبولینس میں سفر کرکے کر گئے۔اس سے آپ کی تحفظ ختم نبوت کے مشن سے بے پناہ وابستگی کا اظہار ہوتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہم لوگ اس خاندان کے احسان مند ہیں،اور اس احسان کا بدلہ نہیں چکاسکتے۔ایک بات یہاں کہنے کو جی چاہتا ہے ؛وہ یہ کہ آپ کے بارے بعض حاسدین پرپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اہل سنت کے عقائد سے ہٹے ہوئے تھے اور اہل بیت کرام کی تکریم نہیں کرتے تھے،حاشاوکلا ایسی کوئی بات نہیں تھی ۔ایک مرتبہ جب یہ پراپیگنڈہ شدت اختیار کرگیا تو۲۰۱۲ء کے سال جامعہ خیرالمدارس ملتان تشریف لے جاکر فقیہ العصرحضرت مولانا مفتی عبدالستار ؒ،شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدصدیق ؒ ،حضرت مولاناقاری محمدحنیف جالندھری اور ماہ نامہ الخیر کے مدیر مولانامحمدازہرکی موجودگی میں صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین اور اہل بیت کرام کے بارے اپنے عقائد کااظہار کیا، تمام حضرات نے نہ صرف آپ کے درست ہونے کااقرار کیا بلکہ آپ کا والہانہ اکرام بھی کیا۔
ملتان میں آپ کے جنازے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی ،قلعہ کہنہ قاسم باغ کا وسیع کرکٹ گراؤنڈ اپنی تنگ دامنی کی شکایت کررہا تھا۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ اور جامعہ خیرالمدارس کے مہتمم حضرت مولاناقاری محمدحنیف جالندھری مدظلہم نے نماز جنازہ سے قبل اپنے خطاب میں حضرت پیرجی ؒکی وفات کوذاتی صدمہ قرار دیا، نماز جنازہ کے انتظام وانصرام میں بھی آپ نے بھرپور تعاون فرمایا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جامعہ خیرالمدارس سے بخاری خاندان کی نسلوں کا تعلق ہے ،اور یہ تعلق آج تک قائم ہے۔وفاق المدارس کے ناظم برائے جنوبی پنجاب مولانازبیر احمد صدیقی مدظلہ اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی رہنما مولانا اﷲ وسایا نے بھی خطاب کیااور پیرجی کی شخصیت پر روشنی ڈالی۔ گرامی قدر جناب سید محمد کفیل شاہ صاحب بخاری کی تقریر موقع کی مناسبت سے خوب تھی اور ضروری تھی۔ نماز جنازہ میں خانقاہ سراجیہ کے مسند نشین حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد ،خانقاہ دارالسلام کے مسند نشین مولانا ناصر الدین خاکوانی، استاذ العلماء حضرت مولانا مفتی محمدحسن صاحب، علماء خیر المدارس، خانپورسے درخواستی علماء ،خاص طور پر شریک ہوئے۔ کس کس کانام لیں بہت بڑی تعداد میں کبار علماء آپ کے جنازے میں شریک ہوئے ۔
نماز جنازہ کے بعد گراؤنڈ سے نکلتے ہوئے جامعہ فتحیہ لاہور کے ناظم مولاناعبداﷲ مدنی صاحب سے ملاقات ہوگئی ،وہاں سے ہم دونوں قبرستان کی طرف روانہ ہوئے اور تدفین میں شرکت کی ،راقم کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر گھوم گیا جب اکتوبر۱۹۹۵ء میں اسی احاطہ بنی ہاشم میں امیرشریعت ؒ کے بڑے فرزند گرامی حضرت سیدابومعاویہ ابوذر بخاری ؒ کی تدفین ہوئی تھی، عقیدت مندوں نے آہوں، سسکیوں کے ساتھ اپنی متاع بے بہا کو سپرد خاک کیا تھا ،آہ!…… کیابتائیں کہ امام تاریخ وسیاست حضرت مولانا سیدابومعاویہ ابوذر بخاری ؒکیا تھے؟! ۔ آج جب یہاں امیرشریعتؒ کے آخری فرزند کو سپرد خاک کیاگیا تو جدائیوں کے وہ سارے زخم دوبارہ ہرے ہوگئے۔اس ناچیز کوان کے آخری ایام میں بہت تعلق رہا ،اور آپ کی شفقتیں سمیٹنے کاخوب موقع ملا۔
داربنی ہاشم میں تعزیت کے لیے حاضری ہوئی اور مولاناحافظ سیدعطاء المنان صاحب سے تعزیت مسنونہ پیش کی ۔کچھ احوال پوچھے ، بتایا کہ اَبی جان کاآخری ایام میں ذکر کااہتمام بہت بڑھ گیا تھا۔درودتنجینا کا زیادہ ورد کرنے لگے تھے ۔آخری دنوں میں بعض باتیں سمجھ نہیں آتی تھیں ،الفاظ درست طور پر ادا نہیں کرپاتے تھے۔ایک بات باربار فرمائی مگر سمجھ میں نہیں آرہی تھی ، مگر جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ فرمارہے ہیں :’’ کھیڈ مک گئی اے ‘‘(کہانی ختم ہوگئی ہے) ۔مقصد یہ کہ آپ کو اپنی موت کا پہلے سے ہی ادراک ہوگیا تھا۔
بہرحال پیرجیؒ نے قابل رشک زندگی گزاری ،ان کی ساری زندگی ہی عبادت سے عبارت تھی ، ان کا تنہائیوں میں ذکروشغل ،عبادت ونوافل اور تلاوت قرآن تو تھے ہی ساری عمر تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت اوردفاع صحابہ کے مورچوں پر چوکیداری بھی یقینا عبادت شمار ہوگی ۔ہماری دعاہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کی اپنی شان کے مطابق قدر دانی فرمائے اور آپ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطافرمائے ……آمین!