ڈاکٹر عمر فاروق
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے اپنے ایک اجلاس میں چیئرمین انسانی حقوق کمیشن کی کارکردگی پر شدید تنقید کرتے ہوئے جہاں اُن کے غیر ملکی دوروں اور مراعات کی تفصیلات آئندہ اجلاس میں طلب کرلی ہیں، وہیں کمیٹی کے اجلاس میں ملک میں کام کر نے والی نیشنل اور انٹرنیشنل این جی اوز کی کارکردگی پر بھی تبادلہ خیال کیا ہے. کمیٹی ممبران نے این جی اوز کی سخت مانیٹرنگ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کی ہر گلی میں این جی اوز کے دفاتر ہیں، این جی اوز کا 80 فیصد بجٹ انتظامی امور پر خرچ ہوتا ہے، پاکستان میں این جی اوز منہ زور گھوڑے کا روپ دھار چکی ہیں، مختلف علاقوں میں بلیک لسٹڈ این جی اوز بھی کام کر رہی ہیں. کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز کا ریکارڈ طلب کر لیا جبکہ چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق بابر نواز خان نے کہا کہ چیئرمین انسانی حقوق کمیشن کمیٹی کو اہمیت نہیں دیتے، کیوں نہ ان کے خلاف تحریک استحقاق لائی جائے۔
موجودہ دورمیں این جی اوزکی افادیت مسلّمہ ہے۔ ہر ملک میں غیرسرکاری تنظیمیں کام کرتی ہیں۔ جہاں حکومت براہ راست اپنی خدمات مہیا نہیں کرسکتی، وہاں یہ این جی اوز اَحسن انداز میں اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہوتی ہیں۔ اس کی بدولت حکومت اور عوام دونوں ان کی خدمات سے مستفید ہوتے ہیں۔ ضرورت بس اس امر کی ہے کہ ان غیرسرکاری تنظیموں پر حکومت کا چیک اینڈ بیلنس کا نظام مضبوطی کے ساتھ قائم رکھا جائے. قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا مذکورہ بالااحتجاج اس بات کی واضح نشاندہی کر رہاہے کہ پاکستان میں این جی اوز کی حکومتی سطح پر نگرانی نہ ہونے کے برابر ہے اور این جی اوز ملک بھر میں اپنی من مانیوں میں مصروف ہیں۔ یہ این جی اوز نہ صرف اسلام آباد کے گلی کوچوں میں بکثرت موجود ہیں، بلکہ پاکستان بھر میں خودرو جھاڑیوں کی طرح پھیلی ہوئی ہیں اور مؤثرنگرانی نہ ہونے کی وجہ سے اب آکاس بیل بن کر قو م و ملک کے وجود کو کھوکھلا کرتی جا رہی ہیں۔
ہم ایک اسلامی ملک کے باشندے ہیں اور اسلام خدمت خلق کی تلقین کرتا ہے، مگرنمائش اور دکھاوے سے بھی پرہیز کی ترغیب دیتا ہے تاکہ اگر کوئی کسی ضرورت مند کی مدد کرتا ہے تو وہ اتنی خاموشی کے ساتھ کرے کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو۔ دراصل اس طرح کے خاموش عمل سے محض اللہ کی رضا مقصود ہوتی ہے جس سے اجر و ثواب تو ملتا ہی ہے، مستحق کی عزت نفس بھی مجروح ہونے سے بچ جاتی ہے۔ اس کے برعکس این جی اوز تشہیری مہم چلاتی ہیں۔ اگر کہیں غریبوں کی تھوڑی سی مدد کردی تو باقاعدہ فوٹوسیشن کرکے ان کی غربت کا پردہ تار تار کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح معاشرے میں ان کی مفلوک الحالی کی رسوائی کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے۔ شاید یہ این جی اوز کے فرائض میں بھی شامل ہے کہ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے فلاحی کاموں کا ڈھنڈورا پیٹیں تاکہ ان کے سرپرستوں پر اُن کی کارکردگی ظاہر ہو سکے۔ پھر یہ تنظیمیں کسی نہ کسی ایسے کردار کی تلاش میں رہتی ہیں جس کے کاندھے پر وہ بندوق رکھ کر چلائیں اوردھڑا دھڑ بیرونی فنڈز اکٹھے کرسکیں۔ مختاراں مائی زیادتی کیس ماضی قریب کی نمایاں مثال ہے جس کو عالمی سطح پر اچھال کر ایک طرف مال و زر کے انبار سمیٹے گئے تو دوسری طرف پاکستان کا امیج پوری دنیا میں خراب کرنے کی شعوری کوشش کی گئی۔
