(دوسری و آخری قسط ) ماسٹر تاج الدین لدھیانوی رحمۃ اﷲ علیہ
مودودی صاحب کی جماعتی عقیدت:
بحث معقول ہو۔ اصولی اعتراضات ہوں۔ نیتوں کا خلوص معاملہ سلجھانے کی راہیں تلاش کرتا ہو تو مشکل مراحل بھی طے ہو جاتے ہیں، مگر جہاں جماعتی عصبیت کوٹ کوٹ کر بھری ہو، دوسرے انسان کم درجہ کے نظر آنے لگیں اور طبیعت یہ فیصلہ کرہی لے کہ اپنے سوا کسی اور کو خواہ وہ کتنا بلند پایہ کیوں نہ ہو، اپنا بڑا مان کر کسی کے ساتھ یا کسی کو رہنما مان کر چلنا ہی نہیں تو پھر مشکلات ہی مشکلات اور تباہیاں مقدر ہو جایا کرتی ہیں۔ اس میٹنگ میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اقتدار اور عصبیت کے گرداب میں غوطہ کھا رہے تھے۔ جب اجلاس میں تقریباً جمود طاری ہو گیا تو مولانا محمد علی صاحب نے مجھے فرمایا کہ اب کیا کریں؟ جماعتِ اسلامی کے امیر تو گل محمد بنے بیٹھے ہیں۔ میں خود بھی حیران تھا اور سوچ رہا تھا کہ اب کیا ہو گا۔ بالآخر میری طبیعت نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ضد کے سامنے سے ہٹ جانا ہی مناسب ہے، چنانچہ میں نے مولانا محمد علی صاحب اور شمسی صاحب سے جو میرے قریب ہی بیٹھے تھے،عرض کیا کہ بھئی مولانا مودودی صاحب ضد کرتے ہیں تو کریں۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب اگر اپنی غلط پوزیشن پر اڑ گئے تو انھیں کرنے دیجیے یہ کیا کرتے ہیں۔ ایک جماعت کے امیر ہوتے ہوئے اگر یہ محسوس نہیں کرتے اور سب کمیٹی کے حدود اختیار سے باہر قدم رکھ رہے ہیں تو انھیں من مانی کر لینے دیجیے۔ یہ نہ تو مولانا احتشام الحق صاحب کی بات پر کان دھرتے ہیں اور نہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہیں۔ ہم ان سے کب تک الجھیں۔ سوئے ہوئے انسان کو جگایا جا سکتا ہے مگر جو شخص جاگتے میں آنکھیں بند کر لے، اس کاکیا علاج ہے؟ اس مرحلہ پر مولانا محمد علی نے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی سے کہا لکھوائیے۔ مولانا کی تجویز لکھی جانے لگی مگر نامناسبت اور بے اصولے پن نے تجویز کی چولیں ڈھیلی کر دیں۔ کاٹ چھانٹ ہوتی رہی۔ یہ تجویز لکھی جا چکی تو بغیر کسی حادثہ کے یہ میٹنگ برخاست ہو گئی۔
کنونشن کا آخری اجلاس، سب کمیٹی کی تجویز اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب:
۱۸؍ جنوری ۱۹۵۳ء کو کنونشن کا آخری اور فیصلہ کن اجلاس شروع ہونے سے قبل حاضرین مجلس نے سب کمیٹی کے ارکان سے دریافت کیا کہ گزشتہ اجلاس میں آپ کے ذمہ جو ڈیوٹی لگائی گئی تھی اس کا کیا بنا؟ لائیے وہ تجویز دکھائیے۔ مولانا عبدالحامد بدایونی، سید مظفر علی شاہ شمسی اور دیگر اراکین سب کمیٹی کو حاضرین نے گھیر لیا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب ابھی تشریف نہیں لائے تھے۔ وہ اس وقت تشریف لایا کرتے تھے جب اور سب آ جائیں۔ سب کمیٹی کے ارکان مولانا موصوف کا انتظار کرتے تھے اور حاضرین مجلس کو ٹال رہے تھے۔ حقیقتاً سب کمیٹی کی تجویز…… جس کے مجوز مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب تھے…… کا تحریک تحفظ ختمِ نبوت سے براہِ راست کوئی واسطہ نہ تھا۔ اس تجویز کا منطقی نتیجہ تحریک ختمِ نبوت کو جماعت اسلامی کی سپرداری میں دے کر کولڈ سٹوریج (سرد خانہ) میں محفوظ کر دینے کے مترادف ہے۔ جب کنونشن کے شرکاء سے ہاؤس تقریباً بھر چکا تو صدر محترم جناب مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد قادری نے سب کمیٹی کی تجویز مانگی۔ تجویز ہاؤس کے سامنے آ گئی۔ سب کمیٹی کی تجویز پر غور کرنے کی اپیل کی گئی۔ اس مرحلہ پر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی بھی تشریف لے آئے۔ تجویز پر لے دے شروع ہوئی۔ ہاؤس نے بیک آواز اس تجویز کے خلاف رائے کا اظہار کیا۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ مولانا محمد علی نے مولانا احتشام الحق کی معرفت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کو کہلوایا کہ آپ اپنی تجویز پر دلائل دے کر تقریر فرمائیں۔ ہم جو سب کمیٹی کے ارکان ہیں اخلاقاً مجبور ہیں کہ آپ کو ووٹ دیں۔ آپ اٹھ کر کچھ فرمائیں تو سہی۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب نے فرمایا کہ اس تجویز کی اب ضرورت نہیں ہے۔ میں اس پر کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ صاحبِ صدر جناب مولانا سید ابو الحسنات صاحب نے تجویز کے متعلق جچے تلے مگر مختصر الفاظ میں اظہار خیال فرما کر سب کمیٹی کو خلاف ضابطہ قرار دیا اور فرمایا کہ یہ کنونشن صرف تحفظ ختمِ نبوت اور اس کے متعلق مطالبات کے لیے بلوائی گئی ہے۔ سب کمیٹی کی تجویز حدود کنونشن سے باہر ہے۔ چنانچہ سب کمیٹی کی تجویز ختم ہو گئی۔
اب صدر محترم کے ارشادات کے بعد اصل مسئلہ پر از سرِ نو مبادلۂ خیال شروع ہوا۔ سب سے پہلے مولانا عبدالحامد بدایونی نے تحریکِ ختمِ نبوت اور آئندہ پروگرام کے بارے میں ایک برجستہ تقریر فرمائی۔ یہ تقریر ہاؤس کے جذبات کی صحیح ترجمانی تھی۔ ان کے بعد صاحبِ صدر نے مجھے حکم دیا کہ میں وہ تمام واقعات اور مراحل جن سے تحریک ختمِ نبوت آج تک گزری ہے، مختصراً بیان کروں۔ دس پندرہ منٹ میں وفود کی ملاقاتوں اور تحریک کے مختصر حالات بیان کرنے کے بعد میں نے اپنی رائے کا اظہار لگی لپٹی رکھے بغیر کر دیا۔
تجویز کس طرح تیار ہوئی؟
میں تقریر کر کے بیٹھنے لگا تو صدر محترم کی اجازت سے مولانا عبدالحامد بدایونی نے مجھے ارشاد فرمایا کہ آپ نے جن خیالات کا اظہار کیا اور ہاؤس کے سامنے جو رائے پیش کی ہے، اسی کے مطابق تجویز بھی تو لکھیے۔ یہاں بھی یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہاؤس میں بحث ہو رہی تھی تو میں نے کاغذ کی ایک سلپ پر تجویز کے متعلق ایک مسودہ مرتب کرنے کی کوشش کی تھی۔ جب صاحب صدر نے مجھے تجویز لکھنے اور پیش کرنے کی ہدایت فرمائی تو میں نے اسی وقت مولانا مجاہد الحسینی صاحب سے سادہ کاغذ طلب کیا اور وہیں تجویز مکمل کرنے بیٹھ گیا۔ ہاؤس کی کارروائی جاری تھی۔ زبانی تجویزیں یکے بعد دیگرے چلی آ رہی تھیں۔ میں نے اپنے مسودہ میں وہ سب کچھ شامل کر لیا جو میں اپنی تجویز لکھتے وقت مختلف حضرات کی زبانی سن رہا تھا۔ میری تجویز دراصل ہاؤس کی تجویز تھی۔ میں نے اسی جگہ بیٹھے بیٹھے نئے کاغذ پر تجویز کی نوک پلک ٹھیک کر کے لکھنا شروع کیا۔ تجویز لکھی گئی تو مجھے ایک بار مختصر سی تقریر کا پھر موقع دیا گیا۔ چنانچہ میں نے تقریر کے بعد یہ تجویز پیش کی جو میری ان گزارشات کی منہ بولتی شہادت ہے۔
تجویز:
اس حقیقت کے پیش نظر کہ خواجہ ناظم الدین کی بے بس حکومت قوم کے متفقہ مطالبات کو درخور اعتناء نہیں سمجھتی اور اب موجودہ حکومت سے مرزائیوں کے متعلق مسلمانوں کے مطالبات منظور ہونے کی کوئی امید باقی نہیں رہی ہے۔ آل مسلم پارٹیز کنونشن کا یہ اجلاس اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ بحالات موجودہ قوم کے بنیادی مطالبات کو منوانے کے لیے راست اقدام از بس ناگزیر ہے، جسے بروئے کار لانے کے لیے ذیل کی صورتیں اختیار کی جائیں:
۱۔ چونکہ حکومت اس وقت تک اپنی خصوصی مصلحتوں کی بنا پر مرزائیوں کو سرکاری طور پر غیر مسلم اقلیت قرار رینے کے لیے آمادہ نہیں ہوئی۔ اس لیے از خود اس فرقۂ مرزائیہ کو ملتِ اسلامیہ سے مکمل طور پر علیحدہ کرنے کے تمام وسائل اختیار کرتے ہوئے ان کا مکمل بائیکاٹ کر دیا جائے۔
