ڈاکٹر عمرفاروق احرار
ایران آج کل ایک طرف اپنے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے مزیدبین الاقوامی پابندیوں کی زدمیں ہے تو دُوسری طرف وہاں19؍مئی کو ہونے والے صدارتی انتخابات کی گہماگہمی بھی دیکھی جارہی ہے۔ ایران کے 31 صوبوں میں آئندہ صدارتی انتخابات کے انتظامات کو منظم کرنے کے لئے انتخابی ہیڈکوارٹرز قائم کر دئیے گئے ہیں۔ایرانی صوبوں میں صدارتی انتخابات سے متعلق مراکز کا قیام عمل میں لایاجاچکاہے۔ انتخابات والے دن ہی ایران میں شہری اور دیہی کونسلوں کے 5ویں دور اور مجلس کے 10ویں دور کے انتخابات بھی منعقدہ کیے جائیں گے۔ایران کے موجودہ صدرحسن روحانی 2013ء میں برسراِقتدارآئے تھے۔اُن کا دورِ صدارت اِس سال اختتام کو پہنچ رہا ہے۔نئے صدارتی انتخابات کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ایران کا نظامِ سیاست مذہب اورجمہوریت کی دوبنیادوں پر قائم ہے۔ ایران میں حکومت نظریہ ولایت فقیہ کے تحت چلائی جاتی ہے ۔ ایران کے آئین کے مطابق تمام دفاعی اداروں، اعلیٰ عدالتوں اور نشریاتی اداروں کے سربراہوں کاتقررمذہبی سپریم لیڈر ہی کرتا ہے ۔انقلابی گارڈز اور اہم قومی امور پر حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار بھی اِسی سپریم لیڈر کا ہوتا ہے ۔ اس نظام میں ایک رہبر اعلیٰ(ولی فقیہ )ہوتا ہے ۔جسے ایرانی نظام سیاست میں سب سے بلندمنصب سمجھا جاتاہے۔جبکہ تین قسم کی الگ قوتیں ہیں۔۱: قوہ مقننہ: (پارلیمنٹ اور شورائ نگہبان)۲: قوہ مجریہ:( صدر اور اُس کی کابینہ)۳: قوہ قضائیہ:( عدالتیں)۔ایرانی سیاسی نظام میں صدربراہ راست عوامی رائے دہندگی کے ذریعے منتخب ہوتاہے اورعوام ہی پارلیمنٹ کے ارکان کا انتخاب بھی کرتے ہیں۔پارلیمنٹ آزاد اَراکین پر مشتمل ہوتی ہے۔پارلیمنٹ کے 290 ؍ارکان چارسال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں جو ہرسال اپنے نئے سپیکرکا انتخاب کرتے ہیں۔ ایران بہت پیچیدہ سیاسی نظام رکھتاہے۔ انتخابی امیدواروں کی اہلیت کی پڑتال بیورو کریسی کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ اس کام کو مقامی، صوبائی اور قومی سطح پر تقسیم کیا جاتا ہے ۔ جبکہ میدواروں کے متعلق معلومات کا تبادلہ وزارتِ داخلہ اور شوریٰ نگہبان سے بھی ہوتا ہے ۔یوں امیدواروں کی اہلیت کا فیصلہ دراصل شوریٰ نگہبان ہی کرتی ہے ۔اراکین پارلیمنٹ290 جبکہ مجلس رہبر 88؍منتخب افراد پر مشتمل ہوتی ہے جوسپریم لیڈر یعنی رہبر اعلیٰ کا انتخاب کرتی ہے اوراُسے برطرف بھی کرسکتی ہے۔دراصل مجلس رہبرہی تمام حکومتی قوت واِختیارکی حقیقی مالک ہوتی ہے۔جس کے آگے صدر،پارلیمنٹ اورعدلیہ بھی بے بس ہوتی ہے۔آیت اللہ خامنہ ای ایران کے موجودہ رہبراعلیٰ ہیں۔
ایرانی سیاست کی تازہ صورت حال یہ ہے کہ حکومت ،اِنقلابی گارڈز اَوردوبڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان شدیداِختلافات کی خبریں عام ہیں۔اس کشیدگی کی وجہ سے رہبراعلیٰ علی خامنہ ای نے ایران کے دوبلاکوں میں تقسیم ہونے کاخدشہ بھی ظاہرکیاتھا۔اِسی خطرہ کے پیش نظرعلی خامنہ ای نے تیس سال میں پہلی مرتبہ اٹھارہ نکات پر مشتمل ایک ہدایت نامہ بعنوان ’’ایرانی انتخابات کے متعلق عام حکمت عملیاں‘‘اپنی ویب سائٹ پر جاری کیاہے۔جس کے مطابق انتظامیہ، عدلیہ، اور قانون سازاِداروں کوتنبیہ کی گئی ہے کہ وہ سیاسی و اِنتخابی عمل میں حصہ لینے سے گریزکریں۔سرکاری حلقے خامنہ ای کی طرف سے حکومت کو اِنتخابی امورمیں حصہ لینے سے روکنے کی پابندی کو کڑی تنقیدکا نشانہ بنارہے ہیں۔اُن حلقوں کا کہناہے کہ خامنہ ای کے اس اعلان نے حزب اختلاف کو حکومت کے خلاف مزیدمضبوط کردیاہے۔دوسری طرف خامنہ ای کے حکم نامے نے حکومت اورمذہبی برسراقتدارطبقہ میں جاری مناقشہ کو مزیدکمک بھی پہنچائی ہے۔
