عطا محمد جنجوعہ
سرورِ کائنات حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے قبل آپ کے والد گرامی عبداﷲ فوت ہو گئے۔ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر چھے سال ہوئی تو ماں کی ممتا کے سہارے سے محروم ہو گئے۔ یتیمی کے دور میں پرورش پانے والے محمد بن عبداﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی عمر پچیس سال ہوئی تو آپ کے چچا اور پھوپھیاں حیات تھے۔ ہاشمی ہوں یا بنو امیہ، ان میں سے کسی نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو رشتہ کی پیشکش نہ کی۔
سید الکونین صلی اﷲ علیہ وسلم کی امانت و دیانت اور صداقت کا چرچا وادی بطحا میں ہوا تو مکہ مکرمہ کی مال دار تاجرہ بی بی خدیجہ بنت خویلد کو جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اوصافِ حمیدہ کا علم ہوا تو انھوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے نکاح کی درخواست کی، تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سرپرستوں سے مشورہ کرنے کے بعد قبول کر لی۔ یہی وہ معزز خاتون ہیں جن کو اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل ہوئی اور مال و متاع دین کی خاطر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قدموں میں نچھاور کر دیا۔
اُمّ المؤمنین سیدتنا خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بطن سے چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہوئے۔ 10نبوی میں ابو طالب کی وفات کے چند دن بعد سیدتنا خدیجہ رضی اﷲ عنہا فوت ہو گئیں، اس وقت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر پچاس سال تھی۔ چچا اوربیوی کی جدائی کی بنا پر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مغموم ہوئے۔ عثمان بن مظعون رضی اﷲ عنہ کی بیوی خولہ بنت حکیم کے رابطہ سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا سودہ بنت زمعہ رضی اﷲ عنہا (بیوہ) اور عائشہ بنت ابو بکر (باکرہ)رضی اﷲ عنہما سے نکاح ہوا۔
سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:
أُرِیتُکِ فی المنَامِ ثَلاثَ لَیَالٍ جَاءَ نِی بِکَ الْمَلَکُ فِی خَرَقۃٍ من حَرِیْر فَیقُول ہٰذہ امْرأَتُکَ فَأَکْشفُ عَنْ وَجْہِکِ فَاِذا أَنْتِ ہِیَ فَأَقُوْلُ اِنَ یکُ ھٰذَا مِنَ اللّٰہِ یُمْضِہِ ۔
ترجمہ: تم مجھے خواب میں تین رات دکھائی گئیں، تمھیں ایک فرشتہ ریشم کے ٹکڑے میں اٹھائے ہوئے میرے پاس لایا اور کہا: یہ تمھاری بیوی ہے، میں نے تمھارا چہرہ کھولا تو وہ تم تھیں، میں نے کہا: اگر یہ اﷲ کی طرف سے ہے تو ضرور پورا ہو گا۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2431)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے ہوش سنبھالا تو گھر میں شرک و کفر سے پاک ماحول تھا۔ آپ فہم احکام و مسائل اور اجتہاد میں دیگر ازواج مطہرات کی نسبت ممتاز تھیں، آپ وہ خوش قسمت خاتون ہیں جن کی سات آسمانوں کے اوپر سے برأت کا اعلان ہوا۔
مخالفین اہل سنت سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا پر چند اعتراضات کرتے ہیں:
قرآن حکیم میں عورتوں کو حکم ہے کہ وہ اپنے گھروں میں مقیم رہیں جب کہ حضرت عائشہ نے جنگِ جمل میں شرکت کر کے اس کی خلاف ورزی کی۔…………سیدہ عائشہ نے لوگوں کو قتلِ عثمان پر ابھارا، آپ نے امیر المؤمنین حضرت علی سے بغاوت کی ……(ماخوذ: تجلیات صداقت، جلد دوم، ص: 551تا557)
ازالہ: انبیاء کرام علیہم السلام معصوم ہیں، صحابہ کرام و اہل بیت عظام رضی اﷲ عنھم معصوم نہیں البتہ محفوظ اور مرحوم و مغفور ہیں۔ اُن کا اجتہادی فیصلہ زمانہ مستقبل کے حالات کے مطابق سازگار بھی ثابت ہوا اور ناموافق بھی لیکن ان کے دل میں اﷲ تعالیٰ کی رضا اور خیر خواہی کا جذبہ کار فرما رہا۔
قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ ……الخ ۔(الاحزاب 33)
اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جہالت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو۔
زمانہ جہالت کی طرح بے حجاب زرق برق لباس پہن کر بازاروں میں نکلنے کی ممانعت ہے البتہ باپردہ ہو کر ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلنا جائز ہے، جس طرح حج و عمرہ کے لیے محرم کے ہمراہ سفرکرنا جائز ہے۔
شہادت سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کے بعد مدینہ منورہ کے حالات ابتدھے سیدہ عائشہ نے اجتہادی فیصلہ کیا کہ اہل بصرہ کو ساتھ ملاکر مدینہ منورہ کو شرپسندوں سے پاک کریں۔ اس بنا پر وہ اصلاح کی خاطر بصرہ روانہ ہوئی تھیں، انھوں نے اپنے بھانجے عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہما کے ہمراہ سفر کیا۔ جس طرح سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا اپنے محرم سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے ہمراہ گھر سے باہر نکلیں۔ مثلاً فریق مخالف کی کتابوں میں یہ روایت خود نقل ہوتی ہے کہ:
’’حضرت علی جناب فاطمہ کو ایک سواری پہ اپنے ہمراہ لے کر ایک شب مجالس انصار میں تشریف لے گئے۔ جناب فاطمہ ؓ نے ان سے آنجناب (حضرت علی) کی نصرت چاہی، انھوں نے جواب دیا، اے دختر رسول! ہم چونکہ ابوبکر کی بیعت کر چکے ہیں لہذا مجبور ہیں‘‘۔ (اثبات الامامت، ص: 274، از محمد حسین النجفی، مکتبہ سبطین سرگودھا)
شہادت سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ میں یہودی النسل عبداﷲ بن سبا سرغنہ تھا، جس نے صحابہ کرام سے منسوب من گھڑت خطوط اور بیانات جاری کر کے لوگوں کو شہادت عثمانؓ پر ابھارا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے منسوب افواہ، اس کا خبیث فعل ہے۔ ڈاکٹر علی محمد الصلابی نے سیدنا علی بن ابی طالب، ص: 614میں تحریر کیا ہے:
’’تاریخ و ادب کی کتابوں میں بھی عائشہ رضی اﷲ عنہا کی کردار کشی کرنے والی کئی ضعیف اور موضوع (جھوٹی) روایات وارد ہوئی ہیں، لیکن علمی تحقیق و تنقید کی کسوٹی پر وہ پوری نہیں اترتیں(دور المرأۃ السیاسی فی عہد النبی والخلفاء/ ص:352)، اسی طرح ’’العقد الفرید ‘‘ ، ’’کتاب الأغانی‘‘ ، ’’تاریخ الیعقوبی‘‘ ، ’’تاریخ المسعودی‘‘ اور ’’ أنساب الأشراف‘‘ وغیرہ کتابوں میں جو روایتیں اس سلسلہ میں وارد ہیں اور عثمان رضی اﷲ عنہ کی زندگی میں عائشہ رضی اﷲ عنہا کی جو سیاسی کردار دکھا رہی ہیں، وہ قطعاً قابل توجہ نہیں، اس لیے کہ وہ صحیح روایات کے خلاف اور بے بنیاد ہیں، ان میں اکثر روایات بلاسند ہیں اور جن کی سندیں ہیں وہ مجروح ہیں، ان سے استدلال نہیں کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں جب ان کے متون کا دیگر صحیح اور حقائق سے قریب ترین روایات سے موازنہ کیا جاتا ہے تو یہ متون غلط ثابت ہوتے ہیں۔ (ایضا، ص: 270‘‘)
سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کے فضائل کے بارے میں سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنھا سے متعدد احادیث وارد ہیں۔ چنانچہ فاطمہ بنت عبدالرحمن الیشکر یہ اپنی ماں سے روایت کرتی ہیں کہ جب ان کے چچا نے انھیں عائشہ رضی اﷲ عنھا کے پاس بھیجا تو ان سے کہلوایا کہ تمھارا ایک بیٹا تم پر سلام بھیجتا ہے اور عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کے بارے میں دریافت کر رہا ہے، کیونکہ لوگ ان کے بارے میں بہت کچھ چہ مگوئیاں کر رہے ہیں، آپ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا: ’’اﷲ کی لعنت ہو اس پر جو جو اُن (عثمانؓ) پر لعنت بھیجے، اﷲ کی قسم! اﷲ کے نبی کے پاس وہ بیٹھے ہوئے تھے اور اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میری طرف اپنی پیٹھ کی ٹیک لگائے تھے، جبریل آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس قرآن کی وحی لاتے اور آپ فرماتے: اے عثمان! لکھو، اگر وہ اﷲ اور اس کے رسول کے مخلص وفادار نہ ہوتے تو اﷲ تعالیٰ ان کو اتنا بلند رتبہ نہ دیتا۔ (المسند 260, 250/6۔تحقیق مواقف الصحابہ :378/1)