۲۔ اگرچہ ایک عرصہ سے مرزائی وزیر خارجہ سر ظفر اﷲ خاں ملک کے خلاف قوم متفقہ طور پر برطرفی کا مطالبہ کر کے اپنی قطعی بد اعتمادی اور بیزاری کا اظہار کر چکی ہے۔ مگر موجودہ حکومت بہانوں سے اسے نظر انداز کرتی رہی ہے۔ لہٰذا یہ کنونشن اپنے اس مطالبہ میں حق بجانب ہے کہ خواجہ ناظم الدین کی کابینہ فی الفور مستعفی ہو جائے تاکہ اسلامیان پاکستان اپنے دینی عقائد اور اسلامی روایات کو مکمل طور پر محفوظ کر سکیں، متذکرہ صدر مطالبات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کنونشن کا یہ اجلاس تجویز کرتا ہے کہ:
الف۔ آل مسلم پارٹیز کنونشن ملک کی مقتدر اسلامی شخصیتوں اور مختلف دینی جماعتوں کے نمائندوں کو اپنی جنرل کونسل کا رکن قرار دے۔
ب۔ یہ جنرل کونسل اپنے میں سے پندرہ اراکین پر مشتمل کونسل آف ایکشن یعنی مجلس عمل منتخب کرے۔ جن میں سے مفصّلہ ذیل آٹھ اراکین کو یہ کونسل منتخب کر کے انھیں اختیار دیتی ہے کہ وہ جنرل کونسل کے اراکین میں سات مزید ارکان کو مجلس عمل کے لیے منتخب کریں، منتخب شدہ ارکان کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔
(۱)مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی (۲)امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری (۳) مولانا عبدالحامد بدایونی (۴) مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد قادری (۵) مولانا احتشام الحق صاحب تھانوی (۶) علامہ کفایت حسین صاحب (۷)ابو صالح محمد جعفر پیر صاحب سر سینا شریف (۸) مولانا محمد یوسف کلکتوی۔
ج۔ کونسل آف ایکشن کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنے پروگرام پر عمل پیرا ہونے سے پیشتر اپنے میں سے ایک نمائندہ وفد ترتیب دے۔ جو مرکزی کابینہ سے ملاقات کرے اور اسے قوم کے آخری فیصلہ سے مطلع کرے۔ اگر مناسب سمجھے تو دو ٹوک جواب حاصل کرنے کے لیے مناسب دنوں کی مہلت بھی دے۔
نیز مجلس عمل کا یہ فرض ہو گا کہ وہ اپنے طے کردہ پروگرام کی تکمیل کے سلسلے میں عوام الناس کو بہرحال پر امن رہنے کی تلقین کرے۔
محرک: تاج الدین انصاری۔ مؤیدین: مولانا عبدالحامد بدایونی۔ علامہ حافظ کفایت حسین صاحب، صاحبزادہ فیض الحسن صاحب۔ مولانا محمد امین امیر جماعت ناجیہ، سرحد۔ شیخ حسام الدین صاحب، قاضی احسان احمد صاحب اور مولانا محمد علی صاحب۔
یہ تھی وہ تجویز جس کے متعلق مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اپنے بیانِ حقیقت میں فرماتے ہیں کہ ’’تاج الدین اٹھے اور ایک لکھی لکھائی تجویز پڑھنے لگی‘‘۔ میں اس مرحلہ پر انصاف پسند دنیا سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ میری پیش کردہ تجویز کا غور سے مطالعہ کریں اور پھر خود ہی انصاف فرمائیں کہ یہ طویل تحریر جس میں آٹھ حضرات کو منتخب کیا گیا اور بقایا سات کو نامزد کرنے کی اجازت دی گئی ہو۔ یہ تجویز میں گھر سے لکھ کر لا سکتا تھا؟ مجھ غریب کے دامن سے جماعت اسلامی کے قابلِ احترام امیر نے کیسی کیسی تہمتیں باندھنے کی زحمت گوارا فرمائی ہے؟ محولہ بالا تجویز اتفاق رائے سے منظور ہوئی اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب بھی اپنے بیان میں اقرار کرتے ہیں کہ انھوں نے اس سے اختلاف نہیں کیا۔
ڈائریکٹ ایکشن کمیٹی (مجلس عمل) کا اجلاس:
اس تجویز کے پاس ہو جانے کے بعد اسی ہاؤس میں صاحب صدر کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ جو آٹھ حضرات منتخب ہوئے ہیں۔ وہ آج رات ساڑھے آٹھ بجے دفتر مجلس احرار اسلام، بندر روڈ پر میٹنگ کریں اور بقایا سات ممبران کو بھی نامزد کریں اور وفد مرتب کر کے پاس شدہ تجویز کے مطابق وزیر اعظم سے وقت لے کر ملاقات بھی کر لیں۔ دوردراز سے آئے ہوئے لوگ گھروں کو واپس چلے گئے تو ان کا جمع کرنا مشکل ہو جائے گا۔ چنانچہ اس وقت فرداً فرداً سب کو وہیں اطلاع کی گئی۔
