سید محمد کفیل بخاری
گزشتہ ماہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن پاکستان کے دورے پر آئے، انہوں نے وزیر اعظم، آرمی چیف اور دیگر حکومتی عہدیداروں سے ملاقات کی۔ ٹلرسن نے ایک طرف دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا اور ساتھ ہی مطالبات کی نئی فہرست تھما کر ڈومور کا اعادہ کیا۔ انہوں نے جنوبی ایشیاء کے بارے میں ٹرمپ کی طرف سے نئی امریکی پالیسی سے پاکستانی حکام کو دھمکی آمیز لہجے میں آگاہ کیا۔پاکستان سے وہ بھارت روانہ ہوئے اور بھارت پہنچ کر ان کی باچھیں مزید کھلیں اور لہجہ تلخ ترہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ :
’’بھارتی فوج کو جدید ٹیکنالوجی دیں گے، بھارت کے قائدانہ کردار کی حمایت کرتے ہیں، دہشت گردوں سے پاکستان کی سلامتی اور پاکستانی حکومت کے استحکام کو خطرہ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں واشنگٹن، بھارت کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے۔‘‘
یہ بات خوش آئند ہے کہ حکومتِ پاکستان نے امریکی مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے بہ ظاہر مضبوط مؤقف اختیارکیا اور جنوبی ایشیاء میں بھارتی بالادستی کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے سینٹ میں اپنے بیان میں کہا کہ:
’’امریکہ، افغانستان میں اپنی شکست تسلیم کر لے۔ پاکستان اپنی موجودہ پالیسی پر کوئی کمپرومائز نہیں کرے گا۔ ماضی کی طرح ایک دھمکی پر ڈھیر ہوں گے نہ پراکسی بنیں گے۔ افغانستان، بھارت کا سہولت کار ہے۔ طالبان پر کنٹرول ختم ہوچکا، ماضی میں افغان جہاد اور پھر مشرف نے نائن الیون کے موقع پر ہتھیار ڈالے۔ امریکی دوستی کے نتائج پہلے ہی بھگت رہے ہیں۔ مزید نقصان قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔‘‘
خواجہ آصف نے جس رنگ میں بھی یہ باتیں کیں، اﷲ کرے وہ ان پر قائم رہیں اور اس سے بڑھ کر انہیں اس پر قائم رہنے کا موقع بھی دیا جائے۔ ان کا بیان حکومت کا بیانیہ ہے جسے تمام سٹیک ہولڈرز کی تائید وحمایت حاصل ہے۔ مسلم امّہ کا یہ سوال اپنی جگہ بہت وزنی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی استعمار کی نام نہاد جنگ صرف مسلمان ملکوں میں ہی کیوں ہے؟ جنگ سرمائے کی ہو یا اسلحے کی، فائدہ غیر مسلم ہی اٹھا رہے ہیں۔ فلسطین، لبنان، شام، عراق اور افغانستان میں عالم کفر نے جنگ جاری کر کے جہاں بے گناہ انسانوں کا خون بہایا وہاں ان ملکوں کا سرمایہ بھی لوٹا۔ مسلم حکمران اپنے اقتدار کے لیے عالمی استعمار کے ایجنٹ بنے، نتیجتاً اقتدار اور سرمائے دونوں سے محروم ہوکر عبرت کا نشان بن گئے۔ اے کاش! مسلم حکمران ’’الکفر ملۃ واحدہ‘‘ پر یقین کر کے ’’انما المؤمنون اخوۃ‘ ‘ کے مصداق بن جائیں۔
