تحریر: عکرمہ نجمی، ترجمہ: صبیح ہمدانی
یہ گفتگو بطورِ خاص احمدیوں کے لیے ہے، خواہ وہ پیدائشی احمدی ہوں یا نو مبائع۔یہ بات سب کے لیے واضح ہے کہ حق سچ کی بات طاقت ور ہوتی ہے ،وہی پیروی کے لائق ہوتی ہے اور باطل کے دھوکوں کے سامنے اسے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ جیسا کہ طاقت ور مومن اﷲ کے ہاں کمزور مومن سے بہتر ہے، ایسے ہی اپنے آپ کو مومنین کی اکلوتی جماعت اور فرقہ ناجیہ قرار دینے والوں سے بھی یہی تقاضا ہے کہ وہ غور و فکر اور تحقیقِ حق سے نہ کترائیں اور اپنے معتقدات پر نظر ثانی کرنے کی جرأت پیدا کریں۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کس جماعت میں پیدا ہوئے ہیں، بلکہ جب آپ حق و باطل اور شعور و جہالت میں فرق کرنا شروع کرتے ہیں تو اصل شرط یہ ہے کہ جس بات کو آپ پیدائش سے سچائی سمجھتے ہیں اس کو صحیح طرح سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ پھر حق کو اپنا اسلوب و طرزِ زندگی بنائیں اور استقامت کے ساتھ اس پر گامزن ہو جائیں، اس طرح کہ آپ کے اعمال آپ کے دل میں موجود عقائد کی بالفعل تصدیق کرتے ہوں۔ لہذا آپ کا کسی خاص مذہبی جماعت کا بیعت فارم پر کر کے اس کا پیرو کار ہو جانا ہر گز یہ مطلب نہیں رکھتا کہ اب آپ کے لیے تحقیق کرنا ممنوع ہو چکا ہے، یا جوعقائد آپ اب رکھتے ہیں یا جن پر آپ کی پرورش ہوئی ہے ان کی تصدیق و تحقیق اور ان پر غور و تدبر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر تحقیق ہر جستجو آپ کے ایمان میں پہلے سے زیادہ پختگی اور وثوق پیدا کرے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ حق وضاحت و روشنی کا نام ہے جبکہ باطل میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ ہمیشہ برقرار رہ سکے۔ کیا ایسے کمزور اور نا پائیدار باطل کے سامنے قوی و طاقتور حق کے بارے میں کچھ خوف ہو سکتا ہے کیا ایسی ’’خدا تعالی کی محبوب‘‘ جماعت کے بارے میں کوئی ڈر ہو سکتا ہے جو کہ (اپنے دعووں کے مطابق) ’’خدا تعالیٰ کی طرف سے‘‘ ہے۔ اور جس جماعت کے ارکان دن رات کی ہر گھڑی ان دعووں کو دہراتے رہتے ہیں۔
کیا ’’خدا تعالیٰ کی قائم کردہ‘‘ سچی جماعت کے بارے میں یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ اس کے مخالفین بانی ٔ سلسلہ کی غلط بیانیوں اور افتراء کو ثابت کر سکیں آج تک کتنے ہی لوگوں نے اسلام پر لا تعداد حملے کیے اور ان گنت شبہات و افتراء ات پیش کیے مگر ان میں سے کتنے ثابت کیے جا سکے بلکہ رسول رحمت رسول کریم سیدنا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شخصیت پر ایک بھی دھبہ نہیں لگا یا جا سکا۔ پس خدا تعالیٰ کی طرف سے در حقیقت تائید یافتہ جماعت ……جیسا کہ جماعت احمدیہ کا دعویٰ ہے……ایسی ہونی چاہیے کہ اس پر اور اس کے بانی ٔ سلسلہ پر کوئی شبہہ و اعتراض ثابت نہ ہو سکے۔ خاص طور پر اس وجہ سے بھی کہ بانی ٔ سلسلہ نے دعوائے نبوت بھی کر رکھا تھا، اور حضرات انبیاء علیہم السلام کو ہمیشہ اﷲ تعالیٰ کی جانب سے یقینی حفاظت کی ضمانت حاصل ہوتی ہے۔
جب کوئی احمدی اپنے عقیدے کے بارے میں متذبذب ہو کر از سرِ نو غور کرنے لگتا ہے تو یہ اس کے لیے ایک دشوار ترین وقت ہوتا ہے۔ خاص طور پر اس صورت میں جب کہ ان عقائد کے بارے میں وہ سنجیدگی سے یقین رکھتا ہو ، ان کے مطابق زندگی گزارتا ہو، انھی پر اس کی پرورش ہوئی ہو بلکہ اب بھی ہو رہی ہو، وہ اس عقیدے کی لوگوں میں تبلیغ کرتا ہو اور اس کام میں اپنی صلاحیتوں کو کھپانا پسند کرتا ہو۔ ایسا شخص اعتراضات کا مطالعہ صرف اس وجہ سے کرنا شروع کرتا ہے تا کہ وہ اطمینانِ قلب حاصل کرے اور دوسرے لوگوں کی مدد کر کے ان کو بھی مطمئن کرے۔ مگر اس دوران اسے بہت بڑے بڑے مصائب سے دو چار ہونا پڑتا ہے، اور بالآخر اس کو ادراک ہوتا ہے کہ جماعت میں رہتے ہوئے کی ہر بات ایک بڑے اور لمبے دھوکے کا حصہ تھی۔
میں نے جماعتِ احمدیہ ترک کرنے کا اعلان کیا تو اس میں بھی یہ ذکر کیا کہ پروفیسر ہانی طاہر کی جانب سے بانی ٔ سلسلہ پر اٹھائے جانے والے اعتراضات و شبہات کا شافی جواب دینے کے لیے مجھ سے خلیفہ خامس نے بذات خود تحقیق کرنے کا تقاضا کیا، تو اس وقت سب سے پہلے مجھے بھی عربی زبان کے حوالے سے ہی شبہات در پیش ہوئے تھے۔ اس لیے کہ میں اپنے احمدیت کے زمانے میں بانی ٔ سلسلہ کی عربی تحریرات سے بے تحاشا متأثر تھا، خاص طور پر مجھے (مرزا صاحب کے لکھے ہوئے) ’’خطبہ الہامیہ‘‘ سے ذاتی شغف اور دلی تعلق تھا۔
چنانچہ عربی زبان کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کا جائزہ لینے کے لیے سب سے پہلے میں نے ’’خطبہ الہامیہ‘‘ کا ہی انتخاب کیا تھا۔ میرے لیے یہ ایک خوفناک حادثہ تھا جب میں نے اس ’’خطبہ الہامیہ‘‘ ……جس کے بارے میں فرض یہ کیا گیا ہے کہ وہ الہام اور خدا تعالیٰ کی جانب سے براہِ راست وحی پر مشتمل ہے…… میں نے اس خطبے میں نحوی و لغوی نوعیت کی متعدد غلطیاں دیکھیں۔ اس سے زیادہ پریشان کن اور ہولناک صورت حال یہ تھی کہ میرے سامنے سرقے اور ادبی چوریوں کی مثالیں آ رہی تھیں اس عبارت میں جس کو میں اب تک وحی الٰہی مانتا رہا تھا۔ معاذ اﷲ خدا تعالیٰ کی وحی اور اس میں سرقہ اور ادبی چوری