اس مرحلہ پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا سید عطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری نے اعلان کیا کہ مصروفیت کی وجہ سے اگر ہم مجلس عمل (مشتمل بر پندرہ اراکین) کے اجلاس میں شامل نہ ہو سکیں تو ہم اپنی جگہ اپنی جماعت کے جس رکن کو بھیجیں گے، وہ ہماری طرح ذمہ دار ہو گا۔ ہاؤس نے یہ بات مان لی۔ چنانچہ اسی فیصلہ کے مطابق آخری اجلاس میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کی جگہ ان کے نائب امیر جناب مولانا سلطان احمد صاحب شریک ہوئے تھے اور اجلاس کی کارروائی میں حصہ لے کر اپنی قیمتی رائے سے حاضرین کو مستفیض فرمایا تھا۔
اتفاقیہ دعوت:
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب کے معتقدین میں سے ایک سوداگر نے اسی رات شرکاء کنونشن کو ایک عشائیہ دیا۔ مجھے اس وقت اراکین مجلس عمل کے یہ چند نام یاد ہیں جو دعوت میں شریک ہوئے۔ مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی، مولانا محمد علی، شیخ حسام الدین، سید مظفر علی شاہ شمسی۔
ہو سکتا ہے کہ کوئی اور نام اس وقت میرے حافظہ سے اتر گیا ہو۔ دعوت سے فارغ ہو کر ہم میں سے کسی نے کہا کہ لو بھئی دفتر مجلس احرار اسلام کے قریب ہی دعوت ہوئی ہے۔ میٹنگ کے لیے زیادہ آسانی ہو گی۔ مولانا محمد علی صاحب کو کہا گیا کہ وہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کو ہمراہ لے کر دفتر میں آئیں۔ میں خود اٹھ کر مولانا محمد علی کے ہمراہ ہو لیا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ہم سے تھوڑے فاصلے پر تشریف فرما تھے۔ جب مولانا محمد علی نے ان سے کہا کہ سید صاحب میٹنگ میں تشریف لے چلئے تو سید صاحب فرمانے لگے ’’اس میٹنگ میں کیا کچھ ہونا ہے‘‘ (یہ سید صاحب کا تجاہلِ عارفانہ تھا)۔ مولانا محمد علی نے کہا جو کچھ پاس ہوا ہے وہ سب کچھ ہونا ہے۔ سات حضرات کی نامزدگی، وفد کی ترتیب ملاقات وغیرہ۔ سید صاحب فرمانے لگے ’’آپ یہ نامزدگیاں وغیرہ خود ہی کر لیجیے۔ یہ تو کوئی اہم کام نہیں ہے۔ میں اس میٹنگ میں ضرور چلتا۔ مگر مجھے تو مولوی صاحبان نے دستور کے سلسلہ میں ترمیمات مکمل کرنے کا کام سونپ دیا ہے۔ شاید رات بھر مجھے یہ کام کرنا پڑے۔ آپ اس میٹنگ کی کارروائی خود ہی کر لیجیے‘‘۔ مولانا محمد علی نے اصرار کیا کہ آپ تھوڑی دیر کے لیے ضرور تشریف لے چلیں۔ اب تو زیادہ کام نہیں ہے۔ تجویز کے مطابق پروگرام بنا دینا ہے۔ سید صاحب نے مجبوری کا اظہار کیا۔ آخر میں مولانا محمد علی صاحب نے سید صاحب سے دریافت فرمایا کہ آپ کسی نام کی سفارش تو کریں۔ دو چار نام ہی لکھوائیے۔ سید صاحب فرمانے لگے مولانا! یہ کام آپ خود ہی کر لیں۔ بس اتنا خیال رکھیے کہ مشہور مشہور بااثر لوگوں کو نام زد کیجیے گا۔ وہاں یہ کچھ فرمانے کے بعد اب مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کو کچھ نہیں یاد رہا۔ اب وہ سرے سے مکر رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ ہم جو کنونشن سے اٹھے تو اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب بے ضابطہ ہے، ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب نے یہ کب فرمایا؟
جب دودھ پینے والے مجنوں سے کٹورا بھر خون مانگا گیا
قبائے لا الٰہ خونیں قبائیست
کہ بر بالائے نامرداں دراز است
اس کے برعکس مجلس عمل کے ڈکٹیٹر اوّل اور آل مسلم پارٹیز کنونشن پاکستان کے صدر جناب مولانا سید ابوالحسنات محمد احمد صاحب قادری مدظلہٗ نے انکوائری کورٹ میں اعلان کیا کہ ’’ہم تحریکِ ختمِ نبوت کے ذمہ دار ہیں‘‘