پاکستان اس وقت ’’سی پیک‘‘ کے حوالے سے ’’گریٹ گیم‘‘ کا مرکز ومحور ہے۔ ہماری دیانت دارانہ رائے ہے کہ سی پیک جو پاکستان کی اقتصادی ومعاشی ترقی کا زینہ معلوم ہو رہا ہے، اس سے بہ ظاہر ترقی بھی ہوگی لیکن اس کے مابعد مضمر نقصانات شاید ہمارے حکمرانوں کے پیش نظر نہیں۔ سرمایہ داروں کے ملک میں پلنے والے یہودی کارل مارکس کا کمیونزم اب سرمایہ دارانہ کمیونزم کا روپ دھار چکا ہے۔ یہ دو سرمایہ داروں کی جنگ ہے اور سرمائے کی اس دوڑ میں بالآخر کباڑہ مسلمانوں کا ہی ہوگا۔ چین کی سرمایہ کاری کا اصل نفع تو چین کوہی ہوگا۔ ہمیں ایک سرمایہ دار سے جان چھڑانے کے لیے دوسرے سرمایہ کار کی غلامی قبول نہیں کرنی چاہیے۔ شاید امریکہ کو یہی تکلیف ہے کہ میری غلامی کیوں قبول نہیں۔
امریکہ میں مسلمانوں کو اتنی مذہبی آزادی ہے کہ وہ نماز، روزہ، حج اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے میں آزاد ہیں۔ مساجد نمازیوں سے آباد ہیں۔ وہ اسلام کو صرف عبادات تک ہی قبول کرتا ہے، دنیا میں کہیں بھی اسے حاکم نہیں دیکھ سکتا۔ حتی کہ مسلم ممالک میں بھی اسلام کی حکومت قبول نہیں کرتا، یہی اس کی اسلام اور مسلم دشمنی ہے۔ لیکن کمیونسٹ اور سوشلسٹ سرمایہ دار چین میں تو مسلمانوں کو اتنی بھی مذہبی آزادی حاصل نہیں۔ بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق چین کے صوبہ سنکیانگ میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ تمام مذہبی اشیاء بشمول قرآن کریم اور جائے نماز ہر چیز حکام کے حوالے کر دیں۔ چنانچہ سنکیانگ، ارومچی، کاشغر، ہوتان اور دیگر علاقوں کے مسلمانوں سے قرآن کریم اور جائے نماز چھینے جا رہے ہیں۔ ’’ورلڈ اؤی غور کانگریس‘‘ کے ترجمان کے مطابق سنکیانگ میں حکام نے پانچ سال سے زیادہ عرصہ پہلے چھپنے والے تمام قرآن یہ کہہ کر ضبط کر لیے کہ اس میں شدت پسندانہ مواد ہو سکتا ہے۔ ڈان رپورٹ کے مطابق، برقعے اور داڑھی پر پابندیاں لگائی گئیں ہیں، مسلمان بچوں کے اسلامی نام رکھنے اور مسلمانوں کے روزہ رکھنے پر بھی پابندی ہے۔
ان حالات میں پاکستانی حکام کو سوچ سمجھ کر قدم آگے بڑھانے چاہییں۔ کوئی کافر، مسلمانوں کا دوست نہیں ہو سکتا۔ سب اپنے مفادات کے لیے لڑ رہے ہیں اور سرمایہ کاری بھی کر رہے ہیں۔ ہمیں قیامِ پاکستان کے مقاصد سے کسی صورت بھی دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔ جو پاکستانی لبرلز، چینی سامراج کے زیر اثر مقتدر قوتوں سے جمہوری انقلاب کی توقع لگائے بیٹھے انھیں چین میں جمہوریت کا حق مانگنے والے طلباء اور برما میں چین کی حمایت سے مسلط کردہ فوجی رجیم کے مظالم کا شکار مظلوم مسلم وغیر مسلم شہریوں کا حشر ضرور یاد رکھنا چاہیے۔ ہمیں اپنے دین، تہذیب اور اعتقادی شناخت کی بہرقیمت حفاظت کرنی ہے۔ یہ پاکستان کی ترقی و استحکام کا تقاضا بھی ہے اور بحیثیت مسلمان ہماری دینی ضرورت بھی۔