پس ایک طرف تو بحیثیت ایک احمدی بانی ٔ سلسلہ کے خیالات کو خدا تعالیٰ کی وحی قرار دینا اور دوسری طرف اس میں پائے جانے والے اشکالات، لغوی غلطیاں، ادبی سرقے، خدا تعالیٰ کی شان میں سوئے ادب اور اﷲ تعالیٰ کی طرف کمزوری اور لا یعنی کو منسوب کرنے کا عمل، یہ سب میرے نزدیک انتہائی نوعیت کے جرائم کے درجے کی چیز تھی۔
یہاں میں ’’خطبہ الہامیہ‘‘ سے ان باتوں کی چند مثالیں ذکر کرنا چاہوں گا:
لغوی کمزوریاں اور نحوی غلطیاں:
۱: وإنَّما طُبع فی مطبع ضیاء الإسلام
(صحیح: طُبِعت) چونکہ ہندستانی زبانوں، اردو پنجابی وغیرہ میں خطبہ مذکر ہے اس لیے مرزا صاحب نے سمجھا عربی میں بھی مذکر ہو گا۔ اس لیے خطبہ کے لیے مذکر کا صیغہ استعمال کیا۔ جبکہ عربی میں خطبہ مؤنث ہے اس لیے اس کے لیے مؤنث کا صیغہ لانا واجب تھا۔
۲: فمن العجب أنَّ علماء الإسلام اعترفوا بأن الیہود الموعودون فی آخر الزمان لیسوا یہودا فی الحقیقۃ۔
(صحیح: الموعودین) موصوف اور صفت میں اعراب کے اعتبار سے مطابقت ہوتی ہے۔ پیچھے أنَّ مشبَّہہ بالفعل موجود ہے اس کی وجہ سے موصوف پر نصب تھی اور صفت کو بھی منصوب ہونا چاہیے تھا۔ مگر مرزا صاحب ایک لفظ پہلے کی بات بھول گئے اور موصوف کے منصوب ہونے کے با وجود اس کی مرفوع صفت لے آئے۔
۳: وإذا غلب المسیح فاختتم عند ذلک محاربات کلہا التی کانت جاریۃ بین العساکر الرحمانیۃ والعساکر الشیطانیۃ۔
(صحیح: المحاربات) موصوف نکرہ ہے جبکہ صفت معرفہ لائی گئی ہے۔ حالانکہ موصوف اور صفت میں معرف ہونے کے اعتبار سے مطابقت لانا واجب ہے۔
۴: وکذلک یکون حربہم بالمواد الناریات۔
(صحیح: الناریۃ) جمع غیر ذوی العقول واحد مؤنث کے حکم میں ہوتی ہے۔ اس کی صفت بھی واحد مؤنث آتی ہے۔ یہ بات دینی مدارس کے پہلے سال میں پڑھنے والے چھوٹے بچے بھی جانتے ہیں۔
۵: فلا شک أنَّہ ما أوصی إلا لرجل کان لم یرہ۔
(صحیح: لم یکن رآہ) غلط اور غیر بلیغ تعبیر۔ عربی زبان کے ذوق کے نہ ہونے کی دلیل۔
۶: ففکِّر إن کنت ما مسَّک طائف من الجنَّۃ۔
(صحیح: إن لم یکن مسَّک) پچھلی غلطی کی طرح۔
۷: لأنَّ اﷲ قدَّر أنَّہ یجمع الفِرَق المتفرِّقٹ فی ہذا الیوم۔
(صحیح: أنْ یجمع) أن مصدریہ کی جگہ أنَّ مشبّہہ بالفعل کا بلا ضرورت استعمال۔ اس بات کی واضح دلیل کے اس خطبے کو لکھنے والا عربی زبان کی بالکل ابتدائی اور سطحی واقفیت رکھتا ہے۔
۸: وقد وعد اﷲ أنَّہ یمسک النفس التی قضی علیہ الموت۔
(صحیح: أنْ یمسک) پچھلی غلطی کی ایک اور مثال۔