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
مجلس عمل (راست اقدام کمیٹی):
۱۰؍ جنوری کو دفتر مجلس احرار اسلام میں تقریباً ۹ بجے شب اراکین نے باقی سات اراکین کو نامزد کر کے پندرہ اراکین کی فہرست مکمل کر لی اور ایک وفد مرتب کر کے اسے اختیار دیا گیا کہ کنوشن کا ریزولیوشن اور ۳۰ یوم کا میعادی الٹی میٹم وزیر اعظم کے سپرد کر دے۔ جن سات اراکین کی نامزدگی کے بعد پندرہ اراکین کی فہرست مکمل کی گئی۔ ان ناموں کو روزنامہ ’’تسنیم‘‘ میں ۲۲؍ جنوری کو آخری صفحہ پر چوکھٹے میں شائع کیا گیا۔ یہ ہے جماعت اسلامی کے آرگن روزنامہ ’’تسنیم‘‘ لاہور، مورخہ ۲۲ جنوری کا چوکھٹا:
مولانا ابوالحسنات، سید عطاء اﷲ شاہ بخاری، مولانا مودودی، مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا احتشام الحق تھانوی، علامہ کفایت حسین، مولانا اطہر علی (بنگال)، پیر ابو صالح محمد جعفر، مولانا اختر علی خاں (زمیندار)، پیر غلام مجدد سرہندی، صاحبزادہ فیض الحسن، مولانا محمد اسماعیل (گوجرانوالہ)، مولانا محمد یوسف کلکتوی، مولانا نور الحسن بخاری۔
جماعتِ اسلامی کی جانب سے مرکزی کارروائی کی تصدیق :
کراچی سے واپسی پر ۲۶؍ جنوری کو آل مسلم پارٹیز کنونشن کا ایک اہم اجلاس زیر صدارت مولانا ابوالحسنات محمد احمد صاحب قادری زمیندار مینشن لاہور میں ڈیڑھ بجے منعقد ہوا۔ جس میں مندرجہ ذیل حضرات نے شرکت فرمائی۔
مولانا سید محمد داؤد صاحب غزنوی، تاج الدین انصاری، مولانا غلام محمد صاحب ترنم، مولانا مرتضـیـٰ احمد خاں میکش، مولانا نصر اﷲ خاں عزیز، صاحب زادہ سید فیض الحسن صاحب، مولانا اختر علی خاں صاحب مالک زمیندار، حافظ خادم حسین، مولانا خلیل احمد، مولانا عطاء اﷲ حنیف، مولانا ارشد پناہوی، سید مظفر علی شمسی، مولانا محمد بخش صاحب مسلم۔ اس اجلاس میں جہاں جماعتِ اسلامی کے نفسِ ناطقہ جناب مولانا نصر اﷲ خاں صاحب عزیز (جن کی مساعیٔ جمیلہ، معاملہ فہمی اور ذاتی تعلقات کی وجہ سے جماعتِ اسلامی کو عوام سے روشناس ہونے کا موقع ملا جو ’’کوثر‘‘ و ’’تسنیم‘‘ اور ’’ایشیا‘‘ کے مدیر ہیں) موجود تھے۔ مجھے صدر محترم نے حکم دیا کہ میں کنونشن اور کونسل آف ایکشن کی کارروائی بیان کروں۔ بے کم و کاست جو کچھ ہوا تھا میں نے عرض کیا۔ اس اجلاس میں مجلس عمل پنجاب نے مندرجہ ذیل تجویز اتفاق رائے سے منظور کی۔ جسے دوسرے دن روزنامہ ’’زمیندار‘‘ اور پنجاب کے دوسرے اخبارات نے شائع کیا۔ صوبہ پنجاب کے بعض ذمہ دار کارکنوں کو بھی اس اجلاس میں شمولیت کی دعوت دی گئی۔
قرار داد:
آل مسلم پارٹیز کنونشن کی مجلس عمل کا یہ اجلاس مرکزی کنونشن کی پاس کردہ قرار داد کی پرزور تائید کرتا ہے اور مرکز کو یقین دلاتا ہے کہ مسلمانان پنجاب مرکز کی آواز پر جانی و مالی قربانی سے ہرگز دریغ نہ کریں گے۔ اسی کارروائی کے ہمراہ مرکزی کنونشن کی قرار دار اور جو وفد وزیر اعظم سے ملا، اس کے شرکاء کے نام بھی درج ہیں۔ یہ تمام کارروائی تقریباً سب اخبارات نے شائع کی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے
کہ مولانا نصر اﷲ خاں صاحب جماعت ِ اسلامی کے نمائندہ نے مرکزی کنونشن کی کارروائی پر نہ صرف مہر ثبت تصدیق کی بلکہ وہ ایک قرار داد کے ذریعے اعتماد کلی کے اعلان کے بعد ایثار و قربانی کا یقین دلانے میں بھی پیش پیش تھے۔ اس حقیقت کی موجودگی میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کو اس طرح صاف مکر جانے کی جرأت کس طرح ہوئی ہوئی؟