مسروق کا بیان ہے کہ جب عثمان رضی اﷲ عنہ کی شہادت ہو گئی تو عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا: تم نے شروع میں انھیں ایسے اکیلا اور الگ چھوڑ دیا، جیسے کہ میل کچیل صاف ستھرے کپڑے سے الگ ہوتا ہے، پھر تم ان کے پاس گئے اور بکرے کی طرح اسے ذبح کیا‘‘۔ مسروق نے جواب دیا: ’’یہ سب کچھ آپ نے کیا، آپ نے لوگوں کے نام خطوط لکھوائے اور حکم دیا کہ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہو‘‘۔ عائشہ رضی اﷲ عنہا فرمانے لگیں: ’’قسم ہے اس ذات کی جس پر مومن لوگ ایمان لائے اور جس کا کافروں نے انکار کیا، میں نے اب تک خط کے نام پر سفید کاغذ میں کوئی سیاہ نقطہ تک نہیں رکھا‘‘۔ (عائشہ رضی اﷲ عنہا تک اس کی سند صحیح ہے)
(فتنہ مقتل عثمان391/1۔ تاریخ خلیفہ، ص: 176، بحوالہ سیدنا علیؓ از ڈاکٹر علی محمد الصلابی )
سبائی گروہ کی موضوع روایات عثمان و عائشہ اور عثمان و دیگر صحابہ رضی اﷲ عنہم کے درمیان اختلاف و نفرت کی ایسی تاریخ پیش کرنا چاہتی ہیں، جن کا سرے سے کوئی وجود نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نفاق کے شر سے اُمت مسلمہ کو محفوظ رکھے۔ حضرت عائشہؓ اور طلحہ، زبیر کی بصرہ آمد کی غرض اصلاح کے سوا کچھ نہ تھی۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے حضرت قعقاع کو بصرہ میں حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اﷲ عنھم کی طرف ایلچی بنا کر بھیجا کہ وہ ان کو اتحاد کی دعوت دیں۔ حضرت قعقاع رضی اﷲ عنہ نے بصرہ میں جا کر اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا سے اپنے مشن کا آغاز کیا اور کہا اے میری ماں! آپ اس شہر میں کیوں آئی ہیں؟ آپ نے فرمایا: میرے بیٹے! لوگوں کے درمیان صلح کروانے ۔ طلحہ و زبیر رضی اﷲ عنہما نے کہا ہم بھی اسی لیے آئے ہیں۔
حضرت قعقاع رضی اﷲ عنہ نے کہا مجھے بتائیے، اس صلح کی صورت کیا ہو گی؟ ان دونوں نے کہا صلح قاتلینِ عثمان پر ہو گئی، اس وجہ کو ترک کرنا قرآن کو ترک کرنا ہو گا۔ قعقاع رضی اﷲ عنہ نے کہاتم نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے چھے صد بصری قاتلین کو قتل کیا ہے اور ان کے لیے چھے ہزار آدمی غصے میں آ گئے ہیں اور انھوں نے تم سے علیحدگی اختیار کر لی ہے…… حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے حضرت قعقاع رضی اﷲ عنہ سے پوچھا تمھاری رائے کیا ہے؟ انھوں نے کہا (قاتلین عثمان سے قصاص لینے کے لیے) سکون کی ضرورت ہے، جب وہ معاملہ پُرسکون ہو جائے گا تو وہ حرکت کریں گے، پس اگر تم بیعت کر لو تو یہ بھلائی اور رحمت کی خوش خبری اور بدلہ لینے کی علامت سے …… دونوں فریق صلح کے قریب ہو گئے‘‘۔
حضرت علی رضی اﷲ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور اتفاق و اتحاد کی سعادت کا ذکر خیر فرمایا اور آخر میں کہا’’میں کل کوچ کرنے والا ہوں پس تم بھی کوچ کرو اور ہمارے ساتھ کوئی ایسا شخص کوچ نہ کرے جس نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے قتل میں لوگوں کی کچھ بھی مدد کی ہو‘‘۔ (تاریخ ابن کثیر، جلد۷، ص: 313، 314۔ تاریخ طبری521/5)
سبائی گروہ جو قتل عثمان میں ملوث تھا، پوری رات مشورہ کرتے رہے اور کہا کہ ان سب لوگوں کی ہمارے بارے ایک ہی رائے ہے، اگر انھوں نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے صلح کر لی تو وہ صلح ہمارے خونوں پر ہو گی۔