۹: وإن ہم إلَّا کالصور لیس الروح فیہم۔
(صحیح: لا روح فیہم) لائے نفی جنس کی جگہ لیس فعل ناقص کا استعمال۔
۱۰: وأعطی لہ الکلام الفصیح۔
(صحیح: أعطاہ) أعطی بذات خود متعدی ہوتا ہے، اسے لام حرفِ جار کی ضرورت نہیں ہے۔
۱۱: ہذا ما أشیر إلیہ فی الفاتحۃ، ما کان حدیثٌ یفتریٰ۔
(صحیح: حدیثاً)کانَ وغیرہ افعال ناقصہ کی خبر ہمیشہ منصوب ہوتی ہے۔ یہاں مرزا صاحب کو کان کا اسم لفظوں میں نظر نہیں آیا تو خبر کو ہی اسم سمجھ کر مرفوع کر دیا۔ یہ غلطی انتہائی سنگین ہے۔ کیونکہ یہ در حقیقت قرآن مجید کی ایک آیت کا ٹکڑا ہے جسے مرزا صاحب نحوی اعتبار سے یکسر غلط لکھ گئے ہیں۔
۱۲: ومضیٰ من ہذہ المائۃ خمسہا إلا قلیلٌ من السنین۔
(صحیح: قلیلاً) مستثنیٰ کے اعراب کی پہلی صورت ہے، جہاں مستثنیٰ پر نصب لانا واجب ہوتا ہے۔ مگر مرزا صاحب اس کو مرفوع لکھ رہے ہیں۔ حالانکہ ہندستان میں علم نحو کی بنیادی اور ابتدائی ترین کتابوں میں یہ قاعدہ لکھا ہوا ہے۔
۱۳: فیکون ہذا المثل عبثاً وکذباً لیس مصداقُہ فردٌ من أفراد ہذہ الملَّۃ۔
(صحیح: فرداً) لیس کی خبر کو مرفوع کرنا نحوی اعتبار سے انتہائی کمزور ترین علمیت کی دلیل ہے۔
۱۴: ثُمَّ إنَّ بعدہم قومٌ یشہدون ولا یُستشہدون۔
(صحیح: قوماً) غالباً مرزا صاحب نے ’’بعد‘‘ کو إنَّ کا اسم سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ ہدایۃ النحو پڑھنے والے بھی جانتے ہیں کہ اسم ظرف کبھی مسند الیہ نہیں ہوسکتا، چنانچہ شروع میں آنے کے با وجود وہ إنَّ کی خبر ہوگا ، اور قوم إنَّ کا اسم ہونے کی وجہ سے منصوب لانا واجب ہے۔
۱۵: وإنَّ معی قادرٌ لا یبرحُ مکانی حفظَتُہ۔
(صحیح: قادراً) پچھلی غلطی کی ایک اور مثال۔
۱۶: وکان ہذا وعدٌ من اﷲ فی التوراۃ والإنجیل والقرآن۔
(صحیح: وعداً) کان کی خبر کو مرفوع لایا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس روز مرزا صاحب کے عربی کے استاد نے کان وغیرہ اور إنَّ وغیرہ کے اسم و خبر کا سبق پڑھایا اس روز مرزا صاحب کی طبیعت بالکل حاضر نہیں تھی ورنہ ایسی فاش اور بچگانہ غلطیاں کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
۱۷: بل ہو یجری تحت مجاری الأوامر الشریعۃ الفطریۃ وفتاوی القوۃ القدسیۃ ولا یمیل عن الاعتدال۔
(صحیح: أوامر) اضافت معنویہ میں مضاف پر الف لانا انتہائی بے ہودہ غلطی ہے۔
۱۸: ومن أنکر من أنَّ بعث النبی صلی اﷲ علیہ وسلم یتعلَّق بالأف السادس کتعلُّقہ بالألف الخامس۔
(صحیح: من کو حذف کر دیا جائے یہاں بالکل بے معنی ہے)
۱۹: وإذا قیل لہم: بادروا الخیر أیُّہا الناس!