شاید انھیں یہ خیال گزرا ہو کہ احرار کے دفاتر میں تو پولیس نے جھاڑو پھیر ہی دیا ہے، اب جو دل چاہے اقرار کرو اور جہاں جی چاہے مکر جاؤ۔ کوئی ثبوت نہیں ہے۔ مگر میں تو روزنامہ ’’تسنیم‘‘ اور دوسرے اخبارات سے صحیح مواد فراہم کر رہا ہوں تاکہ حضرت مولانا سیدابو الاعلیٰ مودودی کی ’’راست گوئی‘‘ سب پر عیاں ہو جائے۔ مولانا موصوف اﷲ کے خوف اور اﷲ کے رسول کی شفاعت کے ذکر مبارک کے ساتھ ساتھ جب دوسروں کی نیت پر ناروا حملے کرتے ہیں تو انھیں یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ ان کے تقدس کے شیش محل پر اگر کسی مظلوم نے حق گوئی کا پتھر مار دیا تو ان کا شیش محل چکنا چور ہو جائے گا۔ بہرحال جہاں انھیں دوسروں کی نیت پر حملہ کرنے کا حق ہے۔ ہم ان سے اپنا کم از کم حق مانگتے ہیں کہ وہ ہمیں اصل حقیقت بیان کرنے کی اجازت تو دیں۔
حقیقتِ حال:
۱۸؍ جنوری تک جماعت اسلامی ختمِ نبوت کو نواں نقطہ بنا کر ہضم کر جانے کی ترکیبیں سوچتی رہی۔ مگر جب ملک کے نمائندوں نے جو پاکستان کے کونے کونے سے سرورِ دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت اور عقیدت سے سرشار ہو کر کراچی میں جمع ہوئے تھے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے نیک ارادوں کو ناکام بنا دیا تو جماعتِ اسلامی دو ذہنی میں مبتلا ہو گئی۔ تحریک کا شباب دیکھ کر جماعتِ اسلامی اس سے الگ ہونا، نہیں چاہتی تھی۔ وہ پانچویں سوار کی حیثیت سے پیچھے پیچھے چلنا چاہتی تھی۔ بدیں خیال کہ تحریک کامیاب ہو تو آگے بڑھ کر اعلان کر دیا جائے کہ دیکھا ہم نے پالا مار لیا اور اگر کسی صورت جماعت اسلامی اس مقدس تحریک کو سبوتاژ کر سکے تو پھر یہ اعلان کر دیا جائے کہ اس تحریک میں شامل ہونے والے بے وقوف تھے اور چلانے والے خود غرض اور غدار تھے۔ اس دو ذہنی نے جماعت اسلامی اور اس کے امیر کو دین اور دنیا دونوں میں کہیں کا نہ رکھا۔
جماعتِ اسلامی کیا کرتی رہی؟
۱۴؍ جنوری جو جماعت اسلامی نے موچی دروازہ لاہور میں جلسۂ عام کیا۔ اگر مولانا مودودی صاحب واقعی مجلس عمل آل مسلم پارٹیز کنونشن سے علیحدگی اختیار کرنا چاہتے تھے۔ تو ایمانداری سے ان کا یہ فرض تھا کہ وہ اس جلسہ عام میں مسلمانوں کو اپنے ارادہ سے خبردار کرتے اور انھیں بتاتے کہ بدنیت اور خود غرض لوگ مقدس تحریک کے نام پر ملک اور ملت سے غداری کرنے والے ہیں۔ لوگو خبردار ہو جاؤ…… مگر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب نے اپنی تقریر میں کیا فرمایا؟ مولانا موصوف نے مطالبات کو جائز قرار دیتے ہوئے حکومت کو متنبہ کیا کہ اگر ان مطالبات کو نہ مانا گیا تو ہندو مسلم فسادات کی یاد تازہ ہو جائے گی اور ذمہ داری گورنمنٹ پر ہو گی۔
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب نے اپنی تقریر میں بڑی ہوشیاری سے ہندو مسلم فساد کا ذکر اس انداز میں بیان کیاکہ ہو سکے تو وہ ہماری پُرامن کوششوں کو ناکام بنا دیں اور امن پسند قوم کا ذہن فسادات کی جانب منتقل کر دیں۔ کراچی کنونشن کے آخری اجلاس کا ذکر کرتے ہوئے مولانا موصوف نے اپنے بیان میں جو ارشاد فرمایا کہ ’’دوسرا خیال میرے ذہن میں یہ آیا کہ اگر میں اس وقت علیحدہ ہو جاؤں تو صرف اپنا ہی دامن اس فتنہ سے بچا لے جاؤں گا۔ اسلام اور مسلمانوں کو جس خطرہ میں یہ لوگ مبتلا کرنا چاہتے ہیں، اس کو روکنا اس طریقہ سے ممکن نہ ہو گا۔ اس بنا پر میں نے کنونشن سے علیحدگی کا ارادہ ترک کر دیا‘‘۔ مولانا موصوف کس دل گردہ کے بزرگ ہیں جو ختمِ نبوت کی مقدس تحریک کو فتنہ کا نام دے رہے ہیں۔ یہ گستاخانہ جرأت تو مرزائیوں ایسے منہ پھٹ گروہ کو بھی آج تک نہ ہوئی تھی ؟
ہر کس از دستِ دِگر نالہ کند
سعدی از دستِ خویشتن فریاد