ابن السودا یعنی عبداﷲ بن سبا نے کہا اے لوگو! تمھاری بہتری اس میں ہے کہ تم ان لوگوں کے ساتھ ملے جلے رہو اور ان کے ساتھ مل کر کام کرو اور جب کل دونوں فریق آپس میں ملیں تو جنگ چھیڑ دو اور انھیں سوچنے کا موقع نہ دو۔ (تاریخ الطبری، 527/5)
پھر وہ سب اس بات پر متفق ہو گئے، انھوں نے انتہائی راز داری سے جنگ کی آگ سلگائی، دونوں فریق ایک دوسرے سے بدظن ہو گئے اور لڑائی بھڑک اٹھی۔
تاریخی واقعات اس امر کے شاہد ہیں کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا کے دلوں میں اخلاص تھا یہی وجہ ہے کہ وہ باہمی گفت و شنید کے بعد صلح پر رضا مندہو گئے جب کہ سبائی گروہ کو اتحاد کی فضا ناگوار گزری، انھوں نے نہایت خفیہ انداز سے جنگ بھڑکائی۔ اس بنا پر حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے بارے کہنا کہ وہ قتال کے ارادہ سے نکلی تھیں، سراسر بے بنیاد بات ہے۔
جنگ جمل میں شریک صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اپنے اجتہادی فیصلے پر پوری طرح خوش نہ تھے بلکہ اس کو مجبوری کا فیصلہ سمجھ کر اختیار کرنے والے تھے۔ مثلاً:
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھانے جنگ جمل کے بعد فرمایا: ’’میں چاہتی تھی کہ میرا وجود لوگوں کے درمیان ایک رکاوٹ بن کر حائل ہو جائے، میں نہیں گمان کرتی تھی کہ لوگوں میں قتال ہو گا اگر مجھے اس کا علم ہوتا تو میں کبھی بھی قدم نہ اٹھاتی۔ (المغازی/الزھری ص:154۔ بحوالہ: حضرت علی بن ابی طالب از ڈاکٹر علی محمد الصلابی)
سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنھا جب اﷲ تعالیٰ کے فرمان (و قرنَ فی بُیُوتِکُنَّ، الاحزاب:33) کو پڑھتیں تو اس قدر روتیں کہ دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا۔ (سیر اعلام النبلاء177/2)
جب امیر المومنین سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے دیکھا کہ تلواریں لوگوں کو کاٹ رہی ہیں تو فرمایا کاش کہ میں آج سے 20سال پہلے مر گیا ہوتا۔ (الفتن، نعیم بن حماد 80/1)
سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا نے قتال نہیں کیا اور نہ ہی اس مقصد سے نکلی تھیں، آپ کا مقصد صرف اصلاح بین المسلمین تھا۔ جب آپ پر واضح ہو گیا کہ نہ جانا ہی بہتر تھا تو آپ نکلنے کو سوچتی تو آنسو بہاتیں۔ اسی طرح دیگر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم باہمی لڑائی کو سوچتے تو غم میں ڈوب جاتے۔ طلحہ، زبیر اور علی رضی اﷲ عنہم تینوں عظیم المرتبت بزرگوں سے اس جنگ کے نتائج پر افسردہ و نادم ہونے کی روایات منقول ہیں۔ جنگ جمل کے موقع پر ان لوگوں کا ارادہ لڑائی نہ تھا۔ وہ ایک حادثہ تھا جو اچانک رونما ہوا۔
الزام: عائشہ صاحبہ نے خچر پر سوار ہو کر امام حسن کے جنازہ کو روکا اور حجرہ میں دفن سے مانع ہوئیں۔ (تجلیات صداقت ، جلد دوم، ص: 557)
ازالہ: سید سلیمان ندویؒ نے تحریر کیا ہے کہ ’’یہ روایت تاریخ طبری کے ایک پرانے فارسی ترجمہ میں جو ہندوستان میں چھپ گیا ہے، نظر سے گزری ہے لیکن اصل متن مطبوعہ یورپ کی طرف رجوع کیا تو جلد ہفتم کا ایک ایک حرف پڑھنے کے بعد بھی یہ واقعہ نہ ملا۔ (سیرت عائشہ، ص: 143)
اس قسم کی دیگر روایات بھی جھوٹ پر مبنی ہیں، معتبر صحیح روایات میں ان کا نام و نشان تک نہیں پایا جاتا۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ کسی نے بھی نہیں روکا اور نہ انھیں دفن کے لیے لے جایا گیا۔
قابلِ غور پہلو: حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا کے گھر سے روضہ اطہر تک اتنا زیادہ فاصلہ نہ تھا کہ خچر پر سوار ہونا پڑتا۔
مخبر صادق محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
یَنْزِلُ عِیْسَیَ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَی الاَرْضِ فَیَتزَوَّجُ وَ یُوْلَدُ لَہُ وَ یَمْکُثُ فِی الاَرْضِ خَمْسَۃً وَ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ثُمَّ یَمُوْتُ فَیُدْفَنُ مَعِیْ فِیْ قَبْرِیْ ۔(مشکوٰۃ، ص: 480، جلد دوم، باب نزول عیسیٰ)