این جی اوز پروپیگنڈے میں ماہر ہوتی ہیں اور ان کے پروپیگنڈے میں حقیقت دب کر رہ جاتی ہے اور یہی ان کا اصل مقصدبھی ہوتا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک این جی او EOPM یعنی یورپین آرگنائزیشن آف پاکستان مائناریٹیز نے پاکستان کو اقلیتوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک قرار دیا تھا، جہاں عیسائی، ہندو، قادیانی اور دوسری عورتوں کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔ اس گمراہ کن پروپیگنڈے کا مقصدایک تیر سے دو شکار کرنا تھے۔ یعنی پاکستان کی رسوائی اور اسلام کی بدنامی، چونکہ این جی اوز کے بیرونی عطیات دہندگان انہیں جس طرح کے ٹاسک دیتے ہیں۔ اسی کے تحت این جی اوز اپنے دائرہ عمل میں اُن اہداف کے تحت سرگرم ہوجاتی ہیں۔ کبھی پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی کی جھوٹی رپورٹیں جاری کی جاتی ہیں تو کبھی اقلیتوں پر ناروا پابندیوں کے جھوٹے قصے میڈیا کے ذریعے پھیلائے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غیرملکی عطیات دہندگان اپنی آلہ کار این جی اوز کے ذریعے ہماری دینی اقدار اور معاشرتی روایات پر بیرونی ثقافتی حملوں اور تہذیبی جارحیت کے درپے ہیں تاکہ پاکستان کی اسلامی شناخت اور اس کی نظریاتی بنیادوں کو منہدم کیا جا سکے۔
دیہات میں تعلیم کے نام پر مخلوط تعلیم کے ذریعے پردہ سسٹم کے خاتمے اور ہمارے محبت کی اکائی یعنی خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے بعض این جی اوز کا کردار خطرناک حد تک تشویش کا باعث بن رہا ہے۔ کئی این جی اوز پاکستان کے نصاب تعلیم میں تبدیلی کے مشن پر کام کر رہی ہیں۔ اس مقصد کے لیے اجلاسوں، سیمینارز اور ذرائع ابلاغ سے کام لیا جا رہا ہے۔ ہماری معیشت پر این جی اوز کی صورت میں استعماری فوج مسلط ہوچکی ہے۔ این جی اوز کا تصور چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کا پیداکردہ ہے اس لیے این جی اوز معاشرے میں باہم محبت وانس کے جذبات کے بجائے مفاد پرستانہ سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے کوشاں ہیں۔ انفرادی و شخصی آزادی اور ذاتی سوچ جیسے خوش نما نعرے دراصل پاکستانی معاشرے کے افراد کو تنہائی کا شکار کر دینے کے ہتھیار ہیں جن سے مغرب بری طرح متاثر ہو کر معاشرتی اقدار و روایات اور اخلاقی پابندیوں سے آزاد ہو چکا ہے جن کے نتائج عیاں ہیں۔ مادر پدر آزادی نے مغربی معاشرہ کو حیوانی زندگی سے دوچار کر دیا ہے اور اب بیرونی قوتیں این جی اوز کے ذریعے یہی تباہ کن حالات ہمارے ملک میں پیدا کرنے کی خواہاں ہیں۔
چونکہ پاکستان کی بنیاد اسلام پر اُستوار ہے۔ اس لیے یہاں بہ آسانی لبرل ازم اور سیکولرازم پروان نہیں چڑھ سکتا، مگر این جی اوز کے ذریعے پاکستان کی نظریاتی پہچان کو آزادی رائے کے عنوان سے ختم کرنے کی کوششیں کافی عرصہ سے جاری ہیں۔ کبھی مذہب کو اِنسان کا ذاتی مسئلہ قرار دینے کی بات کی جاتی ہے تو کبھی ریاست کو مذہب سے سروکار نہیں ہونا چاہیے، جیسے لاجک پیش کیے جاتے ہیں۔ کبھی انسانی حقوق کا شعور پیدا کرنے کے نام پر اسلامی احکام و قوانین کے خلاف پروپیگنڈا کر کے شہریوں کو مذہب سے برگشتہ کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ کبھی قانون توہین رسالت کے خاتمہ کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور کبھی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی آئینی ترمیم کو ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ دراصل یہی غیرملکی لابیوں کے وہ حقیقی اہداف ہیں جنہیں وہ اپنی این جی اوز کے ملازم لادین افراد سے بیانات دلا کر، میڈیا اور مخصوص لابیوں کو استعمال میں لا کر حاصل کرنے کی خواہش مند ہیں۔ ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے این جی اوز کو بھاری فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ عناصر اپنی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، لیکن انہیں تاحال اس لیے کامیابی حاصل نہیں ہو رہی کہ تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت جیسے انتہائی حساس اور نازک ایشوز پر ابھی تک پاکستان کے مسلمان کسی بھی کمپرومائز کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مسیحی مشنریز بھی کئی این جی اوز کے نام پر دین سے کم واقفیت رکھنے والوں مسلمانوں کو عیسائیت کے نرغے میں لانے کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جو پاکستان کے بنیادی نظریے اور آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ USAID نامی این جی او عیسائیت کے فروغ، سیکولرزم کے پھیلاؤ اور اساتذہ کے ریفریشر کورسز کی آڑ میں پاکستان مخالفانہ سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ متعدد این جی اوز قومی وحدت اور پاکستان کی سلامتی کے خلاف مصروف عمل ہیں اور بین الاقوامی لابیوں کی ایجنٹ بن کر علاقائی و لسانی تعصب پھیلانے کے ساتھ ساتھ جاسوسی جیسے مذموم فعل میں بھی مصروف ہیں۔ سندھ کے سرحدی علاقوں میں امریکہ، ناروے، جرمنی اور برطانیہ کی این جی اوز کام کر رہی ہیں جن کی سرگرمیوں کے حوالے سے دو برس پیشتر رینجرز کے حکام بھی گہری تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان این جی اوز کا کام ملک کی تعمیروترقی اور معاشرے کی اصلاح ہے تو اَربوں ڈالرز کی مالیت کی خطیر امدادی رقوم ہضم کرنے کے باوجود صحت، تعلیم، ماحول اور دیگر تمام فلاحی کاموں میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی کیوں نظر نہیں آرہی؟ اس سے واضح ہوتا ہے کہ غیرملکی امدادوں پر پلنے والی ایسی این جی اوز کا مقصد تعمیری یا فلاحی کام ہرگز نہیں ہیں بلکہ ان کی منفی سرگرمیاں معاشرہ میں خطرناک نتائج مرتب کر رہی ہیں۔ اب تو پاکستان ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی این جی اوز کے منفی کردار کے بارے میں آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں اور یہ بات یقین کی حدوں کو چھونے لگی ہے کہ ان غیرسرکاری تنظیموں کا مقصد تیسری دنیا کے پسماندہ ملکوں کی معیشت کو کنٹرول کرنا اور اسلامی ملکوں میں اسلام کے متعلق لوگوں کے اذہان و قلوب میں تشکیک اور تذبذب کے بیج بونا ہے۔
پاکستان میں نظریاتی اور مذہبی شخصیات کی نگرانی میں کئی این جی اوز قابل تحسین خدمات انجام دے رہی ہیں، ان کی کارکردگی کشمیرمیں آنے والے زلزلے کے بعد رفاہی کاموں کی صورت میں دنیا نے دیکھی ہے، مگر ہم نے ایسی محب وطن غیرسرکاری تنظیموں کو ناروا پابندیوں سے جکڑ رکھا ہے اور ملک کی اساس کے خلاف سرگرم عمل این جی اوز کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق حالیہ دنوں میں 50 غیرملکی این جی اوز کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے، مگر اُن کے نام نہیں بتائے گئے اور نہ یہ بتایاگیا ہے کہ یہ تنظمیں کن علاقوں میں کام کریں گی۔ حالات کی نزاکت کا تقاضا ہے کہ بین الاقوامی یا غیرملکی فنڈنگ سے کام کرنے والی این جی اوز کو قانون کے دائرے میں لایاجائے اور ان کی اقتصادی ڈویژن میں باقاعدہ رجسٹریشن کی جائے، جبکہ ملکی قانون کے مطابق اپنی آمدن کے ذرائع اور خرچ کے گوشوارے جمع نہ کرانے والی این جی اوز کو کالعدم قرار دیا جائے۔ حساس علاقوں میں متحرک این جی اوز کی کڑی نگرانی کی جائے تاکہ کسی غیرسرکاری تنظیم کو پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے خلاف کام کرنے کی جرأت نہ ہوسکے، کیونکہ پاکستان کا نظریاتی اور جغرافیائی وجود ہر لحاظ سے مقدم ہے اور پاکستان کی زمینی و نظریاتی وحدت کو دشمن کے ہتھکنڈوں سے بچانا ہمارا اَولین فرض ہے جس میں کسی قسم کی کوتاہی و غفلت کا ارتکاب نہ صرف وطن عزیزسے غداری اور بےوفائی بلکہ اسلام دشمنی بھی ہے۔