بہرحال مولانا موصوف کے اس بیان میں کوئی جان نہیں۔ تحریک میں شامل رہنے کی جو وجہ آج بیان فرمائی جا رہی ہے یہ بھی افسانہ اور محض افسانہ ہے۔ یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ مولانا خود اس تاک میں تھے کہ موقع ملے تو قوم کو اکسا دیا جائے اور اپنا دامن حتی الوسع بچا لیا جائے۔
مولانا موصوف فرماتے ہیں کہ انھوں نے خطوط لکھ کر صدر مجلس عمل کو توجہ دلائی کہ ڈائریکٹ ایکشن کی جو تیاریاں ہو رہی ہیں۔ یہ بالآخر سخت نقصان دہ ثابت ہوں گی۔ گویا مولانا اندر خانہ تو نصیحت کرتے تھے مگر جب جلسہ عام میں تشریف لاتے تھے تو ہندو مسلم فسادات کی یاد تازہ کرنے کا بندوبست فر ما رہے تھے۔
جماعتِ اسلامی کیا چاہتی تھی؟
مارچ کے دوسرے ہفتہ میں پارلیمنٹ کا اجلاس کراچی میں ہو رہا تھا۔ جماعتِ اسلامی اس اجلاس پر نگاہیں جمائے بیٹھی تھی، جماعت اسلامی یہ چاہتی تھی کہ اس اجلاس پر ہلہ بول دیا جائے۔ گولی چلے یا خون خرابہ ہو۔ اسے اس بات کی پروا نہ تھی۔ چنانچہ جماعتِ اسلامی حیلوں بہانوں سے نوٹس کی تاریخ کو ۹؍ تاریخ تک بڑھانا چاہتی تھی۔ جماعتِ اسلامی کے نمائندے چونکہ مجلسِ عمل کو اپنے دلی خیالات سے آگاہ نہ کرنا چاہتے تھے اس لیے وہ ڈائریکٹ ایکشن کی تاریخ کو بڑھانے کے لیے دوسری بودی قسم کی دلیلیں پیش کرتے تھے۔
آخر یہ بھید کب کھلا؟
۲۶؍ فروری کو جس دن مجلسِ عمل کا آخری اجلاس کراچی میں بلوایا گیا۔ جماعتِ اسلامی کے نائب امیر جناب مولانا سلطان احمد صاحب اس اجلاس میں جماعت کی جانب سے تشریف لائے اور ذمہ دارانہ حیثیت سے اجلاس میں شرکت فرمائی۔ اس روز وہ اپنے دلی جذبات کو چھپا نہ سکے، وہ فرمانے لگے کہ ’’اگر آپ آج کی بجائے ۹؍ مارچ کو ایکشن کا علان کرتے تو ہم آپ کو اسمبلی ہال پر ہنگامہ کر کے دکھاتے، اب بھی اگر آپ حضرات ۹؍ تاریخ کے لیے اپنا پروگرام ملتوی کر دیں تو ہم ذمہ داری لیتے ہیں کہ کم از کم پچیس ہزار (۲۵۰۰۰) کا ہجوم اسمبلی ہال میں خود لے جائیں گے اور ایسا ہنگامہ کر دکھائیں گے جو تاریخ میں یاد رہے‘‘۔
ہم سب نے ان کے خیالات پر تعجب کا اظہار کیا اور مجھے یاد ہے کہ میں نے ان کی خدمت میں صفائی سے عرض کیا کہ ہم ہرگز ہنگامہ نہیں چاہتے۔ ہم تو تحریک کو پُر امن طریقے پر چلانا چاہتے ہیں۔ اور اب تاریخ کا بدلنا بھی میرے اور آپ کے اختیار سے باہر ہے۔ جب پروگرام بننے لگا اور طے ہوا کہ پانچ پانچ رضاکار غیر آباد راستوں سے وزیر اعظم اور گورنر جنرل کی کوٹھیوں پر جائیں تو جماعت اسلامی کے نمائندے مولانا سلطان احمد صاحب نے فرمایا کہ یہ طریقہ درست نہیں۔ میں یہ مشورہ دوں گا کہ رضاکار بارونق سڑکوں پر جانے چاہیئیں اور ان کا جلوس شہر کے آباد حصوں سے گزرنا چاہیے۔ ہم نے عرض کیا کہ اس طرح ہنگامہ اور بدامنی کا اندیشہ ہے۔ عوام کو کس طرح سنبھالا جائے گا اور اگر پولیس نے خود ہی اپنے آدمی جلوس میں داخل کرا کے فساد کر دیا تو تحریک کو دھچکا لگے گا۔ مولانا سلطان احمد صاحب تنہا شخص تھے جو اس وقت بھی ہنگامہ پسندی کا اظہار کرتے تھے۔ مگر کسی کو اپنا ہم خیال نہ بنا سکے۔ اور بالآخر انھیں مجلس عمل کے مجوزہ پروگرام کی تائید کرنا پڑی۔
آخر کار جماعت اسلامی کے اپنے ذمہ دار نمائندہ نے آخری اجلاس پر مہر تصدیق ثبت فرما کر گھر کی راہ لی اور اپنے چالیس ساتھیوں میں آرام سے جا بیٹھے۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ انھیں کوئی گرفتار کرنے نہ گیا۔ مگر ہم سب رات ہی کو دھر لے گئے۔ صبح کی اذان ہوئی تو اپنے صدر محترم مولانا ابو الحسنات کے ہمراہ کراچی جیل میں تھے۔