ایرانی اصلاح پسند موجودہ صدر حسن روحانی کو بہترین صدارتی امیدوارقراردیتے ہیں، جبکہ بنیاد پرست اور مذہبی حلقے کہہ رہے ہیں کہ وہ صدارتی انتخابات میں حسن روحانی کو کسی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔ملحوظ رہے کہ ایرانی دستوری کونسل میں بنیادپرست اکثریت رکھتے ہیں ۔جنہوں نے واشگاف کہہ دیاہے کہ وہ حسن روحانی کے انتخابی میدان میں اترنے کی صورت میں اُن کے خلاف دستوری کونسل میں عدم اعتمادکی تحریک لے آئیں گے۔خامنہ ای کے اس اعلان نے بھی سیاسی ماحول کو خاصاگرم کردیاہے کہ’’ سابق ایرانی صدراحمدی نژاداِنتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔‘‘اِس کے باوجوداَحمدی نژادپورے ملک کے دورے کررہے ہیں اورانہوں نے سیاسی سرگرمیوں کو مسلسل جاری رکھاہواہے۔ امریکی نیوز ویب پورٹل ’’مانیٹر‘‘کے مطابق ’’احمدی نژاد کے یہ دورے عام نوعیت کے نہیں،بلکہ انتخابی دورے ہیں۔ جہاں وہ لوگوں سے خطاب کرتے ہیں اور اُن کے سامنے اپنا انتخابی منشور پیش کرتے ہیں۔‘‘ ایران کے ایک مقامی فارسی نیوز ویب پورٹل ’’انتخاب‘‘کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سابق صدر احمدی نژادنے آئندہ سال ہونے والے صدارتی انتخابات میں دوبارہ امیدوار بننے کا مصمم ارادہ کرلیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق حال ہی میں احمدی نژادنے دعویٰ کیا کہ وہ دوبارہ الیکشن جیت کر بنیادی اشیاء پر سبسڈی 4 لاکھ 50 ہزار اِیرانی ریال سے بڑھا کر 25 لاکھ ریال یعنی 71 ڈالرز تک لے جائیں گے ۔
سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ اگرچہ موجودہ صدر حسن روحانی کا پلڑا بھی بھاری دکھائی دے رہا ہے ،مگر دوبارہ صدارت کے لیے رائے دہندگان پر اُن کی گرفت کمزورہوتی جارہی ہے ۔وہ اپنے عہد صدارت میں سیاسی کارکنوں، رہنماؤں، اصلاح پسندوں اور سبز انقلاب تحریک کے جیلوں میں بند کارکنوں کی رہائی کا وعدہ بھی پورا نہیں کرسکے ۔ اس لیے وہ عوام میں اپنااعتمادبرقراررکھنے میں ناکام رہے ہیں ۔روحانی کے ایرانی جوہری پروگرام پر عالمی قوتوں سے سمجھوتے کو عوامی رائے عامہ نے قبول نہیں کیا،جبکہ حسن روحانی کی پالیسیوں سے نالاں سبز اِنقلاب تحریک کے کارکن پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر علی مطہری کو صدارت کے منصب پر فائزدیکھنا چاہتے ہیں ۔
ایران کو اَفراطِ زرکی زیادتی،بے روزگاری،بداَمنی جیسے شدید اَندرونی مسائل کاسامناہے۔جبکہ ایرانی اقلیتیں بالخصوص اڑہائی کروڑآبادی پرمشتمل اہل سنت والجماعت ہمیشہ تمام حکومتوں کے امتیازی روّیوں کی شاکی رہی ہیں۔حالانکہ حسن روحانی نے صدر منتخب ہو کر اپنی کابینہ میں سُنی وزیر مقرر کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا،مگروہ یہ وعدہ پورانہ کرسکے۔ایران کے بیرونی مسائل شام،عراق،یمن وغیرہ میں دراندازی کی بدولت ہیں۔جن کی وجہ سے ایران کو شدید بیرونی دباؤ اوربین الاقوامی پابندیوں کا سامناکرنا پڑ رہاہے۔یہ تمام داخلی وخارجی مسائل صدارتی انتخابات پر کیا اثرات مرتب کریں گے۔آنے والے ایام میں ہی اُن کی تصویرمزیدواضح ہوسکے گی۔