(صحیح: بادروا إلی الخیر) یہ فعل بغیر حرف جر کے متعدی نہیں ہوتا۔
۲۰: وتقولون: لیس ذکر المسیح الموعود فی القرآن، وقد ملیٔ القرآن من ذکرہ، ولکن لا یراہ العمون۔
(صحیح: لم یذکر) غلط اور غیر فصیح تعبیر۔
۲۱: فقد أُمر لہ أن یتبع الشریعۃ الفطریۃ۔
(صحیح: لہ کو حذف ہونا چاہیے تھا)أمر بھی بغیر حرف جر متعدی ہوتا ہے۔
۲۲: وإنَّ القصص لا تجری النسخ علیہا کما أنتم تقرُّون۔
(صحیح: لا یجری) نسخ کو مؤنث سمجھا گیا ہے۔ حالانکہ یہ لفظ عربی میں تو مذکر ہے ہیـ، اردو پنجابی وغیرہ میں بھی مذکر بولا جاتا ہے۔
۲۳: کلامٌ أفصحت من لدن ربٍّ کریم۔
(صحیح: أفصح) کلام کا لفظ مذکر ہے۔ لیکن مرزا صاحب نے مؤنث سمجھا۔ غالباً اسے پنجابی کی ’’گل بات‘‘ سمجھا ہوگا۔
۲۴: ویکثر المحاربات علی الأرض۔
(صحیح: وتکثر) محاربۃ مؤنث ہے۔اور اس بات کو عربی زبان کی بنیادی شدھ بدھ رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ جن اسموں کے آخر میں گول تاء ہو وہ بالعموم مؤنث ہوتے ہیں، مگر مرزا صاحب اس کو مذکر لکھ رہے ہیں ۔
۲۵: وینادی الطبائع السلیمۃ للاہتداء۔
(صحیح: تنادی) مؤنث کو مذکر لکھنے کی ایک اور مثال۔
۲۶: فیجتمع فرق الشرق والغرب۔
(صحیح: فتجتمع) پچھلی غلطی کی ایک اور مثال۔
۲۷: لیدلَّ الصورۃ علی معناہا۔
(صحیح: لتدلَّ) ایک اور مثال جہاں مؤنث کو مذکر لکھا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے مرزا صاحب مریم اور ابن مریم بیک وقت بننے کے چکر میں جنس کے فرق کو بالکل ذہن سے نکال چکے تھے اسی لیے مذکر اور مؤنث میں فرق نہیں کر پارہے۔
۲۸: ولا تجری علی ألسنہم إلا قصصٌ نحتت آباؤہم۔
(صحیح: نَحَتَہا) فعل معروف ہمیشہ فاعل کے مطابق آتا ہے۔ نہ کہ مفعول کے مطابق۔ مرزا صاحب بھول گئے کہ وہ پنجابی نہیں عربی لکھ رہے ہیں۔ اور اس پر مستزاد دعوائے الہام بھی ساتھ ہے۔ اﷲ تعالیٰ کسی کے عقل خبط کر کے اس طرح سرِ بازار رسوا نہ کرے۔
۲۹: فہناک تجزی النفس بالنفس والعرض بالعرض وتشرق الأرض بنور ربِّہا وتہوی عدوُّ صفیِّ اﷲ۔
(صحیح: ویہوی) یہاں مذکر کو مؤنث بنا دیا گیا ہے۔
۳۰: وفی ہذہ الحالۃ یکون الإنسان مستہلکۃ الذات غیر تابع لأمر النفس۔
(صحیح: مستہلک) یہاں خود انسان کو ہی مؤنث بنا دیا گیا ہے۔
۳۱: ولیس لی مقامی عندہ بظاہر الأعمال ولا بأقوال۔
(صحیح: لی کی ضرورت نہیں ہے۔ بے مطلب ہے، اسی طرح ’’الأعمال‘‘ پر ’’الـ‘‘ نہیں ہونا چاہیے)
اس طرح کی بچگانہ اور سطحی غلطیوں کے بعد (مجھ سمیت) کسی احمدی کے لیے یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ اس خطبے کو اﷲ احکم الحاکمین کی پاک وحی کی طرف منسوب کرنے کی جرأت کر سکے؟ (غلطیوں کی تشریح، مترجم کی جانب سے ہے)