۱۸؍ جنوری سے لے کر ۲۶؍ فروری تک مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب تحریک کا بغور مطالعہ کرتے رہے۔ وہ یہ اندازہ لگاتے رہے کہ اگر حکومت مسلمانوں کے مطالبات آخری وقت بھی تسلیم کر لیتی ہے تو جماعتِ اسلامی تحریک میں موجود ہے۔ کراچی میں مولانا سلطان احمد نائب امیر جماعت اسلامی یعنی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے خلیفہ صاحب فوج ظفر موج کے کمانداروں میں بہ نفسِ نفیس موجود ہیں۔ خود مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب قادیانی مسئلہ لکھ کر تحریک میں شمولیت کا دستاویزی ثبوت لیے کھڑے ہیں۔ حتیٰ کہ مارشل لا کے نفاذ سے ایک روز پہلے گورنمنٹ ہاؤس میں بیچ کی دیوار پر کھڑے گورنمنٹ کو اس امید پر آنکھیں دکھا رہیں کہ شاید مسلمانوں کے متفقہ مطالبات دو ایک روز تک مانے جانے والے ہیں مگر ……
جب مارشل لا کا اعلان ہونے لگا:
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی دیوار کے اُس پار کود گئے اور فرمانے لگے کہ میرا اِس تحریک سے کیا واسطہ؟ یہ تو چند خود غرض، بے ایمان اور غداروں کی تحریک ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ دیوار سے کودتے وقت مولانا کا دامن کسی کیل میں پھنس کر چاک ہو گیا۔ جسے وہ دو سال تک جیل میں بیٹھ کر رفو کرتے رہے۔ آگے سے پھٹا ہوا دامن چیرہ دستیوں کی اب بھی غمازی کرتا ہے اور مولانا ہیں کہ اپنی صفائی میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں اور کہے چلے جا رہے ہیں کہ ’’میں پاکباز ہوں۔ میری جماعت صالحین کی جماعت ہے، باقی سب چور ہیں، غدار ہیں، خود غرض ہیں‘‘۔
اتنا نہ بڑھا پاکی ٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ
پہلے ہی کیوں نے بھانپ لیا؟
اپنے بیان کے آخر میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے بالکل بچوں کی سی بات کہہ ڈالی۔ فرماتے ہیں کہ ’’یہ لوگ میری پرانی تحریریں جو کنونشن سے پہلے کی ہیں۔ نکال نکال کر میری گمراہی و بے دینی کا یقین دلاتے پھر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص قادیانیوں سے بھی بدتر ہے۔ میں اس طرح کی فضول باتوں کا تو کیا جواب دوں۔ مگر پبلک کو ان سے صرف اتنی بات پوچھنی چاہیے کہ مودودی اگر ایسا ہی سخت گمراہ تھا تو ۵۳ء کی کنونشن اور مرکزی مجلسِ عمل میں آپ نے اس کی شرکت کیسے گوارا فرمائی تھی۔ وغیرہ‘‘۔
حضور والا! کنونشن میں شرکت کے بعد ہی مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ آپ جو اسلام اسلام پکار کر اسلامی دستور کا نعرہ لگا رہے ہیں، آپ کیا ہیں، آپ کی اصل خواہش کیا ہے؟ پبلک نے آپ کو تحریکِ ختمِ نبوت میں اچھی طرح جان پہچان لیا ہے۔ اب آپ یہ بھی دیکھ لیں گے کہ پبلک آپ سے کیا کچھ دریافت کرتی ہے۔ آپ تو بڑے آدمی ہیں۔ اپنی صفائی میں آپ نے کوئی معقول دلیل پیش نہیں فرمائی۔ کسی جیب تراش نے پکڑے جانے کے بعد کبھی یہ صفائی پیش نہیں کی کہ مستغیث نے مجھے قریب ہی کیوں آنے دیا تھا؟ آپ ایسے پڑھے لکھے ذمہ دار انسان سے اس قسم کی بے معنی باتوں کی کبھی توقع نہیں تھی۔ بہرحال، آپ دلدل میں پھنس گئے ہیں۔ جتنا زور لگائیے گا، اُسی قدر زیادہ دھنستے چلے جائیے گا۔ میں یہ سمجھا ہوں کہ آپ اپنی غلطی یا تحریکِ ختمِ نبوت سے غداری کا اقرار کرنے سے رہے۔ بحث کرنے کے لیے آپ کے پاس وہ سب سامان موجود ہے جس سے آپ کافی عرصہ بحث جاری رکھ سکتے ہیں۔ مگر ہمیں اس بحث سے مطلب؟
جہاں تک پبلک کی معلومات کا تعلق ہے۔ ہم نے پبلک سے یہی کہتے سنا ہے کہ آپ نے تحریکِ ختمِ نبوت سے غداری کی ہے۔ اُس وقت آپ اور آپ کی جماعت منافقت سے کام لے رہے تھے اور اب آپ صاف مکر رہے ہیں۔ واﷲ اعلم بالصواب۔
قریب ہے یارو روزِ محشر چھپے گا کُشتوں کا خون کیونکر
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر ، لہو پکارے گا آستیں کا