مفکر احرار چودھری افضل حق رحمتہ اﷲ علیہ
اسلام نظام سکھلاتا ہے، نظام سے اسلام کی فتح ہے۔ بکھرا شیرازہ ملک و قوم کی کمزوری کی دلیل ہے۔ تاریخ اسلام کے ابتدائی زمانہ پر ایک نظر سے صاف ظاہر ہوجائے گا کہ ترتیب و تنظیم ہر شعبۂ زندگی میں جاری و طاری تھی۔ اب تمام فتنے، تمام مصیبتیں اسی وجہ ہیں کہ اس وقت کہیں جماعت کا وجود باقی نہیں۔ ہماری جو کوشش ہے انفرادی ہے، اسی لیے کامیابی مسلمانوں سے دور رہتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ دنیا کی کسی قوم میں تنظیم کے اتنے اسباب اور اتنے مصالح موجود نہیں جتنا کہ مسلمانوں میں، مگر اس موجودگی کے باوجود ہماری بد بختی یہ ہے کہ کسی قوم میں اتنی بدنظمی بھی نہیں جتنی مسلمانوں میں ہے ۔ مساجد میں نمازیں جماعت کے ساتھ ہوتی ہیں۔ جمعہ میں اجتماع ہوتا ہے۔ عیدیں اکٹھی ادا ہوئی ہے۔ تاہم اجتماع کی حقیقی روح مفقود ہے۔ کیونکہ ہر مسجد کا امام آزاد ہے ۔ ضرورت زمانہ سے خود بے خبر ہے، اوروں کو باخبر کیا کرے گا؟ خوب ذہن نشین کر لیں کہ مسلمانوں کی اصلاح مساجد کی اصلاح میں ہے۔ مسجد ہماری محافظ اور منبر ہمارا پلیٹ فارم ہے۔ اسلام زندہ ہوسکتا ہے تو اسی جگہ سے، مسلمانوں کی تباہی ہوسکتی ہے تو مساجد میں غلط تعلیم سے۔ دنیا کی تمام اقوام مضطرب ہیں کہ کس طرح اجتماعی زندگی پیدا کی جائے۔ یہاں اجتماع موجود ہے مگر زندگی مفقود ہے۔ پانچ وقت مسجد میں جلسہ ہوتا ہے، اشتہار او رمنادی کی ضرورت نہیں، آواز اذان کافی ہے۔ لوگ جوق در جوق آتے ہیں، نماز ادا کر کے اسلامی ضروریات حاضرہ سے آگاہ ہوئے بغیر گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ خدمت اسلام کی جلن اور تڑپ پیدا کیونکر ہو، جب امام کا دل خود بجھا اور غافل ہو۔ اے کاش مسلمان نماز باجماعت کے غرض و غایت کو سمجھیں۔ حالت یہ ہے کہ مسجد و منبر اس کے سپرد ہوتا ہے جس کی تعلیم ناقص، تربیت خراب اور نظر کی وسعت مسجد کی چار دیواری سے باہر نہیں ہوتی۔ لکیر کا فقیر ہوتا ہے اور یہی تعلیم اوروں کو دیتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ تبلیغ کر کے غیروں کو اپنا بنائیں۔ تاکہ ان پر یہ راز کھل جائے کہ مسلمان کو کافر بنانا کتنا آسان اور کافر کو مسلمان بنانا کس قدر دشوار ہے۔