ترجمہ: عیسیٰ بن مریم زمین کی طرف نازل ہوں گے، نکاح کریں گے، اولاد ہو گی اور زمین میں 45سال رہیں گے، پھر فوت ہو کر میرے مقبرے میں دفن ہوں گے۔
حجرہ یعنی روضہ اطہر میں چار قبروں کی گنجائش تھی۔ چوتھی جگہ میں کسی صحابی ؓ کاد فن نہ ہونا اور خالی رہنے میں یہی حکمت خداوندی تھی، جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام دفن ہوں گے۔
سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا پر بے بنیاد الزام لگانا بغض و عناد ہے، حقیقت میں کوئی وجود نہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے: وَ اَزْوَاجُہُ اُمَّہٰتُہُمْ ۔۔۔(الاحزاب) اور پیغمبر کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں۔
اُمّ المومنین سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد اُمّ المومنین سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کا مرتبہ و مقام بلند ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی عبادت و ریاضت اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے عقیدت و محبت آپؓ کی زندگی کا مقصد رہا۔ سیدہ عائشہ طاہرہ رضی اﷲ عنہ کا بچپن سے جوانی تک کا زمانہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت میں بسر ہوا۔ یہ فیضانِ نبوت کی تربیت کی اثر پذیری ہے کہ ان کا اخلاق امت مسلمہ کی عورتوں کے لیے مشعل راہ بن گیا۔
مسجد نبوی کے چاروں طرف متعدد حجرے تھے، ان میں ایک حجرہ سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کا تھا۔ یہ حجرہ مسجد کی شرقی جانب واقع تھا۔ جس کی وسعت چھے سات ہاتھ سے زیادہ نہ تھی، مٹی کی دیواریں تھیں، کھجور کے پتوں اور ٹہنیوں سے ڈھکی ہوئی تھیں اوپر سے کمبل ڈال دیا گیا تھا کہ بارش کی زد سے محفوظ رہے۔ گھر کا اثاثہ ایک چارپائی، چٹائی، بستر، تکیہ اور تین چار ضرورت کے برتن تھے۔ چالیس راتیں گزر جاتیں گھر میں چراغ نہ جلتا تھا۔ کبھی تین دن متصل ایسے نہیں گزرے کہ خاندان نبوت نے سیر ہو کر کھانا کھایا ہو۔ لیکن سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا نے کبھی شکایات کا کوئی حرف زبان پر نہیں لایا۔
آپ رضی اﷲ عنہا عبادت الٰہی میں اکثر مصروف رہتیں، چاشت کی نماز باقاعدگی سے پڑھا کرتی تھیں اور رات کو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ اٹھ کر تہجد ادا کرتیں۔ رمضان میں تراویح کا خصوصی اہتمام کرتیں۔ آپ رضی اﷲ عنہا اکثر روزے رکھا کرتیں اور حج کی شدت سے پابند تھیں۔
سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے بے حد محبت تھی، کبھی رات کو سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا بیدار ہوتیں اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو پہلو میں نہ پاتیں تو بے قرار ہو جاتیں۔ ایک شب کا واقعہ ہے کہ آنکھ کھلی تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو نہ پایا۔ شب کا نصف حصہ گزر چکا تھا، اِدھر اُدھر ڈھونڈھا لیکن محبوب کا جلوہ نظر نہ آیا، تلاش کرتی ہوئی قبرستان پہنچیں، دیکھا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم دعا و استغفار میں مشغول ہیں۔ الٹے پاؤں واپس آئیں اور صبح کو آپ کے سامنے یہ واقعہ بیان کیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں رات کوئی چیز سامنے جاتی معلوم ہوئی تھی، وہ تم ہی تھیں۔ (نسائی، باب الاستغفار)
چونکہ ازواج مطہرات میں بعض امراء اور رئیس گھرانوں کی خواتین تھیں، وہ اس طرح فقیرانہ زندگی بسر کرنے کی عادی نہ تھیں، اس پر تخییر کی آیت نازل ہوئی کہ جو چاہے اس شرف کو قبول کرے اور فقر کے ساتھے رہے، اور جو چاہے خانہ نبوت سے الگ ہو جائے۔
سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں مشورہ کروں بلکہ میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور آخرت کی زندگی کو پسند کرتی ہوں پھر آپ کی دیگر بیویوں نے بھی میری طرح ہی کیا۔ (صحیح بخاری/تفسیر حدیث 4789)
سیدہ عائشہ طاہر رضی اﷲ عنہا کو عزت نفس کی نسبت عزت رسول عزیز تر تھی۔ حضرت حسان رضی اﷲ عنہ جن سے افک کے واقعہ میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو سخت صدمہ پہنچا تھا۔ بعض عزیزوں نے افک کے واقعہ میں ان کی شرکت کے سبب حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے سامنے حسانؓ کو برا کہنا چاہا تو انھوں نے سختی سے روکا کہ اُن کو برا نہ کہو کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے مشرک شاعروں کو جواب دیا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری، کتاب المناقب، ص: 3531)
سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم جہانِ فانی سے کوچ فرما گئے لیکن سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہ کی اُن سے عقیدت و محبت بدستور برقرار رہی۔ آپ افک کے صدمہ کو فراموش کر کے حضرت حسان رضی اﷲ عنہ کی عزت اس لیے کرتی تھیں کہ وہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے مشرکوں کو جواب دیتے تھے۔
اﷲ تعالیٰ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا کے بعد ازواج مطہرات میں سے سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا سب سے محبوب تھیں۔
عمرو بن عاص رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں ذات سلاسل والے لشکر کا امیر بنا کر بھیجا، واپسی پر میں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا: لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب آپ کے نزدیک کون ہے؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ، میں نے کہا مردوں میں سے؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اُن کے والد۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4358)
امام ذہبی رحمہ اﷲ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پاکیزہ ذات ہی کو پسند فرماتے تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیْلًا مِنْ ہٰذِہِ الأُمَّۃِ لَاتَّخَذْتُ أَبَابَکْرٍ خَلِیْلًا وَ لٰکِنْ أُخُوَّۃَ الاسْلَامِ أَفْضَلُ ۔
ترجمہ: اگر میں اس اُمت میں کسی کو اپنا دوست بناتا تو ابوبکر کو بناتا، لیکن اسلامی اخوت ہی افضل ہے۔
گویا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کے افضل ترین مرد اور افضل ترین عورت کو پسند کیا، لہٰذا جو شخص رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ان دونوں محبوبِ نظر سے بغض رکھے، وہ اﷲ اور اس کے رسول کا دشمن کہے جانے کا مستحق ہے اور عائشہ رضی اﷲ عنہا سے آپ کی محبت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ (سیر اعلام النبلاء ، 143/2)
اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبوب بیوی کو خصوصی اعزاز سے سرفراز فرمایا۔ سیدہ عائشہ رض اﷲ عنہا کے لحاف میں وحی کا نزول ہوا۔ امام بخاری رحمہ اﷲ نے اپنی سند سے ہشام بن عروہ سے، انھوں نے اپنے والد (عروہ) سے راویت کیا کہ لوگ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو تحفے بھیجنے میں عائشہ رضی اﷲ عنہا کی باری کا انتظار کیا کرتے تھے، عائشہ رضی اﷲ عنہا کہتی ہیں کہ میری سوکنیں اُمِ سَلَمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس گئیں اور ان سے کہا: اﷲ کی قسم! لوگ جان بوجھ کر اپنے تحفے اس دن بھیجتے ہیں جس دن عائشہ کی باری ہوتی ہے، ہم بھی عائشہ کی طرح اپنے لیے فائدہ چاہتی ہیں، اس لیے تم رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے کہو کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم لوگوں سے فرما دیں کہ میں جس بھی بیوی کے پاس ہوں، جس کی بھی باری ہو، اسی گھر میں تحفے بھیج دیا کرو، اُمّ سَلَمہ نے یہ بات رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے بیان کی، آپ نے کچھ بھی جواب نہیں دیا، انھوں نے دوبارہ عرض کیا جب بھی جواب نہ دیا، پھر تیسری بار عرض کیا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
یَا اُمّ سَلَمَۃَ لَا تُوْذِ یْنِیْ فِیْ عَائِشَۃَ فَاِنَّہُ وَاللّٰہِ مَا نَزَلَ عَلَیَّ الْوَحْیُ وَ اَنَا فِی لِحَافِ امرأَۃٍ مِنْکُنَّ غَیْرَہَا
(صحیح بخاری، حدیث نمبر 3775)
ترجمہ: ’’اے اُمّ سلمہ! عائشہ کے بارے میں مجھ کو نہ ستاؤ، اﷲ کی قسم!تم میں سے کسی بیوی کے لحاف میں (جو میں اوڑھتا ہوں سوتے وقت) مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی، ہاں، (عائشہ کا مقام یہ ہے) کہ ان کے لحاف میں وحی نازل ہوتی ہے۔ ‘‘
علامہ ذہبی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں: ’’نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ جواب اس بات کی دلیل ہے کہ حکم الٰہی کے مطابق عائشہ رضی اﷲ عنہا سے شدید محبت کی وجہ انھیں دیگر ازواج مطہرات پر فضیلت ملی اور اﷲ کی طرف سے یہ اشارہ ان کی محبت میں اضافہ کا سبب بنا۔ (سیر اعلام النبلاء، 143/2)
جبریل علیہ السلام، عائشہ رضی اﷲ عنہا کو سلام بھیجتے ہیں:
سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: یا عَائِشَۃُ ہٰذا جِبْرِیْلُ یَقْرَاءُ عَلَیْکِ السَّلَامَ ’’اے عائشہ! یہ جبریل تمھیں سلام کہتے ہیں‘‘۔ میں نے جواب دیا:’’ وَ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہُ ‘‘ لیکن آپ( صلی اﷲ علیہ وسلم) جو کچھ دیکھتے ہیں، میں نہیں دیکھتی۔
(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 3768)
سیدہ عائشہ طاہرہ رضی اﷲ عنہا کے سبب چند قرآنی آیات کا نزول:
سب سے مشہور تو وہ آیاتِ کریمہ ہیں جن میں معاملہ افک سے متعلق اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آپ رضی اﷲ عنہا کی براء ت کی گواہی دی گئی ہے،آپ کی صداقت اور عفت و پاکیزگی کی ترجمان یہ آیتیں سورت نور میں آیت نمبر 11سے آیت نمبر 26تک ہیں۔ آغاز یہاں سے ہوتا ہے۔
اِِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُ وا بِالْاِِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنْکُمْ لاَ تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ ہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ مَا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہُ مِنْہُمْ لَہٗ عَذَاب ٌعَظِیْم ۔(النور:11)
ترجمہ: ’’بے شک وہ لوگ جو بہتان لے کر آئے ہیں، وہ تم ہی سے ایک گروہ ہیں، اسے اپنے لیے برا مت سمجھو، بلکہ یہ تمھارے لیے بہتر ہے۔ ان میں سے ہر آدمی کے لیے گناہ میں سے وہ ہے جو اس نے گناہ کمایا اور ان میں سے جو اس کے بڑے حصے کا ذمہ دار بنا، اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہے‘‘۔
اور انتہا یہاں ہوتی ہے: اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَالْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِ وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ اُوْلٰٓئِکَ مُبَرَّءُ وْنَ مِمَّا یَقُوْلُوْنَ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیمٌ۔(النور: 26)
ترجمہ: ’’گندی عورتیں گندے مردوں کے لیے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لیے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں۔ یہ لوگ اس سے بری کیے ہوئے ہیں جو وہ کہتے ہیں، ان کے لیے بڑی بخشش اور باعزت روزی ہے‘‘۔
امام ابن القیم رحمہ اﷲ فرماتے ہیں: ’’یہ محض آپ رضی اﷲ عنہا کی خصوصیت ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اہلِ افک کے تہمتوں سے آپ کو بری ثابت کیا اور آپ کی براء ت و صفائی میں ایسی وحی نازل فرمائی جسے قیامت تک مسلمانوں کی نمازوں میں اور ان کے منبر و محراب پر پڑھی جاتی رہے گی، ان کے حق میں گواہی دی کہ آپ ’’طیبات‘‘ پاک عورتوں میں سے ہیں اور ان کی مغفرت اور رزق کریم کا وعدہ کیا۔ ان آیات میں اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مطلع کیا کہ آپ رضی اﷲ عنہا کے بارے میں جو کچھ بہتان تراشیاں کی گئیں، ان سے آپ کا دامن داغ دار نہیں ہوا اور نہ آپ کی شان کم ہوئی، بلکہ ان کے حق میں بہتر ثابت ہوئیں،اس واقعہ کے سبب اﷲ نے آپ کی عظمت کو چار چاند لگا دیے اور آپ کے فضل و منقبت کو نکھار دیا۔ دونوں جہان والوں کے درمیان آپ کی شخصیت پاکیزگی کی یادگار بن گئی‘‘۔
تیمّم کی سہولت اور سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا:
وہ آیت جس سے آپ رضی اﷲ عنہا کے ذریعے اُمت محمدیہ کو عظیم سہولت میسر آئی، وہ آیت تیمم ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے اسماء رضی اﷲ عنہا سے ہار عاریتاً لیا۔ اتفاق کی بات کہ وہ گم ہو گیا۔ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی تلاش میں اپنے چند صحابہؓ کو بھیجا، اسی دوران نماز کا وقت ہو گیا اور انھوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھی۔ جب وہ لوگ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لوٹ کر آئے تو اس واقعہ کی آپ کو اطلاع کی، تب آیت تیمم ناز ل ہوئی۔
اسید بن حفیر کہنے لگے (جزاکِ اللّٰہ خیْرا)اﷲ آپ کو جزائے خیر دے، اﷲ کی قسم آپ کے ساتھ جو بھی ناپسندیدہ معاملہ پیش آیا۔ اﷲ نے اس میں آپ کے لیے اور اُمت کے لیے خیر پید کر دی۔ (صحیح بخاری، حدیث :326)
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے زندگی کے آخری ایام میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے حجرہ میں قیام فرمایا۔ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کی باری کے دن اور اُن کی ٹھوڑی اور سینہ کے درمیان ٹیک لگائے ہوئے ہوئی۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کی دنیوی زندگی کی آخری گھڑی اور اخروی زندگی کی پہلی گھڑی میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اور سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کے لعاب دہن کو اکٹھا کر دیا اور سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کے گھر میں تدفین ہوئی۔ (سیراعلام النبلاء، 189/2)
سیدہ عائشہ طاہرہ رضی اﷲ عنہا وہ مومنہ ہیں، خواب میں فرشتہ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے جن کی صورت پیش کی۔ جن کے سوا کوئی اور کنواری بیوی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں نہ تھی۔ جن کے بستر پر ہوتے تب بھی وحی آتی تھی۔ سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کو محبوب ترین بیوی تھیں۔ جن کی شان میں قرآن کی آیات اتریں، جن کی گود میں سر رکھ کر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے وفات پائی۔ سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا یقینا مومنوں کی ماں ہیں لیکن ایمان کی نعمت سے محروم صاحبان کی ہرگز ماں نہیں۔ اﷲ تعالیٰ اُن کی برائت کی قرآنی آیات اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمودات پر غور کرنے کی توفیق دے۔ آمین
ماخذ و مراجع
1۔ قرآن حکیم واحادیث نبویہ 2۔ سیرت عائشہ از علامہ سید سلیمان ندویؒ
3۔ سیدنا علی بن ابی طالب از ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی 4۔ تجلیات صداقت، جلد دوم از محمد حسین النجفی
5۔ اثبات الامامت از محمد حسین النجفی 6۔ تاریخ ابن کثیر از حافظ عماد الدین ابن کثیرؒ